طلعت حسین کی کہانی: ہوٹل کی ویٹری اور سنیما کی گیٹ کیپری سے صف اول کے اداکاری بننے تک کا سفر

ویب ڈیسک

یہ کہانی ہے ایک ایسے اداکار کی، جن کی والدہ حیات النسا پہلے آل انڈیا ریڈیو اور پھر ریڈیو پاکستان سے جز وقتی صداکار کی حیثیت سے منسلک رہیں۔ مشہور براڈ کاسٹر زیڈ اے بخاری انہیں اپنی بیٹی قرار دیتے تھے۔
ریڈیو کے ماحول اور مزاج سے واقف ہونے کے باوجود وہ آخر اپنے بیٹے کو اداکاری کی دنیا سے کیوں دور رکھنا چاہتی تھیں؟

طلعت حسین کے انٹرویو پر مبنی کتاب ’یہ ہیں طلعت حسین‘ میں اس حوالے سے بتایا گیا ہے ”ریڈیو پر ایک مرتبہ معلوم ہوا کہ حمید زمان آڈیشن لے رہے ہیں۔ میں بھی قسمت آزمانے پہنچ گیا۔اماں کو خبر ہوئی تو حمید زمان سے کہنے لگی ’میرے بیٹے کو فیل کر دینا۔‘ مگر آڈیشن ہوا تو حمید زمان میری پرفارمنس سے متاثر ہوئے اور اماں کی خواہش کے برعکس مجھے پاس کر دیا۔‘

اداکاری میں اپنے تاثرات بھرے وقفوں اور صدا کاری میں سحر پیدا کر دینے والے طلعت حسین گزشتہ روز بیاسی برس کی عمر میں کراچی میں انتقال کر گئے۔

طلعت حسین نے فنونِ لطیفہ کو نصف صدی دی ہے، یعنی انھوں نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ اداکاری، صداکاری، آرٹ اور فن کے لیے وقف کر دیا۔ اداکار طلعت حسین گذشتہ کچھ عرصے سے علیل تھے، ان کے قریبی رفقا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انھیں ڈیمنشیا کا مرض لاحق تھا۔ طلعت حسین کے سوگواروں میں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہیں۔

اپنی فنی خدمات پر صدارتی ایوارڈ سمیت متعدد اعزازات رکھنے والے طلعت حسین کی ذاتی زندگی کے اتار چڑھاؤ کسی فلمی کہانی سے کم دلچسپ نہ تھے۔

طلعت حسین کا جنم 1942 میں پٹیالہ میں کشمیری نژاد خاندان میں ہوا۔ ان کا خاندان لاہور کے علاقے چوبرجی کا رہنے والا تھا۔ والد اخلاق حسین وارثی ملازمت کے لیے پٹیالہ میں مقیم تھے۔ والد پٹیالہ چھوڑ کر دلی آ گئے۔ جہاں کچھ عرصہ فلموں میں قسمت آزمائی کے بعد دوبارہ سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔

طلعت حسین دلی کے مشہور انگریزی اسکول بٹلر ہائی اسکول میں داخل ہوئے، مگر بدقسمتی سے ٹائیفائیڈ نے آن لیا۔ اگلے سات برس مسلسل اسی بیماری اور نقاہت کے باعث وہ چلنے پھرنے سے معذور ہو گئے۔

بیماریوں سے نبرد آزما طلعت حسین نے چودہ برس کی عمر میں پہلی جماعت میں داخلہ لیا۔ اپنی ذہانت اور محنت سے ابتدائی عمر میں اسکول نہ جانے کی کمی پوری کر لی۔
اس دوران ان کا خاندان تقسیم کے بعد کراچی منتقل ہو چکا تھا۔

طلعت کی والدہ انہیں سی ایس پی آفیسر بنانا چاہتی تھیں۔ اسی لیے انہوں نے ریڈیو پاکستان کے افسران سے انہیں فیل کرنے کی درخواست کی۔

والدہ کو یہ خدشہ بھی تھا کہ مردانہ وجاہت رکھنے والے طلعت حسین شوبز کی رنگوں اور روشنیوں میں کھو کر سرکاری افسر بننے سے رہ نہ جائیں۔

دوسری طرف طلعت حسین سی ایس پی کی نوکری کو سخت ناپسند کرتے تھے، جس کی وجہ کراچی میں سینما پر فائرنگ سے ان کی موجودگی میں ایک نوجوان کی ہلاکت تھی۔ اس فائرنگ کا حکم دینے والا افسر ایک سی ایس پی تھا۔

طلعت حسین اسکول کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ریڈیو میں صدا کاری بھی کرتے تھے۔ میٹرک میں تھے کہ والد کی بیماری معاشی تنگدستی لے آئی۔

انہیں نوکری پر مجبور ہونا پڑا۔ طلعت نے ساٹھ روپے ماہوار پر سینما ہاؤس میں گیٹ کیپر کی ملازمت اختیار کی۔ انگریزی زبان پر استعداد کی وجہ سے کچھ عرصے بعد انہیں بکنگ کلرک کی جگہ مل گئی۔ وہ دن کو اسکول جاتے اور شام کو ریڈیو اور سینما کی نوکری ساتھ ساتھ چلتے۔

گھر میں والد کی رہنمائی میں انگریزی زبان پر دسترس حاصل ہو گئی تھی۔ کالج کے زمانے میں طلعت حسین نے انگریزی زبان و ادب کی باریکیوں میں مہارت پیدا کر لی، مگر حیرت انگیز طور پر وہ بی اے میں انگریزی کے پرچے میں فیل ہو گئے۔

اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے اپنی زندگی کے واقعات پر مبنی کتاب کی مصنفہ ڈاکٹر ہما امیر کو بتایا کہ انہوں نے انگریزی کا پیپر بہت اچھا دیا۔ اس میں غیرملکی مصنفین اور دانشوروں کی آرا اور حوالہ جات بھی درج کیے۔ مگر رزلٹ آیا تو وہ اسی مضمون میں فیل ہو گئے۔

مایوسی کے عالم میں انگریزی کے استاد عسکری صاحب سے صورتحال کا گلہ کیا۔ ان کا جواب تھا کہ ان کی غیر ضروری بقراطیت نے ممتحن کو چڑا دیا۔ ہر استاد میں اتنا ظرف نہیں ہوتا کہ وہ اس بات کو برداشت کر لے کہ شاگرد اس سے زیادہ جانتا ہے۔
انہوں نے دوبارہ امتحان دیا۔ وہی رٹے رٹائے جملے اور مواد لکھنے پر انگریزی کے امتحان میں پاس ہو گئے۔

اسی مضمون میں ایم اے کرنے کے لیے انہوں نے کراچی یونیورسٹی کے انگلش ڈپارٹمنٹ میں داخلہ لیا۔ جہاں ایک اور طرح کا امتحان ان کا منتظر تھا۔

طلعت حسین کی طبیعت میں ناپسندیدہ امور پر جذباتی رد عمل اور احتجاج کا مادہ غیر معمولی حد تک پایا جاتا تھا۔ یہی چیز یونیورسٹی میں ایم اے کی تکمیل نہ ہونے کی وجہ بنی۔

ایک دن ان کے ایک استاد نے انہیں اپنے دوستوں کے ساتھ انگریزی کے ایک شاعر کی فنی زندگی کی تعریف کرتے سن لیا۔ اتفاق سے انگریزی زبان کے شعبے کے سربراہ اس شاعر کو بوجوہ سخت ناپسند کرتے تھے۔ طلعت حسین کو استاد نے بتایا کہ اگر وہ مذکورہ شاعر کی تعریف کریں گے، تو فیل کر دیے جائیں گے۔

طلعت حسین یہ سن کر بھڑک اٹھے کہ زبان و ادبیات کے شعبے میں اس قدر کوتاہ فکری پائی جاتی ہے۔ انہوں نے اپنا شعبہ اور پڑھائی چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ یہ بات برداشت نہ کر سکے کہ ایم اے کے لیول پر پہنچ کر انہیں دوسرے کے ذہن سے سوچنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

اس کے بعد طلعت حسین نے انگریزی کے بجائے سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ کے پھیرے لگانا شروع کر دیے جہاں رخشندہ زیر تعلیم تھیں۔

کچھ عرصہ قبل طلعت حسین نے اخبار میں ایک لڑکی کی تصویر دیکھی، جس نے بورڈ میں اعلیٰ پوزیشن حاصل کی تھی۔ تصویر والی لڑکی ان کے دل میں گھر کر گئی۔

اتفاق سے اس لڑکی سے ان کی ملاقات ریڈیو پاکستان کی راہداری میں ہو گئی۔ سلجھی، سلیقہ مند اور ذہین رخشندہ کو اپنے دل کی بات بتانے میں انہیں اڑھائی سال لگے۔ 1972 میں وہ طلعت حسین کی شریک سفر بن گئی۔

طلعت حسین نے اپنی لاجواب صداکاری اور اداکاری سے سیک منفرد مقام حاصل کیا۔ الفاظ کی ادائیگی، آواز کا اتار چڑھاؤ، کہاں ٹھہرنا ہے، کہاں زور دینا ہے اور آواز کے ذریعے جذبات نگاری کا فن طلعت حسین نے ریڈیو سے سیکھا۔
نامور صداکاروں ایس ایم سلیم، عبدالماجد، فضل کمال اور سلیم احمد کی رہنمائی اور قربت سے نہ صرف طلعت حسین کی صداکاری میں نکھار آیا بلکہ انہیں تاریخ، فلسفہ اور آرٹ کے مضامین میں غیر معمولی دسترس بھی حاصل ہوئی۔
ابتدا میں چھوٹے موٹے رول ملنے لگے۔

ایک بار ڈرامے کے ہیرو ذکا اللہ درانی بیمار ہو گئے۔ ان کی علالت کی وجہ سے طلعت کو ہیرو کا کردار ادا کرنے کا کہا گیا۔ ڈرامہ آن ایئر ہوا تو اس کی دھوم مچ گئی اور ان کے لیے مرکزی کرداروں کا دروازہ بھی کھل گیا۔

اس دوران پاکستان ٹیلی ویژن کا آغاز ہوا۔ اسلم اظہر نے انہیں ٹیلی ویژن کے ڈرامے ’عید کا جوڑا‘ کے لیے کاسٹ کیا۔ اس ڈرامے سے طلعت حسین کی مقبولیت کی ابتدا ہوئی۔۔ مگر خود طلعت یہ ڈرامہ نہ دیکھ سکے۔ کیونکہ جس دن یہ نشر ہونا تھا اس دن ان کے والد وفات پا گئے۔

ان کی اصل خوبی مکالمے کے درمیان لمبے لمبے مگر پرتاثیر وقفے ہوا کرتے تھے۔ جو دیکھنے والوں کو ڈرامے کے ماحول اور کہانی کے ساتھ گویا باندھ کر رکھتے تھے۔
بعض لوگ مذاق میں کہا کرتے تھے کہ اگر 50 منٹ کے پروگرام کو لانگ پلے بنانا ہو تو طلعت حسین کو کاسٹ کر لیں، وہ اسے 90 منٹ کا بنا دیں گے۔

طلعت حسین اپنی اداکاری کی اس مخصوص تکنیک کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کی وجہ پی ٹی وی کے پروڈیوسر فضل کمال بنے۔
پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈرامے ’آدمی اور انسان‘ میں طلعت نے ایک سوشل ورکر کا رول نبھایا۔ جو لوگوں کے گھروں میں جا کر ان کی مشکلات سنتا تھا۔

پروگرام کے پروڈیوسر فضل کمال نے انہیں ہدایت کی کہ دوران اداکاری وہ گھروں میں داخل ہونے کے بعد خاموشی سے ماحول کا جائزہ لیں۔ اپنے مخاطب کے جذبات کو اچھی طرح سمجھیں تاکہ مسائل کی نوعیت جان سکیں۔

یہ ڈرامہ اور طلعت حسین کا انداز اتنا مقبول ہوا کہ بعد میں یہ انداز ان کی پہچان بن گیا۔ اسی نام سے ایک فلم بھی بنائی گئی، جس کے ہیرو طلعت ہی تھے۔ البتہ فلم میں سوشل ورکر کے بجائے انہوں نے وکیل کا کردار ادا کیا۔
یہ فلم طلعت حسین کے لیے فلمی دنیا میں داخلے کا باعث بنی۔ انہوں نے وحید مراد کے ساتھ ’اشارہ‘ نامی فلم میں کام کیا تو فلمی دنیا میں ان کا تعارف اور مقبولیت بڑھنے لگا۔ پرویز ملک کی فلم ‘گمنام‘ میں ان کے یادگار رول کو شائقین مدتوں نہیں بھولے۔

طلعت حسین کی فنی زندگی ریڈیو، ٹیلی ویژن، فلم اور تھیٹر کے گرد گھومتی تھی۔ تھیٹر میں اداکاری کے ساتھ ہدایت کاری بھی کی ۔ ’خالد کی خالہ‘ ایک اسٹیج پلے تھا، جس میں انہوں نے بیک وقت اداکاری اور ہدایت کاری کی۔
پاکستان ٹیلی ویژن کے مشہور ڈرامے ’پرچھائیاں‘ میں ایک مصور کا رول یادگار بن گیا اسی طرح ’تعمیر‘ میں ان کی فنی جہت بلندیوں پہ نظر آتی ہے۔

بانی پاکستان محمد علی جناح پر بننے والی فلم ’جناح‘ میں ان کا کردار جذبات اور ولولے سے بھرپور تھا۔

تھیٹر اور انگریزی زبان پر دسترس کے باعث انہوں نے لندن کی ’اکیڈمی آف میوزک اینڈ ڈرامیٹک آرٹ‘ میں اداکاری کی تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔

پاکستان میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن معاشی زندگی رواں رکھنے کا باعث تھے۔ لندن میں تعلیم کے اخراجات کے ساتھ ساتھ انہوں نے کراچی میں خاندان والوں کی کفالت بھی کرنی تھی۔

ابتدا میں انہوں نے بی بی سی کے پروگراموں میں جز وقتی کردار ادا کرنا شروع کیے۔ یہیں پر ان کی ملاقات مشہور انڈین اداکار امیتابھ بچن کی اہلیہ جیا بچن کے چاچا بہادری صاحب سے ہوئی۔ وہ ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ طلعت حسین کی اہلیہ رخشندہ کے لندن آنے کے بعد اخراجات پورے کرنے کے لیے انہوں نے ایک ہوٹل میں ملازمت اختیار کی۔

ہفتے میں تین دن کام کرنا ہوتا تھا۔ جمعہ کو برتن دھوتے اور ہفتہ اور اتوار کو ویٹر کے طور پر کام کرتے تھے۔
پاکستان میں ناموری اور پہچان کے بعد لندن میں ویٹری کی نوکری کا فیصلہ ان کے لیے آسان نہ تھا۔

اپنے ایک انٹرویو میں طلعت حسین نے بتایا کہ جب وہ نوکری کے لیے پہلے دن گھر سے نکلے تو ان کے قدم من من بھاری ہو رہے تھے۔ گھر سے بس اسٹاپ کا فاصلہ صرف چند گز کا تھا مگر ان کی حالت یہ تھی کہ قدم اٹھ ہی نہیں رہے تھے۔ پانچ منٹ کا فاصلہ پچاسمنٹ میں طے کیا۔ یہ نوکری شروع میں ان کی شخصیت کے لیے توڑ پھوڑ کا باعث تھی مگر آہستہ آہستہ انہوں نے اندرونی کیفیات پر قابو پا لیا، مگر اصل مسئلہ پاکستانی خاندانوں کی وجہ سے ہوتا تھا جو یہاں کھانے کے لیے آتے تھے۔ اور انہیں پہچان کر آرڈر دینے میں ہچکچاٹ محسوس کرتے۔ اور پھر اس وقت صورتحال عجیب ہو جاتی جب بل ادا کرتے وقت ٹپ دینے کا مرحلہ آتا۔ اکثر پاکستانی اپنے ہم وطن اداکار کو ٹپ دیتے ہوئے شرماتے۔ لیکن وہ زندگی بھر اپنی جدوجہد پر شرمندہ نہیں ہوئے۔

طلعت حسین کہتے تھے کے وہ ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جو اپنے ماضی کے بارے میں جھوٹ بول کر لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔

لندن سے دو سال کی تعلیم کے بعد انہیں سلور میڈل کا حقدار قرار دیا گیا۔ انہوں نے مقامی ٹیلی ویژن کے ڈراموں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔
ان کے ڈراموں ’گینگسٹر‘ اور ’کروکورٹ‘ کی وجہ سے لندن کی سڑکوں سے گزرتے ہوئے لوگ انہیں رک رک کر دیکھنے لگے۔

1977 میں وہ وطن واپس لوٹ آئے اور کراچی میں تھیٹر، کمرشل فلموں اور اشتہاروں کے لیے پس پردہ آواز کی صنعت سے منسلک ہو گئے۔

ریڈیو سے جذباتی وابستگی
ان کے جداگانہ انداز اور تاثرات بھری اداکاری نے فلم، ٹیلی ویژن اور تھیٹر میں منفرد مقام دلوایا۔ مگر ریڈیو سے ان کی وابستگی میں ذاتی اور جذباتی وجوہات پائی جاتی تھی۔

اس کی ایک وجہ ان کی والدہ کا ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہونا بھی تھا، جن سے وہ بہت پیار کرتے تھے۔ ان کی والدہ کی ایک عادت طلعت حسین کی پٹائی کرنا بھی تھی۔ ان کے مطابق آخری بار وہ انتیس برس کی عمر میں والدہ سے پٹے تھے۔ دوسری وجہ ان کی محبوب بیوی رخشندہ کا بھی ریڈیو سے منسلک ہونا تھا، جس کی موجودگی کو وہ اپنی زندگی میں بہار کا باعث قرار دیتے تھے۔

ایک بار ٹیلی ویژن کے کسی ڈرامے کی شوٹنگ کے دوران کسی پروڈیوسر نے کہہ دیا کہ ’طلعت حسین کو ’طلعت حسین‘ ہم نے بنایا ہے۔‘
یہ سنتے ہی وہ سلگ اٹھے اور ناپسندیدگی کے عالم میں جواب دیا ’طلعت حسین‘ کو ریڈیو پاکستان نے بنایا ہے۔

ان کی وفات پر ان کے پرانے دوستوں اور رفقا کا ان کی زندگی، شخصیت اور اداکاری سے متعلق بات کرتے ہوئے کہنا ہے کہ جب پاکستان میں ریڈیو اور ٹی وی کی شروعات ہوئی تو طلعت حسین ان چند اداکاروں اور صداکاروں میں سے ایک تھے جن کو ’پولشڈ آواز‘ کہا جاتا تھا۔ انھیں ڈائیلاگ ڈیلیوری پر عبور حاصل تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ ٹیلی ویژن کے آغاز میں ایک ڈرامہ سیریز ’انسان اور آدمی‘ شروع ہوئی تو اس کے مرکزی پرفارمر طلعت حسین ہی تھے۔

اختر وقار عظیم کے مطابق طلعت حسین کو اداکاری کے ساتھ ساتھ مطالعہ کا بھی بے حد شوق تھا۔ انگریزی ادب اور اردو ادب سے خاص لگاؤ تھا۔ ’وہ اس دور میں چند ان افراد میں سے تھے جن کے ہاتھ میں ہمیشہ کتاب رہتی تھی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ طلعت حسین اداکاری پر ہی نہیں ادب، فلسفے، مذہب، تصوف، مصوری اور سیاست سمیت ہر موضوع پر گھنٹوں گفتگو کر سکتے تھے اور ہر وقت ان شعبوں کی قدیم و جدید کتابوں کی تلاش میں رہتے تھے۔ وہ ایک پڑھے لکھے اداکار تھے اور اسی وجہ سے انھوں نے نہ صرف ڈرامہ کیا بلکہ پی ٹی وی کے آغاز میں انھوں نے کمپیئرنگ بھی کی۔

اختر وقار عظیم کا کہنا تھا کہ وہ ایک انتہائی سادہ طبعیت اور سلجھی شخصیت کے مالک تھے۔

اداکار طلعت حسین کے پرانے دوستوں میں سے ایک ظہیر خان نے بتایا ’میرا طلعت سے تعلق کم و بیش 50 برس سے زائد کا ہے اور میری ان سے ملاقات پاکستان میں ٹیلی ویژن سے پہلے کی ہے۔‘

ظہیر خان جو پہلے ریڈیو پاکستان اور بعدازاں پاکستان ٹیلی ویژن میں نہ صرف طلعت حسین کے ساتھ بطور پروڈیوسر کام کرتے رہے ہیں بلکہ ان کی دوستی اسلامیہ کالج کے دور سے ہے۔

وہ بتاتے ہیں ’طلعت حسین اس دور میں ریڈیو پاکستان پر بطور ڈرامہ آرٹسٹ پرفارم کرتے تھے اور اس دور میں ایس ایم سلیم بہت مشہور ریڈیو کے ڈراموں رومانوی ہیرو ہوا کرتے تھے لیکن طلعت کی آواز اور ڈائیلاگ پر گرفت نے انھیں بھی اس صف میں لا کر کھڑا کر دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ایک دور تھا جب طلعت حسین اسٹوڈیو نائن کے مقبول ترین ہیرو تھے۔‘

واضح رہے کہ اسٹوڈیو نائن ریڈیو کا وہ اسٹوڈیو تھا، جہاں سامعین کے لیے رات نو بجے ریڈیو ڈرامے پیش کیے جاتے تھے۔

ظہیر خان کا کہنا ہے کہ یہ وہ دور تھا جب لوگ دن بھر کے کام کاج کر کے رات نو بجے سٹوڈیو نائن سے نشر ہونے والے ڈراموں کا بے صبری سے انتظار کرتے تھے کیونکہ اس وقت ابھی پاکستان میں ٹی وی کا دور شروع نہیں ہوا تھا۔

ظہیر خان بھی اس بات سے متفق ہیں کہ طلعت حسین کو مطالعہ کا بہت شوق تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں، نذیر بیگ (اداکار ندیم) طلعت حسین، سلیم ہم سب اسلامیہ کالج میں اکٹھے پڑھتے تھے، اس دور میں بھی اس کے پاس ہر وقت ادب یا تاریخ کی کتاب ہوتی تھی۔‘

وہ بتاتے ہیں ’طلعت اور میں نے ٹی وی ایک ساتھ ٹی وی پروگرام ’دیس بدیس‘ میں ایک ساتھ کام کیا جس میں غیر ملکی فلموں پر تبصرہ کرنا ہوتا تھا۔ ان کے انگریزی مطالعے کی وجہ سے طلعت حسین اس پروگرام کے تبصرہ نگار بنے۔‘

ظہیر خان کا کہنا ہے کہ پھر وہ انگلستان اداکاری اور تھیٹر کی تعلیم حاصل کرنے چلے گئے اور واپس آئے تو پاکستان ٹی وی پر بطور ڈرامہ آرٹسٹ چھا گئے۔ ان کے مطابق ان کی مقبولیت کی شروعات ’پرچھایاں‘ ڈرامے سے ہوا۔

ظہیر خان کہتے ہیں کہ طلعت نے انگلینڈ سے واپس آنے کے بعد بہت کام کیا۔ اس کی ڈائیلاگ ڈیلوری، سٹریس اور پاز اور باڈی لینگوئج نے ان کی اداکاری خصوصاً رومانوی اداکاری کو ناظرین کے دلوں کو چھو لیا۔ وہ ایک مقبول ہیرو کے طور پر ابھرے اور انھیں پاکستان ٹیلی ویژن کا ’دلیپ کمار‘ کہا جانے لگا۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے ان کے آرٹس کونسل پاکستان کے سربراہ اور طلعت حسین کے پرانے ساتھیوں میں سے ایک احمد شاہ کہتے ہیں ’یہ بات شروع سے ہی طلعت کے بارے میں کہی جاتی تھی۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ تقسیم سے قبل کے ہندوستان میں اداکار دلیپ کمار نے اداکاری کے لیے باڈی لینگوئج کا استعمال شروع کیا تھا، کیونکہ وہ فلم کے آدمی تھے اس لیے وہ سین میں چل کر ، رک کر اور بیچ بیچ میں ڈائیلاگ ادا کرتے تھے مگر یہ ان کا انداز تھا۔

’طلعت نے جو اندازِ اداکاری اپنایا وہ ان سے متاثر تو ہو سکتا ہے لیکن وہ جدا تھا، ان کے اپنے پازز اور سٹریس تھے۔‘

احمد شاہ کہتے ہیں کہ طلعت حسین یہ سمجھتے تھے کہ ریڈیو، ٹی وی اور فلم تینوں میں اداکاری کی مختلف ڈیمانڈ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ طلعت حسین کہا کرتے تھے کہ ’ریڈیو میں صرف ڈائیلاگ سے کام بنتا ہے لیکن ٹی وی یا فلم میں جذبات کے اظہار کے لیے باڈی لینگوئج ضروری ہے۔‘

احمد شاہ کہتے ہیں کہ طلعت حسین کم سے کم ڈائیلاگ ڈیلیوری پر یقین رکھتے تھے اسی لیے مکالموں کے دوران ان کے سٹریس اور پازز نے انھیں ایک منفرد مقام دیا۔

احمد شاہ کہتے ہیں کہ وہ نہ صرف ایک بڑے اداکار ہیں بلکہ بہت اچھے انسان بھی ہیں۔

ظہیر خان کہتے ہیں کہ طلعت حسین ایک سادہ لوح، اپنے کام کے ساتھ انتہائی مخلص اور اچھا انسان تھا۔ پاکستان میں ٹیلی وژن اور ریڈیو کی تاریخ لکھی گئی تو اس میں طلعت کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔

احمد شاہ کہتے ہیں کہ بلاشبہ طلعت حسین پاکستان کے چوٹی کے اداکار تھے۔ وہ نہ صرف اچھے اداکار بلکہ ایک نفیس استاد بھی تھے۔ وہ گذشتہ 24 سال سے آرٹس کونسل آف پاکستان کی نہ صرف گورننگ باڈی کے رکن تھے بلکہ آرٹس کونسل کے مختلف شعبوں کے سربراہ بھی تھے۔

وہ کہتے ہیں ’طلعت حسین کو لوگ پسند تھے۔ وہ سب سے کھلے دل سے ملتے۔ تاہم بے تکلفی کے باوجود انھوں نے کبھی کسی بھی قسم کی حد عبور نہیں کی۔

احمد شاہ کہتے ہیں ’طلعت حسین اپنے سماج، ادب، تہذیب کے ساتھ جڑے اور عاجز انسان تھے۔‘

احمد شاہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے اپنے جونیئر آرٹسٹوں کی ہمیشہ مدد کی، انھیں کردار کو نبھانے میں معاونت کی۔ وہ انتہائی شفقت لے ساتھ اپنے سے چھوٹوں سے پیش آتے۔

ظہیر خان کہتے ہیں کہ ’طلعت آج خاموش ہو گیا لیکن اس کے کام کی بازگشت ہمیشہ گونجتی رہے گی۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close