ملک کی دگرگوں معاشی صورتِ حال کے سبب پاکستان کی آٹو موبائل انڈسٹری بھی گراوٹ کا شکار ہے۔ جس کی وجہ سے ایک جانب تو گاڑیوں کی پیداوار میں کمی واقع ہو رہی ہے تو دوسری طرف ان کی قیمتوں میں سو فی صد تک اضافہ ہو چکا ہے
ان دنوں یہ بات گردش کر رہی ہے کہ آئندہ چھ ماہ میں گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی آ سکتی ہے۔ اس حوالے سے آٹو موبائل انڈسٹری اور حکومت سے منسلک ماہرین آئندہ چھ ماہ تک گاڑیوں کی قیمتیں کم ہونے کو روپے کی قدر سے مشروط کر رہے ہیں
آٹو موبائل انڈسٹری سے منسلک اور ڈیلرز اینڈ امپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین میاں شعیب کا کہنا ہے ”ملک میں گاڑیوں کی قیمتیں کم ہونا بظاہر ممکن نہیں ہے“
تو آخر غیر مستحکم کرنسی گاڑیاں سستی نہ ہونے کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ اس بارے میں میاں شعیب کہتے ہیں ”پاکستان کی کرنسی اس وقت مستحکم نہیں ہے۔ ملک میں گاڑیوں کی قیمتیں ڈالر کے ریٹ سے جڑی ہیں۔ گذشتہ دو سے تین سال کے دوران پاکستان میں گاڑیوں کی قیمتوں میں بڑے اضافے کی وجہ بھی روپے میں آنے والی گراوٹ تھی“
میاں شعیب کا کہنا ہے ”پاکستان کا آٹو موبائل سیکٹر 80 فی صد آٹو پارٹس درآمد کرتا ہے۔ مہنگے درآمدی آٹو پارٹس گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے کی دوسری بنیادی وجہ ہیں“
انہوں نے مزید کہا ”ملک میں بڑی آٹوموبائل کمپنیوں کی اجارہ داری اور ناقص حکومتی پالیسیوں کے سبب گذشتہ تیس برسوں سے آٹو انڈسٹری کے لیے مقامی سطح پر پلانٹس نہیں لگائے جا سکے“
پاکستان ڈیلرز اینڈ امپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین کا کہنا تھا ”مقامی سطح پر بڑی آٹو موبائل کمپنیاں ملک میں مقامی آٹو پلانٹس لگانے میں دلچسپی نہیں لے رہیں اور حکومت بھی اس معاملے میں خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا رہی“
دوسری جانب حکومتی ترجمان کے مطابق ملک میں گاڑیاں مزید مہنگی ہونے کے خدشات فی الحال کم ہیں، مگر قیمتوں میں کمی ڈالر کے سستا ہونے پر منحصر ہے
وزارت صنعت و پیداوار کے ذیلی ادارے انجینیئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ کے جی ایم پالیسی، ایڈمن اور کوارڈینیشن عاصم نیاز نے بتایا ”گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی یا اضافہ مارکیٹ بیسڈ ہے۔ ملک کی مجموعی معاشی صورتحال اور روپے کی قدر میں اتار چڑھاؤ گاڑیوں کی قیمتوں پر اثرانداز ہوتا ہے“
انہوں نے مزید کہا ”گاڑیوں کے پارٹس کو مقامی طور پر تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ملک میں آٹو انڈسٹری سکڑ گئی ہے۔ گاڑیاں کم تعداد میں بن رہی ہیں اس لیے پارٹس کو مقامی سطح پر تیار کرنا مشکل ہے تاہم دیرپا بنیادوں پر حکومتی پالیسیاں مقامی سطح پر آٹو پلانٹس لگانے کے لیے ہی بنائی گئی ہیں“
مہنگی گاڑیوں کی وجہ سے پاکستان کی آٹو انڈسٹری کی پیداوار میں بھی نمایاں کمی آئی ہے۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق ’تین سال کے دوران گاڑیوں کی مجموعی پیداوار میں 46.07 فیصد سے زیادہ کمی آئی ہے۔‘
اس ضمن عوام کے ذہن میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ پڑوسی ملک انڈیا میں گاڑیاں سستی کیسے ہیں؟
پاکستان کا مخلتف شعبوں میں عموماً انڈیا سے تقابلی جائزہ لیا جاتا ہے۔ پاکستان کہ نسبت انڈیا میں گاڑیاں سستی ہونے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے آٹو انڈسٹری سے وابستہ افراد نے بتایا کہ انڈیا کی مستحکم معیشت اور انڈین روپے کی مضبوطی کے سبب وہاں گاڑیاں پاکستان کی نسبت نصف قیمت پر دستیاب ہیں
اس کے علاوہ انڈیا میں آٹو موبائل کمپنیوں کے بڑے مقامی پلانٹس بھی گاڑیاں سستی ہونے کی وجہ ہیں
آٹو انڈسٹری کے کاروبار سے منسلک افراد کہتے ہیں کہ انڈیا گاڑیوں کے اسپیئر پارٹس باہر سے نہیں منگواتا، ملک کے اندر ہی گاڑیوں کے پارٹس بننے سے قیمتیں مستحکم رہتی ہیں۔ پاکستان کو گاڑیاں عام آدمی کی دسترس میں لانے کے لیے مستحکم معیشت، کرنسی اور آٹو پارٹس کی لوکلائزیشن پر مبنی متعارف کروانا ہوں گی۔