تربوز فلسطینیوں کے لیے مزاحمت کی علامت کب اور کیسے بنا؟

ویب ڈیسک

ان دنوں سوشل میڈیا پر تربوز کی تصاویر اور ایموجیز کثرت سے شیئر کی جا رہی ہیں۔ ہیش ٹیگ واٹر میلن (#watermelon) کو اب تک لگ بھگ ایک لاکھ سے زائد پوسٹس میں شامل کیا جا چکا ہے، جن میں اکثر پیغامات فلسطین کی حمایت پر مشتمل ہیں

کیا آپ جانتے ہیں کہ تربوز فلسطینیوں کے لیے مزاحمت کی علامت کب اور کیسے بنا؟ اس کا پسِ منظر کیا ہے اور تربوز کا فلسطینی عوام کے ساتھ کیا تعلق ہے؟

گرمیوں میں سب سے زیادہ کھایا جانے والا پھل تربوز فلسطینیوں کے لیے مزاحمت کی علامت بھی ہے اور وہ اسے قومی شناخت بھی مانتے ہیں۔ فلسطینیوں کا تربوز سے گہرا تعلق ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تربوز کے رنگ اور فلسطینی قومی پرچم کے رنگ ملتے جلتے ہیں

فلسطین کا قومی پرچم، سرخ، سیاہ، ہرے اور سفید رنگوں پر مشتمل ہے جب کہ تربوز میں بھی یہی رنگ پائے جاتے ہیں

تربوز کا گودا سرخ ہوتا ہے، اس میں سیاہ رنگ کے بیج ہوتے ہیں جب کہ گودے اور کھال کے درمیان ہلکی سفیدی بھی موجود ہوتی ہے جب کہ یہ پھل باہر سے ہرا ہوتا ہے۔

یہ بھی ایک کمال ہے کہ تربوز کا پھل فلسطین میں زیادہ مقدار میں ہوتا ہے اور اس کا ذائقہ بھی دنیا کے مختلف خطوں میں ہونے والے تربوز سے منفرد ہوتا ہے

تربوز کی تاریخی اہمیت فلسطین کے پرچم کی پابندی کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔ فلسطینیوں کے لیے تربوز پہلی بار نصف صدی قبل 1967 میں مزاحمت اور شناخت کی علامت بنا تھا

اس وقت 1967 میں اسرائیل نے حملے کر کے مغربی کنارے اور بیت المقدس (یروشلم) شہر کے کئی حصوں پر قبضہ کر لیا تھا اور اپنے قبضہ شدہ علاقوں میں فلسطینی پرچم کی نمائش کو جرم قرار دے دیا تھا

’الجزیرہ‘ کے مطابق اسرائیل کی جانب سے فلسطینی پرچم کی نمائش کو جرم قرار دیے جانے کے بعد 1967 میں ہی لوگوں نے تربوز کو پرچم کے متبادل کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا اور اسے اپنی شناخت کے لیے بھی استعمال کیا

اس مقصد کے لیے انہوں نے تربوز کو مثلث میں کاٹ لیا کیونکہ اس طرح یہ ان کے پرچم جیسا دکھائی دیتا تھا، جس میں تربوز کے مانند سرخ، سیاہ، سفید اور سبز رنگ موجود ہیں

اس کے بعد فلسطین میں آج تک مختلف اوقات اور جنگوں کے مواقع پر تربوز کو مزاحمت اور شناخت کی علامت کے طور پر استعمال کیا آتا رہا ہے

فلسطین میں 1993 میں بھی تربوز کو بطور پرچم اور شناخت زیادہ استعمال کیا گیا کیوں کہ اس وقت بھی اسرائیلی حکومت نے فلسطینی پرچم کی نمائش پر پابندی لگاتے ہوئے اسے جرم قرار دیا تھا

پھر اسرائیل نے بالآخر اوسلو معاہدے کے تحت فلسطینی پرچم لہرانے پر پابندی ہٹا دی۔ یاد رہے کہ اوسلو معاہدہ اسرائیل فلسطین تنازع کو حل کرنے کی کوشش کرنے والا پہلا رسمی معاہدہ تھا

یہ پرچم غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کے انتظامی امور کی زمہ دار فلسطینی اتھارٹی کی نمائندگی کرتا ہے

اسرائیل کی جانب فلسطین پر قبضے کیے جانے کے بعد اب تک متعدد مواقع پر فلسطینیوں نے منفرد احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے تربوز کو مزاحمت کے طور پر استعمال کیا ہے

سال 2007 میں فلسطینی آرٹسٹ خالد حورانی نے فلسطین کی کہانیوں پر مبنی ایک کتاب ’اے سبجیکٹو اٹکس آف فلسطین‘ کے لیے تربوز کے پرچم کا آرٹ تیار کیا تھا، ان کے اس عمل نے بہت سے دوسرے فنکاروں کو تربوز کی علامت کا استعمال کرتے ہوئے فلسطین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے ذریعہ فن کے کام تخلیق کرنے کی ترغیب دی

جس کے بعد تربوز کے آرٹ کو فلسطینی پرچم کے طور پر بنانے کے عمل میں تیزی دیکھی گئی اور آج نہ صرف فلسطین بلکہ دنیا کے متعدد ممالک کے آرٹسٹ تربوز کے آرٹ میں فلسطینی پرچم بناتے دکھائی دیتے ہیں

درحقیقت سنہ 2022 میں، پنسلوانیا یونیورسٹی نے Watermelon Book کے عنوان سے ایک آرٹ پروجیکٹ متعارف کروایا جس میں فلسطین کے فنکاروں، مصنفین اور مفکرین کا کام شامل ہے

حالیہ دنوں میں تربوز کو مزاحمت کے طور پر استعمال کرنے کے عمل میں اس وقت تیزی آئی جب اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر حملے کرنا شروع کیے گئے

چند دن قبل فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں متعدد گاڑیوں پر تربوز کی بڑی بڑی تصاویر دیکھی گئیں اور ان تصاویر کے ساتھ لکھا گیا کہ ’یہ فلسطینی پرچم نہیں ہے‘

موجودہ دور میں جب فلسطینی پرچم سمیت فلسطینی مواد کے پھیلانے کو اکثر سنسر کیا جاتا ہے تو ایسے میں سوشل میڈیا کے دور میں تربوز کے ٹکڑوں کی تصاویر کو فلسطینی حامی حلقوں کی جانب سے کثرت سے استعمال کیا جا رہا ہے

واضح رہے کہ دنیا بھر میں فلسطینی رومال، زیتون اور دیگر چیزوں کو مزاحمت اور فلسطین کی شناخت کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close