کچھ عالمی تنازعات کے محرک اور کچھ کے حل سے شہرت پانے والے امریکی سفارت کار اور نوبیل انعام یافتہ دانش ور ڈاکٹر ہنری کسنجر اپنی زندگی کی سینچیری مکمل کرنے کے بعد چل بسے۔
یوں تو ان کی سفارتی زندگی بے شمار عالمی تنازعات کے تصفیوں اور بعض متنازع معاملات سے گھری رہی، لیکن پاکستان کے حوالے سے دو مواقع اور معاملات کی وجہ سے ان کا ذکر ہماری سفارتی، سیاسی اور صحافتی تاریخ میں تسلسل سے ہوتا رہا ہے۔
پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 10 جون 1977 کو قومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں ایٹمی معاملات پر امریکی دباؤ کا ذکر کرتے ہوئے ہنری کسنجر کی طرف سے انہیں دی جانے والی مبینہ دھمکی کا انکشاف بھی کیا
ہنری کسنجر اور بھٹو کو دی گئی دھمکی
مارچ 2022 میں سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک اعتماد پیش ہونے کے بعد ایک جلسہ عام میں انکشاف کیا تھا کہ ایک امریکی سفارت کار نے ان کی حکومت کو دھمکی دی ہے۔
ان کے اس انکشاف نے ایک مرتبہ پھر ہنری کسنجر کی جانب سے بھٹو کو دی جانے والی دھمکی پر بحث کو تازہ کر دیا تھا
اس بحث کی جڑیں ستمبر 1976 کے ایک واقعے میں پیوست ہیں، جب امریکہ کے اس وقت کے سیکرٹری آف اسٹیٹ ہنری کسنجر نے پاکستان کا دورہ کیا۔ وزیراعظم بھٹو سے اپنی ملاقات میں انہوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں بھٹو حکومت کی پالیسیوں پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا
اس واقعے کے کچھ عرصہ بعد ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف متحدہ اپوزیشن کی تحریک اپنے زوروں پر تھی۔ بھٹو نے راجہ بازار راولپنڈی میں ایک عوامی اجتماع میں ایک خط لہراتے ہوئے دعویٰ کیا کہ امریکہ نے انہیں دھمکی دی تھی
ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی اور سابق وزیراعظم پاکستان بے نظیر بھٹو نے امریکی ٹیلی ویژن این بی سی کو ایک انٹرویو میں یہ انکشاف کیا تھا کہ ڈاکٹر ہنری کسنجر کی ان کے والد سے ہونے والی گرماگرم گفتگو کے وقت وہ وہیں موجود تھیں۔ ان کے مطابق کسنجر نے بھٹو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا ”ہم تمہیں نشان عبرت بنا دیں گے۔“
بھٹو نے راجہ بازار راولپنڈی میں ایک عوامی اجتماع میں ایک خط لہراتے ہوئے دعویٰ کیا کہ امریکہ نے انہیں دھمکی دی تھی
اس گفتگو اور دھمکی کے بارے میں مختلف آرا کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ 2006 میں امریکہ کی جارج واشنگٹن یونیورسٹی کی طرف سے جاری کردہ نیشنل سکیورٹی آرکائیوز میں یہ کہا گیا تھا کہ بھٹو اور کیسنجر کی گفتگو میں ’نشانِ عبرت‘ کا لفظ موجود نہیں تھا
ان دستاویزات کے مطابق کسنجر نے بھٹو کو کہا تھا کہ امریکی انٹیلیجنس کو اس بات پر پریشانی ہے کہ پاکستان ایٹمی ری پراسیسنگ پلانٹ پر کام جاری رکھنے پر مصر ہے
بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت میں ان کے سکیورٹی ایڈوائزر رہنے والے سابق سفارت کار اقبال اخوند اپنی کتاب ’بے نظیر بھٹو پہلا دور حکومت کیا کھویا کیا پایا‘ میں ہنری کسنجر سے اپنی ملاقات کا احوال بیان کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ہنری کسنجر نے ذوالفقارعلی بھٹو کی قائدانہ صلاحیتوں کی تعریف کرتے ہوئے کسی بھی طرح کی دھمکی سے انکار کیا تھا
ہنری کسنجر کے خط کی گمشدگی
جولائی 1971 میں ڈاکٹر ہنری کسنجر کے نام کی گونج عالمی ذرائع ابلاغ میں اس وقت سنائی دی، جب چین کی طرف سے کہا گیا کہ امریکی صدر رچرڈ نکسن کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر ہنری کسنجر نے چین کا خفیہ دورہ کیا ہے
ویتنام جنگ کی وجہ سے امریکہ اور چین میں مخاصمت اور سرد مہری کا ماحول اپنے عروج پر تھا۔ ایسے میں ایک اعلیٰ امریکی عہدے دار کا چین کا دورہ ایک غیر معمولی بات تھی
ہنری کسنجر کا یہ دورہ پاکستان کی خفیہ اور خاموش سفارت کاری کی وجہ سے ممکن ہوا تھا۔
پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ سلطان محمد خان نے ہنری کسنجر کو 10 جولائی 1971 کی صبح اپنی ذاتی کار میں اسلام آباد کے چکلالا ایئرپورٹ پہنچایا۔ جہاں سے انہوں نے ایک خفیہ پرواز کے ذریعے بیجنگ کا سفر کیا۔
سلطان محمد خان کی کتاب ’میںمریز اینڈ ریفلیکشنز آف اے پاکستانی ڈپلومیٹ‘ اس تاریخی دورے کی سنسنی خیز تفصیلات بیان کرتی ہے
اس وقت کے پاکستانی فوجی حکمران جنرل یحیی خان نے اکتوبر 1970ع میں اپنے دورہ امریکہ میں صدر نکسن سے ملاقات کی تھی۔ اگلے ماہ انہوں نے چین کے دورے کے دوران صدر ماؤزے تنگ اور وزیراعظم چو این لائی سے امریکہ اور چین کے درمیان بات چیت کے لیے سہولت کاری کی پیشکش کی تھی۔
سلطان محمد خان کے مطابق 22 نومبر 1970ع کو یحییٰ خان نے انہیں حکم دیا کہ وہ واشنگٹن میں پاکستانی سفیر آغا ہلالی کے ذریعے ہنری کسنجر کو چینی وزیراعظم کا پیغام بھیجیں
اس معاملے کی حساسیت کی وجہ سے اس قدر رازداری برتی گئی کہ پاکستانی سفیر کو بتایا گیا کہ وہ لکھا ہوا پیغام کسنجر کو سنا کر وہ کاغذات ضائع کر دیں
جب امریکہ کی طرف سے ہنری کیسنجر کے دورہ چین کا اشارہ دیا گیا تو چین کے وزیراعظم کی طرف سے امریکی صدر کو ایک اور پیغام براستہ اسلام اباد واشنگٹن بھیجا گیا۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے ایک افسر بابر بشیر کے ذمے اس پیغام کو واشنگٹن پہنچانا تھا
یکم جون 1971ع کو پیغام کا لفافہ ان کے حوالے کرتے ہوئے سیکریٹری خارجہ سلطان ایم خان نے انہیں کہا ’اس لفافے کی حفاظت اپنی جان سے بھی زیادہ کرنا۔ اور اگر یہ کہیں کھو جائے تو ملک واپسی کی زحمت بھی نہ کرنا۔‘
اگلے روز کسنجر تک یہ پیغام پہنچ چکا تھا۔ مگر ان کے جواب والا لفافہ واپس نہ پہنچ سکا
سلطان محمد خان کے مطابق براہ راست پرواز نہ ہونے کی وجہ سے بابر بشیر کو کنیکٹنگ فلائٹ کے باعث لندن رکنا پڑ گیا۔ بے خوابی اور تھکن کے باعث یہ لفافہ ان سے گم ہو گیا
ہنری کسنجر کی خفیہ پرواز
ہنری کسنجر 8 جولائی کو اسلام آباد پہنچے۔ ان کے دورے کو راز میں رکھنے کے لیے کیے گئے اقدامات پر کسی جاسوسی ناول یا فلمی کہانی کا گمان ہوتا ہے
سرکاری طور پر کسنجر اور ان کے وفد کی رہائش کا بندوبست نتھیا گلی میں واقع صوبے کے گورنر کی رہائش گاہ میں کیا گیا تھا۔
مگر کسنجر اور ان کے چار ساتھیوں کو خفیہ طور پر صدارتی گیسٹ ہاؤس پہنچا دیا گیا
اس غیرمعمولی دورے کو دنیا کی نظروں سے اوجھل رکھنے کے لیے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کا بوئنگ طیارہ استعمال کیا گیا۔
چھ جولائی کو اس طیارے کو آزمائشی پرواز پر بیجنگ بھیجا گیا
طیارے کے عملے کے تجسس کو کم کرنے کے لیے کپتان کو بتایا گیا کہ یہ ساری تیاریاں صدر پاکستان کے خفیہ دورہ چین کے حوالے سے ہیں۔
سلطان محمد خان اس رات کہ آخری پہر اپنے گھر سے ذاتی گاڑی پر نکلتے ہیں۔ صبح کے تین بجے صدارتی گیسٹ ہاؤس سے امریکی مہمانوں کو ساتھ لے کر چکلالہ ایئرپورٹ کا رخ کرتے ہیں
ایئرپورٹ پر جنرل عمر امریکی سفارت کاروں کی روانگی کے انتظامات کی دیکھ بھال کے لیے موجود تھے۔ صبح ساڑھے چار بجے کسنجر بیجنگ کے لیے روانہ ہوئے۔
آم کھانے سے ہنری کیسنجر کے پیٹ میں درد
پروگرام کے مطابق پاکستان میں امریکی سفیر فاک لینڈ سلطان محمد خان کی اہلیہ کو ان کے گھر سے لے کر صدارتی گیسٹ ہاؤس میں آتے ہیں۔ جہاں ہنری کسنجر کے ذاتی معاون کو ان کا متبادل قرار دے کر سرکاری پروٹوکول میں نتھیا گلی روانہ کر دیا گیا
بظاہر دنیا کے لیے ہنری کسنجر نتھیا گلی میں قیام پذیر تھے۔ مگر حقیقتاً وہ ہزاروں میل دور بیجنگ میں چینی صدر اور وزیراعظم کے ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان کشمکش اور کشیدگی کو کم کرکے سفارتی تعلقات کے قیام پر محو گفتگو تھے
نتھیا گلی میں قیام کے دوران پہلی رات سلطان ایم خان کو خاصی پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جب انہیں پتہ لگا کہ دن کے کھانے پر چھ عدد آم کھانے سے ہنری کسنجر کے پیٹ میں درد ہو رہا ہے
انہوں نے ایمرجنسی میں پشاور سے ڈاکٹر طلب کیا۔ انہیں مزید پریشانی اس وقت ہوئی جب ان کے علم میں آیا کہ مذکورہ ڈاکٹر نہ صرف ہنری کسنجر کی شکل سے واقف ہے بلکہ اس نے ان کی کتابیں بھی پڑھ رکھی ہیں۔
راز افشا ہونے کے ڈر سے انہوں نے ایک دوسرے ڈاکٹر کو علاج کے لیے نتھیا گلی بلایا
اس ڈرامے میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے جنرل عبدالحمید اور سیکرٹری دفاع غیاث الدین نقلی کسنجر سے ملنے نتھیا گلی گئے اور تو اور سیکرٹری خارجہ کی بیوی بھی اس حقیقت سے بے خبر تھی کہ ان کے ساتھ قیام پذیر شخص ہنری کسنجر نہیں ہے
ذکر اخبار کے بریکنگ نیوز مس کرنے کا
11 جولائی کی شام ہنری کسنجر واپس اسلام آباد پہنچ گئے۔ جہاں انہوں نے صدر پاکستان سے علیحدگی میں ملاقات کی۔ وہ خوشی اور مسرت سے لبریز تھے۔ اسی روز وہ اپنی اگلی منزل پیرس کے لیے بھی روانہ ہو گئے۔
اسلام آباد آنے سے قبل انہوں نے دہلی کا بھی دورہ کیا تھا اس لیے انڈین ان کے دورہ پاکستان کے بارے میں انتہائی متجسس تھے
انڈیا کے آل انڈیا ریڈیو نے ان کے نتھیا گلی میں قیام کے بارے میں خبر نشر کرتے ہوئے اس دورے کو یحیی خان اور شیخ مجیب کے درمیان مصالحت کا مشن قرار دیا۔
ان کے دورے کے پانچ دن بعد چین کی طرف سے اس خفیہ مشن کی خبر جاری کی گئی
لیکن ایک برطانوی اخبار نے پاکستانی صحافی کی طرف سے اس وقت کی سب سے بڑی بریکنگ نیوز کو رد کرتے ہوئے چھاپنے سے انکار کر دیا تھا
انڈین صافی ایم وی کماتھ اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب ’بیہائنڈ دی بائی لائن‘ میں لکھتے ہیں کہ ایک پاکستانی صحافی کو اس دورے کی خبر مل چکی تھی۔
ان کے مطابق ایم ایف بیگ نامی ایک فری لانس جرنلسٹ جو کہ ماضی میں دفتر خارجہ سے منسلک رہ چکے تھے، اتفاق سے اس روز ایئرپورٹ پر موجود تھے۔
وہ ہنری کسنجر کی شکل سے بہت اچھی طرح واقف تھے۔ اس وقت راولپنڈی ایئرپورٹ پر ان کی موجودگی سے ان کی صحافیانہ رگ پھڑک اٹھی
قریب ہی موجود اہلکاروں سے انہوں نے تصدیق کی تو پتہ لگا کہ کسنجر چین جا رہے ہیں۔ وہ الٹے پیروں اپنے آفس پہنچے اور اس دورے کی خبر برطانیہ کے ڈیلی ٹیلی گراف کو بھیج دی
ایم وی کماتھ کے مطابق ٹیلی گراف کے نیوز ایڈیٹر نے جب یہ خبر دیکھی تو اس نے صحافی کو بے وقوف قرار دیتے ہوئے اسے سچ ماننے سے انکار کر دیا
”کسنجر چین جا رہا ہے۔ ہمیں یہ بتانے والا یہ شخص یقینا نشے میں ہوگا“ اس تبصرے کے ساتھ اس نے خبر ردی کی ٹوکری میں پھینک دی۔