گارشیا، ایک طرف خاموش کھڑا اپنے ناخنوں کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ کارلوس آرام کرسی پر بیٹھا چھت کی طرف دیکھ رہا تھا، ماریا لوئیسا کھڑکی میں بیٹھی کچھ بُن رہی تھی۔ کمرے میں ایک مہیب سناٹا طاری تھا۔کتنی دیر سے اُن تینوں نے کوئی بات نہ کی تھی۔ اُس پورے دن ان تینوں میں کوئی بات نہ ہوئی۔ چوں کہ اب یہ تینوں کردار مر چکے ہیں، لہٰذا ان کی کہانی بیان کر دینے میں کوئی حرج نہیں۔ کچھ دیر پہلے وہ ایک ایسے ناخوش گوار اور گھمبیر موضوع پر بات کر چکے تھے کہ ان کی بات کرنے کی خواہش ہی ختم ہو چکی تھی۔ اس لمحے بھی ماریا لوئیسا کے ہاتھ کانپ رہے تھے، جب کہ گارشیا کا چہرہ پتھرایا ہوا تھا۔ یہاں جو کچھ ہوا، اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر چیز شروع سے بیان کی جائے۔
اس کہانی کی ابتدا گارشیا کے ڈاکٹر بننے سے ایک سال پہلے ہوئی۔ اس نے 1861ء میں اپنی ڈگری مکمل کی۔ کارلوس سے اس کی پہلی ملاقات 1860ء میں ہوئی۔ وہ ہسپتال سے باہر نکل رہا تھا اور کارلوس ہسپتال میں داخل ہو رہا تھا۔ ویسے تو سینکڑوں افراد ہسپتال آتے جاتے رہتے ہیں مگر کارلوس کی شخصیت میں کچھ عجیب سی چیز تھی۔ گارشیا اسے بھول جاتا مگر جلد ہی کارلوس سے سامنا ہو گیا۔ اُن دنوں گارشیا ہسپتال کے قریب ہی ایک ہوسٹل میں قیام پذیر تھا، جہاں اسی کی طرح کے طالب علم یا ملازمت پیشہ کنوارے رہتے تھے۔ صبح ہسپتال میں پہلے طبی تعلیم حاصل کرنا اور پھر رات گئے تک ڈاکٹروں کی مدد کرنا ہی اس کا معمول تھا۔ تاہم مہینے میں ایک یا دو بار وہ قریبی تھیٹر چلا جاتا۔ اس تھیٹر کی بھی اپنی دنیا تھی۔ یہ شہر کے ایک کنارے پر واقع تھا اور یہاں بہت کم تماش بین آتے۔ پہلی ملاقات کے ٹھیک پانچ دن کے بعد وہ تھیٹر گیا تو کارلوس اس کے برابر والی نشست پر براجمان تھا۔ اُس دن ڈراما بھی غیر معمولی تھا۔ اس ڈرامے میں بہت زیادہ مار دھاڑ، خون اور قتل وغیرہ دکھائے جا رہے تھے۔ گارشیا بار بار پہلو بدلتا رہا مگر کارلوس پورے انہماک سے ڈرامے میں گم رہا۔ ڈرامے کے اختتام سے پہلے وہ اچانک اٹھا اور باہر کی طرف چل دیا۔ گارشیا کو نجانے کیا سوجھی کہ وہ اس کے پیچھے چل پڑا۔ کارلوس سر جھکائے راستے میں آنے والی ہر شے کو اپنی چھڑی مارتا چلا جا رہا تھا۔ راستے میں کئی آوارہ کتے بھی بیٹھے ہوئے تھے مگر وہ ان کو بھی اسی طرح چھڑی مارتا اور وہ چلاتے ہوئے بھاگ پڑتے۔ اسی طرح وہ ایک گلی میں مڑا اور اندھیرے کا حصہ بن گیا۔
اس ملاقات کے تین ہفتوں بعد گارشیا اپنے ہوسٹل کے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا، جب اسے نچلی منزل سے کچھ آوازیں آئیں۔ وہ نیچے آیا تو دیکھا کہ اس کی عمارت میں رہنے والا ایک شخص شدید زخمی ہے اور چند افراد اسے سہارا دے کر اوپر لا رہے ہیں۔ وہ بھی مدد کو لپکا اور اسے اس کے کمرے میں پہنچا کر بولا کہ ہمیں فوراََ ایک ڈاکٹر کو بلانا چاہیے۔
”ڈاکٹر کو پیغام دے دیا گیا ہے اور وہ جلد ہی یہاں ہوگا۔“
گارشیا نے بولنے والے کو دیکھا اور حیران رہ گیا۔ وہ کارلوس تھا۔ گارشیا سمجھا کہ شاید وہ زخمی کا دوست یا رشتے دار ہے مگر پھر اس نے کارلوس کو بولتے سنا کہ کیا کوئی اس زخمی کے رشتے داروں یا دوستوں کو جانتا ہے؟ جب سب نے نفی میں جواب دیا تو کارلوس نے گویا کمان سنبھال لی۔ اُس نے سبھی کو جانے کا کہا اور کہاروں کو ان کی مزدوری ادا کر دی۔ وہ گارشیا کی طرف دیکھ کر بولا کہ وہ ابھی تک گیا نہیں؟ گارشیا نے جواباً کہا کہ وہ زخمی کا ہم سایہ ہے اور میڈیکل کا طالبِ علم ہے۔پھر گارشیا نے سوال کیا کہ اسے کیا ہوا ہے؟
کارلوس نے بولنا شروع کیا:
”یہ صاحب غلط موقع پر غلط جگہ موجود تھے۔ میں ایک رشتے دار سے مل کر واپس آ رہا تھا کہ ایک ذیلی سڑک سے کچھ بے ہنگم آوازیں سنائی دیں۔ میں وہاں مڑا تو دیکھا کہ دو گروہ آپس میں مارپیٹ کر رہے ہیں اور اس لڑائی نے کئی راہ گیروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ کچھ لوگ تو جلد ہی وہاں سے بھاگ گئے مگر یہ بھائی صاحب بری طرح پٹے اور جب تک میں وہاں پہنچتا، لڑنے بھڑنے والے تو رفو چکر ہو گئے، بس یہ جناب وہاں پڑے کراہ رہے تھے۔ میں نے انہیں اٹھوایا اور ان سے پتا پوچھ کر یہاں لے آیا۔
کیا آپ اسے پہلے سے جانتے ہیں؟“
”جی نہیں! آج پہلی بار ہی ملاقات ہوئی ہے۔“
”یہ گاویریا ہے۔ آرمی اسلحہ ڈپو میں ملازم ہے، بہت نیک طینت اور سادہ انسان ہے۔“
ڈاکٹر اور پولیس انسپکٹر ایک ساتھ ہی داخل ہوئے۔ زخمی کی مرہم پٹی کی گئی اور کارلوس کا بیان لیا گیا۔ کارلوس کے تفصیلی بیان سے پتا چلا کہ وہ شہر کا امیر کنوارا ہے، جس کی بہت سی جائیدادیں ہیں اور انہی کی آمدنی سے شہر کے مضافات میں ایک عمدہ کوٹھی میں قیام پذیر ہے۔
زخم بہت گہرے تھے۔ اس کی مرہم پٹی کے دوران جس میں گارشیا ڈاکٹر کی مدد کر رہا تھا؛ کارلوس بالکل ایک خدمت گار کی طرح پیش آتا رہا۔ اوزار پکڑانا، زخمی کے کپڑے اتروانے میں مدد کرنا، گرم پانی لے کر آنا اور مرہم پٹی کے بعد دوبارہ کپڑے پہنانا۔ یہ تمام کام وہ ماتھے پر شکن لائے بغیر کرتا رہا۔ اُس نے ڈاکٹراور انسپکٹر کو رخصت کرتے وقت دوبارہ اپنے تعاون کی یقین دہانی کروائی۔ اُن کے جانے کے بعد وہ خاموشی سے ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ دونوں ہاتھ باندھے اور زخمی پر نظریں جما لیں۔ گارشیا اسے حیرانی سے دیکھتا رہ گیا۔
کارلوس کی آنکھیں بالکل سرد تھیں، بے رحم، ہر چیز سے بے نیاز اور وہ مستقل زخمی پر جمی ہوئی تھیں۔ کارلوس اپنی عمر کی تیسری دہائی میں داخل ہو چکا تھا، وہ دبلا پتلا تھا، قدوقامت مناسب، چہرہ ہلکی سی پیلاہٹ لیے ہوئے تھا، پتلے پتلے ہونٹ اور گالوں پر سرخ رنگ کا رُواں جسے داڑھی کہنے میں تامل ہو سکتا ہے۔ کچھ دیر زخمی کو گھورنے کے بعد اس نے گارشیا سے باتیں بھی کیں مگر وہ سب زخمی کے بارے میں تھیں، لیکن اس تمام گفتگو میں بھی اس کی نظریں زخمی پر جمی رہیں۔
گارشیا کو اس کی شخصیت میں ایک عجیب سی پُر اسراریت محسوس ہوئی۔ اس کے دل میں کارلوس کے بارے میں مزید جاننے کی خواہش پیدا ہوئی۔ کارلوس آدھی رات کے قریب رخصت ہوا۔ وہ اگلے کئی روز زخمی کی خبر گیری کرنے آتا رہا۔ گاویریا کے زخم تیزی سے بھرتے جا رہے تھے۔ جب وہ مکمل صحت یابی کے قریب تھا تو اچانک کارلوس کا آنا بند ہو گیا۔
مکمل صحت یابی کے بعد گارشیا نے گاویریا کو واقعے کی مکمل تفصیل اور کارلوس کے احسانات کی بابت بتایا۔ گاویریا کی آنکھیں چھلک گئیں اور وہ کارلوس کا پتا دریافت کر کے اس کے گھر پھولوں کا گل دستہ لے کر پہنچا۔ کانپتے لہجے میں اس نے کارلوس کا شکریہ ادا کیا مگر کارلوس کا رویہ بے حد روکھا اور غیر مہذب تھا۔ جب تک گاویریا بولتا رہا، وہ جمائیاں لیتا رہا اور اس کے خاموش ہونے پر اس نے اس کا مذاق اڑانا شروع کردیا۔ گاویریا نے خاموشی سے اجازت طلب کی اور وہاں سے رخصت ہو گیا۔ اس کے وہاں سے نکلنے کے دوران بھی کارلوس نے طنز کیا، ”اس بار پرائے جھگڑے سے دور ہی رہنا!“
گاویریا کی آنکھیں شدید بے عزتی کے احساس سے چھلک گئیں۔ وہ تو اپنے ذہن میں ایک فرشتہ خصلت اور بااخلاق شخصیت کا سانچا ڈھال کر وہاں پہنچا تھا مگر اس کا سامنا ایک انتہائی بد اخلاق، زبان دراز اور بے رحم شخص سے ہوا۔ گاویریا ایک بے حد حساس شخص تھا، اس سلوک نے اس پر بہت بُرا اثر ڈالا اور کئی دن گم سم رہا۔
گارشیا کو اس کہانی کا پتا چلا تو وہ ششدر رہ گیا۔ اسے اپنی ایک صلاحیت پر بڑا ناز تھا، وہ لوگوں کی ظاہری شخصیت سے مرعوب ہوئے بغیر ان کے باطن میں جھانکنے کا ماہر تھا۔ وہ اپنے ہر ملنے جلنے والے کی عادات و اطوار کا تجزیہ کرتا رہتا۔ اسے اپنا یہ شغف بے حد عزیز تھا۔ وہ ایک ایک کر کے شخصیت کی تہیں کریدتا کریدتا باطن کی کھوج لگاتا اور یہاں تک کہ اس کے من بھید تک پہنچ جاتا۔ اسے ایسا کرنے میں بے حد لطف حاصل ہوتا۔ گاویریا کی باتیں سن کر اس کا دل چاہا کہ وہ تفصیلی مشاہدے کے لیے کارلوس کے گھر چلا جائے مگر اس طرح بِن بلائے جانا مناسب نہیں تھا۔ اس کے لیے کوئی بہانہ کوئی وسیلہ درکار تھا، جو سرِ دست اس کے ذہن میں نہیں تھا۔
کچھ عرصے بعد گارشیا کی ڈگری مکمل ہو گئی اور وہ باقاعدہ ایک ہسپتال میں ملازم ہو گیا۔ اس دوران کارلوس سے کئی بار ملاقات ہوئی اور ان دونوں کی گپ شپ، سلام دعا حال احوال سے بڑھ کر، موسم یا کسی اخباری خبر پر ہونے لگی مگر ابھی تک گارشیا کو کارلوس سے تفصیلی گپ شپ کا موقع نہیں ملا تھا۔ ایک دن اچانک کارلوس نے گارشیا سے سوال کیا
”کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں شادی شدہ ہوں؟“
”جی نہیں“
”دو ماہ پہلے میری شادی ہوچکی ہے، مگر ایسا لگتا ہے کہ ابھی دو دن ہی ہوئے ہیں۔ بہر کیف اس اتوار رات کا کھانا آپ ہمارے ساتھ کھائیں گے۔“
”اس اتوار؟“
”کوئی بہانہ بنانے کی ضرورت نہیں۔۔ نہ ہی میں کوئی بہانہ سنوں گا۔ آپ ہمارے ہاں تشریف لائیں گے۔“ کارلوس نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔
آخرکار گارشیا کی مراد بر آئی اور وہ کارلوس کے گھر پہنچ گیا۔ کھانا، وائین اور سگار سب بے حد عمدہ تھے۔ کارلوس بھی کچھ کھلا مگر اس کی آنکھیں اسی طرح سرد اور اس کے اطوار میں ایک نوع کی سرد مہری تھی تاہم اس کی میزبانی نے اس کی شخصیت کی ان خامیوں پر کچھ پردہ ڈال دیا۔ اس کی بیوی ماریا لوئیسا ایک بے حد خوش اخلاق اور خوش اطوار خاتون تھی۔ وہ اگرچہ تیس برس کی تھی مگر بیس کی دکھائی تھی۔ وہ دل کش چہرے اور مہربان آنکھوں کی حامل تھی۔
دوسری ملاقات میں گارشیا نے محسوس کیا کہ دونوں میاں بیوی میں کچھ فاصلے حائل ہیں، خاص طور پر ماریا لوئیسا اپنے خاوند کی موجودگی میں خاموش رہتی یا سہمی ہوئی کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔
ایک اتوار گارشیا نے ماریا لوئیسا سے سوال کیا کہ کیا اسے علم ہے کہ اس کی اور کارلوس کی ملاقات کیسے ہوئی؟
”نہیں!“ اس نے جواب دیا۔
”یہ بڑی دل چسپ روداد ہے۔“
”چھوڑو یار! اتنی کوئی اہم بات بھی نہیں تھی۔“ کارلوس بولا۔
”ہم ماریا سے پوچھتے ہیں کہ وہ یہ سننا چاہتی ہے یا نہیں۔کیوں ماریا؟“ گارشیا نے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔
ماریا نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
گارشیا نے تفصیل بیان کرنا شروع کی۔ ماریا لوئیسا پورے انہماک سے گارشیا کی گفتگو سن رہی تھی۔ زخمی کی کہانی سن کر اس کے چہرے پر رحم اور تاسف کے تاثرات ابھرے اور وہ بار بار اپنے ہاتھ مسل رہی تھی۔ زخمی کی حالت بہتر ہونے کا سن کر اس کے چہرے پر طمانیت بھری مسکراہٹ آ گئی اور اس کی مکمل صحت یابی کا سن کر اس نے سکون کی آہ بھری اور پیار بھری نظروں سے اپنے شوہر کی طرف دیکھا۔ گارشیا بغور اس کی شخصیت کا تجزیہ کر رہا تھا اور اس کے مطابق ماریا لوئیسا ایک نرم دل، مہربان اور نیک طینت عورت تھی۔ وہ اس کا من بھید جان چکا تھا۔
گارشیا کے چپ ہونے کے بعد کارلوس شروع ہوا اور زخمی گاویریا سے اپنی ملاقات کا احوال بیان کرنا شروع کیا۔ اس نے تضحیک آمیز لہجے میں گاویریا کے لائے ہوئے پھولوں سے لے کر اس کے لباس، اس کی شکل، اس کی گفتگو میں ہکلاہٹ غرض اس کی پوری شخصیت کا ایسا پوسٹ مارٹم کیا کہ ماریا لوئیسا کے ساتھ ساتھ گارشیا کا منہ بھی استعجاب کے عالم میں کُھل گیا۔
شقی! یہ پہلا لفظ تھا، جو گارشیا کے ذہن میں ابھرا۔
ماریا کے چہرے کے تاثرات بدل چکے تھے، وہ تقریباََ صدمے کی سی حالت میں تھی مگر گارشیا نے فوراََ موضوع بدلا اور کہا، ”ایک بات تو ہے! کارلوس بہت اچھا مددگار ثابت ہوا۔ اگر میں نے اپنا ذاتی ہسپتال بنایا تو کارلوس کو اپنا ہم رکاب بنا لوں گا۔“
”کیا واقعی؟“ کارلوس نے سوال کیا، ”کیا واقعی ہم ایک ہسپتال شروع کر رہے ہیں۔“
”نہیں یار! میں تو مذاق کر رہا تھا۔“
”میں تو بالکل سنجیدگی سے سوچ رہا ہوں۔ شہر کے مضافات میں میری ایک عمارت خالی ہو رہی ہے، ہم وہاں ایک ہسپتال شروع کر سکتے ہیں اور تمہاری پیشہ ورانہ زندگی کے آغاز میں ہی یہ موقع تمہارے لیے ایک سنگِ میل ثابت ہو سکتا ہے۔“
گارشیا سوچ میں پڑ گیا۔ اس نے ٹھنڈے دل سے اس پیشکش پر غور کیا تو کارلوس کی بات میں وزن محسوس ہوا۔ ڈاکٹری کرتے ہی ایک ہسپتال کا سربراہ بننا واقعی بہت بڑی بات تھی۔بہرحال اپنے ہسپتال کا آغاز کسی ہسپتال میں ملازمت کرنے سے تو بہت بہتر تھا۔
اگلی ملاقات پر گارشیا نے رضامندی ظاہر کردی اور کارلوس نے سرعت سے منصوبے پر کام شروع کر دیا۔
وہ واقعی بہت اچھا منتظم تھا۔ ہسپتال شروع ہوتے ہی اس نے بہت سی ذمہ داریاں بخوبی سنبھال لیں، انتظامی معاملات ہوں یا خریداری، نرسنگ اسٹاف کی سربراہی ہو یا مختلف محکموں سے معاملات، کارلوس ہر معاملہ بخوبی نپٹا دیتا۔ گارشیا نے سوچا کہ زخمی گاویریا کی اس طرح عمدہ انداز میں دیکھ ریکھ دراصل کارلوس کی فطرت کے عین مطابق تھی۔ ہسپتال میں وہ چھوٹے سے چھوٹا کام بھی دل جمعی سے کرتا، وہ دن دیکھتا نہ رات، مکمل توجہ سے مختلف کام کرتا۔ خاص طور پر زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے کا اسے بہت شوق تھا۔ وہ ایک سرشاری کے عالم میں زخم دھوتا، اس پر مرہم لگاتا اور پھر بڑے پیار کے ساتھ اس پر پٹی باندھتا۔
کاروباری شراکت کی وجہ سے گارشیا کا کارلوس کے گھر آنا جانا بڑھا اور وہ تقریباََ ہر روز وہیں کھانا کھاتا۔ اس طرح اسے ماریا لوئیسا کو اور بھی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ تنہائی کی وجہ سے اس کے چہرے پر ایک مستقل اداسی نے جگہ لے لی تھی اور اس اداسی نے اس کی دل کشی میں اضافہ کر دیا۔ وہ اسے مختلف کام کرتے دیکھتا رہتا۔ اُس کا کمرے میں داخل ہونا، بڑی سی کھڑکی میں بیٹھ کر اون بُننا، پیانو پر اداس سی دھن چھیڑنا، ان سب باتوں نے آہستہ آہستہ گارشیا کے دل میں بہت سے لطیف جذبات پیدا کر دیے مگر اسے اپنی اور کارلوس کی دوستی کا لحاظ تھا، لہٰذا اس نے اپنے جذبات کو بالکل مقفل کر دیا۔ ماریا لوئیسا دونوں سے واقف تھی، گارشیا کے لطیف جذبات سے بھی اور اس کی خاموشی کی وجہ سے بھی، مگر اس نے بھی اپنے کسی عمل سے یہ محسوس نہ ہونے دیا کہ وہ گارشیا کی طرف ملتفت ہے یا اس سے متنفر ہے۔
کارلوس نے ہسپتال میں علم الاجسام اور تشریحِ اعضا کا مطالعہ شروع کر دیا۔ کچھ ہی عرصے میں اس نے مینڈکوں اور چوہوں کی جراحی کے بعد کتوں اور بلیوں کی چیڑ پھاڑ شروع کر دی۔ ہسپتال میں بوجوہ یہ کام ممکن نہ تھا لہٰذا اس نے یہ تجربے اپنے گھر میں شروع کر دیے۔ ماریا کچھ دن تک تو جانوروں کی کراہیں اور چیخیں سنتی رہی مگر پھر یہ معاملہ اس کے بس سے باہر ہو گیا۔ اس نے ایک دن گارشیا کو کہہ ہی دیا کہ وہ اس کے خاوند کو ان تجربوں کو بند کرنے کا کہہ دے۔
”تم خود کیوں نہیں کہہ دیتیں۔“
”وہ میری کیا سنے گا۔ تم اس سے بات کرو اور اسے بتاؤ کہ یہ میری صحت اور اعصاب کے لیے مناسب نہیں ہیں۔“ ماریا لوئیسا بات کرتے کرتے بری طرح کھانسنے لگی۔
”تم ٹھیک تو ہو! میں تمہارا معائنہ کر لوں؟ تم ذرا اپنی نبض دکھانا۔“
ماریا نے انکار میں سر ہلایا اور بولی: ”میں ٹھیک ہوں۔۔ تم بس میرے لیے ان بے زبانوں کے لیے کارلوس کو منع کر دو۔“
گارشیا صرف اسے دیکھ کر رہ گیا۔ وہ واقعی بہت مہربان طبیعت کی مالک تھی۔ بہرکیف اس نے کارلوس کو سمجھا بجھا کر یہ تجربات بند کروادئیے۔
دو دن بعد۔۔ اور یہ وہی دن تھا، جس کی ایک جھلک ابتدائی سطور میں دکھائی گئی تھی۔ گارشیا کارلوس کے گھر داخل ہوا تو ماریا لوئیسا بولائی بولائی ہسٹریائی انداز میں مطالعے کے کمرے سے باہر نکلی اور گارشیا کو دیکھتے ہی بولی ”چوہا! آہ وہ غریب چوہا!“ یہ کہہ کر وہ جیسے لاشعوری انداز میں ایک طرف نکل گئی۔
گارشیا کو یاد آیا کہ کل ہی کارلوس ایک چوہے کے بارے میں بتا رہا تھا کہ وہ اس کا ایک قیمتی کاغذ کتر گیا ہے، مگر جو منظر اسے کمرے میں نظر آیا، وہ بالکل غیر متوقع تھا۔ کارلوس کمرے کے عین وسط میں ایک میز رکھ کر بیٹھا ہوا تھا۔ میز پر ایک بڑی سی پلیٹ دھری تھی، جس میں مائع الکوحل پڑی تھی اور اس وقت اس میں آگ لگی ہوئی تھی۔ اس کے ایک ہاتھ میں ایک سلاخ تھی جس پر ایک چوہا اپنی دم سے بندھا لٹک رہا تھا۔ دوسرے ہاتھ میں ایک قینچی تھی۔ جس لمحے گارشیا کمرے میں داخل ہو رہا تھا، اسی لمحے کارلوس نے چوہے کا ایک پنجہ کاٹا اور اسے آگ میں چند لمحوں کے لیے ڈال کر باہر نکال لیا۔ پھر وہ تیسرا پنجہ کاٹنے لگا، پہلا وہ گارشیا کے آنے سے پہلے ہی کاٹ چکا تھا۔
گارشیا حیرت اور خوف سے گویا پتھرا کر رہ گیا۔
”اسے فوراً مار دو۔۔!“ وہ بے اختیار بولا۔
”بس ابھی لو!“ ایک عجیب سی مسکان کارلوس کے چہرے پر پھیل گئی۔ جیسے اس کی روح کو طمانیت مل گئی ہو، جیسے اس کی دیرینہ آرزو پوری ہو رہی ہو۔۔ یا اسے مکمل سرشاری مل چکی ہو۔
اس نے پورے اطمینان سے تیسرا پنجہ کاٹا اور دوبارہ چند لمحوں کے لیے اسے آگ میں ڈال دیا۔ چوہے کی چیخیں گویا گارشیا کے کانوں کے پردے پھاڑ رہی تھیں۔ اس کا کم زور وجود جلنے کی وجہ سے بل کھا رہا تھا، ایک لمحے کے لیے گارشیا نے اپنی آنکھیں ہی بند کر لیں اور اس کا دل چاہا کہ وہ کارلوس کا ہاتھ روک لے مگر کارلوس کے چہرے پر درشتی اور شیطنت دیکھ کر اس کی ہمت ہی نہ ہوئی۔
کارلوس نے اطمینان سے چوتھا پنجہ کاٹا، اسے دوبارہ آگ میں بھونا اور باہر نکال لیا۔ ادھ جلے چوہے کی سسکاریاں اب دم توڑ رہی تھیں۔ گارشیا نےاس لمحے کارلوس کے چہرے پر نظر ڈالی۔
اس کے چہرے پر غصہ تھا نہ نفرت۔۔ اس کے چہرے پر ایسی کیفیت تھی، جیسے وہ اپنا من پسند نغمہ سن رہا ہو، ایک نوع کی تازگی اور کسی بہت بڑی کام یابی کا تاثر آ رہا تھا۔۔ جیسے ایک مصور ایک شاہ کار کو مکمل کر رہا ہو۔ اس وقت کارلوس ہر چیز سے بے نیاز ہو چکا تھا، گارشیا سے بھی۔۔۔ آخر اس نے آرام سے ادھ مرے چوہے کی گردن کاٹی اور اسے پلیٹ میں ڈال دیا۔ پھر اس نے آرام سے پلیٹ کے گرد پھیلے فضلات پلیٹ میں ڈالے اور پلیٹ کو ایک کچرے دان میں ڈال دیا۔ طمانیت اور سرشاری کے عالم میں کھڑا ہوا اور گارشیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بناوٹی غصے میں بولا: ”اس مردود نے میرے بہت قیمتی کاغذ کتر دئیے تھے، اسے سزا ملنی ضروری تھی۔“
انتہائی سرد مزاجی سے کسی کو سزا دینا، دوسروں کو اذیت میں دیکھ کر راحت کا احساس ہونا، لذت حاصل کرنا، یہ ہے اس آدمی کا من بھید۔۔۔ گارشیا کے ذہن میں کیسے جھماکے ہونے لگے۔ اسے یاد آیا کہ گاویریا کی مرہم پٹی کے وقت بھی وہ اسے غور سے دیکھ رہا تھا، ہسپتال میں زخمیوں کی دیکھ بھال، اور پھر مرہم پٹی میں تو اس کی خصوصی مہارت۔۔ وہ دوسروں کو اذیت میں دیکھ کر قلبی طمانیت حاصل کرتا تھا۔
کچھ دیر بعد جب ماریا لوئیسا دوبارہ کمرے میں داخل ہوئی تو وہ پورے سکون کے ساتھ اس کی طرف بڑھا اور اس کے دونوں ہاتھ تھام کر بولا، ”بزدل۔“ پھر گارشیا کی طرف مڑا اور بولا، ”کیا تمہیں علم ہے کہ یہ بے ہوش ہونے لگی تھی۔۔“
ماریا لوئیسا نے آہستگی سے اپنے ہاتھ چھڑائے اور لرزیدہ بدن کے ساتھ جا کر کھڑکی میں بیٹھ گئی اور اون بُننا شروع کر دی۔ اس کے ہاتھ ابھی تک کانپ رہے تھے۔ کارلوس آرام کرسی پر بیٹھ کر چھت کی طرف دیکھنے لگا اور گارشیا گاہے گاہے اپنے ناخنوں کو دیکھنے لگا۔ کمرے میں مہیب سناٹا طاری تھا اور یہی وہ لمحہ تھا، جو کہانی کے آغاز میں بیان ہوا تھا۔
کچھ دیر بعد وہ کھانے کے کمرے میں آ گئے اور اسی بدمزہ سی خاموشی کے ساتھ کھانا کھانے لگے۔ ماریا لوئیسا کھانے کے دوران مسلسل کھانس رہی تھی۔ ڈاکٹر کے بد ترین اندیشوں کی تصدیق ہو گئی۔ ماریا لوئیسا کو تپ دق تشخیص ہوئی اور کارلوس کے پیسا پانی کی طرح بہانے کے باوجود کچھ افاقہ نہ ہوا۔ کارلوس واقعی ماریا سے بے حد محبت کرتا تھا۔ اس نے ہر ممکن کوشش کی، کئی ڈاکٹر بدلے، دوسرے شہروں میں بھی گیا، جس جگہ سے علاج کی امید ہوئی، وہ وہاں پہنچا مگر بے سود۔۔۔ وہ ماریا لوئیسا کے آخری وقت تک اس کے ساتھ موجود رہا۔ اپنی بے رحم سرد آنکھوں سے ماریا لوئیسا کے بیمار وجود پر نظریں جمائے، بغیر کسی تاثر کے، بس خاموشی سے اس کے نیم مردہ وجود کو مرتے دیکھتا رہا۔۔ یہاں تک کہ ماریا لوئیسا ایک رات اسے چھوڑ کر ابدی سفر پر روانہ ہو گئی۔۔
اس کی تدفین اگلے دن ہونا تھی۔ کارلوس سخت تھک چکا تھا۔ گارشیا نے اسے کہا کہ وہ سو جائے، وہ گاہے بگاہے اس کمرے میں چکر لگاتا رہے گا۔ کارلوس ساتھ والے کمرے میں جا کر لیٹ گیا۔ لیٹتے ہی آنکھیں بند ہو گئیں اور وہ سو گیا۔ ٹھیک بیس منٹ بعد اس کی آنکھ کھُل گئی۔ اس نے دوبارہ سونے کی کوشش کی مگر اسے نیند نہ آئی۔ وہ خاموشی سے اٹھا اور ماریا والے کمرے کی طرف بڑھا۔ دروازے کا بڑا حصہ شیشے کا بنا ہوا تھا۔ اندر کا منظر دیکھ کر وہ جیسے جم سا گیا۔
گارشیا ماریا لوئیسا کی لاش کے پاس کھڑا تھا۔ اس نے آہستگی سے اس کے چہرے سے کپڑا ہٹایا۔ کچھ دیر تک وہ اس کے چہرے کو دیکھتا رہا، پھر اس کی پیشانی چوم لی۔ گارشیا غم کی شدت کو مزید برداشت نہ کر سکا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے۔ ٹپ ٹپ آنسو برس رہے تھے اور ماریا لوئیسا کے خوش نما مگر بے جان وجود کو بھگو رہے تھے۔۔
کارلوس سکون کے ساتھ اسے دیکھے جا رہا تھا۔ اس کی آنکھیں گارشیا پر جمی ہوئی تھیں۔ سرد آنکھیں، جن میں نفرت تھی نہ غصہ۔۔ وہ بس اپنے ہونٹ چباتا رہا اور گارشیا کی حالت دیکھ کر حظ اٹھاتا رہا، جس کے غم کی معیاد طویل تھی، طویل مگر پُر لذت۔۔۔