سندھو بتاتا ہے ”آج کئی ہزار سال گزرنے کے بعد پاکستان اور بھارت دونوں کو ہی سندھو کے پانی میں کمی کا گلہ ہے۔ پانی کا یہ قدرتی ذخیرہ کتنی تیزی سے کم ہو رہا ہے کوئی بھی درست اندازہ لگانے میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔ اگر پاکستان میں سندھ اور پنجاب واسی تمھارے دوست سندھو کے پانی پر تحفظات رکھتے ہیں تو کچھ ایسے ہی جذبات بھارتی پنجاب اور ہریانہ والے دریائے راوی کے پانی کے حوالے سے بھی رکھتے ہیں۔ پانی کے حوالے سے آنے والے وقت میں تمھارے ملکوں پر کتنا کڑا وقت آنے والا ہے اس کا اندازہ تمھیں نہیں ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ کشمیر پر کنٹرول کی پاک بھارت کوششیں دراصل ان دریاؤں کے پانی پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش ہی ہے اور شاید یہ غلط بھی نہیں ہے۔“
”مصر،دریائے نیل اور پاکستان سندھو کی بخشش ہیں۔“
ہیروڈوس
سندھو کے گرد بسنے والے لوگ اسے عظیم دریا مانتے ہیں۔ اس کے غضب سے خوف زدہ اور اس کی پرسکونیت کے متمنی رہے ہیں۔ اپنے آغاز سے ڈیلٹا تک سندھو مکمل تہذیب، ثقافت اور رسم و رواج کو پروان چڑھاتا انڈس ویلی تہذیب کا امین ہے۔ دنیا کا شاید واحد دریا ہے جس کے نام پر تہذیب پروان چڑھی اور یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ دنیا کی سب سے قدیم تہذیب (مہر گڑھ) بھی اسی کے کنارے پلی بڑھی۔ پرانے دور میں بھی یہ لوگوں، بستیوں، قصبوں کا امین تھا آج بھی اس کے کناروں پر کچھ زیادہ نہیں بدلا ہے۔ اُس دور میں بھی لاکھوں لوگوں کا روزگار اس سے وابستہ تھا تو آج بھی ایسا ہی ہے۔ ہاں اگر کچھ تبدیل ہوا ہے تو اس کے کناروں پر رونق کچھ کم ہو گئی ہے۔ پہلے گھاٹ تھے جہاں لوگ آزادی سے نہاتے، مستورات کپڑے دھوتی اور لوگ سندھو کے آر پار آیا جایا کرتے تھے۔ اب گھاٹ قریباً قریباً اجڑ گئے ہیں۔ اس کے کنارے نہانے، کپڑے دھونے اور باتیں سننے اور سنانے کا دور شاید گزر گیا ہے۔ سندھو کی روانی بھی کمزور ہو گئی ہے۔ ہزاروں کلومیٹر میں پھیلا اس کا ڈیلٹا بھی سکڑ کے ننھا سا رہ گیا ہے۔ پانی گدلا ہو گیا ہے اور اس کی مقدار کم ہو گئی ہے۔ اس کے پیٹ میں زندگی بھی سکڑ گئی ہے۔ اس کی محبوب اور مخصوص بلائینڈ ڈولفن بھی کم ہو گئی ہے۔ اس کے پانیوں پر آبی مہمان پرندے بھی کم اترنے لگے ہیں۔ وقت اور تغیر زمانے نے شاید اس کو بھی بوڑھا کر دیا ہے۔
ڈیلٹا کے قریب کا رہائشی کرم دین (کرمو) جوخود بھی عمر کی دسویں دھائی دیکھ رہا ہے، بتاتا ہے؛ ”کبھی یہ شیروں کی طرح سمندر میں اترتا تھا اب سو میل اپ اسٹریم دیکھو اس کی روانی کتنی کمزور ہو گئی ہے، لگتا ہے رینگ رہا ہو۔ بیٹا! یہ بھی میری طرح بوڑھا ہو گیا ہے۔میرے چہرے کی طرح اس پر بھی جھریاں اتر آئی ہیں۔ تم ڈیلٹا دیکھو کتنا خشک ہے۔بیٹا! شاید یہ ہم سب سے ناراض ہو گیا ہے۔ ہم سب نے مل کر اسے بوڑھا اور کمزور کر دیاہے۔“ کرمو بابا سچ ہی کہتا ہے۔ میں نے مڑ کر سندھو کو دیکھا، اس کی ہلکی سے لہر کرمو بابا کی بات کی تصدیق کر رہی ہو جیسے۔۔
سندھو کے کنارے سکندر کے ہاتھوں پورس کی ہی نہیں بلکہ وقت کے ہاتھوں معاشرے کی بھی تقدیر بدلی ہے۔ تاریخ میں جہاں کسی بات کی شہادت نہیں ملتی، وہاں سنی سنائی بات توجہ چاہتی ہے۔ تاریخ کے ساتھ عجب معاملہ رہا ہے کہ اس کی 2 داستانیں ہوا کرتی ہیں۔ ایک وہ جو تاریخ کی کتابوں میں رہا کرتی ہے اور دوسری جو سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی ہے۔ ان داستانوں میں البتہ کتنا سچ ہے، الگ بات ہے۔ قدیم دور میں سندھو پر لکھی گئی تحریریں، جو ہم تک پہنچی ہیں ان میں یونانی، چینی اور رومی مورخین نے جو کچھ لکھا ہے، عمدہ ہے مگر اس میں جغرافیائی معلومات بہت کم ہیں۔
یونانی سیاح ’میگاس تھینیز‘ جو سکندر یونانی کے ہندوستان پر حملہ کے بیس (20) سال بعد بھارت آیا، لکھتا ہے؛ ”سندھو نے ایک بڑا جزیرہ ’پراسیاں‘ بنا لیا ہے جبکہ ایک چھوٹا جزیرہ اور بھی ہے پٹالہ“۔
اس جزیرے کے محل و وقوع کے حوالے سے ایک اور یونانی مورخ ’کرٹیکس‘ بیان کرتا ہے کہ مقامی راجہ کو زیر کرنے کے بعد سکندر نے یہاں اپنی فوج تعینات کی۔ اس نے بھی اس جزیرے کو ’پراسیا‘ کا نام دیا ہے۔ وہ سندھو کی بہت سی شاخوں کا بھی ذکر کرتا ہے
مورخ ’آریان‘ کے مطابق؛ ”سندھو کا ڈیلٹا پٹالہ کا شہر تھا اور سندھو کی دونوں شاخیں سندھو ہی کہلاتی تھیں۔ اس دور میں ڈیلٹا کی سمندری حدود کیا تھیں، زیادہ معلومات نہیں ہیں لیکن سندھو کی بائیں شاخ ’گنجو ٹکر‘ (موجودہ حیدرآباد) کے مشرق سے بہتی تھی۔ اس علاقے میں مکلی کا پہاڑی سلسلہ بھی تھا۔ سندھو مغربی پٹی سے بہہ کر ہی سمندر میں اترتا تھا۔ مکلی یا پیر مٹھو کی پہاڑیاں اس کا جنوبی سرا ہیں۔“
اس بیان سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت ڈیلٹا کی حدود مکلی یا پیر مٹھو سے آگے نہ تھیں۔ پیر مٹھو سے جنوب مشرق میں ڈیڑھ میل لمبا اور آدھ میل چوڑے ٹکڑے پر پہاڑیوں کا ایک سلسلہ ہے ان میں سب سے بلند پہاڑی صرف پچھتر (75) فٹ اونچی ’ابن شاہ‘ کے نام سے مشہور ہے۔ کھردرے ریتلے پتھروں پر مشتمل سندھو کے جنوب میں یہ آخری چٹان ہے۔ سینکڑوں سال سے سندھو پیرمٹھو اور اس کی قریبی پہاڑیوں کے درمیان سے بہہ رہا ہے اور اس کا ڈیلٹا بھی اس مقام سے چند میل ڈاؤن اسٹریم شروع ہوتا ہے۔ سمندری حدود بھی اسی پہاڑی تک تھیں۔ اس جگہ دریائی مٹی کا میدان سمندر کی سطح سے ذرا بلند ہے۔ عین ممکن ہے مٹی کا یہ میدان کئی ہزار سال کی پیداوار ہو۔ ’گھارو‘ یہاں سے دس(10) میل دور ہے۔ جگہ جگہ مٹی اور ریت کے ٹیلے ہیں جن کی اوسط بلندی سطح سمندر سے زیادہ سے زیادہ بیس (20) فٹ ہے۔“
یونانی ایک قدیم نقشے ’اندو سیتھیا‘ کا بھی ذکر کرتے ہیں، جن میں سندھ کے بہت سے شہروں کا ذکر ہے لیکن بد قسمتی سے اس نقشے میں بیان کردہ مقامات اور جگہوں کی شناخت اب ممکن نہیں ہے۔ ابن بطوطہ نے بھی اپنے سفر نامے میں کچھ شہروں کا ذکر کیا ہے مگر شاید ہجے درست نہ ہونے کی وجہ سے ان شہروں کی شناخت بھی ممکن نہیں رہی ہے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔