استاد اللہ رکھیو کا بہیمانہ قتل، ڈاکوؤں کے زیرِ تسلط کچے کا علاقہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی خاموشی

ویب ڈیسک

سندھ میں ڈاکو راج کا سلسلہ ایک بار پھر سے تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے، بدامنی کے بادل گہرے ہو رہے ہیں اور ہر آئے دن کہیں نا کہیں کوئی نا کوئی شخص اغوا یا قتل ہو رہا ہے۔ حکومت سندھ اس سلسلے میں کچھ بھی کرنے سے قاصر دکھائی دے رہی ہے پولیس سمیت سندھ کے حکمران سندھ کے اپر سائیڈ شہریوں کندھ کوٹ، کشمور، گھوٹکی، اباوڑو، ڈہرکی، شکارپور اور جیکب آباد میں ڈاکوؤں کا پورا جال بچا ہوا ہے لیکن سندھ پولیس کو وہ کہیں نظر نہیں آتے ہیں۔

گزشتہ چند دنوں سے کندھ کوٹ، کشمور کے کچے کے علاقے میں ڈاکو سرعام جدید اسلحے کی وڈیوز بنا کر نمائش کر رہے ہیں اور وہ بھی اپنی مرضی سے ریکارڈ کر کے سوشل میڈیا پر وائرل کی جا رہی ہیں، جس سے لگ رہا ہے کہ وہ اس ملک کی ریاست اور رٹ کو چیلینج کر رہے ہیں مگر اس پر کوئی بھی اقدام اٹھایا نہیں جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس وقت بھی کچے کے علاقوں میں ڈاکوؤں کے پاس 500 سو سے زائد مغوی قید ہیں، جن کی رہائی کے لئے وہ سوشل میڈیا پر ان کو تشدد کرتے ہوئے ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر رہے ہیں مگر اگر کسی کو رسائی حاصل نہیں ہے، تو وہ ہے پولیس جو ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے گریزاں نظر آتی ہے۔ لیکن کہنے والے کہتے ہیں کہ اس گریز کی وجہ کے نقشِ پا اقتدار کے ایوانوں تک جاتے ہیں

اسکول ٹیچر اللہ رکھیو نندوانی کا قتل

ڈاکوؤں کے اثرو رسوخ کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے کچے کے علاقے میں اب علم کی شمع روشن کرنے والوں کو بھی نہیں بخشا اور ان کے خلاف بھی محاذ کھڑا کر رکھا ہے۔

ایک ہفتے کے دوران دو مختلف واقعات میں کچے کے ان بے چہرہ ڈاکوؤں نے تین اساتذہ کو نشانہ بنایا ہے۔ ان واقعات میں ایک استاد ہلاک جبکہ دو زخمی ہوئے ہیں۔

مقامی سطح پر ہونے والی ان وارداتوں میں اضافے کے ساتھ ہی کچے کے ڈاکو چھوٹے بڑے دیہات، قصبوں اور شاہراؤں پر وارداتیں کرنے کے بعد بآسانی فرار ہو جاتے ہیں۔
رواں ہفتے کا پہلا واقعہ سندھ کے قصبے کندھ کوٹ کے رہائشی پرائمری سکول کے استاد اللہ رکھیو نندوانی کے ساتھ پیش آیا۔ وہ کچے کے پسماندہ علاقے میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے تھے

کچھ دن قبل اللہ رکھیو نندوانی جو کشمور کے کلسٹر اسکول نصراللہ بجارانی میں پڑھاتے تھے، ان کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے معصوم بیٹے کے ساتھ موٹرسائیکل پر بیٹھے ہوئے ہیں اور گلے میں دونالی بندوق رکھی ہوئی ہے اور بتا رہے ہیں کہ وہ مستقبل کے معماروں کو پڑھانے کے لئے کچے کے علاقے میں جاتے ہیں، جس پر کئی بار اس سے لوٹ مار ہوئی ہے، جس سے تنگ آ کر انہوں نے لائسنس یافتہ بندوق رکھی ہے تاکہ ڈاکوؤں سے بچا جا سکے۔

اللہ رکھیو کو طویل عرصے سے تعلیمی سرگرمیاں بند نہ کرنے پر جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جا رہی تھیں، جس کا ذکر انہوں نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں بھی کیا تھا۔

اللہ رکھیو نے ویڈیو میں بتایا تھا کہ ’انہیں تدریسی سلسلہ روکنے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔‘

اس استاد اللہ رکھیو نندوانی کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اپنے مستقبل کے معماروں کو ہر حال میں پڑھانا چاہتے ہیں اس لئے وہ اسلحہ لے کر اسکول جائیں گے کیوں کہ میرا دل مطمئن نہیں ہو رہا ہے کہ بچوں کو نا پڑھاؤں۔

انہوں نے اس بارے میں محکمہ تعلیم سمیت دیگر متعلقہ اداروں کو مطلع بھی کیا لیکن کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملا تو انہوں نے اپنی حفاظت خود کرنے اور بچوں کی تعلیم کے لیے اپنی جدوجہد کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔

اللہ رکھیو نے اس ویڈیو میں مزید کہا تھا ”علاقے میں سرگرم ڈاکو یہ چاہتے ہیں کہ بچوں کو تعلیم سے دور رکھا جائے۔ ان حالات میں یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم بچوں کے مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔“

استاد اللہ رکھیو نندوانی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے دو تین دن بعد اس کو ڈاکوؤں نے شہید کر دیا اور وہ اسکول جو کشمور کے کلسٹر نصراللہ بجارانی اب ایسے فرض شناس استاد سے محروم ہو گیا۔ استاد اللہ رکھیو نندوانی کی اس ویڈیو کا مقصد حکمرانوں کی توجہ اس جانب مبذول کرانا تھا کہ بد امنی کی وجہ سے بچوں کی تعلیم کا شدید نقصان ہو رہا ہے۔

اگرچہ یہ کوئی فوٹو شوٹ وڈیو نہیں تھی۔ یہ مکمل طور پر حقیقت پر مبنی تھی لیکن اس وڈیو کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ اس کے ذریعے یہ تاثر قائم کیا جائے کہ جس ہاتھ میں قلم ہوتا ہے، وہ اپنے مستقبل کے معماروں کو پڑھانے کے لئے اسلحے کا سہارا لے کر اسکول جا رہا ہے کیونکہ اس کی زندگی خطرے میں ہے۔

اب کلسٹر نصراللہ بجارانی اسکول کے بچے اک ایسے استاد سے محروم ہو گئے، جو اپنے لئے خطرہ مول کر بھی ان معصوم بچوں کو پڑھانے جاتے تھے مگر اس واقعے کے بعد شاید ہی کوئی استاد اس اسکول میں ڈیوٹی کرے۔

حکومت کے نمائشی اقدامات

استاد اللہ رکھیو نندوانی جب زندہ تھے اور حکومت کی توجہ اس بدامنی کی جانب مبذول کرانا چاہ رہے تھے تو ان کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی، اب ان کی شہادت کے بعد خانہ پری کے لیے سندھ حکومت کے وزیر ضیاء لنجار نے رپورٹ طلب کی ہے۔۔

اس ملک کا المیہ رہا ہے کہ یہاں پر کچھ ہونے سے پہلے پکارا جاتا ہے کہ اس کی زندگی خطرے میں ہے مگر اس پر کوئی دھیان نہیں دیتا پھر جب اس کی زندگی کا دیا بجھ جاتا ہے تو پر اس پر کمیٹی بنائی جاتی ہے اور وہ کمیٹی کبھی بھی اصل حقائق تک نہیں پہنچتی اور آخرکار شہید ہونے والے فرد کے افراد بیزار ہو کر کیس کی پیروی کرنا ہی بند کر دیتے ہیں۔

سندھ کی صوبائی حکومت کی جانب سے استاد کے اس بہیمانہ قتل پر ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے اعادے کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ عملی طور پر اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے اس واقعے کے چھ روز گزر جانے کے بعد بھی ڈاکو ایک بار پھر اپنی پناہ گاہوں سے باہر نکلے اور انہوں نے دو مزید اساتذہ کو نشانہ بنایا۔

کندھ کوٹ پولیس کے مطابق اوگاہی لاڑو کے مقام پر ڈاکوؤں کی جانب سے ایک سکول ٹیچر کو اغوا کرنے کی کوشش کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ اغوا کی یہ کوشش اس وقت کی گئی جب وہ اپنی تدریسی ذمہ داریاں ادا کرنے سکول جا رہے تھے۔

کندھ کوٹ پولیس نے کہا ہے کہ ڈاکوؤں نے مزاحمت پر مقامی ہائی سکول حامد بھلکانی کے ٹیچر عبدالرحیم باجکانی اور ان کے والد ریٹائرڈ ٹیچر علی گوہر باجکانی کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ان پر فائرنگ کی جس سے دونوں شدید زخمی ہو گئے۔ انہیں مقامی لوگوں نے بروقت سول سپتال کندھ کوٹ منتقل کیا جہاں انہیں فوری طبی امداد فراہم کی گئی۔ ہسپتال کے عملے کے مطابق دونوں اساتذہ کی حالت اب خطرے سے باہر ہے۔

گھوٹکی، ڈھرکی، کندھ کوٹ، کشمور، شکارپور اضلاع کی جہاں پر ڈاکو راج نے پورے سماج کو مفلوج بنا دیا ہے مگر سندھ حکومت یا وفاقی حکومت اس پر کوئی ایکشن اٹھانے کو تیار نہیں ہے۔ اب تو حیرت کی بات ہے کہ سوشل میڈیا پر مسلسل پوسٹس شیئر ہو رہی ہیں کہ سندھ میں جنگل کا قانون ہے اس لئے شہری اپنی حفاظت خود کریں اور پنجاب جانے والے مسافر کوشش کریں کہ شام سے پہلے سکھر، کشمور، کندھ کوٹ سے نکل جائیں تاکہ کسی ڈاکو کے ہتھے نا لگ جائیں۔

یہ صورت حال ثابت کرتی ہے کہ سندھ میں واقعی جنگل کا قانون ہے۔ کچے میں کتنے ڈاکو ہوں گے، زیادہ سے زیادہ ایک ہزار، مگر وہ ڈاکو اس ریاست کو مسلسل چیلینج کر رہے ہیں۔چند سو ڈاکوؤں نے کروڑوں عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے، حکومت اگر مخلصی کے ساتھ ڈاکو کلچر کو ختم کرنا چاہے تو ان کا خاتمہ ممکن ہے۔ مگر وفاقی اور سندھ حکومت کی خاموشی سے لگ رہا ہے کہ شاید پیر، میر، وڈیرے، سیاستدان، حکمران اور ریاستی ادارے نہیں چاہتے کہ ڈاکو راج ختم ہو۔

اس وقت ڈاکوؤں کے قبضے میں پانچ سو سے زائد افراد باندی ہیں ان کے ورثا کے پاس اتنا پیسا نہیں ہے کہ وہ ان کا تاوان دے کر ان کو چھڑا سکیں، جس کی وجہ سے ان کے لخت جگر آج بھی ان ڈاکوؤں کے پنجے میں ہیں جو سوشل میڈیا پر ہاتھ جوڑے ہوئے اپنے ورثاء اور پولیس کو مدد کی اپیلیں کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر لگ رہا ہے کہ سب حکمران بے حس ہو گئے ہیں جن کو یہ سب کچھ دکھائی نہیں دیتا۔

وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کو چاہیے کہ ایک مشترکہ کارروائی کر کے سندھ کو ڈاکو راج سے نجات دلائی جائے تاکہ سکھر، شکارپور، کندھ کوٹ، کشمور، جیکب آباد کے علاقوں کی عوام سکون کی سانس لے سکیں۔

وہ علاقے جہاں ڈاکو آزادانہ کارروائیاں کر رہے ہیں

سندھ اور پنجاب کے سرحدی علاقوں میں کئی دہائیوں سے ڈاکوؤں کے مختلف گروہ سرگرم ہیں۔ سینیئر صحافی طارق ابوالحسن ان علاقوں میں جا کر کئی بار رپورٹنگ کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سندھ اور پنجاب کے سرحدی علاقوں میں ڈاکوؤں کے متعدد گروہ سرگرم ہیں۔
’یہ علاقے عام طور پر کچے کے علاقے کے طور پر جانے جاتے ہیں جہاں سرگرم جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے علاوہ کالعدم تنظیمیں بھی کر رہی ہیں۔‘

پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے خود یہ بات کہہ چکے ہیں کہ ’ان علاقوں میں موجود شرپسند عناصر کے تانے بانے بہت آگے تک جڑے ہوئے ہیں اور ان کے خلاف کئی بار کارروائی کی گئی مگر یہ ہمیشہ بچ نکلنے میں کامیاب رہے۔‘

کچے کا علاقہ

کچے کا علاقہ پاکستان کے تین بڑے صوبوں کا سرحدی علاقہ ہے، جو صوبہ پنجاب کے ضلع راجن پور، سندھ کے ضلع کشمور اور بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی پر مشتمل ہے۔ یہ دریائے سندھ میں قدرتی طور پر بنے دو چھوٹے جزیروں پر مشتمل ہے جن کی مجموعی لمبائی تقریباً چالیس سے ساٹھ کلومیٹر اور چوڑائی تقریباً دس سے پندرہ کلومیٹر ہے

ایک محتاط اندازے کے مطابق کچے کے علاقے میں تقریباً آٹھ بڑے جبکہ گیارہ چھوٹے گینگ اور دیگر جرائم پیشہ لوگ پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ان کی پشت پناہی مبینہ طور پر سندھ اور راجن پور کے علاوہ رحیم یار خان کی پولیس اور وڈیرے بھی کرتے آئے ہیں۔

کچے کے علاقے جرائم پیشہ افراد کے محفوظ ٹھکانے کیسے بنے؟

جامعہ کراچی شعبہ کرمنالوجی کی پروفیسر ڈاکٹر نائمہ شہریار کہتی ہیں ’کچے کے علاقے شروع سے ہی جرائم پیشہ افراد کے ٹھکانے نہیں تھے لیکن چھوٹے چھوٹے جرائم میں ملوث افراد کو جب بااثر شخصیات کی حمایت حاصل ہونے لگی تو انہوں نے جرائم پیشہ گروہوں کی صورت اختیار کر لی، اور چند ہی برسوں میں یہ طاقت ور جرائم پیشہ گروہوں کے طور پر ابھرے۔ یوں وہ نہ صرف ان علاقوں کے لیے بلکہ ان علاقوں سے گزرنے والوں کے لیے بھی مسائل پیدا کرنے لگے۔ ان جرائم پیشہ افراد کے خلاف کئی بار آپریشنز بھی ہوئے مگر یہ اب بھی کسی نہ کسی طور پر اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘

سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں رائج سرداری نظام

سندھ اور پنجاب کے سرحدی علاقے اوباڑو میں سرگرم عمل سماجی کارکن روبینہ شر کے مطابق پاکستان کے تین بڑے صوبوں کے سنگم پر واقع اس علاقے کے دامن میں تینوں ہی صوبوں کی روایات نظر آتی ہے۔ ان علاقوں میں قبائلی نظام رائج ہے، اور ملک کے دیگر علاقوں کے سرداروں کی طرح یہ یہاں کے بیشتر علاقوں میں بھی کسی قسم کی روک ٹوک کے بغیر سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’گذشتہ کچھ عرصے سے راجن پور، رحیم یار خان اور گردونواح میں موجود قبائل کے درمیان باہمی اتفاق سے ایک فارمولہ طے پا چکا ہے۔ اس علاقے میں موجود سرداری نظام راجن پور کے مزاری قبیلے کی سربراہی میں منظم ہے۔ لیکن اس کے باوجود کئی علاقوں میں آوازیں بلند ہونے لگی ہیں اور لوگ مزاری قبیلے کے خلاف بھی فیصلے کر رہے ہیں۔‘

واضح رہے کہ مزاری قبیلے کے ذیلی قبائل میں سکھانی، بالاچانی، گورچانی، لاٹھانی اور سرگانی قبیلے شامل ہیں اور یوں یہ اس علاقے کا طاقت ور ترین قبیلہ بن چکا ہے۔

کیا کبھی کچے کے علاقے میں پولیس نے کارروائی کی ہے؟

سندھ، پنجاب اور بلوچستان سے متصل کچے کے ان علاقوں میں کئی بار پولیس، رینجرز سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے آپریشن کر چکے ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان علاقوں میں سکیورٹی اداروں کی جانب سے ایک درجن سے زیادہ چھوٹے بڑے آپریشنز میں کامیابی کا دعویٰ کیا جا چکا ہے لیکن یہ عناصر کبھی ختم نہیں کیے جا سکے جس کی وجہ طاقت ور شخصیات کی ان کی پشت پناہی کرنا ہے۔
کچھ عرصہ قبل سکیورٹی اداروں کی جانب سے پنجاب کے کچے کے علاقے میں بدنام زمانہ چھوٹو گینگ کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا تھا۔

سکیورٹی اداروں کو کئی روز تک جاری رہنے والے اس آپریشن میں بڑی کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ اس آپریشن کے بعد کچے کے علاقوں میں چھوٹے بڑے کریک ڈاؤن بھی کیے گئے اور حالات کو کنڑول کر لیا گیا تھا۔

تاہم کچھ عرصے سے ایک بار پر ان علاقوں سے ڈاکوؤں کی کارروائیوں کی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں جس کے بعد نومنتخب حکومت ایک بار پھر کچے کے علاقے میں گرینڈ آپریشن کرنے کی حکمت عملی مرتب کر رہی ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ ڈاکوؤں نے طریقے بھی تبدیل کیے
صوبہ خیبر پختونخوا سمیت دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے سندھ میں اغوا ہونے کے واقعات تواتر سے سامنے آ رہے ہیں۔

تاوان کی رقم کی ادائیگی کے بعد رہائی پانے والے حبیب الرحمنٰ (فرضی نام) نے بتایا کہ ’انہوں نے اکیس دن اغوا کاروں کے پاس گزارے ہیں۔ یہ وقت ان کی زندگی کا بدترین وقت تھا۔ انہیں دو دو روز تک کھانے کو کچھ نہیں دیا گیا، ان پر بدترین تشدد کیا گیا جس کی ویڈیو بنا کر ان کے گھر والوں کو بھیجی گئی۔‘

انہوں نے بتایا ’ان کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اغوا کیا گیا جس کے چار روز بعد ان کے گھر والوں کو ان کی ویڈیو بھیجی گئی اور ان سے دو کروڑ روپے تاوان کی ادائیگی کا مطالبہ کیا گیا۔‘

’دس دنوں تک پیسے نہ ملنے پر زدوکوب کیا گیا اور پھر بلآخر انہیں میری حالت پر رحم آیا تو معاملہ کچھ کم پیسوں میں طے ہونے کے بعد میری جان بچ سکی۔‘

حبیب الرحمنٰ کا کہنا تھا کہ ’اغوا کاروں میں موجود کچھ لوگوں کے لہجے سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ تعلیم یافتہ ہیں۔ وہ گفتگو میں انگریزی کے الفاظ بھی بول رہے تھے اور ان کا لہجہ بھی دوسروں سے مختلف تھا۔‘

ڈاکوؤں کو جدید ہتھیاروں کی فراہمی کیسے؟

یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب کوئی دینے کو تیار نہیں کیونکہ ڈاکوؤں کے پاس جدید ترین ہتھیار موجود ہیں جن میں راکٹ لانچر بھی شامل ہیں۔

ڈاکو اب روایتی طریقوں سے ہٹ کر وارداتیں کر رہے ہیں۔ سندھ پولیس کے مطابق ماضی میں جو واقعات رپورٹ ہوتے رہے ہیں، ان میں اسلحے کے زور پر لوگوں کو اغوا کیا جاتا تھا۔ اب کچھ عرصے سے کاروباری افراد کو ٹریپ کر کے اغوا کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے پولیس کی جانب سے عوام کی آگاہی کے لیے مہم بھی چلائی جا رہی ہے۔

سندھ اور پنجاب آنے جانے والی گاڑیوں میں سوار شہریوں سے پولیس اہلکار مخاطب ہو کر یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اگر کوئی شہری کاروباری لین دین، گاڑی کی خرید و فروخت یا پھر کسی خاتون کے بلانے پر کچے کے علاقے میں جانے کا ارادہ رکھتا ہے تو وہ ایسا کرنے سے خود کو روکے، کیونکہ جرائم پیشہ افراد مختلف طریقوں سے لوگوں کو یرغمال بنانے کے لیے ایسے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔ چنانچہ کوئی بھی فرد اگر ایسے کسی عمل کا حصہ بننے جا رہا ہے تو وہ یہ کام نہ کرے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close