پاکستان کا ’75 برسوں سے جاری نازک موڑ‘ ہارورڈ بزنس اسکول کی کیس اسٹڈی بن گیا!

ویب ڈیسک

پاکستان کے سیاسی لیڈر جب بھی ملک کے سیاسی و معاشی حالات کا ذکر کرتے ہیں تو ہمیشہ یہی سننے کو ملتا ہے کہ پاکستان اس وقت نازک موڑ سے گزر رہا ہے۔

77 سال کے سفر کے باوجود پاکستان آج بھی نازک موڑ سے ہی گزر رہا ہے کیونکہ کمر توڑ مہنگائی، بھاری بھرکم یوٹیلیٹی بلز، بھاری ٹیکسز، کرپشن اور بڑھتے ہوئے بیرونی قرضوں نے عام آدمی کا جینا تک محال کر رکھا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر معاشی بحران کے درمیان طاقتور اشرافیہ اور مقتدر طبقے کے اندرون اور بیرونِ ملک اثاثے بڑھ رہے ہیں۔

اس صورتحال نے غیر ملکی تعلیمی اداروں کی توجہ مبذول کرائی ہے اور یہ نازک موڑ ایک طویل سفر طے کرنے کے بعد اب ایک ایسے موڑ پر آن پہنچا ہے کہ اسے ہارورڈ کے بزنس اسکول میں مستقبل کے ممکنہ رہنماؤں اور مینیجرز کو بطور ’کیس اسٹڈی‘ پڑھایا جا رہا ہے

کیس اسٹڈی، جس کا عنوان ہے ’پاکستان میں 75 سال سے جاری نازک موڑ کب ختم ہوگا؟‘ پروفیسر البرٹو کاوالو کے دی بزنس، گورنمنٹ اینڈ دی انٹرنیشنل اکانومی – اسپرنگ 2024 میں ہارورڈ بزنس اسکول میں پڑھائی جارہی ہے اور اب اس کا سوشل میڈیا پر خوب چرچا ہے۔

فنانشل ٹائمز کے مطابق اسکول کا ایم بی اے پروگرام دنیا بھر میں گیارہویں نمبر پر ہے۔

یہ کیس اسٹڈی ہارورڈ بزنس اسکول کی پروفیسر میگ رتھمائر، سالار اے شیخ (ایم بی اے) نے تیار کی تھی۔ اس کا مقصد مستقبل کے لیڈرز اور مینجرز کو تعلیم دینا ہے۔
اس کیس اسٹڈی کے عنوان میں پاکستان کے اُس ’نازک موڑ‘ کا حوالہ دیا گیا ہے، جس کا ذکر سیاسی بیانات میں بار بار کیا جاتا ہے جو پاکستان کے سیاسی عدم استحکام اور تیزی سے بڑھتے ہوئے معاشی مسائل کو بیان کرتا ہے۔

دوسرا حوالہ 75 سال کا ہے جو اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ 1947 سے اب تک ملک کو درپیش مسائل میں کوئی کمی نہیں آ سکی۔

تعلیمی اداروں میں کیس اسٹڈیز طلبا کو پڑھانے کا عام طریقہ ہے، جس میں پروفیسرز حقیقی زندگی کی مثالیں پیش کر کے طلبا کو ان کی فیلڈ میں پیش آنے والے مسائل کو حل کرنا سکھاتے ہیں

یہی وجہ ہے کہ بحران زدہ پاکستان میں موجودہ صورتحال کو بزنس اسکولوں میں "کیس اسٹڈی” کے طور پر پڑھایا جا رہا ہے تاکہ طلباء کو حقیقی زندگی کی مثال پیش کی جا سکے۔

کیونکہ 1947 میں اس کی تخلیق کے بعد سے، ملک کو 2024 میں بھی انہی مسائل کا سامنا ہے، جس میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) سے بیل آؤٹ، خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں، اور بلند افراط زر شامل ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close