یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) عرب اسرائیل جنگ 1967 کے خاتمے پر ایک اجلاس میں بعد از جنگ امکانات پر بحث کر رہی تھی
صہیونی ایوان میں ایک طرف اسرائیل کے 1948 میں شروع کردہ فلسطینیوں کی نسل کشی کے پروگرام کو بڑھاوا دینے کے حق میں گلا پھاڑ پھاڑ کر تقریریں کی جا رہی تھیں، تاکہ اسرائیل کو ایک مکمل یہودی قومی ملک بنایا جا سکے
دوسری جانب اسی ایوان میں ایسے صہیونی قانون سازوں کی تعداد بھی کم نہ تھی، جو فلسطینیوں کو ان کی آبائی اراضی سے بے دخل کیے بغیر فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کے حق میں رائے کا اظہار کر رہے تھے
اسرائیل نے اس وقت فلسطینیوں کی نسلی تطہیر اور بے دخلی کی بجائے ان کے علاقوں پر قبضے کو ریاستی پالیسی قرار دے کر اپنے تئیں ’فلسطینیوں پر بڑا احسان‘ کیا
زیرِ نظر تحریر میں ہم ان مضمرات کا جائزہ لیں گے، جن کی وجہ سے اسرائیل نے بے دخلی کی بجائے قبضے کو ریاستی پالیسی بنانا پسند کیا۔ نیز اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی بھی کوشش کی جائے گی کہ غزہ پر مسلط کردہ حالیہ اسرائیلی جنگ کس حد تک وقت کے دھارے کو الٹا چلانے میں کامیاب ہو سکے گی؟
یاد رہے کہ 1948 اور 1967 میں فلسطین پر مسلط کردہ جنگوں کے بعد کی صورت حال تقریباً ایک جیسی تھی۔ دونوں جنگوں کے بعد عربوں کو ان کے آبائی علاقوں سے نکال باہر کرنے کے لیے ماحول انتہائی سازگار تھا۔
نامور دانشور اور محقق ایلان پاپے ’فلسطینیوں کی نسلی تطہیر‘ نامی اپنی مشہور کتاب میں دونوں جنگوں کے بعد کے ماحول میں ایک جوہری فرق کی نشاندہی کرتے ہیں
ایلان پاپے کے مطابق: ’فلسطینیوں کی 1948 میں قسمت سے متعلق فیصلہ جنگ سے پہلے کیا گیا تھا جبکہ 1967 میں فلسطینیوں کے بارے میں فیصلہ جنگ اور اس میں تین عرب ملکوں کی شرمناک شکست کے بعد سامنے آیا۔‘
واضح رہے کہ 1967 میں فلسطینیوں سے متعلق فیصلے کے وقت اسرائیلی اقدامات 1948 کے مقابلے میں زیادہ واضح اور نمایاں تھے۔ بین الاقوامی برادری اسرائیلی توسیع پسندانہ عزائم کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے کی عادی ہو چکی تھی
تاہم 1967 میں فلسطینیوں کے بارے میں کیا جانے والا فیصلہ صرف بین الاقوامی سوچ اور زاویے تک محدود نہیں تھا۔
’النکبہ‘ کی دو دہائیوں بعد اسرائیل میں بننے والی حکومت میں وسیع المشرب اور متنوع خیالات کی نمائندہ جماعتیں شامل ہونے کی وجہ سے یہ ممکن نہیں رہا تھا کہ فلسطینیوں کو ان کے علاقوں سے بے دخل کرنے کی پالیسی کنیسٹ سے بھاری اکثریت سے منظور کروائی جا سکے
ان حقائق کی روشنی میں فیصلہ کیا گیا کہ فلسطینیوں کی نسلی تطہیر اور بے دخلی کی بجائے ان کی اراضی پر غیر معینہ مدت تک کے لیے قبضہ کر لیا جائے
1967 کی عرب اسرائیل جنگ سے پہلے کی دہائی تک امریکہ، غرب اردن سمیت اسرائیلی قبضے کے خلاف تھا۔ وہ دریائے اردن کے مغربی کنارے کو اردن ہی کا حصہ تسلیم کرتا چلا آیا تھا۔
امریکی پالیسی میں تبدیلی صدر لنڈن بی جانسن کے دور حکومت میں آئی۔ جانسن کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا کہ جو عرب-اسرائیل تنازع کو ہمیشہ سرد جنگ کے تناظر میں دیکھنے کے عادی تھے
نتیجتاً، جانسن انتظامیہ نے ہمیشہ اسرائیل سے اتحاد و تعلقات کی پالیسی کو بڑھاوا دیا۔ اس کے بعد امریکہ نے اسرائیل کی نہ صرف خم ٹھونک سیاسی حمایت کی بلکہ فقید المثال انداز میں صہیونی ریاست کو اسلحہ بھی فراہم کیا
تحدیثِ نعمت کے طور پر اسرائیل نے خود کو مشرق وسطیٰ میں سابق سوویت یونین کی بغل بچہ پراکسیز کے خلاف کارروائیاں کر کے خود کو امریکہ کا بااعتماد ساتھی ثابت کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا
اس پالیسی میں بدلاؤ تک کسی بھی امریکی انتظامیہ نے غربِ اردن پر اسرائیلی تسلط کی حمایت نہیں کی، تاہم اسرائیل کے ان علاقوں پر قبضے کے بعد تمام امریکی حکومتوں نے عرب علاقوں پر ہاتھ صاف کرنے کی پالیسی کو درست تسلیم کرنا شروع کر دیا۔
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سرد جنگ میں جب تک اسرائیل اہم پارٹنر کے طور پر شامل رہا، اس وقت تک امریکہ کی نظر میں عربوں کے مقابلے میں اس کا حق ہمیشہ فائق رہا۔
کالم کی تنگ دامانی کے باعث بعد کی تاریخ سے صَرفِ نظر کرتے ہوئے غزہ کی جنگ کی جانب آتے ہیں
آج ایک مرتبہ پھر سات اکتوبر کے بعد مغربی دنیا کو امریکی قیادت میں اسرائیل کی جارحیت کی مکمل حمایت میں سیسہ پلائی دیوار کی طرح ساتھ کھڑا دیکھتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ اسرائیلی قیادت وقت کے دھارے کو 1967 کے دور میں واپس لے جانا چاہتی ہے۔ کیا وہ فلسطینیوں کی غزہ یا پھر امکانی طور پر غربِ اردن سے بے دخلی کی خواہاں ہے؟ تمام قرآئن اسی جانب مثبت اشارے کر رہے ہیں۔
اسرائیلی رکن پارلیمنٹ ارئیل کالنر کے الفاظ میں ’اب ایک ہی مقصد: نکبہ! ایسا نکبہ جو 48 کی عظیم تباہی (نکبہ) کو گہنا دے گا۔ غزہ میں نکبہ اور جو اس تباہی کی راہ میں مزاحم ہوگا، اسے بھی نکبہ کا نشانہ بننے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔‘
غزہ میں جاری قتلِ عام دیکھ کر وزیراعظم نتن یاہو کا منتہیٰ و مقصود واضح ہوتا جا رہا ہے۔ وہ غزہ کی پٹی اور امکانی طور پر مقبوضہ مغربی کنارے سے بھی تمام فلسطینیوں کی بے دخلی چاہتے ہیں۔
غزہ پر اسرائیلی فوج کی چڑھائی کے فوراً بعد نتن یاہو کا یہ اعلان سامنے آیا کہ ’اسرائیل کو دوسری جنگِ آزادی‘ کا سامنا ہے۔ اس تعبیر کو صہیونی حلقے 1948 کی عظیم تباہی (النکبہ) کی تعبیر کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
نتن یاہو اور کالنر کے الفاظ میں اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیو گوتیریش کے بیان پر غم وغصہ عیاں ہو رہا ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’سات اکتوبر خلا میں رونما نہیں ہوا۔‘
اسرائیلی ناراضی کا بدیہی ہدف مسٹر گوتیریش کی جانب سے حماس کے حملے کو جائز قرار دینے کی غیر ارادی کوشش تھی۔ عالمی ادارے کے سربراہ نے بین السطور اسرائیلی خفگی کو فوری طور پر بھانپ لیا اور مزید وقت ضائع کیے بغیر حماس کے حملے کو جائز قرار دینے کے معاملے کو اپنے بیان کی سیاق وسباق سے ہٹ کر تشریح قرار دینے میں ہی عافیت جانی۔
میدان جنگ میں اٹھائے جانے والے اسرائیلی اقدامات سے انتونیو گوتیریش کے بیان پر ناراضی کا ایک اور محرک بھی نمایاں ہو رہا ہے، جسے بروئے کار لا کر تل ابیب کے انتہا پسند حکمران وقت کا پہیہ الٹا چلانا چاہتے ہیں۔ جیسے 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے وقت اسرائیلی حکومت نے فلسطینیوں کی بے دخلی اور ان کے علاقوں پر قبضے کے دوہرے مقاصد حاصل کیے۔
دوسرے الفاظ میں غزہ پر ’حقِ دفاع‘ کی آڑ میں حالیہ حملہ اسرائیل کی 1967 والی مابعد جنگ کی طرح فلسطینیوں کی نسلی تطہیر کا دوسرا مرحلہ ہے
لیکن اسرائیل شاید بھول رہا ہے کہ یہ 2023 ہے، اس میں 1948 کی فلسطینیوں کی ہول سیل نسلی تطہیر کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)