ایک تصویر ایک کہانی- 26

گل حسن کلمتی

یہ تصویر نمائش پذیر ہونے والی پہلی بلوچی فل "دودا” کی ہے۔ھدایتکار عادل بزنجو اور فلم کے ھیرو شعیب حسن نے وہ کر دکھایا، جو خواب بلوچ برسوں اپنے کلھی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے تھے۔ اس خواب کی تکمیل میں 47 سال ایک طویل عرصہ لگا۔

یہ شاید 76-1975 کی بات ہے ،جب میں ایس۔ایم آرٹس کالج کا طالب علم تھا۔ میرے کزن فضل احمد ڈاؤ میڈیکل میں پڑھتے تھے ، اس نے ایک دن کہا کہ ”بمبینو سنیما میں پہلی بلوچی فلم ’حمل ءُ ماہ گنج‘ کا پریمیئر شو ہے، گولیمار کے رہنے والے بھٹو کے کابینہ کا میمبر عبداللہ بلوچ مہمان خصوصی ہیں“

سخت خوف کے ماحول میں ہم بمبینو سنیما پہنچے۔ فلم اس طرح شروع ہوئی کہ اسکرین پر جیسے لائیٹ آئی تو پردے پر ’کلمت‘ لکھا ہوا تھا۔ فلم کے ہیرو انور اقبال کی انٹری تھی، تالیوں کے ساتھ ایک خوف تھا کیونکہ اس فلم کے خلاف باہر اس وقت کے متحرک دائیں بازو کی قوم پرست تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن( BSO) اور لیاری کے متحرک سیاسی لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔ ہم چپکے سے چلتی ہوئی فلم چھوڑ کر باہر آئے اور گھروں کے طرف روانہ ہوئے۔ پریمیئر شو مکمل ہوا کہ نہیں، کچھ پتا نہیں چل سکا۔
اس دور میں کراچی کی دیواروں پر ایک نعرہ تھا ”بلوچی فلم نہیں چلی گی، اگر چلے گی سنیما جلے گی“

یہ پہلی بلوچی فلم جس کے ھدایتکار اسلم بلوچ اور انور اقبال تھے، فلمساز اشفاق اکبر ، موسیقار فتح نظر نسقندی تھے۔ فلم کے ھیرو انور اقبال تھے اور ھیروئن انیتا گل تھیں۔باقی کاسٹ میں محمود لاسی، نور محمد لاشاری، اے۔آر بلوچ، محمد حسین مداری، ساقی یہ چاروں اس وقت سندھی اور اردو فلموں کے مشہور اداکار تھے۔ نادر شاہ عادل، محمد صدیق بلوچ، بانو اور بوبی کاسٹ میں شامل تھے۔ فلم کی کہانی اور گانے مشہور بلوچ مفکر ظہور شاہ ہاشمی اور عطا شاد نے لکھے تھے۔

فلم پورچوگیزوں کے مکران کے ساحل پر حملے اور حمل جیئند کے ان سے مقابلے کے تاریخی واقعات پر مبنی تھی۔ ایک دن حمل جب اپنے ساتھیوں کے ساتھ سمندر میں تھا تو پورچوگیزوں نے اچانک حملہ کیا حمل کے بہت سے دوست بھاگ گئے حمل مقابلہ کرتے گرفتار ہوا اور پھر اسے ہمیشہ کے لیے غائب کر دیا گیا۔بعد میں پورچوگیزوں نے ہندوستان کے ساحلی شہر "گوا” میں اس کا مجسمہ نصب کیا۔

اصل میں یہ فلم لیاری میں ہونے والی سیاسی چپقلش کا شکار ہوئی۔ جس کے لیے اس وقت لیاری کے 22 انجمنوں اور ایسوسیشن پر مشتمل ایک ایکشن کمیٹی بنائی گئی، جس کا نام "انجمن تحفظ ثقافت بلوچاں” کا نام دیا گیا۔ لالا فقیر محمد بلوچ اس کے صدر اور محمد ابراھیم اس کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ آگے چل کر غلام رسول مگسی اس کے جنرل سیکرٹری مقرر ہوئے۔ ان کا موقف تھا کہ فلم کے ذریعے بلوچی ثقافت ، روایات تباہ ہونگیں۔اس سخت مخالفت اور منظم تحریک کے ذریعے اس فلم کی نمائش روک دی گئی۔

2013 جب انور اقبال نے دوبارہ اپنے بھائی احمد اقبال کے پہلے بلوچی چینل پر اس فلم کی نمائش کے لیے اس کا ٹریلر جاری کیا تو ایک نئی بحث کا آغاز ہوا۔ جس کا خلاصہ یہ نکالا گیا کہ اس وقت ایک یہ فلم لیاری میں چلنے والی سیاسی تحریک ہر کس کا غلبہ ہو اس کے نظر ہوئی ۔اگر اس کو چلنے دیا جاتا تو آج بلوچی سنیما بہت آگے ہوتا۔

ایک ملاقات میں انور اقبال نے بتایا کہ ”اس وقت چار سے پانچ لاکھ میں سندھی فلمیں بنتی تھیں، میں نے اس دور میں یہ فلم آٹھ لاکھ میں بنائی میرا پورا سرمایہ ڈوب گیا تھا“

اس نے یہ بھی شکایت کی کسی بھی فورم پر میری بات نہیں سنی گئی

انور اقبال نے فلم کی مخالفت کرنے والوں کے لیے ایسٹرن اسٹوڈیو میں پوری فلم چلا کر بھی دکھائی تھی، لیکن مخالفین مطمئن نہیں ہوئے۔ یہ ایک تاریخی فلم تھی اگر یہ فلم چلتی تو آج بہت سے رائٹر، شاعر، موسیقار، ادکار، گلوکار، فلمساز اور ٹیکنیشن پیدا ہوتے۔

اس طرح ایک نیک قومی جذبے اور جدید تقاضوں کے مطابق بلوچی زبان، ثقافت کو اجاگر کرنے کی ایک کوشش کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا

بہرحال کچھ عرصہ قبل آرٹس کاؤنسل کراچی میں اس فلم کی نمائش کی گئی۔ بقول انور اقبال مرحوم کے، جیکب آباد کے ایک سنیما میں یہ پہلی بلوچی فلم چلائی بھی گئی تھی۔انور اقبال کا مغل اعظم کی طرح اس بلیک اینڈ وائٹ فلم کو کلر کرنے کا ارادہ بھی تھا لیکن وقت نے انہیں مہلت نہیں دی۔ اگر وہ آج زندہ ہوتے تو "دودا” کی پذیرائی دیکھ کر کتنا خوش ہوتے

جمع دو ستمبر 2022 کو سینتالیس سال بعد بلوچوں کی عوامی عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا ”دودا“ سرخرو ہوا ۔صرف دودا نہیں بلکہ ”حمل ء ماھ گنج“ اور انور اقبال بھی سرخرو ہوئے۔

کیپری سنیما کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم ہوا کہ بلوچ عوام نے پریمیئر شو ٹکٹ خرید کر فلم دیکھی اور اپنا کنٹری بیوشن پیش کیا۔ عوام کی ایک بڑی تعداد ٹکٹ نہ ملنے پر واپس چلی گئی

کیپری سنیما کے مالک فرخ چوہدری اور جنرل منیجر عزیز خٹک نے مائک پر بلوچ عوام کے جذبے کو سلام پیش کیا۔ لوگوں کے واپس جانے پر معذرت کی اور ہفتے کا ایک اور اتوار کے دو شو مزید بلوچی زبان میں پیش کرنے کا اعلان کیا.

مجھے 1975ع میں بمبینو سنیما پر پہلی بلوچی فلم "حمل ء ماہ گنج”کا خوف سے بھرا پریمیئر شو یاد آیا۔ آج بلوچ عوام نے آدھی صدی بعد اس خوف کو "دودا” کے ذریعے توڑ دیا۔ مجھے لیاری کے شاعر اور دوست وحید نور کے شاعری کی کتاب کا ٹائیٹل ”اور سکوت بول پڑا“ یاد آیا

زوال پذیر سنیما کے دور میں یہ ایک جرأت مندانہ اقدام ہے۔ سوشل میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ، فلم دودا نے فلموں کے اس دور کی یاد تازہ کردی جب ہر کردار کا تالیوں کے ساتھ استقبال ھوتا تھا۔ جب ہر گانے کے ساتھ لوگ جھومتے تھے، ہر جملے پر تالیاں یا قہقہے بکھرتے تھے۔ یہ شاید اس محبت اور انسیت کا اظہار تھا، جو اس فلم کے انتظار میں بیٹھے بلوچ عوام کے دلوں سے نکل رہی تھی۔ نوجوان ہیرو شعیب حسن نے دودا کے فلمی کردار میں زندگی بھر دی۔ عادل بزنجو نے ایک خواب پورا کیا۔ اس پوری ٹیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close