یہ کہانی ہے برازیل سے تعلق رکھنے والے ایک ایسے انوکھے
ایک بائیولوجسٹ کی، جنہوں نے سانپوں کے کاٹنے کی خصلت کا مطالعہ کرنے کی غرض سے ایک خطرناک اور غیر روایتی طریقہ اختیار کرتے ہوئے خاص قسم کے جوتے پہن کر لگ بھگ چالیس ہزار مرتبہ ایک خطرناک سانپ پر پیر دھرا۔
بوتانٹن انسٹیٹیوٹ سے تعلق رکھنے والے جواؤ میگیل ایلویس-نیونس یہ جاننا چاہتے تھے کہ وہ کون سے ایسے محرکات ہوتے ہیں، جو زہریلے سانپوں کو کاٹنے پر اکساتے ہیں۔
برازیلی ماہرِ حیاتیات نے اس بات کی تحقیق کے لیے ایک انوکھے طریقے کا انتخاب کرتے ہوئے سانپوں پر کئی ہزار بار اپنا پیر رکھا۔ انہوں نے یہ تجربہ ایک خاص قسم کے بوٹ پہن کر کیا، جو سانپوں کے ڈسنے سے بچنے کے لیے ہی بنائے گئے تھے، لیکن وہ پھر بھی انہیں ڈسے جانے سے محفوظ نہ رکھ سکے۔
جواؤ میگیل ایلویس-نیونس نے اپنی تحقیق کے لیے انتہائی زہریلے وائپر سنیک ‘جاراکاس‘ کا انتخاب کیا۔ یہ ایک ایسا سانپ ہے، جو پورے جنوبی امریکہ میں پایا جاتا ہے۔ اس خطے میں ہر سال بیس ہزار سے زائد لوگ اس سانپ کے کاٹے کا شکار ہوتے ہیں۔
سائنسی تحقیق کے نام پر اس خطرناک کوشش سے حاصل ہونے والے نتائج رواں ماہ ایک سائنسی جریدے ‘نیچر‘ میں اس دعوے کے ساتھ شائع کیے گئے کہ یہ کئی جانیں بچا سکتے ہیں۔
ایک سائنسی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے جواؤ میگیل کا کہنا تھا کہ اس سے قبل بھی اس موضوع پر تحقیق کی جا چکی ہے کہ سانپ کو ڈسنے کے لیے کیا عوامل اکساتے ہیں۔
انہوں نے کہا ”خصوصی حفاظتی جوتے پہن کر جانوروں کے اوپر یا ان کے قریب چلنے کے ان کے طریقے نے اس عام مفروضے کو غلط ثابت کیا ہے کہ ’جاراکاس‘ سانپ صرف اس صورت میں کاٹتے ہیں، جب لوگ ان کو چھوتے ہیں۔‘‘
اپنے اس تجربے کے متعلق مزید بات کرتے ہوئے ایلویس نیونس کا کہنا تھا، ”میں نے سانپ کے قریب یا ان پر اپنا پیر ضرور رکھا، تاہم اس پیر پر اپنے جسم کا تمام وزن نہیں ڈالا۔ اس لیے اس تجربے کے دوران سانپوں کو کوئی تکلیف نہیں پہنچی۔ میں نے ایک سو سولہ سانپوں پر تیس مرتبہ یہ عمل دہرایا۔ یعنی میں نے مجموعی طور پر چالیس ہزار چار سو اسی بار کسی سانپ پر پیر رکھا۔‘‘
ماہرِ حیاتیات کے مطابق ’جاراکاس‘ کے کاٹنے کا امکان اس کی جسامت کے بلکل الٹ ہوتا ہے۔ یعنی یہ سانپ جتنا چھوٹا ہوتا ہے، اتنا ہی زیادہ امکان ہوتا ہے کہ وہ اپنے دانت سختی سے آپ کی جلد میں گاڑھ دے۔
تحقیق کے مطابق اس سانپ کی مادہ، نر کے مقابلے زیادہ جارحانہ رویے کا مظاہرہ کرتی ہے۔
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اگر سانپوں کو ان کے جسم کے کسی اور حصے کے مقابلے میں ان کے سر پر چھو لیا جائے تو ان کے کاٹنے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اس بات کے بھی واضح امکانات ہیں کہ گرم علاقوں میں سانپ کے کاٹے کے کیسز زیادہ ہوتے ہیں۔
ایلویس نیونس کے مطابق ان کا اس انوکھے مطالعے سے حاصل ہونے والی معلومات برازیل میں سانپ کے کاٹنے کے مسئلے سے نمٹنے اور اسے کو کم کرنے میں مدد دیں گی۔
ایلویس کہتے ہیں ”ہماری تحقیق اور دیگر اسٹڈیز کے نتائج کا آپس میں موازنہ کر کے اس بات کا اندازہ لگانے میں مدد ملے گی کہ سانپوں کی زیادہ تعداد کن علاقوں میں موجود ہے اور کن علاقوں میں ان کے زیادہ کاٹنے کے کیسز کی توقع کی جا سکتی ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ اس سانپ کی مادہ زیادہ جارحانہ رویے کا مظاہرہ کرتی ہے تو اینٹی وینم کی تعداد زیادہ وہاں جانی چاہیے، جہاں ان سانپوں کی تعداد زیادہ ہو۔‘‘
برازیلی ماہر کے مطابق سانپوں کے کاٹے سے بچنے کے لیے خاص جوتے، جو تجربہ کار لوگوں کے مشورے کی مدد سے بنائے گئے ہیں، انہیں پہن کر وہ ایک سو فیصد محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ حالانکہ سانپ ان بوٹس کے اوپر سے نہیں کاٹ سکتے تاہم اس کے باوجود انہیں ایک سانپ نے کاٹ لیا، جس کے نتیجے میں انہیں ہسپتال جانا پڑ گیا
یہی وہ موقع تھا جب ایلویس پر یہ انکشاف ہوا کہ انہیں سانپ کے کاٹے کے علاج کے طور پر استعمال ہونے والی دوائی سے ہی الرجی ہے۔ ان کے مطابق انہیں اس حادثے کے بعد پندرہ دن کی چھٹی لینا پڑی۔
تاہم اس واقعے کے باوجود ایلوس کے سانپوں کے کاٹنے کے عمل پر تجزیہ کرنے کا جنون ماند نہیں پڑا بلکہ وہ اس تلخ تجربے کو بھی سائنسی تجربے کا حصہ بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ”اب میں ریٹل سنیک اور جاراکاس سانپ کے کاٹنے کی طاقت کا موازنہ کر رہا ہوں اور ساتھ ہی یہ بھی کہ کون سے جوتے آپ کو سانپ کے کاٹنے سے بچا سکتے ہیں۔‘‘