حق دو تحریک کے چیئرمین مولانا ہدایت الرحمٰن نے خبردار کیا ہے کہ اگر گوادر کے مسائل کا حل نہ نکالا گیا تو وہ مسلح جدوجہد شروع کرنے میں ہچکچائیں گے نہیں
اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ بات کسی جلسے کے دوران تقریر کرتے ہوئے نہیں کی، کہ محض جوش خطابت کو اس کی وجہ سے نہیں کی، بلکہ انہوں نے ان خیالات کا اظہار پریس کانفرنس کے دوران کیا
انہوں نے کہا ”آج بھی ٹرالر مافیا مقامی ماہی گیروں کو روزگار سے محروم کرنے کے لئے تواتر کے ساتھ کارروائیاں جاری ہے۔ تو ہم وی آئی پیز کا راستہ روکنے پر مجبور ہوں گے ۔ ہمارا پر امن احتجاج اور دھرنا چوروں، لٹیروں کے ساتھ جاری رہے گا۔ اگر اس کے سدباب کو یقینی نہ بنایا گیا تو ہم مسلح مزاحمت کرنے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ جس سے حالات کی تمام تر ذمہ داری متعلقہ حکام پر عائد ہوگی“
کوئٹہ میں پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ جن مطالبات کی وجہ سے انہوں نے گوادر میں طویل دھرنے دیے، اب تک وہ مسائل حل نہیں ہو سکے۔ حق دو تحریک گوادر کی جانب سے 62 اور 35 دنوں پر مشتمل 9 دھرنے دیئے گئے۔
انہوں نے کہا کہ سابق وزیر اعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے تحریری مطالبات منظور کئے اور مذکورہ معاہدے پر ان کے دستخط بھی موجود ہیں۔ غیر قانونی ٹرالرز کے ذریعے شکار پر پابندی، چیک پوسٹیں ختم کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ ہم نے صرف غیر ضروری چیک پوسٹیں ختم کرانے کا مطالبہ کیا گیا تھا جس پر تا حال کوئی عمل درآمد نہیں ہوا جس کی وجہ سے علاقے کے لوگوں اور ماہی گیروں میں شدید تشویش پائی جاتی ہے“
مولانا ہدایت الرحمان نے کہا ”پی ڈی ایم کی حکومت میں ایک قوم پرست جماعت کی ایماء پر ہمیں گرفتار کیا گیا، لیکن بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں نے گوادر کے ماہی گیروں اور لوگوں کو درپیش مشکلات سے چھٹکارا دلانے کے لئے کوئی اقدام نہیں کیا اور نہ ہی کوئی احتجاج کیا اور نہ دھرنا دیا، جس کا ثبوت سب کے سامنے ہے۔ ہم آج تک اپنے مطالبات کے لئے پر امن آمینی اور جمہوری جدوجہد کر رہے ہیں ۔ اور مطالبات کے حصول تک جاری رکھیں گے، کیونکہ یہ ہمارے لوگوں اور نسل کی زندگیوں کی بقاء کا مسئلہ ہے۔“
انہوں نے مزید کہا کہ ’ٹرالر مافیا‘ صوبے کے ساحلوں میں کام کر رہا ہے، جس کی وجہ سے مقامی مچھیروں کے روزگار کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے
مولانا ہدایت الرحمٰن، جو جماعت اسلامی بلوچستان کے جنرل سیکریٹری بھی ہیں، نے اس بات پر زور دیا کہ فشریز اور دیگر اہم اتھارٹیز کی موجودگی کے باوجود یہ صورتحال جاری ہے
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ان کی پُرامن کوششوں کو نظر انداز کیا گیا تو وہ ’مسلح جدوجہد‘ کا سہارا لیں گے
مولانا ہدایت الرحمٰن نے کہا ”ہم نے گوادر کے تقریباً 9 اضلاع اور دیگر شہروں میں پُرامن دھرنے دیے، جن کا مقصد ان ٹرالر مافیا کو بلوچستان کے سمندروں سے دور کرنا، اسمگلنگ کی روک تھام، غیر ضروری چوکیوں کا خاتمہ اور دوسرے اہم مسائل کی طرف متوجہ مرکوز کرانا تھا۔“
انہوں نے مزید بتایا کہ سابق وزیر اعلیٰ عبد القدوس بزنجو نے معاہدے پر دستخط کیے تھے اور اس بات کی یقین دہانی کروائی تھی کہ ٹرالر مافیا کو صوبے کے ساحلوں کو استعمال کرنے سے روکیں گے اور غیر ضروری چیک پوسٹس کا خاتمہ کروائیں گے لیکن تاحال اس معاہدے پر کوئی عمل در آمد نہیں کیا گیا
مولانا ہدایت الرحمان نے کہا ”میں نے نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ اور نگراں وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کو بھی فون کے ذریعے مطالبات سے آگاہ کیا لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی“
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے سابقہ اور نگراں دونوں حکومتوں کو اپنے مطالبات سے آگاہ کیا ہے، لیکن اس وقت بھی ہزاروں کی تعداد میں ٹرالرز غیر قانونی طور پر ساحل پر شکار کرنے پر مصروف ہیں ۔ ٹرالرز مافیا ہمارے ماہی گیروں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ فشریز محکمہ صرف کرپشن میں مصروف ہے اور روزانہ کی بنیاد پر 30 ہزار روپے فی ٹرالر سے بھتہ لیا جاتا ہے۔ حکومت ٹرالرز کو روکنے میں ناکام ہے، کیونکہ ٹرالر مافیا چھوٹے اور مقامی ماہی گیروں پر مختلف طریقوں سے حملہ کرتی ہے، اگر حکومت ٹرالرز مافیا، غیر ضروری چیک پوسٹوں، منشیات فروشوں کے خلاف کارروائی کے لئے سنجیدہ نہیں ہوئے تو دوبارہ دھرنا دیں گے۔ اگر ٹرالرز مافیا کی جانب سے ماہی گیروں کے خلاف حملے جاری رہے تو تمام وی آئی پیز کے خلاف شاہراہ بند کریں گے“
انہوں نے کہا کہ سندھ کا سمندر بانجھ ہو چکا ہے ساحل بلوچستان ہمارا روزگار ہے ۔ اگر گوادر کے سمندر کو بانجھ ہونے سے بچانے کے لئے ٹرالر مافیا کے خلاف کارروائی کر کے انہیں روکا نہ گیا تو اس سے ہمارا روزگار چھن جائے گا تو ان حالات میں لوگ پہاڑوں پر نہ جائیں تو کہاں جائیں ۔ اگر سمندر بانجھ ہوگیا تو ہزاروں نوجوان بے روزگار ہو جائیں گے ۔ اور ان سے روزگار چھننے کے ساتھ ساتھ دو وقت کی روٹی بھی چھین لی جائے گی۔“
انہوں نے کہا کہ سیکورٹی کے نام پر لوگوں کے گھروں، سکولوں، ہسپتالوں اور دیگر مقامات پر غیر ضروری چیک پوسٹیں قائم کی گئی ہیں،جس سے لوگوں کی عزت نفس مجروح ہو رہی ہے ۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ گوادر نہ صوبائی اور نہ وفاقی حکومت کے زیر تسلط ہے بلکہ یہ ان کے کنٹرول میں ہے، جن کے کنٹرول میں دونوں حکومتیں ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ لوگ اپنے حقوق کے حصول کے لئے باہر نہیں نکلیں گے ان کی آواز نہیں سنی جائے گی اور نہ انہیں مسائل سے نجات ملے گی۔