خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں اسٹریٹ کرائمز کے ساتھ ساتھ شہریوں کو لوٹنے کے لیے ایک اور طریقہ واردات بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایسی وارداتیں کرنے والوں کو پولیس کی جانب سے ’ٹیکسی گینگ‘ قرار دیا گیا ہے
ٹیکسی گینگ سواریوں کو دوران سفر قیمتی اشیاء سے محروم کر دیتے ہیں۔ ڈرائیور نظر آنے والے یہ لوگ بظاہر تو ٹیکسی چلاتے ہیں مگر ان کا روزگار چوری اور جیب تراشی ہے
پشاور کے ٹیکسی گینگ میں جیب تراشی کا ایک متحرک نیٹ ورک موجود ہے، جو شہریوں کو گاڑی کے اندر ہی بے دھیانی میں لوٹتے ہیں
ان کا شکار ہونے والوں میں نوجوان قاضی حماد بھی شامل ہیں ، جو ان جیب کتروں سے دھوکا کھا کر قیمتی موبائل فون سے ہاتھ دھو بیٹھے
قاضی حماد نے بتاتے ہیں ”میں نے اسلام آباد سے پشاور اڈے پہنچ کر ٹیکسی لی۔ میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا اور پچھلی سیٹوں پر دو اور افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ سفر کے دوران ڈرائیور کو کال موصول ہوئی اور اس نے پریشانی کی کیفیت ظاہر کر کے ہمیں کہا کہ میں آپ کو آپ کی منزل تک نہیں پہنچا سکتا کیونکہ میرے گھر میں ایمرجنسی ہے اس لیے آپ اتر جائیں“
حماد کہتے ہیں ”ڈرائیور نے گاڑی سائیڈ پر روکی اور ہم دو افراد رنگ روڈ پر اتر گئے۔ آگے جا کر جب میں نے کال ملانے کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالا تو موبائل موجود نہیں تھا، مجھے پتا ہی نہیں چلا اور میری پینٹ کی جیب سے موبائل نکال لیا گیا تھا“
پشاور میں نجی بینک کے ملازم ارشد حسین کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ جب وہ رنگ روڈ سے گھر جارہے تھے، تو پیچھے بیٹھی خاتون کی طبیعت بگڑ گئی۔ گاڑی کو روک کر ڈرائیور نے گاڑی موڑنے کا کہا اور انہیں راستے میں اتار دیا، گاڑی سے اترنے کے بعد انہیں پتا چلا کہ موبائل فون اور پرس نکال لیا گیا ہے
ارشد حسین کے مطابق وہ خاتون اس ڈرائیور کے ساتھ ملی ہوئی تھی
ٹیکسی میں واردات کرنے والے ان جیب کتروں کے بارے میں ایس پی رورل ظفر احمد کا کہنا ہے کہ یہ ایک منظم گینگ ہے، جس میں خواتین اور بچے بھی استعمال کیے جاتے ہیں، جبکہ ان کا سرغنہ ڈرائیور ہوتا ہے۔ یہ جیب کترے جب اپنے شکار کو گاڑی میں بٹھاتے ہیں تو پہلے اس کے دھیان کو ہٹانے کے لیے ڈراما کرتے ہیں
انہوں نے کہا کہ بیشتر واقعات میں بچے یا خاتون کی طبیعت کو ناساز قرار دے کر سواری کے سامنے ایمرجنسی ظاہر کرتے ہیں اور دھیان بٹا کر جیب سے اچانک موبائل یا پیسے نکال لیے جاتے ہیں
ایس پی رورل ظفر احمد کے مطابق رواں سال صرف چمکنی تھانے کی حدود میں سات ایسے واقعات رپورٹ ہوئے، جبکہ دو واقعات خزانہ پولیس اسٹیشن کی حدود میں ہوئے۔ ان واقعات میں سات کیسز کو کامیابی سے ٹریس کرکے 15 سے زائد ملزمان گرفتار کیے ہیں
انہوں نے بتایا کہ ٹیکسی کی وارداتوں میں گرفتار ملزمان سے پانچ لاکھ روپے نقد اور موبائل فون برآمد کیے گئے ہیں
شہریوں میں عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ جیب کتروں کے پاس کوئی جادُو ہے۔۔ اس بارے میں ایس پی سٹی طیب جان نے موقف اپنایا کہ اس گینگ کے لوگ اس قدر صفائی سے جیب کاٹتے ہیں کہ شہری کو پتا بھی نہیں چلتا۔ ”ان جیب کتروں کے پاس جادو ہے یا کوئی اور چیز جس سے دھیان ہٹ جاتا ہے۔“
انہوں نے بتایا کہ واردات کے دوران کوئی نشہ آور چیز نہیں دی جاتی نہ ہی اسلحے کا استعمال کرتے ہیں بلکہ یہ ہوش کی حالت میں ہی اپنا کام کر جاتے ہیں
ایس پی سٹی کے مطابق پشاور شہر میں اس گینگ نے تین سے چار وارداتیں کی ہیں، جبکہ کچھ روز قبل تھانہ رحمان بابا کی حدود میں ایک ملزم گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ گینگ اڈے کے آس پاس کارروائی کرتے ہیں کیونکہ ان جگہوں سے ان کو سواریاں زیادہ ملتی ہیں۔