مریخ پر کون سے بیکٹیریا نشو نما پا سکتے ہیں؟

ویب ڈیسک

سائنسدان ایک عرصے سے مریخ پر انسانوں کی آبادکاری کے لیے تحقیق میں مصروف ہیں۔ دنیا بھر کے خلائی ادارے مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے مکمل ڈیٹا حاصل کرنے کے مقصد کے تحت مریخ کی جانب مشن روانہ کر رہے ہیں۔ اس ڈیٹا سے لیبارٹریوں میں تجربات کر کے یہ معلوم کرنے کی کو شش کی جا رہی ہے کہ انسان مریخ کے شدید ماحول اور انتہائی کم درجۂ حرارت میں کس طرح زندہ رہ سکیں گے۔

جنوری 2024ء کے اوائل میں ایسٹرو بائیولوجی سائنس جرنل میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق چار ایسے مائیکروبز، جو انسانوں میں متعدد بیماریوں کی وجہ بنتے ہیں، وہ مریخ کے شدید ماحول میں زندہ رہ سکتے ہیں اور وہاں ان کی نشونما بھی ممکن ہے۔

جرمن ایروسپیس سینٹر کے سائنسدانوں نے لیبارٹری میں مصنوعی طور پر مریخ کا ماحول تیار کر کے یہ تجربات کیے ہیں۔

جرمن ایرو اسپیس سینٹر کولون سے وابستہ سائنسدانوں کی اس ٹیم کی سربراہی کرنے والے توماسو زکاریا کا کہنا ہے کہ مریخ کی سطح پر درجہ حرارت انتہائی کم ہے اور وہاں ایسے دیگر عوامل کی صورتحال بھی نامناسب ہے، جنہیں کسی سیارے پر انسانی زندگی کے لیے لازمی سمجھا جاتا ہے۔

توماسو زکاریا کہتے ہیں ”اس کے باوجود سائنسدان نظام شمسی کے دیگر سیاروں کی نسبت مریخ پر ممکنہ طور پر انسانی آبادیاں میں زیادہ دلچسپی اس لیے رکھتے ہیں کہ ایک تو یہ سیارہ زمین سے نسبتا قریب ہے اور پھر مریخ کا ایک دن بھی زمین کے ایک دن کی طرح چوبیس گھنٹے کا ہوتا ہے۔“

زکاریا کے مطابق لیبارٹری میں مریخ کا مصنوعی ماحول تیار کرنا ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ اس کے لیے پانی کی عدم موجودگی، ہوا کا انتہائی کم دباؤ، سورج کی جھلسا دینے والی الٹرا وائلٹ تابکار شعاؤں اور مہلک زہریلی نمکیات کو مصنوعی طریقے سے اکٹھا کرنا ہوتا ہے۔

توماسو زکاریا بتاتے ہیں ”انسانی جسم میں چار عام بیکٹیریا رہتے ہیں، جو یوں تو بے ضرر ہیں لیکن بیرونی عوامل یا دباؤ کے زیرِ اثر ہمارے لیے مہلک ثابت ہوتے اور مختلف بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔“

زکاریا کی ٹیم نے مریخ کے تیار کردہ مصنوعی ماحول میں ان بیکٹیریا پر بار بار تجربات کیے۔

زکاریا کے مطابق حیرت انگیز طور پر یہ مائیکروب نا صرف اس شدید ماحول میں زندہ رہے، بلکہ ان کی ٹیم نے نوٹ کیا کہ یہ مصنوعی طور پر تیار کردہ مریخ کی مٹی یا ریگولتھ میں نشونما بھی پا سکتے ہیں۔

تحقیق کے لیے ان بیکٹیریا کا انتخاب کرنے کی وجہ کے بارے میں توماسو زکاریا بتاتے ہیں کہ بیکٹیریا انتہائی سخت جان اور لچکدار ہوتے ہیں، جو زمین پر اربوں سالوں سے موجود ہیں، لہٰذا مریخ یا کسی دوسرے سیارے یا سیارچے پر تحقیق کے لیے بیکٹیریا موزوں ترین سمجھے جاتے ہیں۔

زکاریا کے مطابق 2020ء میں کی گئی ایک تحقیق میں نوٹ کیا گیا تھا کہ یہی بیکٹیریا ایسے میڈیم میں زندہ رہ سکتے ہیں، جو میٹیورائٹ کے انتہائی کم نمکیات والے سیمپل سے مشابہہ تھا۔

زکاریا اس ٹیم کا حصہ تھے۔ اس تحقیق سے انہیں تحریک ملی اور انہوں نے نئی ٹیم کے ساتھ مریخ کے ماحول میں یہی تجربات کرنے کا فیصلہ کیا۔

ابتدائی حوصلہ افزاء نتائج کے بعد زکاریا کی ٹیم نے ان بیکٹیریا کی کالونیوں کو مصنوعی طور پر تیار کردہ مریخ کی مٹی میں رکھا۔ وہ کہتے ہیں ”ہمارا خیال تھا کہ بیکٹیریا پر زہریلے اثرات پڑنے سے وہ فوراً ہی مر جائیں گے، لیکن حیرت انگیز طور پر چار میں سے تین بیکٹیریل انواع زندہ رہیں اور اکیس دن تک ان کی نشونما بھی نوٹ کی گئی۔

مزید پیش رفت کے حوالے سے توماسو زکاریا کا کہنا ہے ”ہماری ٹیم اب انہی بیکٹیریا پر نئے تجربات کا آغاز کر رہی ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ یہ شدید ماحول میں کس طرح زندہ رہے۔ اس طرح سائنسدانوں کو خلائی سفر کے دوران انسانی جسم پر پڑنے والے منفی اثرات کو مزید بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملے گی۔“

زکاریا کے مطابق اسپیس فلائٹ کے دوران خلا بازوں کے جسم کا مدافعتی نظام تناؤ اور بے ضابطگی کا شکار ہو جاتا ہے۔ چونکہ یہ چار بیکٹیریا بھی جسم پر دباؤ پڑنے سے پیتھوجنز کی شکل اختیار کرتے ہیں، لہٰذا مزید تحقیق سے خلا بازوں کا سفر محفوظ بنانے اور ان کی صحت سے متعلق بہتر اقدامات کرنے میں مدد ملے گی۔

مریخ پر انسانی آباد کاری سے متعلق کیا پیش رفت ہوئی؟ اس سوال کے جواب میں توماسو زکاریا کہتے ہیں ”ہماری تحقیق کےنتائج بتاتے ہیں کہ مریخ کے مشن کے لیے خلابازوں کو اپنے ساتھ بہت سی ادویات ساتھ لے جانا ہوں گی، کیونکہ یہ عام بیکٹیریا مریخ پر زندہ رہ سکتے ہیں لہٰذا کمزور مدافعتی نظام کے ساتھ خلا باز وہاں جلد ہی بیماریوں کا شکار ہو جائیں گے۔“

انہوں نے مزید کہا ”جیسا کے ہمارے تجربات سے ثابت ہوا عین ممکن ہے کہ یہ مائیکروب وہاں نشونما پا کر مزید خطرناک ہو جائیں، لہٰذا انسان بردار مریخ مشن کو اس طرح کے ’بگز‘ یا جرثوموں سے محفوظ رکھنا بہت ضروری ہے، جس کے لیے ابتدا میں مریخ پر صرف روبوٹک گاڑیاں بھیجی جائیں جو وہاں انسانوں کی آباد کاری کے ضروری انتظامات کریں اور بالکل الگ تھلگ کالونیاں تشکیل دیں۔‘‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button
Close
Close