لڑکا جن کھنڈروں کے پاس کھڑا تھا، وہ کبھی مرکزی بازار تھا۔ کچھ افراد انہی تباہ حال دکانوں کے ملبے پر عارضی دکانیں بنانے میں مصروف تھےاور وہ ان کو محویت سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے والد نے اسے کہا تھا کہ ’’جاؤ اسے مرکزی بازار میں تلاش کرو۔ ہمیں کل لازماً انہیں پہاڑ سے نیچے لانا ہے‘‘
یہ ’انہیں‘ دراصل اس کے نابینا نانا تھے، جو قصبے سے دشمن کے انخلا کےکئی ہفتے گزر جانے کے باوجود بھی پہاڑ پر ہی رہنے کے لیے مصر تھے۔
ایک شام اس کے والد نے اعلان کیا کہ جنگ ختم ہو چکی ہے مگر نانا نے دوبارہ قصبے میں آنے سے انکار کر دیا۔۔ اور اب اس کے والد نے اسے وہاں بھیجا تھا تاکہ وہ کسی کو مدد کے لیے بلا لائےبتو دونوں مل کر نانا کو نیچے لے آئیں۔ آخر اس کی نظر بانسوں کی چھپر نما دکان کے باہر چوبی سٹول پر بیٹھے شخص پر پڑی۔ اس کے پاس کچھ اور افراد بھی تھے۔ وہ سب مل کر پی رہے تھے۔ وہ آہستگی سے ان کے پاس گیا۔ اس سے پہلے وہ دور سے کئی افراد کو پیتے دیکھ چکا تھا مگر اتنی قریب آنے کا یہ پہلا اتفاق تھا۔
’’جب تک انسان اس دھرتی پر موجود ہے بارش، آندھیاں اور موت آتی رہے گی۔۔‘‘ اسی آدمی نے علمیت جھاڑی۔ وہ بہت سکون سے بات کر رہا تھا، جب کہ اس کے دیگر ہم راہی خواہ مخواہ قہقہے لگا رہے تھے۔ وہ آدمی بہرحال مسلسل گہری باتیں کیے چلا جا رہا تھا۔ شاید جب سے جنگ عظیم شروع ہوئی تھی، وہ یہی باتیں سوچ رہا تھا۔
اس نے سر گھمایا تو اسے چودہ برس کا ایک لڑکا نظر آیا، اس نے اسے مخاطب کیا۔
’’کیا میں صحیح نہیں کہ رہا، آنک (فلپائنی میں بیٹے کو کہا جاتا ہے)؟‘‘
لڑکا جواب دینے کے بجائے تیزی سے پیچھے ہٹا مگر اس نے اثبات میں سر ہلایا اور بولا، ’’جی مینانگ (بڑے بزرگ) آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں، مینانگ‘‘
’’دیکھو! یہ لڑکا بھی میری باتیں سمجھ رہا ہے‘‘ اس نے تقریباََ چیختے ہوئے اپنے ساتھیوں کو مخاطب کیا
’’وہ ایک بچہ ہے، اسی لیے تمھاری باتوں پر یقین کر رہا ہے‘‘ ایک شرابی چیخا۔
اس آدمی کا منہ بگڑ گیااور اس نے ان سب کے سامنے تھوکا ’’وہ عام بچہ نہیں ہے، وہ بہت سمجھ دار ہے، وہ جج صاحب کا بیٹا ہے‘‘ وہ یہ کہتے ہوئے ساحل کی طرف چل دیا۔
لڑکا کچھ فاصلے اس آدمی کو دیکھ رہا تھا۔ اسی شخص کو اس کے والد نے بلانے کا کہا تھا۔ وہ ان کی ملازمہ کا ماموں تھا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اسے کیسے مخاطب کرے۔ اس کے ساتھی وہاں بلاوجہ قہقہے لگا رہے تھے۔ وہ جانے والے کے متعلق الٹی سیدھی باتیں کر رہے تھے۔ ایک بولا کہ جن ہواؤں، بارشوں اور موت کا ذکر یہ شخص کر رہا ہے، وہ یہاں سے گزر کردوسری دنیا میں جا چکی ہیں۔
اسے یاد آیا کہ اس کے نانا بھی ایسی باتیں کرتے ہیں۔ دوسری دنیا جہاں صرف لامحدود خوشی میسر ہے۔ اس کے نانا اسے بتاتے کہ وہ مُردہ روحوں کا ملک ہے، چنیدہ روحوں کا دیس۔۔
لڑکا اس آدمی کا پیچھا کرنے لگا۔ وہ اپنے کندھے جھکا کر چل رہا تھا جیسے ان پر کوئی بوجھ ہو۔ وہ آہستگی سے چلتا چلتا مارکیٹ کے آخری سرے پر واقع کنکریٹ کی تباہ حال ساحلی دیوار پر کھڑا ہو گیا۔ اُس آدمی کی نظریں ساحل سے بہت دور سیاہ چٹانوں پر جمی تھیں۔ سورج آہستہ آہستہ ڈوبنے کی تیاری کر رہا تھا اور ہوا پھنکارے مار رہی تھی۔ شاید ایک بار پھر آندھی آنے والی تھی۔ وہ پچھلے کچھ ہفتوں سے ان آندھیوں کے عادی ہو چکے تھے۔ ہر رات تیز ہوا چلتی ، پھر تیز بارش اور اس کے بعد سیلاب۔ تاہم سورج بھی خوب چمکتا اور پانی خشک ہوجاتا مگر شام ڈھلتے ہی تیز ہوا، آندھی، بارش اور سیلاب ۔
آدمی مڑا اور لڑکے کو دیکھ کر دیوار سے اُتر آیا۔ لڑکا بولا، ’’میرے والد آپ کو بلا رہے ہیں‘‘
’’میں ابھی نہیں آ سکتا‘‘
’’انہوں نے نانا کے بارے میں بات کرنی ہے‘‘ لڑکا اپنے والدین کی طرح انہیں صرف نابینا کہہ کر بلاتا مگر اس آدمی کے سامنے اسے نابینا کہنا مناسب نہ لگا۔ وہ اپنے والدین اور نانا کے ہم راہ جنگ کے دنوں میں اسی پہاڑی جھونپڑے میں مقیم رہا جہاں سے اس کے نانا نے آنے سےانکار کر دیا تھا۔
’’ان کے بارے میں کیا بات کرنی ہے؟‘‘ آدمی نے سوال کیا۔
’’بابا انھیں قصبے میں لانا چاہتے ہیں‘‘۔ لڑکا ذرا ہچکچایا۔
’’اگر وہ نہیں آنا چاہتے تو تمھارے بابا کو کیا مسئلہ ہے؟اسے وہیں رہنے دو، ویسے بھی اب وہ زیادہ دن جینے والا نہیں‘‘
لڑکے نے اس آدمی پر گہری نگاہ ڈالی مگر کچھ بولا نہیں۔ وہ اس آدمی کو جانتا تھا۔ وہ اسے پہلے بھی کئی مرتبہ مل چکا تھا۔ وہ ہر اتوار اس کی والدہ سے پیسے مانگنے آتا تھا اور ان پیسوں سے وہ کیا کرتا تھا؟ شراب نوشی۔ وہ اسے کئی بار دنگے کرتے بھی دیکھ چکا تھا مگر وہ بلا نوش تھا، پٹتا مگر پینے اور لڑنے سے باز نہ آتا۔ وہ پینا جاری رکھتا اور اس کی بھانجی ٹیریسا ان کے گھر روتی رہتی اور گھر کے کام کرتی جاتی، کیوں کہ اس کے ماموں کا قرض بڑھتا جارہا تھا۔ بھانجی وہ قرض سود سمیت اتار رہی تھی۔
وہ آدمی اچانک بولا، ’’تمھارے والد مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟‘‘
’’مجھے نہیں پتا‘‘
’’وہ کہاں ہیں؟ میرا مطلب تمھارے بابا‘‘
’’گھر پر‘‘
’’میں چلتا ہوں۔۔‘‘
’’کیاواقعی تم نانا کو نیچے لے آؤ گے؟‘‘ لڑکے نے سوال کیا۔
اس کے نانا کہہ چکے تھے کہ وہ اس چٹان پر سکون سے رہ رہے ہیں۔ ان چٹانوں میں خاموشی کسی اچانک ملنے والی خوشی جیسی ہوتی ہے۔روح تک سرشار ہو جاتی ہے۔
آدمی نے جواب نہ دیا۔ اس نے لڑکے کو ایک نظر دیکھا اور ان کے گھر کی طرف بڑھ گیا۔ لڑکا بھی اس کے پیچھے چل پڑا۔ قصبے کے لوگ تباہ حال عمارتوں سے کارآمد اشیا ڈھونڈ رہے تھے۔ اس نے ایک گڑھے پر سے چھلانگ لگائی اور ان لوگوں کی طرف بڑھا۔ کچھ ادھیڑ عمر اور جوان عورتیں بم باری سے جلنے والے گھروں کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ لڑکا حیران تھا کہ اتنی بم باری کا بس یہی حاصل ہے، راکھ اور ملبہ۔۔ چند بچے گھروں کی بنیادوں میں کچھ تلاش کر رہے تھے۔ وہ بنیادیں جن پر کبھی یہ مضبوط عمارتیں قائم تھیں۔ وہ ایک ادھ جلے ناریل کے درخت کے نیچے کھڑا تھا۔
اسے یاد آیا کہ وہ پچھلے برس اپنے ہم جماعت سے شرط لگا کر اس درخت پر چڑھنے کی کوشش کر چکا تھا۔ یہ اس کی عزت کا سوال تھا۔ اس کے تھوڑے عرصے بعد جنگ شروع ہو گئی اور وہ پہاڑوں میں چھپتے پھرتے آخرکار اس پہاڑی پر ایک عارضی سا مکان بنا کر رہنے لگے۔
اسے ایک طرف اپنے اسکول کی ادھڑی ہوئی عمارت نظر آئی، جہاں اس کی سنہری یادیں آباد تھیں۔ اسی اسکول میں اس کی پہلی لڑائی ہوئی۔
وہ ایک گڑھا پھلانگ کر مرکزی بازار کی طرف چل دیا۔ خنک ہوا اس کے چہرے سے ٹکرائی۔ اس ٹھنڈے لمس سے اسے اپنے پر دادا کی یاد آئی ۔وہ جب چھ برس کا ہوا تو ان کا انتقال ہو گیا، مگر وہ بسترِ مرگ پر اسے پیار سے اپنے پاس بلاتے اور اپنی سرد ہتھیلیاں اس کے گالوں پر رکھ کر اسے دیکھتے رہتے۔ میں کم از کم نانا کو تو ایسا نہیں کرنے دوں گا، لڑکے نے سوچا۔
وہ انھی سوچوں میں غلطاں تھا کہ کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا، ’’بیٹا! تمھاری والدہ تمھیں بلا رہی ہیں‘‘
یہ اس کے بابا تھے اور ان کے ہم راہ وہی شخص تھا، جسے اس نے تھوڑی دیر پہلے بابا کا پیغام دیا تھا۔ وہ دونوں بازار کے باہر کھڑے تھے۔ بازار کی جانب سے شور سنائی دے رہا تھا۔ آدمی اس کی شکل غور سے دیکھ رہا تھا۔
’’جلدی گھر جاؤ‘‘
’’جی بابا!‘‘ اس نے کہا اور گھر کی اور چل دیا۔
سورج ڈوب چکا تھا۔ جلد ہی اندھیرا پھیل جائے گا اور تیز ہوا، بارش اور پھر طوفان اس رات کو بھی اپنی مٹھی میں قید کرلیں گے۔ رات کو سردی بڑھ جاتی ہے اور وہ اپنے کمبل میں سمٹ جائے گا اور نرم گرم اون اس کی جلد سے ٹکرائے گی۔ یہ بارش اور ہوا جانے کب رُکے گی؟
اس رات کھانے پر دو حضرات براجمان تھے۔ ایک تو دوپہر والا آدمی اور دوسرے کو وہ نہیں جانتا تھا۔ یہ اس کی والدہ کا آبائی قصبہ تھا۔ اس کے والد جنگ شروع ہونے سے تین ہفتے قبل یہاں تعینات ہوئے تھے۔ وہ خاموشی سے اجنبی سے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ اتنے میں ٹیریسا کھانا لے کر آئی تو اس کے ماموں نے سوال کیا، ’’تم ہمارے ساتھ جاؤ گی؟‘‘
’’مجھے نہیں پتا‘‘ وہ آہستگی سے بولی۔
’’ہاں ! یہ بھی صبح خاتون خانہ کے ساتھ جائے گی‘‘ اس کے والد نے کہا۔
’’کیا آپ کو یقین ہے کہ اس بار وہ آجائیں گے؟‘‘ اجنبی سے سوال کیا۔
اس کے والد لقمہ چباتے چباتے رُک گئے۔ ’’مجھے یقین تو نہیں مگر تم سب مل کر انھیں منا لینا کہ وہ اب گھر واپس آجائیں۔ وہ وہاں بارش اور سردی برداشت نہیں کر سکیں گے اور میں انھیں اس طرح مرتے نہیں دیکھ سکتا۔۔۔‘‘
وہ اچانک ہی چپ ہوگئے۔ خاموشی اتنی گہری ہوگئی کہ سانسوں کی آوازیں آنے لگیں۔ اسے حیرانی ہوئی کہ اس کے والد نے ایسا کیوں کہا۔ وہ نانا کو اس وقت مرتے کیوں نہیں دیکھ سکتے؟ اس نے اپنی والدہ کی طرف دیکھا، وہ خاموش تھیں۔ ان کا سر جھکا ہوا تھا۔ دونوں مہمان البتہ کھانا کھاتے رہے۔
پھر ٹیریسا کا ماموں بولا، ’’جج صاحب! میں آج رات ہی اس پہاڑی پر جاؤں گا۔ میں انھی کے ساتھ سوؤں گا اور کل میں آپ لوگوں کا انتظار کروں گا‘‘
’’تجویز تو مناسب ہے مگر انھیں اس کی بھنک نہیں پڑنی چاہیے۔‘‘
تجویز کنندہ کھڑا ہوا اور اپنی بھانجی سےپانی مانگا۔ لڑکا بھی اٹھا، باورچی خانے گیا اور پانی پی کر میز پر آ گیا۔
’’کیا میں بھی ان کے ساتھ جا سکتا ہوں؟‘‘
’’نہیں! بیٹا کل تمھاری کلاس شروع ہو رہی ہے‘‘
لڑکے نے مزید ضد نہیں کی۔ وہ اپنے والد کا مزاج آشنا تھا۔ وہ خاموشی سے اپنے کمرے میں جا کر کھڑکی میں بیٹھ گیا۔ دونوں مہمان گھر سے باہر نکل گئے۔ اسے اندازہ تھا کہ دونوں کسی شراب خانے میں جائیں گے۔ اس نے تاریک آسمان پر ستارے تلاش کرنے کی کوشش کی مگر اس وقت گہرے بادل چھائے ہوئے تھے۔ ہوا کا ایک تھپیڑا اس سے ٹکرایا اور وہ پیچھے ہٹ گیا۔ بوندا باندی شروع ہو چکی تھی اور جلد ہی تیز بارش کا امکان تھا۔ اسے خیال آیا کہ دونوں مہمان اپنے گھر کس طرح پہنچ پائیں گے۔ اسے اپنی والدہ کی آواز سنائی دی، ’’اریتو!‘‘
’’جی ماما!‘‘
’’اب سو جاؤ‘‘
’’اچھا ماما!‘‘
اس نے کھڑکی بند کی اور اپنے بستر پر دراز ہو گیا۔ اسے قصبے ، قصبے کے لوگوں اور کھنڈروں پر سر اٹھاتے نئے گھروں کا خیال آیا۔ اس کے ذہن میں نہ جانے کیوں یہ واہمہ جاگا کہ یہ گھر قبروں پر تعمیر ہو رہے ہیں اور ان کی بنیادوں میں کھوپڑیاں اور ہڈیاں دفن ہیں۔ اگر یہ کھوپڑیاں بول سکتیں تو کیا کہتیں؟ اس نے کمبل سر تک اوڑھ لیا اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔ مُردوں کا ملک، وہ بڑبڑایا۔ مُردوں کا ملک۔۔۔ وہ دہرانے لگا۔ یہ تو نانا کے الفاظ تھے۔ اس کے نانا جب بھی قبرستان کے پاس سے گزرتے تو اِسے مُردوں کاملک کہتے، جہاں بے چین روحوں کو ابدی سکون مل جاتا ہے۔ اس نے جمائی لی اور ایک بار پھر مُردوں کا ملک کہہ کر سو گیا۔ باہر تیز ہوا نے اپنا کام شروع کر دیا اور سردی سے لڑکے کے دانت کٹکٹانے لگے۔
اور پھر اس نے ایک خواب دیکھا۔ بہت عجیب خواب۔۔ پہلے تو وہ اسے سمجھ ہی نہ سکا۔ یہ مختلف چہروں ، رنگوں اور کھوپڑیوں کی ایک سیر بین (Kaleidoscope) تھی۔ اور پھر آہستہ آہستہ اسے مختلف لوگ چلتے پھرتے، بھاگتے، روتے اور ہنستے نظر آئے۔ حرکت کرتے افراد اپنے جسموں پر پڑتی تیز ہواؤں، بارش اور طوفانی لہروں سے بے نیاز تھے۔ کچھ ان پر گولیاں برسا رہے تھے جب کہ ایک گروہ پینے پلانے میں مگن تھا۔۔ اور آخر اسے ایک طرف اپنے نابینا نانا نظر آئے جو کسی دیو کی طرح سب پر نظر جمائے ایستادہ تھے اور بہت سے افراد ان کی طرف ہاتھ پھیلائے، رحم مانگتے بھاگتے نظر آئے۔ اس نے دیکھا کہ نانا نے ایک شخص کا ہاتھ پکڑ لیا ہے۔ انھوں نے جس شخص کا ہاتھ پکڑا، اس شخص کے دونوں ہاتھ دو آدمیوں کے ہاتھ میں تھے۔جیسے ہی نانا ایک طرف کو چلے، وہ تینوں بھی ان کے ساتھ چلنے لگے۔ اور جیسے ہی اس نے ان تینوں کا چہرہ دیکھا، اُس کی آنکھ کھُل گئی۔ یہ اس کے والد کا چہرہ تھا اور بقیہ دوان کے مہمان تھے۔
اگلے دن اس نے اپنی والدہ، ٹیریسا اور دونوں مہمانوں کو پہاڑی کی اور جاتے دیکھا۔ دونوں مَردوں کے ہاتھ میں دو بانس اور ایک ترپال تھی۔ اسے یقین ہوگیا کہ نانا انکار نہیں کر سکیں گے اور نہ جانے کیوں اس کا دل پھوٹ پھوٹ کر رونے کی خواہش کرنے لگا۔۔۔۔