سوا سیر گیہوں (اردو ادب سے منتخب افسانہ)

پریم چند

کسی گاؤں میں شنکر نامی ایک کسان رہتا تھا۔ سیدھا سادا غریب آدمی تھا۔ اپنے کام سے کام، نہ کسی کے لینے میں نہ کسی کے دینے میں۔۔ چھکّا پنجا نہ جانتا تھا۔ چھل کپٹ کی اسے چھوت بھی نہ لگی تھی۔ ٹھگے جانے کی فکر نہ تھی۔ ودّیا نہ جانتا تھا۔ کھانا ملا تو کھا لیا، نہ ملا تو چربن پر قناعت کی۔ چربن بھی نہ ملا تو پانی لیا اور رام کا نام لے کر سو رہا۔۔ مگر جب کوئی مہمان دروازے پر آ جاتا تو اسے یہ استغنا کا راستہ ترک کر دینا پڑتا تھا۔ خصوصاً جب کوئی سادھو مہاتما آجاتے تھے تو اسے لازماً دنیاوی باتوں کا سہارا لینا پڑتا۔ خود بھوکا سو سکتا تھا مگر سادھو کو کیسے بھوکا سلاتا۔ بھگوان کے بھگت جو ٹھہرے۔

ایک روز شام کو ایک مہاتما نے آکر اس کے دروازے پر ڈ یرا جما دیا۔ چہرے پر جلال تھا۔ پیتامیر گلے میں، جٹا سر پر، پیتل کا کمنڈل ہاتھ میں، کھڑاؤں پیر میں، عینک آنکھوں پر۔ غرض کہ پورا بھیس ان مہاتما کا سا تھا جو رؤسا کے محلو ں میں ریاضت، ہوا گاڑیوں پر مندروں کا طواف اور یوگ (مراقبہ) میں کمال حال کرنے کے لیے لذیذ غذائیں کھاتے ہیں۔ گھر میں جو کا آٹا تھا، وہ انہیں کیسے کھلاتا؟ زمانۂ قدیم میں جو کی خواہ کچھ اہمیت رہی ہو، مگر زمانہ حال میں جو کی خورش مہاتما لوگوں کے لیے ثقیل اور دیر ہضم ہوئی ہے۔ بڑی فکر ہوئی کہ مہاتما جی کو کیا کھلاؤں؟ آخر طے کیا کہ کہیں سے گیہوں کا آٹا ادھار لاؤں۔ گاؤں بھر میں گیہوں کا آٹا نہ ملا۔ گاؤں بھر میں سب آدمی ہی آدمی تھے، دیوتا ایک بھی نہ تھا، دیوتاؤں کو خورش کیسے ملتی؟ خوش قسمتی سے گاؤں کے پروہت جی کے یہاں تھوڑے سے گیہوں مل گئے۔ ان سے سوا سیر گیہوں ادھار لیے اور بیوی سے کہا کہ پیس دے۔ مہاتما نے کھایا۔ لمبی تان کر سوئے اور صبح آشیرواد دے کر اپنا راستہ لیا۔

پروہت جی سال میں دوبار کھلیانی لیا کرتے تھے۔ شنکر نے دل میں کہا کہ سوا سیر گیہوں کیا لوٹاؤں۔ پنسیری کے بدلے کچھ زیادہ کھلیانی دے دوں گا۔ وہ بھی سمجھ جائیں گے، میں بھی سمجھ جاؤں گا۔ چیت میں جب پروہت جی پہنچے تو انہیں ڈیڑھ پنسیری کے قریب گیہوں دے دیے اور اپنے کو سبکدوش سمجھ کر اس کا کوئی تذکرہ نہ کیا۔ پروہت جی نے بھی پھر کبھی نہ مانگا۔ سیدھے سادھے شنکر کو کیا معلوم کہ یہ سوا سیر گیہوں چکانے کے لیے مجھے دوبارہ جنم لینا پڑے گا۔

سات سال گذر گئے۔ پروہت جی برہمن سے مہاجن ہوئے۔ شنکر کسان سے مزور ہو گیا۔ اس کا چھوٹا بھائی منگل اس سے الگ ہو گیا تھا۔ ایک ساتھ رہ کر دونوں کسان تھے، الگ ہو کر دونوں مزدور ہوگئے تھے۔ شنکر نے بہت چاہا کہ نفاق کی آگ بھڑکنے نہ پاوے، مگر حالات نے اس کو مجبور کر دیا۔ جس وقت الگ چولہے جلے، وہ پھوٹ پھوٹ کر رویا۔ آج سے بھائی بھائی دشمن ہو جائیں گے۔ ایک روئے تو دوسرا ہنسے گا، ایک کے گھر میں غمی ہوگی تو دوسرے کے گھر گلگلے پکیں گے۔ محبت کا رشتہ، دودھ کا رشتہ آج ٹوٹا جاتا ہے۔ اس نے سخت محنت کر کے خاندانی عزت کا یہ درخت لگایا تھا۔ اسے اپنے خون سے سینچا تھا، اس کا جڑ سے اکھڑنا دیکھ کر اس کے دل کے ٹکڑ ے ہوئے جاتے تھے۔ سات روز تک اس نے دانے کی صورت بھی نہ دیکھی۔ دن بھر جیٹھ کی دھوپ میں کام کرتا اور رات میں لپیٹ کر سو رہتا۔ اس سخت رنج اور ناقابلِ برداشت تکلیف نے خون کو جلایا دیا، گوشت اور چربی کو گھُلا دیا۔ بیمار پڑا تو مہینوں چارپائی سے نہ اٹھا۔ اب گزر بسر کیسے ہو؟ پانچ بیگھے کے آدھے کھیت رہ گئے، ایک بیل رہ گیا۔ کھیتی کیا خاک ہوتی۔ آخر یہاں تک نوبت پہنچی کہ کھیتی صرف نام بھر کو رہ گئی۔ معاش کا سارا بھار مزدوری پر آ پڑا۔

سا ت سال گزر گئے۔ ایک دن شنکر مزدوری کر کے لوٹا تو راستہ میں پروہت جی نے ٹوک کر کہا، ’’شنکر کل آکے اپنے بیج بینک کا حساب کر لے۔ تیرے یہاں ساڑھے پانچ من گیہوں کب سے باقی پڑے ہیں اور تو دینے کا نام نہیں لیتا۔ کیا ہضم کرنے کا ارادہ ہے؟‘‘

شنکر نے تعجب سے کہا، ’’میں نے تم سے کب گیہوں لیے تھے کہ ساڑھے پانچ من ہو گئے؟ تم بھولتے ہو، میرے یہاں نہ کسی چھٹانک بھر اناج ہے، نہ ایک پیسہ ادھار۔‘‘

پروہت، ’’اسی نیت کا تو یہ پھل بھوگ رہے ہو، کھانے کو نہیں جڑتا۔‘‘

یہ کہہ پروہت جی نے اس کا سوا سیر گیہوں کا ذکر کیا، جو آج سے سات سال قبل شنکر کو دیے تھے۔ شنکر سن کر ساکت رہ گیا۔ میں نے کتنی بار انہیں کھلیانی دی۔ انہوں نے میرا کون سا کام کیا۔ جب پوتھی پترا د یکھنے، ساعت شگون بچارنے دوار پر آتے تھے تو کچھ نہ کچھ دچھنا لے ہی جاتے تھے۔ اتنا سوارتھ۔ سوا سیر اناج کو لے انڈے کی طرح یہ بھوت کھڑا کر دیا، جو مجھے نگل ہی جائے گا۔ اتنے دنوں میں ایک بار بھی کہہ دیتے تو گیہوں دے ہی دیتا۔ کیا اسی نیت سے چپ بیٹھے رہے۔ بولا، ’’مہا راج نام لے کر تو میں نے اتنا اناج نہیں دیا، مگر کئی بار کھلیانی میں سیر سیر، دو دو سیر دے دیا ہے۔ اب آپ آج ساڑھے پانچ من مانگتے ہو، میں کہاں سے دوں گا؟‘‘

پروہت، ’’لیکھا جَو جَو۔ بکسیس سو سو۔ تم نے جو کچھ دیا ہوگا، کھلیانی میں دیا ہوگا، اس کا کوئی حساب نہیں۔ چاہے ایک کی جگہ چار پنسیر ی دے، تمہارے نام ہی میں ساڑھے پانچ من لکھا ہوا۔ جس سے چاہے حساب لگو الو۔ دے دو تو تمہارا نام جھیک (کاٹ) دوں، نہیں تو اور بڑھتا رہے گا۔‘‘

شنکر، ’’پانڈ ے! کیوں ایک غریب کو ستانے ہو۔۔ میرے کھانے کا ٹھکانا نہیں، اتنا گیہوں کس کے گھر سے دوں گا۔‘‘

پروہت، ’’جس کے گھر سے چاہے لاؤ، میں چھٹانک بھر بھی نہ چھوڑوں گا۔ یہاں نہ دو گے، بھگوان کے گھر تو دو گے۔‘‘

شنکر کانپ اٹھا۔ ہم پڑھے لکھے لوگ ہوتے تو کہہ دیتے، ’’اچھی بات ہے، ایشور کے گھر ہی دیں گے، وہاں کی تول یہاں سے کچھ بڑی تو نہ ہوگی۔ کم سے کم اس کا کو ئی ثبوت ہمارے پاس نہیں۔ پھر اس کی کیا فکر؟‘‘ مگر شنکر اتنا عقل مند، اتنا چالاک نہ تھا۔ ایک تو قرض، وہ بھی برہمن کا! ’بہی میں نام رہے گا تو سیدھے نرک میں جاؤں گا۔‘ اس خیال سے ہی اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ بولا، ”مہاراج تمہارا جتنا ہوگا، یہیں دوں گا۔ ایشور کے یہاں کیوں دوں؟ اِس جنم میں تو ٹھوکر کھا ہی رہا ہوں، اُس جنم کے لیے کیوں کانٹے بوؤں؟ مگر یہ کو ئی نیا ئے نہیں ہے۔ تم نے رائی کا پربت بنا دیا۔ برہمن ہو کے تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہتے تھا۔ اسی گھڑی تقاضا کر کے لیا ہوتا تو آج میر ے اوپر بڑا بوجھ کیوں پڑتا؟ میں تو دے دوں گا، لیکن تمہیں بھگوان کے یہاں جواب دینا پڑے گا۔۔“

پروہت، ’’وہاں کا ڈر تمہیں ہوگا، مجھے کیوں ہونے لگا۔ وہاں تو سب اپنے ہی بھائی بند ہیں۔ رشی مُنی سب تو برہمن ہی ہیں۔ کچھ بنے بگڑے گی، سنبھال لیں گے۔۔ تو کب دیتے ہو؟‘‘

شنکر، ’’میرے پاس دھرا تو ہے نہیں، کسی سے مانگ جانچ کر لاؤں گا، تبھی دوں گا۔‘‘

پروہت، ’’میں یہ مانوں گا۔ سات سال ہو گئے۔ اب ایک کا بھی ملاحظہ نہ کروں گا۔ گیہوں نہیں دے سکتے تو دستاویز لکھ دو۔‘‘

شنکر، ’’مجھے تو دینا ہے۔ چاہے گیہوں لے لو۔ چاہے دستاویز لکھاؤ، کس حساب سے دام رکھو گے؟‘‘

پروہت، ’’جب دے ہی رہا ہوں تو بازار بھاؤ کاٹوں گا۔ پاؤ بھر چھڑا کر کیوں بُرا بنوں۔‘‘

حساب لگایا گیا تو گیہوں کی قیمت ساٹھ روپیہ بنی۔ ساٹھ کا دستاویز لکھا گیا۔ تین روپیہ سیکڑہ سود۔ سال بھر میں نہ دینے پر سود کی شرح ساڑھے تین روپے سیکڑہ۔ آٹھ آنے کا اسٹامپ، ایک روپیہ دستاویز کی تحریر شنکر کو علیحدہ دینی پڑی۔

سارے گاؤں نے پروہت جی کی مذمت کی مگر سامنے نہیں۔ مہاجن سے سبھی کو کام پڑتا ہے، اس کے منہ کون لگے؟

شنکر نے سال بھر تک سخت ریاضت کی میعاد سے قبل اس نے روپیہ ادا کرنے کا برَت سا کر لیا۔ دوپہر کو پہلے بھی چولھا نہ جلتا تھا، صرف چربن پر بسر ہوتی تھی، اب وہ بھی بند ہوا۔ صرف لڑکے کے لیے رات کو روٹیاں رکھ دی جاتیں۔ ایک پیسہ کی تمباکو روز پی جاتا تھا۔ یہی ایک لت تھی، جسے وہ کبھی نہ چھو ڑ سکا تھا۔ اب وہ بھی اس کٹھن برت کے بھینٹ ہو گئی۔ اس نے چلم پٹک دی، حقہ تو ڑ دیا اور تمباکو کی ہانڈی چور چور کر ڈالی۔ کپڑے پہلے بھی ترک کی انتہائی حد تک پہنچ چکے تھے، اب وہ باریک ترین قدرتی کپڑوں میں منسلک ہو گئے۔ ماگھ کی ہڈیوں تک میں سرایت کر جانے والی سردی کو اس نے آگ کے سہارے کاٹ دیا۔

اس اٹل ارادے کا نتیجہ امید سے بڑھ کر نکلا۔ سال کے آخر تک اس کے پاس ساٹھ روپے جمع ہو گئے۔ اس نے سمجھا کہ پنڈت جی کو اتنے روپے دے دوں گا اور کہوں گا، ’مہاراج باقی روپے بھی جلدی آپ کے سامنے حاضر کر دوں گا۔ پندرہ کی تو اور بات ہے۔‘ کیا پنڈت جی اتنا بھی نہ مانیں گے۔ اس نے روپے لیے اور لے جا کر پنڈت جی کے قدموں پر رکھ دیے۔

پنڈت جی نے متعجب ہو کر پوچھا، ’’کسی سے ادھار لیا کیا؟‘‘

شنکر، ’’نہیں مہاراج! آپ کی اسیس سے اب کی مجوری اچھی ملی۔‘‘

پنڈت جی، ’’لیکن یہ تو ساٹھ ہی ہیں۔‘‘

شنکر، ’’ہاں مہاراج! اتنے ابھی لے لیجیے۔ باقی دو تین مہینے مین دے دوں گا۔ مجھے ارن کر دیجیے۔‘‘

پنڈت جی، ’’ارن تو جبھی ہوں گے، جب میری کوڑی کوڑی چکا دو گے؟ جا کر میرے پندرہ اور لاؤ۔‘‘

شنکر، ’’مہاراج! اتنی دیا کرو۔ اب سانجھ کی روٹیوں کا بھی ٹھکانا نہیں ہے۔ گاؤں میں ہوں تو کبھی نہ کبھی دے ہی دوں گا۔‘‘

پنڈت، ’’میں یہ روگ نہیں پالتا، نہ بہت باتیں کرنا جانتا ہوں۔ اگر میرے پورے روپے نہ ملیں گے تو آج سے ساڑے تین روپے سیکڑہ کا بیاج چلے گا۔ اتنے روپے چاہے اپنے گھر میں رکھو، چاہے میر ے یہاں چھوڑ جاؤ۔‘‘

شنکر، ’’اچھا، جتنا لایا ہوں، اتنا رکھ لیجیے۔ میں جاتا ہوں، کہیں سے پندرہ اور لانے کی فکر کرتا ہوں۔‘‘

شنکر نے سارا گاؤں چھان مارا مگر کسی نے روپے نہ دیے۔ اس لیے نہیں کہ اس کا اعتبار نہ تھا، یا کسی کے پاس روپے نہ تھے، بلکہ پنڈت جی کے شکار کو چھیڑنے کی کسی میں ہمت نہ تھی۔

عمل کے بعد رد عمل کا قدرتی قاعدہ ہے۔ شنکر سال بھر تک تپسیا کرنے پر بھی جب قرض بیباق کرنے میں کامیاب نہ ہوا تو اس کی احتیاط مایوسی کی شکل میں تبدیل ہو گئی۔ اس نے سمجھ لیا کہ جب اتنی تکلیف اٹھانے پر سال بھر میں ساٹھ روپے سے زیادہ نہ جمع کر سکا تو اب کون سا اپائے ہے، جس سے اس کے دونے روپے جمع ہوں۔ جب سرپر قرض کا بوجھ ہی لدنا ہے تو کیا من بھر اور کیا سوا من کا۔۔ اس کی ہمت پست ہو گئی، محنت سے نفرت ہو گئی۔ امید ہی حوصلہ کی پیدا کرنے والی ہے، امید میں رونق ہے، طاقت ہے، زندگی ہے، امید ہی دنیا کی متحرک کرنے والی قوت ہے۔ شنکر مایوس ہوکر بے پروا ہو گیا۔ وہ ضرورتیں، جن کو اس نے سال بھر تک ٹال رکھا تھا، اب دروازے پر کھڑی ہونے والی بھکارنیں نہ تھیں، بلکہ سر پر سوار ہونے والی چڑیلیں تھیں جو اپنا چڑھاوا لیے بغیر جان ہی نہیں چھوڑتیں۔ کپڑوں میں پیوند لگنے کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔

اب شنکر کو حساب ملتا تو روپے جمع نہ کرتا۔ کبھی کپڑے لاتا اور کبھی کھانے کی کوئی چیز۔ جہاں پہلے تمباکو پیا کرتا تھا، وہاں اب گانجہ اور چرس کا چسکا بھی لگا۔ اسے اب روپے ادا کرنے کی کوئی فکر نہ تھی۔ گویا اس پر کسی کا ایک پیسہ بھی نہ تھا۔ پہلے لرزہ آ جانے پر بھی وہ کام کرنے ضرور جاتا تھا، اب کام پر نہ جانے کا بہانہ تلاش کیا کرتا۔

اس طرح تین سال گزر گئے۔ پنڈت جی مہاراج نے ایک بار بھی تقاضا نہ کیا۔ وہ ہوشیاری شکاری کی طرح تیر بہ ہدف نشانہ لگانا چاہتے تھے۔ پہلے سے شکار کو بھڑکا دینا ان کے شیوہ کے خلاف تھا۔

ایک روز پنڈت جی نے شنکر کو بلایا۔ حساب دکھایا۔ ساٹھ روپے جمع تھے، وہ منہا کرنے پر بھی اب شنکر کے ذمے ایک سو بیس روپے نکلے۔

’’اتنے روپے تو اُسی جنم میں دوں گا، اِس جنم میں نہیں ہو سکتا۔۔‘‘

پنڈت، ’’میں اِسی جنم میں لوں گا۔ اصل نہ سہی سود تو دینا ہی پڑے گا۔‘‘

شنکر، ’’ایک بیل ہے، وہ لے لیجیے۔ ایک جھونپڑی ہے، وہ لے لیجیے۔۔ اور میر ے پاس رکھا کیا ہے؟‘‘

پنڈت، ’’مجھے بیل بدہیا لے کر کیا کرنا ہے۔ مجھے دینے کو تمہارے پاس بہت کچھ ہے۔‘‘

شنکر، ’’اور کیا ہے مہاراج۔‘‘

پنڈت، ’’کچھ نہیں ہے، تم تو ہو؟ آخر تم بھی کہیں مزدوری کرنے ہی جاتے ہو۔ مجھے بھی کھیتی کرنے کے لیے ایک مزدور رکھنا ہی پڑتا ہے۔ سود میں تم ہمارے یہاں کام کیا کرو۔ جب سبھیتا ہو، اصل بھی دے دینا۔ سچ تو یہ ہے کہ اب تم دوسری جگہ کام کرنے کے لیے جا نہیں سکتے، جب تک میر ے روپے نہ چکا دو۔ تمہارے پاس کوئی جائیداد نہیں ہے۔ اتنی بڑی گٹھری میں کس اعتبار پر چھوڑدوں؟ کون اس کا ذمہ لے گا۔۔ تم مجھے مہینے مہینے سود دیے جاؤ گے۔ اور کہیں کما کر جب تم مجھے سود بھی نہیں دے سکتے تو اصل کی کون کہے؟‘‘

شنکر، ’’مہاراج! سود میں تو کام کروں گا اور کھاؤں گا کیا؟‘‘

پنڈت، ’’تمہاری گھر والی ہے، لڑکے ہیں۔ کیا وہ ہاتھ پیر کٹا بیٹھیں گے۔ تمہیں آدھ سیر جو روز چربن کے لیے دے دیا کروں گا۔ اوڑھنے کے لیے سال میں کمبل پاجاؤ گے۔ ایک سلوکا بھی بنوا دیا کروں گا، اور کیا چاہیے؟ یہ سچ ہے کہ اور لوگ تمہیں چھ آنے روز دیتے ہیں لیکن مجھے ایسی غرض نہیں ہے۔ میں تو تمہیں اپنے روپے بھرانے کے لیے رکھتا ہوں۔‘‘

شنکر نے کچھ دیر تک گہری سوچ میں پڑے رہنے کے بعد کہا، ’’مہاراج! یہ تو جنم بھر کی گلامی ہوئی؟‘‘

پنڈت، ’’غلامی سمجھو، چاہے مجوری سمجھو۔ میں اپنے روپے بھرائے بنا تمہیں نہ چھوڑوں گا۔ تم بھاگو گے تو تمہارا لڑکا۔ ہاں جب کوئی نہ رہے گا، تب کی بات دوسری ہے۔‘‘

اس فیصلہ کی کہیں اپیل نہ تھی۔ مزدور کی ضمانت کون کرتا؟ کہیں پناہ نہ تھی۔ بھاگ کر کہاں جاتا؟ دوسرے روز سے اس نے پنڈت جی کے ہاں کام کرنا شروع کر دیا۔ سوا سیر گیہوں کی بدولت عمر بھر کے لیے غلامی کی بیڑیاں پاؤں میں ڈالنی پڑیں۔ اس بد نصیب کو اب اگر کسی خیال سے تسکین ہوتی تھی تو اسی سے کہ یہ سب میرے پچھلے جنم کا بھوگ ہے۔ عورت کو وہ کام کرنے پڑے تھے، جو اس نے کبھی نہ کیے تھے۔ بچے دانے دانے کو ترستے تھے، لیکن شنکر چپ دیکھنے کے سوا اور کچھ نہ کر سکتا تھا۔ وہ گیہوں کے دانے کسی دیوتا بدھا کی طرح تمام عمر اس کے سر سے نہ اترے۔

شنکر نے پنڈت جی کے یہاں بیس برس تک غلامی کرنے کے بعد اس غم کدے سے رحلت کی۔ ایک سو بیس ابھی تک اس کے سر پر سوار تھے۔ پنڈت جی نے اس غریب کو ایشور کے دربار میں تکلیف دینا مناسب نہ سمجھا۔ پس انہوں نے اس کے جوان بیٹے کی گردن پکڑی۔ آج تک وہ پنڈت جی کے یہاں کام کرتا ہے۔ اس کا ادھار کب ادا ہوگا، ہوگا بھی یا نہیں، ایشور ہی جانے۔۔۔۔۔!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close