طلبہ کلاس میں ٹِک کر کیوں نہیں بیٹھتے؟

تحریم عظیم

ہماری خوش قسمتی کہہ لیجیے یا بدقسمتی کہ ہم پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد اپنی مادرعلمی جامعہ پنجاب کے اسکول آف کمیونیکیشن سسٹڈیز میں پڑھا رہے ہیں۔

ہمارے طالب علموں کا کہنا ہے کہ ہم ان سے زیادہ جوش و خروش سے یونیورسٹی آتے ہیں۔ اب انہیں کیا بتائیں کہ ہم نے چین میں اپنے کسی پروفیسر کو کلاس میں داخل ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ہم جب بھی کلاس میں جاتے تھے، چاہے وہ وقت کلاس شروع ہونے سے دس منٹ پہلے کا ہی کیوں نہ ہوتا، استاد وہاں موجود ہوتا تھا۔

ہم ان کی طرح وقت سے بہت پہلے تو نہیں لیکن دو چار منٹ پہلے کلاس میں پہنچ جاتے ہیں۔ دو چار طالب علم پہلے سے بیٹھے ہوتے ہیں، کچھ ہمیں دیکھ کر اندر آ جاتے ہیں تو کچھ کلاس کا تھوڑا سا وقت گزر جانے کے بعد تشریف لاتے ہیں تو کچھ آنے کی زحمت ہی نہیں کرتے۔

جب ہم طالب علم تھے تو ہمیں اپنے اساتذہ اور جامعہ میں کافی مسائل دکھائی دیتے تھے۔ اب جب ہم خود استاد بن چکے ہیں تو ہمیں احساس ہو رہا ہے کہ مسائل تو ہمیشہ سے دو طرفہ رہے ہیں۔

پہلے یہ ادارہ تھا۔ اب ایک اسکول بن چکا ہے۔ اس اسکول میں کئی ڈیپارٹمنٹ بن چکے ہیں۔ ہر ڈیپارٹمنٹ کو علیحدہ کرنے کے لیے عمارت کو عجیب طریقے سے تقسیم کر دیا گیا ہے۔

اس وقت طالبات کے لیے عمارت کے پچھلے کونے میں ایک کامن روم ہوتا تھا۔ اب اسے ایک کمرہ جماعت بنا دیا گیا ہے جبکہ اوپر کی منزل پر بڑے بڑے ہال نما کمروں کو چھوٹے چھوٹے ڈربہ نما کمرہ جماعتوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔

طالب علموں کے بیٹھنے کے لیے یا تو اسکول کی لائبریری بچی ہے یا اسکول کے باہر موجود ہرا بھرا گھاس کا لان جو آنے والے دنوں میں گرمی کی وجہ سے بیٹھنے کے قابل نہیں رہے گا۔

دوسری طرف اسکول میں کافی اچھی تبدیلیاں بھی آئی ہیں۔ بہت سے نئے پروگرامز اور کورسز متعارف کروائے گئے ہیں جو موجودہ دور کے تقاضوں کے عین مطابق ہیں۔ کچھ پروگرامز میں خرابیاں بھی ہیں۔ جیسے ایک پروگرام کے بچے فطری سائنس کے مضامین پڑھ رہے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے، یہ معلوم ہوئی تو ضرور بتائیں گے۔

استاد بننے کے بعد ہمیں محسوس ہو رہا ہے کہ طالب علموں کا رویہ بھی اساتذہ اور ادارے کی بہت حوصلہ شکنی کرتا ہے۔

ہم پڑھا رہے ہوں تو وہ سننے کا تکلف نہیں کرتے۔ ہم اسائنمنٹ دیں تو کر کے نہیں لاتے، وجہ پوچھیں تو کسی کا فون چوری ہو گیا تھا تو کسی کا کزن حادثے کا شکار ہو گیا تھا تو کوئی نئے گھر منتقل ہو رہا تھا۔

ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے لڑکوں کو لیکچر کے دوران بہت سے کیڑے کاٹ رہے ہوتے ہیں۔ ان سے دس منٹ بھی کلاس میں آرام سے بیٹھا نہیں جاتا۔ دو منٹ بعد کوئی نہ کوئی اٹھ کر آتا ہے کہ اسے اسی وقت کسی ہنگامی صورت حال کو نبٹانے جانا ہے۔ ہم اسے جانے کی اجازت دے دیں اور حاضری بھی لگا دیں۔

پہلے ہمیں خود پر شک ہوا کہ شاید ہم انہیں اچھا نہیں پڑھا رہے پھر ان میں سے بہت سوں کی زبانی معلوم ہوا کہ انہیں اس سمسٹر پڑھانے والے اساتذہ میں سب سے اچھے ہم ہی ہیں۔

پھر ہمیں یقین ہو گیا کہ ان طلبہ میں ہونے والی بے چینی کی وجہ کچھ کیڑے ہیں، جن کا علاج پاکستانی طریقے سے ہی ہو سکتا ہے۔

ہم نے انہیں کہہ دیا کہ جس نے جانا ہے جائے، حاضری اس کی لگے گی جو کلاس کے آخر تک موجود رہے گا۔

ایک بار حاضری کو اسائنمںٹ سے جوڑ دیا تو ایک طالبہ جو اسائنمںٹ نہیں کر کے آئی تھی، کہنے لگی، ’میں کلاس میں کیوں بیٹھوں اگر حاضری نہیں لگنی؟‘

ہم نے کہا، ’یہ رہیں آپ، وہ رہا دروازہ۔‘ اٹھیں اور اس سے باہر نکل جائیں۔ وہ پہلے کچھ ہچکچائیں، پھر بڑے اعتماد سے اٹھیں اور کلاس سے باہر نکل گئیں۔

ہم نے ان کے جانے کے بعد باقیوں سے کہا کہ انہیں اطلاع دے دیں کہ وہ آئندہ ہماری کلاس میں نہ آئیں۔ انہیں اطلاع موصول ہوئی تو تھوڑی دیر بعد ’سوری‘ کے ساتھ دروازے پر آن موجود ہوئیں۔ ہم نے کہا نہ جناب، اب اس دروازے سے باہر ہی رہیں۔ خیر، اگلے ہفتے سے انہیں کلاس میں بیٹھنے دیا۔

اسائنمنٹ نہ کرنے والوں کو تھوڑی سی وقت میں رعایت دی۔ جب انہوں نے اس کا بھی خیال نہ کیا تو ان کے سارے نمبر کاٹ لیے۔ پھر دھڑا دھڑ ان کی اسائمنٹس آنے لگیں۔ کچھ کاپی شدہ تھیں تو کچھ مصنوعی ذہانت کی مدد سے بنائی گئی تھیں۔ انہیں دیکھ کر ہم نے سر پکڑ لیا۔

پھر ہم مکمل دیسی استاد بن گئے۔ اس دن سے بچوں کا حال قدرے بہتر ہے۔ وہ وقت سے کلاس میں آ جاتے ہیں۔ جو کام دیا جائے کر لیتے ہیں۔ کچھ پھر بھی ڈھٹائی کی معراج پر ہیں۔ انہیں ان کی ڈھٹائی کا نتیجہ اپنی ٹرانسکرپٹ پر مل جائے گا۔

ہمارا کیا ہے، ہماری پی ایچ ڈی تو ہو چکی۔ جتنی دیانت داری سے ہم پڑھا سکتے ہیں، پڑھا رہے ہیں۔ آگے کوئی پڑھنے والا یا محنت کرنے والا نہ ہو تو پھر کیا کیا جا سکتا ہے۔

تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ ادارے اور اس کی انتظامیہ کو برا کہنا بہت آسان ہے لیکن اس ادارے میں موجود سب سے اہم طبقے ’طالب علموں‘ کے رویے کو بھی دیکھنا بہت ضروری ہے۔ ادارہ ان کے لیے کام کر رہا ہے۔ اس کام کے مکمل طور پر نتائج دیکھنے کے لیے انہیں خود بھی اپنے لیے کام کرنا پڑے گا۔ اس کے بغیر ان کا کیا اس ملک کا مستقبل بھی تاریک ہی رہے گا۔

بشکریہ انڈیپینڈنٹ اردو۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close