ایک دن، خلیفہ جعفر مسجد سے گھر واپس نہیں آیا۔ وہ روزانہ علی الصبح جاگ جاتا تھا۔ فجر کی نماز کے بعد وہ گھر آ کر نیم کے درخت کے نیچے رکھی ہوئی چارپائی پر بیٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت کرتا تھا، صرف جمعے کے دن وہ نماز فجر کے بعد قریبی گاؤں امروٹ شریف چلا جاتا تھا، اپنے مرشد اور کامل ولی مولانا تاج محمود امروٹیؒ کی امامت میں جمعہ پڑھ کرشام کو واپس گھر لوٹ آتا تھا۔ آج تو جمعہ بھی نہیں تھا۔
اس کی بیوی صحت خاتون بہت پریشان ہو گئی۔ وہ مسجد تک گئی، مسجد کا دروازہ بند تھا، گاؤں کی گلیاں سنسان تھیں۔ آج مہینے کا پہلا سوموار تھا۔ ’’چڑیلیں‘‘ چھتن شاہ کے قبرستان میں پہنچ چکی ہوں گی۔ صحت خاتون کو بڑی تشویش ہوئی۔ ’’کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ ٹوکرے بنانے کے لئے پیلو کے درخت کی پتلی شاخیں کاٹنے کے لئے چھتن شاہ کے قبرستان چلا گیا ہو؟‘‘ اس نے گھبرا کر سوچا۔
وہ گھر واپس آئی اور دوڑ کر خلیفہ جعفر کے جھونپڑی نما کمرے میں گئی، وہاں کھونٹی پر درانتی موجود نہیں تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ شاخیں کاٹنے کے لئے درانتی اپنے ساتھ لے گیا تھا اور نمازِ فجر کی ادائیگی کے بعد سیدھا قبرستان چلا گیا تھا۔
اس کے ذہن میں نہ رہا کہ آج سوموار کا دن ہے اور ہر ماہ کے پہلے سوموار کو چڑیلیں اپنے گاؤں، گاہیجا سے آ کر چھتن شاہ کے مزار پر دن گزارتی ہیں۔
اللہ اللہ کرکے شام ہوئی، چڑیلیں اپنے گاؤں کو واپس چلی گئیں۔ صحت خاتون اپنے چھوٹے بیٹے چالیس سالہ لال محمد کے ساتھ قبرستان کی طرف دوڑی۔ ایک ایک درخت کو چھان مارا۔ سورج ڈھلنے والا تھا، اچانک صحت خاتون کی نظر اپنے شوہر پر پڑی۔ پیلو کے ایک گھنے درخت کے نیچے خلیفہ جعفر کی لاش پڑی تھی، اس کی چیخ نکل گئی۔ وہ اپنے بیٹے سے لپٹ کر زار و قطار رونے لگی۔ درانتی، خلیفہ جعفر کے سینے میں گڑِی ہوئی تھی۔ اس ہی درانتی سے، جس سے وہ پیلو کی پتلی شاخیں کاٹ کر ٹوکرے بناتا تھا، اج اس کا سینہ چاک کیا گیا تھا۔ چڑیلوں کی مرغوب غذا انسان کا کلیجہ ہوتا ہے۔ آج ان کو شکار ہاتھ آگیا تھا۔
خلیفہ جعفر کا کلیجہ آج ان کی خوراک بنا تھا۔ اس طرح سہتا گاؤں (ضلع شکار پور) کا یہ بزرگ شخص چڑیلوں کی خوراک بن گیا۔ صحت خاتون اور لال محمد کی چیخ و پکار سن کر گاؤں کے لوگ قبرستان کی طرف دوڑے۔ خلیفہ جعفر کی لاش خون میں نہائی ہوئی تھی۔ وہ اس کی لاش اٹھا کر گھر لائے۔ دوسرے دن ان کی تدفین اس ہی قبرستان میں ہوئی، جہاں ایک دن پہلے وہ پیلو کی شاخیں کاٹنے گیا تھا۔ پورا گاؤں دکھ اور خوف کی چادر میں لپٹا ہوا تھا۔
چڑیلوں نے کبھی ایسی کارستانی نہیں کی تھی لیکن اس مرتبہ انہوں نے اپنی اصلیت دکھا دی۔ گاؤں کے لوگوں نے ارادہ کرلیا کہ اب وہ چڑیلوں کو برداشت نہیں کریں گے اور اگلے مہینے کے پہلے سوموار کو جیسے چڑیلیں چھتن شاہ کی درگاہ پر آئیں گی، وہ ان پر ٹوٹ پڑیں گے اور چڑیلوں کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔
خلیفہ جعفر کی تدفین کے چار دن بعد سہتا گاؤں کے معزز لوگوں کا ایک وفد گاہیجا ذات کے لوگوں سے ملنے ان کے گاؤں گاہیجا چلا آیا۔ گاؤں کے وڈیرے سے بات چیت کی گئی۔ انہوں نے یقین دلایا کہ وہ چڑیلوں کو اپنے انجام تک پہنچا کر دم لیں گے۔
گاہیجا گاؤں کی چڑیلیں
گاؤں میں دس چڑیلوں کا سراغ لگایا گیا۔ بڑی رازداری سے ان میں سے آٹھ چڑیلوں کو پکڑا گیا، باقی دو چڑیلیں بھاگ گئیں۔ ان آٹھ چڑیلوں کی بڑی مار پٹائی ہوئی، ان کو گنجا کیا گیا، پاؤں کی ایڑیاں کاٹی گئیں اور ان کی زبان کی چوٹیاں بھی چاقو سے کاٹی گئیں۔ اب ان چڑیلوں کی جادوئی قوت ہمیشہ کے لئے ختم ہوچکی تھی۔ ایک ماہ بعد وہ دو چڑیلیں بھی واپس اپنے گاؤں گاہیجا لوٹ آئیں، ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا گیا۔ وہ چڑیلیں آہستہ آہستہ مرکھپ گئیں باقی ایک چڑیل نے لمبی عمر پائی۔ ’’وہ آخری چڑیل میں نے دیکھی تھی۔‘‘ شکارپور ضلع کے ایک پولیس افسر اللہ بخش سہتو نے اپنی یادوں کو ٹٹولا۔
’’میں ان دنوں گاہیجا تھانے پر تعینات تھا۔ تھانے کے باہر ایک میدان میں برگد کا ایک گھنا درخت تھا۔ ایک بڑھیا روزانہ دوپہر کو بھینسوں کا ایک ریوڑ وہاں لا کر بٹھاتی تھی اور خود بھی وہیں بیٹھ جاتی تھی۔ ایک دفعہ وہ برگد کے درخت کے برابر میں لگے ہوئے نلکے (ہینڈ پمپ) سے اپنے پاؤں دھو رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ اس کی ایڑیاں کٹی ہوئی تھیں۔ میں نے سوچا کہ شاید کوئی پیدائشی نقص ہوگا لیکن مجھے تجسس ہوا، دوسرے دن میں ان کے پاس بیٹھ گیا اور بڑی رازداری سے پوچھا، ’خالہ جی! آپ کے پاؤں کی ایڑیاں نہیں ہیں؟‘ ۔ وہ کچھ دیر تک مجھے گھورتی رہی اور پھر بولی، ’میری ایڑیاں کاٹ دی گئی ہیں، میں بڑی خوفناک چڑیل ہوا کرتی تھی۔‘
بڑھیا کی زبانی یہ بات سن کر میں گھبرا گیا۔ اس نے پھر سے بتانا شروع کیا۔ ’میں نے لوگوں کو بہت ستایا، قبریں کھود کر مردوں کے کلیجے کھائے، ان کی بڑی تذلیل کی لیکن بعد میں میرے ساتھ بہت برا ہوا۔ میرا پورا جادو ختم کردیا گیا اب تو کچھ نہیں رہا۔‘
میں نے استفسار کیا۔ ’لیکن تم چڑیل کیسے بن گئیں؟‘ اس کا سر جھک گیا۔ شرمندگی اور پچھتاوے کے احساس میں ڈوبی ہوئی وہ بولی، ’ایک دفعہ کیا ہوا کہ میرا آٹھ سالہ بیٹا رات کو میرے ساتھ سویا ہوا تھا۔ اچانک اس کی نکسیر پھوٹ پڑی۔ وہ میرے اتنے قریب تھا کہ ناک سے بہنے والا خون میرے کھلے ہوئے منہ میں چلا گیا۔ کچھ دیر بعد میں جاگ گئی۔ مجھے اپنے منہ کا ذائقہ بے حد بھلا لگا۔ میں نے سوچا کہ انسان کے خون کا ذائقہ تو بہت اچھا ہوتا ہے۔ ایک دن میں نے بس ایسے ہی یہ بات اپنی خالہ کو بتا دی۔ کچھ دنوں بعد خالہ نے مجھے اپنے گھر بلا لیا۔ میری آنکھیں ایک ہاتھ سے بند کیں اور دوسرے ہاتھ سے مجھے کچھ کھلایا۔ مجھے اس کا ذائقہ بہت پسند آیا۔ خالہ نے بتایا کہ وہ انسان کا کلیجہ تھا۔ پھر اس نے یہ انکشاف کیا کہ وہ چڑیل ہیں۔ ایک دفعہ رات کو وہ ہمارے گھر آئی، سارے لوگ سو گئے تھے۔ اس نے چپکے سے مجھے جگایا، کوئی منتر پڑھا، گھر میں سوئے ہوئے سارے افراد جیسے پتھر کے ہو گئے۔ تھوڑی دیر بعد ایک خوفناک چراغ بڑی خاموشی سے گھر کے آنگن میں اترا، میرا دل گھبرا گیا۔ خالہ نے میرا بازو پکڑا اور مجھے بھی اپنے ساتھ چراغ پر بٹھایا۔ وہ چراغ ایک قبرستان میں اترا۔ ہم دونوں نے مل کر ایک تازہ قبر کھودی اور مردے کا کلیجہ نکال کر کھا لیا۔ مجھے بڑا مزا آیا۔ پھر ہم چراغ کی پیٹھ پر بیٹھ گئے۔ وہ برق کی سی تیزی سے اڑا اور ہمیں اپنے گھر اتار کر خود آسمان کی وسعتوں میں کہیں غائب ہو گیا، بعدازاں خالہ نے مجھے کچھ منتر سکھائے اور اس طرح میں بھی گاؤں میں موجود چڑیلوں کے گروہ کی ساتھی بن گئی۔‘
’پھر یہ سارا کھیل کیونکر ختم ہوگیا؟‘ میں نے ایک اور سوال کر ڈالا
جواب میں وہ بولی، ’ہم نے سہتا گاؤں کے ایک بزرگ کا کلیجہ نکال کر کھایا تھا، گاؤں کے لوگوں نے شدید ردعمل دکھایا۔ ہمارے گاؤں کے وڈیرے نے بڑی خبرداری سے ایک چڑیل کو پکڑ کر بری طرح پیٹا۔ اس چڑیل نے باقی چڑیلوں کی موجودگی کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی نشاندہی کر ڈالی۔ اس طرح اس سمیت آٹھ چڑیلیں پکڑی گئیں۔ باقی میں اور میری ایک ساتھی وہاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئیں۔ ایک ماہ بعد ہم واپس آئے تو ہمارے ساتھ برا حشر ہوا۔ ہمارا سارا جادو ختم کر دیا گیا۔ اب گاہیجا گاؤں میں کوئی چڑیل نہیں۔“ یہ کہہ کر گاہیجا کی آخری چڑیل بھینسوں کے ریوڑ کو ہانکنے کے لئے وہاں سے اٹھ گئی۔
واقعی اب گاہیجا گاؤں میں کوئی بھی چڑیل نہیں رہتی، لیکن جب بھی کوئی وہاں سے گزرتا ہے تو اچانک اپنے ساتھیوں سے کہنا شروع کر دیتا ہے، ’لو دیکھو…! یہ چڑیلوں کا گاؤں ہے۔‘ پھر گاؤں کی طرف نگاہ اٹھتی ہے تو یہ بہت بڑا خوشحال گاؤں بے حد پراسرار سا لگنے لگتا ہے۔ کچھ لوگ تو وہاں سے گزرتے ہوئے اس گاؤں کو دیکھنا تک گوارا نہیں کرتے کہ، ان کے خیال میں یہ منحوس اور ایک بدبخت گاؤں ہے۔
’’حقیقت میں ایسا ہے نہیں، اس گاؤں میں کبھی کوئی چڑیل نہیں رہی۔‘‘ گاؤں کے ایک معزز محمد انور گاہیجو کے مطابق، ”یہ گاہیجا قبیلے کے لوگوں کو خوامخواہ بدنام کرنے کی ایک سازش ہے۔ ہم نہیں مانتے یہ سب کچھ، من گھڑت ہے۔۔ ہوتا یہ تھا کہ پرانے زمانے میں ایک ذات والے لوگ دشمن یا نفرت کی بنیاد پر دوسری ذات والے لوگوں سے کوئی نہ کوئی برائی منسوب کر دیتے تھے۔ ہماری ذات سے بھی ایسا ہی کیا گیا اور اس طرح چڑیلوں کی نحوست اور بدنامی ہمارے حصے میں آ گئی۔ یہ سراسر زیادتی ہے بھائی!“
لیکن اسی گاؤں کے باسی تاجل گاہیجو نے اس کے برعکس بات کی۔ ان کا کہنا ہے، ”ہمارے گاؤں والوں سے چڑیلوں کی روایت منسوب کی گئی ہے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ کسی روایت کے پیچھے کوئی نہ کوئی حقیقت ضرور ہوتی ہے۔ ہمارے گاؤں اور ہماری ذات گاہیجا میں کسی زمانے میں چڑیلوں کی موجودگی کا اعتراف کوئی گناہ تھوڑی ہے۔ سچ کو دل سے ماننا چاہئے، اعتراف کرنے سے تذلیل تھوڑی ہوتی ہے بلکہ عزت ہوتی ہے۔ گاؤں کے بڑے، بوڑھے چڑیلوں کے متعلق بہت ساری باتیں بتاتے ہیں۔ یہ سب جھوٹ تو نہیں بولیں گے نا!‘‘
چڑیلوں کی اس روایت میں کتنا جھوٹ اور کتنا سچ ہے، اس کا فیصلہ کرنا بے حد مشکل ہے، لیکن گاہیجا گاؤں کی چڑیلیں پورے سندھ میں ایک ضرب المثل کا درجہ رکھتی ہیں۔ سندھ کے کسی بھی گھر میں اگر کوئی عورت چیخنے چلانے اور اپنے بال غصے سے نوچنے لگتی ہے تو فوراً اسے کہا جاتا ہے ’’تم گاہیجا کی ڈائن ہو کیا۔۔ بس کرو، ورنہ تمہاری ایڑیاں اور تمہاری چوٹی کاٹ دیں گے۔‘‘
گاہیجا گاؤں سکھر، لاڑکانہ مین روڈ پر شکارپور ضلع کے دو مشہور قصبوں مرزاپور اور مدیجی کے درمیان میں واقع ہے۔ یہ بہت قدیم گاؤں ہے۔ بہت کم لوگوں کو معلوم تھا کہ یہاں چڑیلیں رہتی ہیں۔ جن کو معلوم تھا، وہ خوف کے مارے کسی کو بتاتے بھی نہیں تھے۔ وہ چڑیلیں اپنے گاؤں اور آس پاس کے گاؤں دیہات کے لوگوں کو نہیں ستایا کرتی تھیں اور نہ ہی اپنے خاندان والوں کو تنگ کیا کرتی تھیں، اس لئے پورے سندھ میں مشہور ہے کہ ’چڑیلیں سات کوسوں دور تک کے لوگوں کو نہیں چھیڑتیں۔‘ وہ اپنےگھر کے کام دھندوں اور معمولات میں مشغول رہا کرتی تھیں اور شادی، غمی کے مواقع اور سماجی تقریبات میں بھرپور طریقے سے شرکت کرتی تھیں۔
وہ عام عورتوں کی طرح گھر داری بھی احسن طریقے سے کرتی تھیں لیکن جب رات ہوتی تھی تو گھر کے پورے افراد پر جادو منتر کر کے ان کو گہری نیند سلا کر چراغ پر بیٹھ کر ان قبرستانوں کا رخ کرتی تھیں، جہاں کوئی نئی میت دفن کی گئی ہوتی تھی۔ نئی میت کی نشاندہی شیطان کیا کرتا تھا۔ گاہیجا کے کچھ لوگوں کے علم میں تھا کہ ان کے آس پاس چڑیلیں موجود ہیں لیکن وہ خوف یا مصلحت کی خاطر خاموش رہنے ہی میں اپنی عافیت سمجھتے تھے۔
گاہیجا کی دس چڑیلوں کا گروہ ہر ماہ کے پہلے سوموار کو صبح سویرے گڑھی یاسین تحصیل کے ایک قدیمی گاؤں سہتا شریف میں موجود درگاہ چھتن شاہ بخاری جایا کرتا تھا۔ یہ درگاہ ہزار ہا ایکڑ پر مشتمل ایک بہت بڑے قبرستان کے عین وسط میں واقع ہے۔ کھبڑ اور کنڈی کے لاکھوں گھنے درختوں نے اس قبرستان کو بے حد پراسرار بنا دیا ہے۔
یہ چڑیلیں سب سے پہلے چھتن شاہ بخاری کے مقبرے کے چاروں طرف چکر لگاتی تھیں، پھر مقبرے کے اندر جا کر مزار سے لپٹ جاتی تھیں اور نہ جانے کیا کیا پڑھتی اور گاتی رہتی تھیں۔ پھر جھاڑو دے کر کھبڑ کے درخت کے نیچے آ کر شور شرابا کرتی تھیں اور کھبڑ کے درخت کی ایک شاخ میں لگی ہوئی لوہے کی گھنٹیوں کو اتنا زور سے بجایا کرتی تھیں کہ پورا قبرستان گونج اٹھتا تھا۔ وہ اکثر سہتا گاؤں کی گلیوں میں خوف و ہراس پھیلانے کی خاطر زور زور سے چیختی چلاتی بھی تھیں۔ لوگ اس دن گھروں میں محصور ہو کر بیٹھ جاتے تھے، ان کی ہمت ہی نہیں ہوتی تھی کہ وہ چڑیلوں کا مقابلہ کرسکیں۔
چھتن شاہ بخاری کے مقبرے کے باہر کھبڑ کے درخت میں لگی ہوئی ایک گھنٹی کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ ’چڑیلوں کی گھنٹی‘ ہے۔ لوگ اس گھنٹی کو بجانے سے گریز کرتے ہیں اور اس کو منحوس بھی سمجھتے ہیں۔ اگر بھولے سے بھی کوئی بچہ گھنٹی بجا لے تو فوراً اس کی ماں روک کر اسے کہتی ہے۔ ’’اس بدبخت کو مت بجاؤ، یہ چڑیلوں کی رکھی ہوئی گھنٹی ہے، کہیں اس میں سے چڑیل نہ نکل آئے۔ چڑیلوں کو مت چھیڑو۔‘‘
سہتا گاؤں کے سب سے عمر رسیدہ شخص محمد بخش سہتو (جن کا حال ہی میں 130؍ سال کی عمر میں انتقال ہوا ہے) نے ایک مرتبہ بتایا تھا۔ ’’میں ان دنوں سولہ برس کا تھا، ایک مرتبہ والد کی طبیعت خراب ہوگئی تو اس نے رات کو چاول کی فصل کا پہرہ دینے کے لئے مجھے زمین پر بھیجا۔ صبح سویرے اٹھ کر میں گاؤں کی طرف آ رہا تھا۔ میرا راستہ چھتن شاہ بخاری کے مزار کے قریب سے گزر رہا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ اس دن مہینے کا پہلا سوموار ہے اور چڑیلیں درگاہ پر آئیں گی، لہٰذا میں سویرے سویرے زمین سے روانہ ہوا۔
مجھے یقین تھا کہ میں چڑیلوں کے آنے سے پہلے پہلے گاؤں پہنچ جاؤں گا، لیکن جب درگاہ کے قریب پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آٹھ دس چڑیلیں درگاہ کی جنوب میں واقع ایک پرانے کنویں سے پانی بھر رہی تھیں اور اتنی ہی تعداد میں خونخوار چراخ ان کے آس پاس ٹہل رہے تھے۔ میں ان کے پیٹھ پیچھے تھا۔ ڈر کے مارے میں نے دوڑ لگائی اور گھر آ کر دم لیا۔ غالباً چراغ اس لئے تھے کہ اگر کوئی چڑیلوں پر حملہ کرے تو وہ ان پر بیٹھ کر جلدی سے اڑ جائیں۔“
جب پوچھا گیا کہ چڑیلیں آخر اس درگاہ پر ہی کیوں آتی تھیں تو گاؤں کے ایک اور بزرگ محمد ہاشم سہتو نے وضاحت کی، ’’ان کو اس بزرگ سے کوئی عقیدت نہ تھی۔ اگر عقیدت ہوتی تو وہ ایسے کام کیوں کرتیں؟ یہ پورا علاقہ قبرستانوں کا علاقہ ہے۔ چھتن شاہ، گل شاہ، لال منگریو، حسین شاہ، شہید شیر شاہ، کنک شاہ، محمد شاہ، صابل شاہ، مٹھل شاہ وغیرہ کے قبرستان تو چڑیلوں کے لئے محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔ ہر ماہ ان کو اتنے سارے قبرستانوں میں ایک آدھ تازہ میت مل ہی جاتی ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ ہر ماہ یہاں ’سبتھ‘ مناتی تھیں۔ وہ سبتھ کی تقریب میں جادو سیکھتی اور سکھاتی تھیں ۔ اس تقریب میں شیطان بھی شرکت کرتا تھا۔ وہ اگربتیاں بھی جلایا کرتی تھیں اور کبھی کبھار کسی سوکھے درخت یا جھاڑیوں کو آگ لگا کر خوف کا سماں پیدا کر دیتی تھیں۔ ہر ماہ کے پہلے سوموار کو ایک چھوٹے سے گاؤں سے دس عورتوں کے ایک ساتھ نکلنے کا سب کو پتا ہوتا تھا کہ یہ چڑیلیں ہیں لیکن ڈر کے مارے ان کے گھر کے افراد یا ان کے شوہر ان کو روکتے نہیں تھے۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ ان کو چھتن شاہ بخاری سے بڑی عقیدت ہے۔ وہ وہاں صفائی کرنے، مٹکے بھرنے اور درگاہ پر سلام کرنے جاتی ہیں۔“
گاہیجا گاؤں کی آدھی آبادی چڑیلوں کی ان کے گاؤں میں موجودگی کو ماننے سے قطعی انکار کرتی ہے لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ سندھی سماج میں صدیوں سے چڑیلوں کی موجودگی ایک حقیقت رہی ہے۔ چڑیل عام طور پر اس عورت کو کہا جاتا ہے جو جادو کرنے کی ماہر ہو۔ یہ ایک ایسی عورت ہوتی ہے، جس کے چہرے پر گہرے تل، آنکھیں لال یا باہر کو نکلی ہوئی اور بال بکھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ چڑیل کالے، نیلے اور بیگنی رنگ کے کپڑے پہننا پسند کرتی ہے کیونکہ یہ رنگ خوفناک ہوتے ہیں۔ اس کی ناک لمبوتری اور ناخن بہت لمبے ہوتے ہیں۔ یورپ میں ہزارہا عورتوں کو چڑیل ہونے کے سبب موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ان کو یا تو پھانسی پر لٹکایا جاتا تھا یا پھر زندہ جلایا جاتا تھا۔ ان میں کافی مرد بھی تھے جو جادو ٹونہ کیا کرتے تھے۔
یورپی تاریخ کی دو نامور خواتین جان آیف آرک اور ملکہ این جولین کو بھی چڑیل سمجھا جاتا تھا، ان کے گلے پر موٹا تل اور ان کے ہاتھوں اور پاؤں میں چھ چھ انگلیاں تھیں۔ پندرہویں سے اٹھارویں صدی عیسوی کے یورپ میں مافوق الفطرت قوتیں رکھنے والی عورتوں کو زندہ جلا دیا جاتا تھا۔
سندھ میں چڑیل کا مروجہ تصور یہ ہے کہ چڑیل ایک ایسی عورت ہے، جو جادوئی قوت سے اپنی صورت تبدیل کر لیتی ہے، جس کے دونوں پاؤں کا پنجہ ایڑی کی طرف یا پیچھے کی طرف ہوتا ہے، اس لئے اس کو ’پچھل پیری‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ تصور بھی عام ہے کہ جب کوئی عورت خاندان یا ڈاکٹر کی غفلت کے باعث بچے کی ولادت کے دوران فوت ہوجاتی ہے تو گھر کے سارے افراد خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ مرحومہ ایک نہ ایک دن چڑیل کی صورت میں واپس آئے گی اور اپنے شوہر یا گھر کے کسی مرد کا خون پی کر غائب ہو جائے گی۔
ایک تصور یہ بھی ہے کہ دورانِ ولادت چڑیل گھر میں آ کر عورت کو ہلاک کر سکتی ہے، لہٰذا ولادت کے وقت عورت کے سرہانے قرآن پاک کی تلاوت کی جاتی ہے۔
سندھ کا لوک ادب چڑیلوں کے قصے کہانیوں سے بھرا پڑا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سندھی سماج میں چڑیلوں کا بڑا اثر رہا ہے۔ وید کے دور سے لے کر آج تک کے سندھ کے تحریری مواد میں چڑیلوں کا تذکرہ موجود ہے۔ نہ صرف یہ، بلکہ سندھ میں موجود کئی ایک مقام یا قدیم مقامات پر چڑیلوں کی تصاویر /مصوری کے نمونے موجود ہیں۔
خیرپور ناھن شاہ (ضلع دادو) کے شمال مغرب میں واقع تاریخی گاؤں گاڑھی میں موجود میاں نصیر محمد کلہوڑو کے قبرستان میں امید علی خان بخاری اور فرید خان لغاری کا مقبرہ ہے۔ اس مقبرے کے اندر دیوار پر مصوری کا ایک نمونہ ہے۔ اس میں دکھایا گیا ہے کہ کچھ عورتیں چارپائی پر ہراساں بیٹھی ہیں اور ایک بہادر مرد ایک چڑیل سے لڑائی میں مصروف ہے۔ اس کے ہاتھ میں ایک تلوار بھی ہے۔ نیچے ایک چراغ بھی پڑا ہے۔ لگتا ہے کہ یہ چڑیل اس چراغ پر بیٹھ کر ان عورتوں کے پاس آئی تھی۔ امید علی خان لغاری اور فرید خان لغاری، میاں نصیر محمد کلہوڑو کے مرید تھے۔ ان کا مقبرہ تقریباً 300؍برس پرانا ہے۔
چڑیلوں کی شناخت کوئی مشکل کام نہیں، ان کے گلے پر بڑے کالے تل کا ابھرا ہوا نشان ہوتا ہے، جسے ’شیطان کا نشان‘ کہا جاتا ہے۔ ان کی نشاندہی دوسری چڑیلیں بھی کرتی ہیں، خاص طور پر اس وقت، جب ان کو بے دردی سے مارا جاتا ہے۔ وہ قبرستان میں جاکر تازہ قبریں کھودتی اور مردے کا کلیجہ نکال کر کھاتی ہیں۔ وہ کالا جادو کرتی ہیں۔ جب ان سے کوئی سوال پوچھا جاتا ہے تو وہ یا تو خاموش ہو جاتی ہیں یا پھر خوف سے کانپنے لگتی ہیں۔ جب چڑیل پر تشدد کیا جاتا ہے تو وہ چیختی چلاتی یا روتی نہیں ہے۔ وہ ہر ماہ کے پہلے سوموار کو ’سبتھ‘ میں شریک ہوتی ہے۔
چڑیل کی شناخت کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اس کے ہاتھ، پاؤں کو رسی سے باندھ کر اس کو پانی میں تیرنے کے لئے کہا جاتا ہے، اگر وہ ڈوب جائے تو چڑیل نہیں ہے اور اگر رسی توڑ کر تیرنا شروع کر دے تو اسے چڑیل سمجھا جاتا ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس عورت کے گلے پر موجود موٹے تل میں ایک سوئی چبھوئی جاتی ہے۔ اگر تل سے خون بہنا شروع ہوجائے تو سمجھو کہ یہ عورت چڑیل نہیں ہے اور اگر اس تل سے خون نہ نکلے اور کوئی تکلیف یا درد بھی نہ ہو تو پھر یہ چڑیل ہی ہے۔
بڑے بوڑھے بتاتے ہیں کہ یہ سارے طریقے گاہیجا کی چڑیلوں کی شناخت کے سلسلے میں اختیار کئے گئے تھے، خاص طور پر خلیفہ جعفر کی چڑیلوں کے ہاتھوں موت کے بعد چڑیلوں کو بڑی آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ ان کی ایڑیاں، زبان اور بال کاٹے گئے، ان پر سخت جسمانی تشدد کیا گیا۔ اس طرح آہستہ آہستہ کر کے ساری چڑیلیں ختم ہو گئیں۔ اب گاہیجا گاؤں میں کوئی چڑیل نہیں۔ اگر لاڑکانہ سے سکھر یا سکھر سے لاڑکانہ کا سفر کیا جائے تو راستے میں گاہیجا گاؤں سے بھی گزرنا ہوتا ہے لیکن آپ ڈریئے گا ہرگز نہیں، چڑیلیں اب قصہِ پارینہ ہو چکی ہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)