یورپ میں پناہ گزینوں کی آمد نے ریکارڈ توڑ دیے۔۔

ویب ڈیسک

ایک یورپی ایجنسی کے مطابق یورپ میں پناہ لینے والے افراد کی ماہانہ تعداد میں تیزی سے اضافے نے میزبان ممالک پر دباؤ مزید بڑھا دیا ہے۔ 2015ع کے بعد یورپ میں پناہ کی درخواستوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے

تفصیلات کے مطابق سیاسی پناہ سے متعلق یورپی ایجنسی (ای یو اے اے) نے کہا ہے کہ یورپ میں پناہ کی درخواستیں گزشتہ تقریباً سات سالوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔ اس سے قبل یہ صورتحال 2015ع میں دیکھی گئی تھی، جب شامی جنگ کی وجہ سے دس لاکھ سے زیادہ افراد نے پناہ کے حصول کے لیے یورپ کا رخ کیا تھا

اپنے ایک اعلامیے میں یورپی ایجنسی کا کہنا تھا ”مئی اور جولائی کے درمیان یورپی یونین پلس ممالک کو غیر معمولی طور پر زیادہ تعداد میں پناہ کی درخواستیں موصول ہونے کے بعد، اس رجحان میں تیزی آئی ہے۔‘‘
یورپی ایجنسی برائے سیاسی پناہ نے جولائی کے مقابلے اگست کے مہینے میں پناہ گزینوں کی درخواستوں میں سولہ فی صد اضافہ رپورٹ کیا ہے۔ ایجنسی کے اعدادو شمار کے مطابق یورپی اتحاد کے ستائیس ممالک میں، ناروے اور سوئٹزرلینڈ میں ساڑھے چوراسی ہزار افراد نے سیاسی پناہ کے لیے درخواستیں دیں جبکہ اسی دوران یورپی ممالک میں کسی نہ کسی قسم کے عارضی تحفظ حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے مزید اڑھائی لاکھ افراد میں سے تقریباً تمام کا تعلق یوکرین سے تھا

ایجنسی کے مطابق یہ تازہ اعدادو شمار سن 2015ع کے اواخر میں ریکارڈ کیے گئے اعداد و شمار کا نصف بنتے ہیں۔ ای یو اے اے کے بقول، 2022ع میں اب تک پانچ ملین سے زائد پناہ اور عارضی تحفظ کی درخواستوں کا اندراج کیا جا چکا ہے

شام میں جنگ اب بھی جاری ہے اور افغانستان میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد، افغان اور شامی باشندوں کا تناسب یورپ میں پناہ لینے والی دیگر قومیتوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے

اگست میں پناہ کی درخواستیں دینے والوں میں سے تقریباً ایک تہائی کا تعلق شام اور افغانستان سے تھا۔ اس یورپی ایجنسی کے مطابق اگست میں ان ممالک سے تنہا سفر کرنے والے بچوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھا، جو جولائی کے مقابلے میں تقریباً اٹھائیس فی صد زیادہ ہے

ایجنسی نے یہ بھی نوٹ کیا کہ ترکی، بھارت اور مراکش کے لوگوں کی طرف سے بھی پناہ اور تحفظ کی درخواستوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے

2014ع کے بعد اس سال اگست کے مہینے میں ترکی سے سیاسی پناہ کی اب تک کی سب سے زیادہ چھیالیس سو درخواستیں موصول ہوئیں

ایجنسی نے یورپی یونین کے ممالک پر اس حوالے سے پڑنے والے ‘دباؤ‘ سے خبردار کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار ’قومی وسائل پر دباؤ میں اضافے‘ کا اشارہ دیتے ہیں۔ جرمنی بھر کے علاقائی حکام نے کہا ہےکہ وہ زیادہ تر یوکرین سے پناہ کے متلاشیوں کی میزبانی کرتے ہوئے اپنی گنجائش کو پہنچ چکے ہیں

اگرچہ یورپی یونین کے حکام نے بارہا اپنی 2015ع کی مہاجرین سے متعلق پالیسیوں میں غلطیوں اور ناکامیوں کا اعتراف کیا ہے، لیکن اس نظام کو ٹھیک کرنے میں بہت کم پیش رفت ہوئی ہے۔ میزبانی کی سہولیات اور حکام پر دباؤ کے علاوہ، یہ موضوع یورپی سیاستدانوں کے درمیان ایک تقسیم کا سبب بھی رہا ہے

2015ع میں شامی پناہ گزینوں کی آمد نے یورپی یونین کے سب سے بڑے سیاسی بحران کو جنم دیا تھا، کیونکہ اتحاد کے رکن ممالک اس بات پر لڑ رہے تھے کہ پناہ گزینوں کی ذمہ داری کس کو لینی چاہیے۔ یورپی سیاستدان اس موضوع پر جھگڑتے رہتے ہیں، کچھ ممالک پناہ گزینوں کے ساتھ بدسلوکی کرنے کے حوالے سے خاص طور پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے دباؤ میں ہیں

حال ہی میں، اٹلی کی نئی دائیں بازو کی حکومت کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی جہازوں کو اپنی بندرگاہوں تک رسائی سے روکنے پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ یورپی یونین کے دیگر ممالک کے علاوہ نیدرلینڈز اپنے میزبانوں کی تعداد میں کمی کے لیے کوشاں ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close