کراچی میں زیرِ تعمیر بحریہ ٹاؤن اور سندھ کا مستقبل (قسط 4)

گل حسن کلمتی

6- بحریہ ٹاؤن جہاں بن رہا ہے وہ پوراعلاقہ پہاڑی اور سرسبز ہے، جہاں بڑے بڑے پہاڑ پانی کے بہاؤ اور کہیں کہیں گھنے جنگلات بھی ہیں ۔ بحریہ ٹاؤن منصوبے کی وجہ سے پہاڑوں کوختم کیا جار ہا ہے ۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق 55 فٹ سے زائد کسی بھی پہاڑ یا چوٹی کو تو ڑا نہیں جا سکتا۔ بحریہ ٹاؤن میں آنے والے علاقے میں ایسی سینکڑوں چوٹیاں ہیں جو 700 سے 1000 فٹ تک ہیں ۔’’پاہوارو“ پہاڑی سلسلہ جس کا ذکر شاہ عبداللطیف بھٹائی نے بھی کیا ہے ، جہاں بھٹائی کا آستانہ بھی تھا۔ ’’بولھاڑی‘‘ پہاڑی سلسلہ ’مرکئی‘‘ پہاڑی سلسلہ اس علاقے میں ہیں جو سب ختم کر کے یہاں رہائشی منصوبہ تعمیر کیا جائے گا۔ بحریہ ٹاؤن فیز1جہاں بنا ہوا ہے وہاں دو بڑی ندیاں اور پرنالے کی ندی میں جا گرتے تھے۔ انہیں مکمل طور پر ختم کر کے ان پر فیز1 بنایا گیا ہے ۔ بارشوں کے بعد پانی کے بہاؤ بند کئے گئے ہیں تو یہ پانی کوئی نہ کوئی راستہ اختیار کرے گا جس سے بڑی تباہی آنے کا خطرہ پیدا ہوگا۔ یہ سب کچھ تحفظ ماحولیات ایکٹ کی صریح خلاف ورزی ہے ۔ اس عمل پر تحفظ ماحولیات، محکمہ تحفظ جنگلی حیات اور محکمہ تحفظ معدنیات خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔ پورے علاقے میں درخت کاٹنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ پہاڑوں کو ختم کیا جار ہا ہے ، جس کے ماحولیات پر خطرناک اثرات پڑتے ہیں ، جس کا حالیہ خمیازہ کراچی میں شدید گرمی کے باعث 13 سو افراد سے زائد لوگوں کی اموات کی صورت میں آپ ملاحظہ کر چکے ہیں ۔ قدرت و فطرت دونوں کو چیلنج کیا گیا ہے ۔ فطری ماحول کی اس تباہی سے علاقے میں زلزلے کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے ۔ یہ پورا علاقہ کراچی شہر کے ساحل تک زلزلے والی پٹی پر واقع ہے۔

اس نقشے میں 2004 اور 2019 کا موازنہ دیکھایا گیا کہ کس طرح بحریہ ٹاؤن کراچی کس طرح فطرت کش ثابت ہو رہا ہے
اس نقشے میں 2004 اور 2019 کا موازنہ دیکھایا گیا کہ کس طرح بحریہ ٹاؤن کراچی کس طرح فطرت کش ثابت ہو رہا ہے

7- 1972ع میں سندھ وائیلڈ لائف پروٹیکشن آرڈنینس 1972ء کے تحت اسے محفوظ پناہ گاہ قرار دے کر حجر و شجر اور جنگلی حیات کے شکار پر پابندی عائد کر کے سیکنچری (Sanctuary) قرار دیا گیا ہے ۔ بعدا زاں اس سیکنچری کو 1974ء میں حکومت سندھ کے نوٹیفکیشن نمبر 74 ( 993-WLRFT (SO-I-DCF کے تحت نیشنل پارک میں تبدیل کیا گیا۔ جن دیہوں میں اس وقت بحریہ ٹاؤن کا کام چل رہا ہے، وہ بھی اس نوٹیفکیشن کے تحت نیشنل پارک کے سپورٹ ایریا میں آتے ہیں جہاں شکار کرنے ، درخت کاٹنے یا کسی بلند و بالا عمارت کی تعمیر پر پابندی ہے ۔

اس پورے علاقے کو جب بحریہ ٹاؤن کو الاٹ کیا گیا تو سندھ وائیلڈ لائیف پروٹیکشن ایکٹ کو بھی نظر انداز کیا گیا۔ محکمہ تحفظ جنگلی حیات بھی اس پورے عمل میں خاموش ہے ۔ دوسری جانب ان علاقوں سے اگر کوئی باگڑی ، شکاری یا خانہ بدوش، پرنده پھنساتا یا کوئی شخص درخت کاٹتا تھا تو گیم انسپکٹر انہیں گرفتار کرتے تھے، لیکن اتنی بڑی تباہی پر وہ خاموش ہیں ۔ جب بحریہ ٹاؤن اپنے فیر3 پر عمل شروع کرے گا تو یہ پورا علاقہ بھی ضلع ملیر کا ہوگا جس میں درج ذیل دیہیں متاثر ہوں گی جن میں لسر، بھاڈ ، جھونجھار ، تراڑی، مہیر جبل ، وان کنڈ ، سوندھی کنڈ ، جھنگ کنڈ ، شور کنڈ ، موئیدان ، کھار ، شور ینگ اور لٹھ کرمتانی شامل ہیں حکومت سندھ نے اپنے نوٹیفکیشن نمبر 26 PS /SMBR/BOR/KAR/430 dated 2013 December کے تحت، جو 43 دیہیں ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے حوالے کی ہیں ، ان میں مذکورہ بالا دیہیں بھی شامل ہیں۔یہ دیہیں پہلے ہی 4791ء میں حکومت سندھ کے نوٹیفکیشن نمبر 74(9993 -WLRFT (SO- I- DCF کے تحت کھیرتھر نیشنل پارک میں شامل کردہ ہیں، جہاں کھار سیکنچریSantuary  ہے ۔ کھیرتھر نیشنل پارک اور سندھ وائیلڈ لائیف پروٹیکشن آرڈنینس 1972 اور بعد ازاں 1974 مذکورہ بالا نوٹیفکیشن کے ذریعے پورے علاقے کو نیشنل پارک قرار دیا گیا جہاں ہرقسم کی تعمیرات پر پابندی ہے ۔ یہ علاقے حکومت سندھ نے کیسے 2013ع میں ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو الاٹ کئے ہیں اور ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی یہ زمینیں بحریہ ٹاؤن کو کس قانون کے تحت الاٹ کر کے دے رہی ہے؟ بحریہ ٹاؤن ایک بلڈر ہے نیشنل پارک کی یہ زمیں ایم ڈی اے کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کو الاٹ کرنا تو اپنی جگہ، خود ایم ڈی اے کے حوالے کرنا بھی وائیلڈ لائیف ایکٹ کی کھلی خلاف ورزی ہے.

یہ اس پورے خطے میں نایاب اور قیمتی جانوروں اور پرندوں کی نسل کی افزائش والے علاقے ہیں۔ یاد ر ہے کہ کھیرتھر نیشنل پارک 11992 مربع میل پر محیط ہے ۔ پارک کا ایک تہائی حصہ کراچی کے ضلع ملیر کے مذکورہ بالا دیہوں پر مشتمل ہے۔ کھیرتھر نیشنل پارک پاکستان کا واحد نیشنل پارک ہے جو سب سے بڑا ہے اور 1975 میں اقوام متحدہ کے نیشنل پارکس کی عالمی فہرست میں شامل کیا گیا ہے ۔ اس پارک کی خصوصیت یہ ہے کہ اس پارک میں دنیا کے نایاب قسم کے دو جانور سندھ آئی بکس (پہاڑی بکرا) اور گَڈ (پہاڑی بھیڑ) اڑیال ہزاروں کی تعداد میں پئے جاتے ہیں جو ضلع ملیر کے مذکورہ بالا علاقوں میں سینکڑوں کی تعداد میں موجود ہیں اور اس پہاڑی بھیڑ کے پینے والی جگہ گڈ +آب (معنی گڈ کے پانی پینے والی جگہ کے باعث گڈ آب والا علاقہ معروف ہے جو اب گڈ آب سے بگڑ کر گڈاپ ہو گیا ہے۔)

یہ تصویر سنگت بلوچ نامی فیس بک صارف نے 2016 میں پوسٹ کیا تھا۔ سنگت بلوچ کے مطابق یہ تصویر 2014 میں کھینچی گئی ہے۔ جہاں اب بحریہ ٹاؤن کراچی کا ایفل ٹاور ہے

بحریہ ٹاؤن اور ملیر ڈیولپمنٹ کی ترقی کے نام پر یہ نایاب جانور ہمیشہ کے لئے ناپید اور معدوم ہو جائیں گے ۔ یہ عمل ملکی قوانین کے ساتھ بین الاقوامی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے ۔ مہیر پہاڑ کے علاقے میں عراق سے آنے والا ایک پرندہ Hypocolus ہے جو عراق کے علاوہ دیگر ٹھنڈے علاقوں میں ہوتا ہے ، جس کی یہاں سیکنچری ہے، جہاں وہ انڈے دے کر بچے ہونے تک یہیں قیام کرتا ہے ،اس کے بعد واپس ہوتا ہے۔ یہ سینکچری بھی تباہ ہوگی۔

8- بحریہ ٹاؤن کے فیز1 اور فیز2 میں درج ذیل گوٹھ آجاتے ہیں ۔

دیہہ لنگھیجی میں
(1) نورمحمد گبول (2) فیض محمد گبول (3) محمد گبول (4) امام بخش گبول (5) عثمان اللہ رکھیو گبول (6) ارباب گبول (7) علی داد گبول (8) دریا خان گبول (9) کھیرتھر گبول (10) علی محمد گبول (11) نبی بخش گبول (12) علی دادگبول (13) جمعہ موریو گبول (14) آدم گبول (15) ارباب سکھیو گبول (16) جمعہ گبول (17 ) امیر بخش گبول (18) حاجی پیر محمد گبول (19) نواز علی گوندر (20) ڈیپار گوندر (21) سکیلدھو گوندر (22) میر خان گوندر (23) ر ب نواز گوندر (24) روزی گوندر (25) نوشیروان گوندر

دیہہ حد رواہ میں
(26) بیدی گوندر (27) پار پیو گوندر (28) رمضان گوندر

دیہہ کونکر میں
(29) برکت گبول (30) گولوگبول (31) حاجی قاسم (32) گبول پیر بخش گبول (33) حاجی بابو گبول (34) حاجی صدیق گبول (35) چاکر گبول (36 ) حاجی بابوگبول (37) حاجی صدیق گبول (38) ساجن گبول (39) برکت گبول (40) محمد گبول

دیہہ کاٹھوڑ میں
(41) امیر بخش کا چھیلو (42) لعل محمد کا چھیلو (43) ہادی بخش گبول (44) عبدالکیم گبول (45) صدیق گبول

یہ تمام قدیم گوٹھ ہیں ۔ان کے گزربسر کا وسیلہ اوپر بیان کر آۓ ہیں کہ یہ زراعت، پولٹری فارمنگ کرنے والے اور مال مویشی پالنے والے لوگ ہیں ۔ زمینیں حاصل کر کے ان کا روزگار تو ختم کیا گیا، لیکن ان 44 گوٹھوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ یہ یہاں سے بے دخل کئے گئے تو کہاں جا کر پناہ لیں گے؟ یہ سب گوٹھ ، گوٹھ آباد اسکیم کے تحت سند یافتہ گوٹھ ہیں جہاں پرائمری اسکول میں جن میں بچے تعلیم حاصل کرر ہے ہیں ۔ کروڑوں روپے سے تیار کردہ ان عمارتوں کا کیا ہوگا ؟ بچوں کا مستقبل کیا ہوگا ؟ یہاں دیہاتیوں کے آبائی قبرستان ہیں ۔ان کا کیا ہوگا ؟ سواۓ تباہی و بر بادی کے ان سوالات کے کوئی جوابات نہیں. ان گوٹھوں میں حکومت کی طرف سے کچھ واٹر سپلائی اسکیمیں ، ہیڈ پمپ اور لوگوں کی اپنی واٹرسپلائی اسکیمیں ہیں ۔ یہ سب بحریہ ٹاؤن میں آنے کے باعث گوٹھوں سمیت یہ سب کچھ ختم ہو جاۓ گا۔

یہ نقشہ سنگت میگ کو سندھ انڈیجینس رائٹس الائنس نے فرائم کی ہے

9۔ جہاں بحریہ ٹاؤن کا منصوبہ فیز1 اور فیز2 زیر تعمیر ہے وہاں چار بڑے پرانے راستے ہیں ۔ایک راستہ سیوہانی سڑک کہلاتی ہے، جو کراچی سے ناراتھر ، رادھو جوکھیو سے ہوتے ہوۓ ان علاقوں سے گزر کر مول اور سیوہن تک جاتی ہے جو آج بھی زیراستعمال ہے ۔ مول اور آس پاس کے دیہاتی کراچی آنے کے لیے اس سڑک کو استعمال کرتے ہیں ۔ ایک راستہ گڈاپ سے تھدھو ڈیم سے ہوتا اوپری سڑک سے ملتا ہے اور کراچی کے راستے تک کی سڑک ہے ۔ دوسرا راستہ کونکر سے لنگھیجی  ، یہاں سے کاٹھوڑ اور آگے کوہستان تک جاتا ہے ۔ کاٹھوڑ ، گڈاپ اور کونکر کے آس پاس بسنے والے سینکڑوں دیہاتی روزانہ اس راستے سے سفر کر تے ہیں جہاں سے ٹھٹہ، گھارو، در سانو چھنو بھی قریب ہونے کے باعث یہ سڑک استعمال کرتے ہیں ۔ تیسری مومتانی والی سڑک ہے جو گھارو سے گڈاپ اور آگے وندر اور کیچ مکران تک جاتی ہے۔ سسئی بھی اسی راستے سے پاہوارو پہاڑ سے ہوتے ہوۓ آگے چل کر ناراتھر سے وندر کی طرف گئی تھی ۔ چوتھا راستہ کاٹھوڑ سے لنگھیجی ندی پار کر کے نوازعلی گوندر گوٹھ سے بولھاڑی پہاڑ سے نوشیروان اور روزی گوٹھ کے قریب مول گڈاپ والے راستے کو پار کر کے گنداکو سے مہیر جبل اور کنڈ سے دریجی جاتا ہے ۔ ان چار بڑے آمدورفت والے راستوں کے کنارے آبادیاں ، آثارقدیمہ اور قبریں اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ راستے قدیم زمانے سے زیر استعمال ہیں۔ بحریہ ٹاؤن سے یہ سب راستے اور پگڈنڈیاں بند ہو جائیں گے ۔اس وقت دو راستے کونکر سے فارسی گارڈن تا کاٹھوڑ (موتمانی راستہ اور کونکر گڈاپ سے للَو پڑ سے کاٹھوڑ والے راستے بحریہ ٹاؤن انتظامیہ نے بند کر دیے ہیں، جس کے باعث یہاں کے لوگوں کی آمدورفت پر بڑا اثر پڑا ہے ۔اب یہ لوگ بڑا چکر کاٹ کر سپر ہائی وے ٹول پلازہ سے کاٹھوڑ ، درسانو چھنو ، گھارو اور ٹھٹہ کی طرف جاتے ہیں ۔ ٹول ٹیکس بھی ان لوگوں کو الگ ادا کر نا پڑتا ہے ۔ ان راستوں سے چلنے پر پابندی لگائی گئی ہے ۔ بحریہ ٹاؤن کی طرف سے سیکیورٹی پولیس والے لوگوں کو روک کر بےعزتی اور ہتک کرتے رہتے ہیں ، جس سے جھگڑے کی صورت حال پیدا ہورہی ہے۔

جاری ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close