سال: 1990
ہدایت کار: اندر کمار
کاسٹ: مادھوری ڈکشت، عامر خان، انوپم کھیر، سعید جعفری
کہانی کا خلاصہ
راجہ (عامر خان) اور مدھو (مادھوری) ایک ہی کالج میں پڑھتے ہیں ـ راجہ کا باپ ہزاری پرساد (انوپم کھیر) کباڑی کا دھندا کرتا ہے ـ وہ اپنے بیٹے کی شادی ایک امیر گھرانے میں کرنا چاہتا ہے، اس سلسلے میں اس کی نظر مدھو کے سرمایہ دار باپ یوگیش مہرا (سعید جعفری) پر پڑتی ہے ـ ہزاری پرساد خود کو صنعت کار ظاہر کر کے مہرا سے دوستی کرتا ہے ـ دونوں دوست اپنے بچوں کا رشتہ طے کر لیتے ہیں مگر کالج میں ایک دوسرے کے سخت دشمن مدھو اور راجہ اس رشتے سے انکار کر دیتے ہیں ـ
راجہ اور مدھو بعد میں ایک دوسرے کے پیار میں گرفتار ہوجاتے ہیں مگر منگنی کی تقریب کے دوران ہزاری پرساد کی اصلیت کھل جاتی ہے ، مہرا اسے بے عزت کر کے گھر سے نکال دیتا ہے ـ دونوں پریمی اپنے باپوں کی مرضی کے برخلاف شادی کر کے نئی دنیا بسا لیتے ہیں ـ اس دوران راجہ ایک حادثے میں موت کی دہلیز پر پہنچ جاتا ہے، یوگیش مہرا شہر میں نہیں ہوتا مدھو راجہ کے باپ سے مدد مانگتی ہے ـ ہزاری پرساد راجہ کو بچانے کے لئے رشتے کے خاتمے کی شرط رکھتا ہے تاں کہ اپنی بے عزتی کا بدلہ لے سکے ـ مجبور مدھو یہ شرط مان لیتی ہے ـ اس موڑ کے بعد فلم غم انگیز صورت لئے آگے بڑھتی ہے ـ
تجزیہ
بھارتی معیشت کو ’’آزاد‘‘ کرنے کا سہرا انڈین نیشنل کانگریس کے وزیراعظم نرسہماراؤ کے سر بندھتا ہے، جنہوں نے 1991 کے بجٹ سے پوری معاشی پالیسی بدل دی ـ تاہم معاشی لبرلائزیشن کا آغاز راجیو گاندھی (1985) کے دور سے ہی ہو چکا تھا ـ راجیو گاندھی نے سرمایہ داریت کے عالمی بحران کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لئے نجی سرمایہ داروں پر لائسنس سسٹم کی گرفت ڈھیلی کردی تھی ـ انہوں نے انکم ٹیکس اور کمپیوٹر سمیت متعدد درآمدی اشیا پر ٹیکس کی شرح کو بھی نرم کر دیا تھا ـ
راجیو گاندھی کی پالیسیوں سے بھارتی سرمایہ داروں نے منافع بڑھانے کے نت نئے طریقے تلاش کئے ـ چھوٹے سرمایہ داروں نے بھی نرم ریاستی پالیسیوں سے شہہ پاکر محنت کشوں کا بے خوف استحصال شروع کر دیا ـ نوے کی دہائی آتے آتے بھارت میں ایلیٹ کلچر اور امارت کی نمود و نمائش میں ماضی کی نسبت دوگنا اضافہ دیکھنے میں آیا ـ
”دل“ فلم کا پسِ منظر راجیو گاندھی کی پالیسیوں کے باعث پیدا ہونے والا وہ سرمایہ دارانہ کلچر ہے، جو ”بنیا“ اقدار و ثقافت کے خاتمے کا پیش خیمہ ثابت ہواـ
فلم میں درگیش مہرا کا کردار نئے ایلیٹ کلچر کا نمائندہ ہے ـ وہ ساحل پر کتوں و محافظوں کے ساتھ جوگنگ کرتا اور چیریٹی کر کے ثواب کماتا ہے ـ اس کا کاروبار بھارت سمیت دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے ـ ہزاری پرساد قدیم بنیا اقدار کی نمائندگی کرتا ہے ـ کنجوس، مکھی چوس، معمولی منفعت کے لئے کسی بھی حد تک گر جانے والا ـ وہ ”چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے“ کے اصول پر کاربند رہتا ہے ـ
فلم دو مختلف معاشی کلچر کے حامل افراد کے درمیان تضاد پیدا کرکے سرمایہ دارانہ اقدار کو طنز کا نشانہ بناتی ہے ـ لبرل اصلاحات کو ہزاری پرساد کی حریصانہ خواہشات کے ذریعے ہدفِ تنقید بنایا گیا ہے ـ وہ استعمال شدہ چیزوں کو کم تول کر سستے داموں خریدتا اور مہنگا بیچتا ہے ـ وہ اپنے اکلوتے بیٹے راجہ کو فصل سے تشبیہ دے کر اس کی شادی کسی امیر لڑکی سے کرانا چاہتا ہے تاں کہ وہ لکھ پتی سے کروڑ پتی بن سکے ـ اس کی یہ خواہش مارکسزم کے تجزیے "متوسط طبقے کی نگاہیں آسمان پر اور پیر کیچڑ میں ہوتے ہیں” کی تمثیل ہے ـ
درگیش مہرا ایک پھیلے ہوئے کاروبار کا مالک ہے ـ اس کاروبار کو مزید آگے پھیلانے کے لئے وہ مزید معاہدے کرتا نظر آتا ہے ـ جیسے ایک منظر میں اسے دبئی میں ہوٹل کھولنے کا معاہدہ یاد دلایا جاتا ہے مگر وہ اپنی بیٹی کی سال گرہ کی خاطر اس میٹنگ کو کینسل کرنے کی ہدایت دیتا ہے ـ اس کا یہ لاپرواہ رویہ ہزاری پرساد کی حریص طبعیت کے ساتھ تضاد پیدا کرتا ہے ـ یہ تضاد البتہ محنت اور سرمائے کا نہیں بلکہ سرمایہ داریت کا داخلی تضاد ہے، اجارہ داری کی علامت ـ
سرمایہ داریت اجارہ داری کی پالیسی پر عمل کرتی ہے جہاں چھوٹے کاروباری بڑی کمپنیوں کی غذا بن کر فنا ہوجاتے ہیں ـ ہزاری پرساد بھی قدیم بنیا سے جدید ایلیٹ بننے کی تمنا میں مہرا جیسا دکھنے کی کوشش کرتا ہے ـ اس کوشش میں اس کی وہ ثقافت جو بقول اس کے سات نسلوں سے برقرار ہے تباہ ہو کر رہ جاتی ہے ـ
فلم لبرل سماج پر بحث کرتی ہے تاہم اس میں پیش کردہ رومانس جاگیرداریت کے دائرے سے باہر نہیں نکل پاتا ـ البتہ محنت کش اور سرمایہ دار کے درمیان محبت اور سرمایہ دار کو ولن کے روپ میں پیش کرنے کی سابق روایت سے انحراف کیا گیا ہے ـ میل اور فیمیل دونوں پروٹاگونسٹ دولت مند ہیں ـ امیر اور زیادہ امیر دونوں طبقات کو مرکز میں رکھ کر لبرل اصلاحات کو محنت کشوں کے مفادات سے متصادم دکھایا گیا ہے ـ جیسے ایک محنت کش ہزاری پرساد سے کہتا ہے:
”کتوں کے دن بدل گئے ہیں، آدمی کے نہیں۔“
یہاں کتوں سے مراد نجی کمپنیاں ہیں جو ریاستی پالیسی کے بل پر محنت کشوں کی ہڈیاں چبا کر مزید دولت پیدا کر رہی ہیں ـ ترقی کے نام پر بننے والی ریاستی پالیسیوں سے عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا ـ اس تناظر میں یہ فلم امیروں کی داستان سہی مگر یہ غریبوں کی آنکھ سے نئے بھارت کو دیکھ کر سرمایہ داریت کی منافقت اور دوغلے پن کو آشکار کرتی ہے ـ
فلم کے مرکز میں چوں کہ سرمایہ داریت کے داخلی تضادات کو رکھا گیا ہے اس لئے اس میں سرمایہ دارانہ پدر شاہیت پر بھی کھلی تنقید کی گئی ہے ـ ہزاری پرساد کا کردار دم توڑتے "بنیا پدرشاہیت” کا نمائندہ ہے جسے فرسودہ اور جدت سے تہی قرار دیا جاتا ہے مگر ایلیٹ درگیش مہرا بھی ایک نمائشی لبرل ہے ـ وہ اپنی بیٹی کو ایک حد تک آزادی دینے کا قائل ہے ـ یہ حد بھی اس کی اپنی کھینچی ہوئی ہے ـ وہ بیٹی کو مشروط حق انتخاب دیتا ہے ـ بیٹی صرف اپنے ہی طبقے کے مرد کو پسند کرسکتی ہے ، اسے طبقے سے باہر انتخاب کا کوئی حق نہیں ـ وہ بڑے غرور کے ساتھ ہزاری پرساد پر اپنی طبقاتی برتری جتاتے کہتا ہے:
”اس گنگو تیلی کی یہ جرأت کہ وہ راجہ بھوج کو سمدھی بنانے کے خواب دیکھے۔۔“
جاگیردارانہ پدرشاہیت اگر عورت کو ذاتی جاگیر سمجھتا ہے تو سرمایہ دارانہ پدرسری ثقافت میں وہ قابلِ خرید و فروخت جنس بن جاتی ہے ـ
مدھو اور راجہ کی محبت جو اوائل میں مرد و زن کی فطری جنسی کشش کا شاخسانہ بن کر سامنے آتی ہے جلد ہی سرمایہ دارانہ پدررشاہیت کے خلاف بغاوت میں ڈھل جاتی ہے ـ راجہ اپنے باپ کی دولت کو نہیں ٹھکراتا بلکہ وہ وسیع معنوں میں پدرسری سماج کے ان اصولوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرتا ہے جو کئی صدیوں سے بچوں کو اپنی جاگیر منواتے آرہے ہیں ـ مدھو بھی لبرل ازم کی آڑ میں ہندوستانی پدرشاہانہ اقدار و روایات کو کھلے عام چیلنج کرتی ہے ـ وہ روایت سے انحراف کرکے عاشق عورت کے روپ میں خود آگے بڑھ کر کالج کے تمام طلبا کے سامنے اپنے محبوب کو چومتی ہے ، اس کے بعد اپنے باپ اور ہونے والے سسر کو جھٹکا دے کر بظاہر ”بڑی بے حیائی“ کے ساتھ راجہ سے بوس و کنار کرتی ہے ـ
”بے حیا بوس و کنار“ کا یہ سیکوینس علامتی انداز لئے ہوئے ہے ـ دونوں نوجوان جوڑوں اور ان کے باپوں کے درمیان لوہے کی سلاخیں ہیں جو انہیں دو الگ الگ دنیاؤں یا زیادہ واضح الفاظ میں دو مختلف ادوار میں تقسیم کرتی ہیں ـ اگلے سین میں جو گانے کی صورت میں ہے دونوں جوڑوں کو لال رنگ کے انقلابی لباس میں مختلف بندشوں کو توڑتے دکھایا گیا ہے ـ اس گانے میں پرانے دور کے خاتمے اور زمانہِ جدید کی آمد کا اعلان بھی سامنے آتا ہے:
لیلیٰ نہیں ہم ، مجنوں نہیں ہم
ظلم و ستم کو ہنس کے سہیں گے
سرمایہ دارانہ پدرشاہیت کے خلاف مدھو کی آواز کو نسبتاً بلند تر رکھا گیا ہے جو وومن امپاورمنٹ کی علامت ہے ـ جیسے ایک سین میں مدھو اپنے باپ سے کہتی ہے
”ٹانگیں کاٹ کر پھینک دیں گے تو ہاتھ کے بل جاؤں گی، ہاتھ کاٹ کر پھینک دیں گے تو سر کے بل جاؤں گی، سر کاٹ کر پھینک دیں گے تو بھی میرا یہ جسم تڑپ تڑپ کر راجہ کے پاس جانے کا راستہ ڈھونڈھ ہی لے گا۔“
ہندی سینما میں عورت کی پیشکش پیداواری تعلقات میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ بدلتی رہی ہے ـ ”دل“ کی فیمیل پروٹاگونسٹ مدھو ایلیٹ کلاس کی ایک آزاد لڑکی ہے ـ وہ کالج میں پڑھتی، رقص کرتی اور کالج کے خودپسند لڑکے راجہ سے برابری کی سطح پر مقابلہ کرتی ہے ـ راجہ کی خود پسندی یا نرگسیت کو برتھ ڈے پارٹی کے بعد آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر بال سنوارنے سے واضح کیا گیا ہے ـ مدھو خودپسندی کا شکار نہیں مگر وہ مغرور ضرور ہے ـ اس کا یہ غرور اپنے حسن پر نہیں بلکہ امارت پر ہے جس کی وضاحت گاڑی چلانے کے دوران پیدل چلنے والوں پر کیچڑ اچھالنے والے سین سے ملتی ہے ـ
مدھو کی پیشکش بظاہر وومن امپاورمنٹ کا تاثر لئے ہوئے ہے لیکن یہ خودمجازی برصغیر کے پدرسری سماج کی مکمل تخریب نہیں کرتی ـ اس کی شخصیت میں مرد کی تخلیق کردہ عورت کے اثرات گہرے ہیں ـ وہ راجہ کو باکسر چمپئن سے لڑنے کا چیلنج دینے کے لئے اسے چوڑیاں دکھاتی ہے جس کا مقصد عورت کو کم زور بیان کرنا ہے ـ
اسی طرح شادی کے بعد وہ سہاگن دکھنے کے لئے کنگھن پہنتی ہے ـ مردانہ تہذیبی تناظر میں شادی شدہ عورت کی کلائیوں میں کنگھن کا ہونا لازمی ہے ـ بعض سماجی ماہرین کے مطابق کنگھن اس دور کی یادگار ہیں جب عورت کو بیڑیوں سے باندھا جاتا تھا ـ ان کے مطابق شادی شدہ عورت کے کنگھن اس کو ایک مخصوص مرد کی ملکیت بتانے کا اشاریہ ہے ـ ہزاری پرساد کی سازش کے بعد جب وہ راجہ کو چھوڑتی ہے تو اس کے کلائیوں سے کنگھن غائب ہوجاتے ہیں جب کہ فلم کے اختتام میں شوہر کے ملنے کے بعد وہ دوبارہ سہاگن کی مردانہ علامتوں کو پہنی نظر آتی ہے ـ
فلم میں عورت کی امپاورمنٹ کے جدید تصورات کو من وعن قبول کرنے سے احتراز متعدد جگہوں پر نظر آتا ہے ـ ایک ایسی پڑھی لکھی لبرل لڑکی جس نے سرمایہ دارانہ پدرشاہیت کے خلاف کامیاب جنگ لڑی اسے شادی کے بعد ایک روایتی بھارتی ناری کے قالب میں ڈھال کر پیش کیا جاتا ہے ـ راجہ گھر داری کا خارجی محاذ سنبھال کر ایک تعمیراتی مزدور بن جاتا ہے جب کہ پڑھی لکھی لبرل مدھو گھر سنبھالتی ہے ـ بھارتی ناری کا تشخص جو اسٹیٹس کو کی علامت ہے اس کا اس قدر سنجیدگی سے خیال رکھا گیا ہے کہ مدھو پتی ورتا ستی ساوتری بن جاتی ہے ـ
مہابھارت کی ساوتری اپنا سب کچھ قربان کرکے یمراج سے اپنے پتی ستیاوان کو چھین لاتی ہے ـ یہاں یمراج کا کردار ہزاری پرساد نبھاتا ہے جو مدھو سے اس کے شوہر کی زندگی کے بدلے اس کا منگل سوتر مانگتا ہے جسے وہ دل پر پتھر رکھ کر قبول کرلیتی ہے ـ
حرفِ آخر
یہ فلم لبرلائزیشن پر طنز کرکے سرمایہ دارانہ پدرشاہیت کو ہدف تنقید بناتی ہے ـ بظاہر نوجوانوں کو بغاوت پر اکساتی مگر آخری تجزیے میں یہ خود مردانہ روایات و اقدار کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہے ـ یہ مدھو سے روایتی بھارتی ناری بنے رہنے کا مطالبہ کرکے اسے کچن تک محدود رکھنا چاہتی ہے ـ کہا جاسکتا ہے فلم سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات کو آشکار کرتے کرتے فرسودہ روایتوں میں الجھ کر خود تضاد کا شکار بن جاتی ہے ـ