تاجروں کی سرگرمیوں نے ابتدائی دور میں ہی قوموں میں باہم ہم آہنگی پیدا کی اور قومیں ایک دوسرے کے کلچر سے واقف ہوئیں۔ اس کا اَثر کھانوں کی تیاری پر بھی ہوا۔ ابتدا میں وینس کی ریاست کی مسالوں کی درآمد پر اَجارہ داری تھی۔ اس کے بحری جہاز ایشیا کے مُلکوں سے مسالے لا کر یورپ کی منڈیوں میں سپلائی کرتے تھے۔
وینس کے بعد اس تجارت میں پُرتگال آیا۔ اس کے تجارتی جہاز افریقہ سے ہوتے ہوئے ہندوستان جاتے تھے۔ گجرات پر پرتگال کے قبضے کے بعد یہ سیاسی طور پر بھی طاقتور ہو گئے تھے۔ انڈونیشیا میں ملاکا پر قبضے کے بعد وہاں سے مسالے لے کر یورپ آتے تھے اور ان کی تجارت سے مُنافع حاصل کرتے تھے۔ مسالوں کی تجارت نے انگلستان، فرانس اور ہالینڈ، جو بعد میں شریک ہوا، کے کھانوں کے ذائقے کو بدلا، جس کی وجہ سے یورپ میں نئے نئے پکوان روشناس ہوئے۔
کھانوں میں اُس وقت زبردست تبدیلی آئی، جب 1492 میں امریکہ کی دریافت ہوئی اور اس کی فصلیں یورپ اور ایشیا میں مقبول ہوئیں۔ اِن میں مکئی، آلو اور ٹماٹر قابلِ ذکر ہیں۔ خاص طور سے آلوؤں کی کاشت نے یورپ اور دوسرے مُلکوں کے کھانوں میں تبدیلی کر کے سیاسی اور سماجی طور پر لوگوں کے کھانوں کی عادت کو بدل ڈالا۔
آلو غذایت سے بھرپور ہوتے ہیں اور ان کی کاشت بھی آسان ہوتی ہے۔ سرمایہ داروں نے سَستا ہونے کی وجہ سے آلوؤں کو مزدوروں کی غذا بنایا تا کہ اُن سے کم اُجرت پر محنت کرائی جائے۔ پروشیا کے فریڈرک دوم نے آلوؤں کی اہمیت سمجھتے ہوئے انہیں اپنی فوج کے کھانے کے لیے لازم قرار دیا۔ فوج کی خوراک کے لیے آلو سستے پڑتے تھے۔ ابتدا میں کسانوں نے آلو کاشت کرنے سے انکار کر دیا تھا، جس پر فریڈرک دوم نے اُنہیں دھمکی دے کر مجبور کیا کہ وہ آلو کاشت کریں۔
سستے ہونے کی وجہ سے آلو آئرلینڈ کے لوگوں کی خوراک بن گئے۔ آئرلینڈ برطانیہ کی کالونی تھا اور اس کی زمینوں پر برطانوی لینڈ لارڈز قابض تھے۔ اس کے کسان غریب اور مُفلس تھے۔ لہٰذا اُنہوں نے آلوؤں پر انحصار کیا۔ جب 1843-45 میں آلوؤں کی فصلیں خراب ہوئیں تو آئرلینڈ میں قحط پڑ گیا۔ برطانوی حکومت نے ان کی کوئی مدد نہیں کی، جس کی وجہ سے یہ فاقہ زدہ لوگ ہجرت کر کے امریکہ چلے گئے اور کچھ نے برطانیہ میں پناہ لی۔
جن معاشروں میں آلوؤں کا استعمال ہوتا ہے، وہ انہیں مختلف طریقوں سے کھانوں میں استعمال کرتے ہیں۔ آلوؤں کو بھون کر یا اُبال کر بھی کھایا جاتا ہے۔ فرانس میں فرینچ فرائز بنا کر اس کو دوسرے کھانوں کے ساتھ مِلا کر کھایا جاتا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان میں انہیں بطور سبزی کھانوں میں شریک کیا جاتا ہے۔
کھانوں کا تعلق اُمراء اور عوام کے طبقاتی فرق سے بھی ہوتا ہے۔ اُمراء کھانوں کے سلسلے میں تربیت یافتہ ملازموں کو باورچی رکھتے تھے، جو اُن کے لیے مزیدار کھانے پکاتے تھے۔ جبکہ عام لوگ اور خاص طور سے دیہات میں لوگوں کا کھانا سادہ ہوتا تھا۔ مثلاً برِصغیر میں لوگ پیاز، خربوزے، آم اور اَچار چٹنی سے روٹی کھا لیتے تھے یا بھٹیارخانوں اور سراؤں میں سستا کھانا اُن کی خوراک ہوتا تھا۔
اٹھارویں صدی میں فرانس میں ریستوران قائم ہونا شروع ہوئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ فرانسیسی انقلاب نے اُمراء کے طبقے کو ختم کر دیا تھا اور وہ اس قابل نہیں رہے تھے کہ تربیت یافتہ باورچیوں کو ملازم رکھ کر اُن سے قِسم قِسم کے کھانے پکوائیں۔ اس کمی کو ریستورانوں نے پورا کیا۔ ہر ریستوران خاص قِسم کے پکوان تیار کر کے گاہکوں کو اپنی جانب متوجہ کرتا تھا۔
ریستوران میں کھانے کے آداب ہوا کرتے تھے۔ کھانا آرام سے کھایا جاتا تھا۔ اس کے کئی کورسِز ہوتے تھے۔ مثلاً 15 کورسِز کا ڈِنر ہوتا تھا اور ڈشیں ایک ایک کر کے مہمان کے سامنے لائی جاتی تھیں۔ کھانا ختم کرنے میں دو گھنٹے صرف ہو جاتے تھے لیکن گاہک کھانے کی لذّت سے پوری طرح لطف اندوز ہوتے تھے۔
لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جہاں سیاسی، سماجی اور ثقافتی تبدیلیاں آئیں، وہیں کھانا کھانے کی عادات بھی بدل گئیں۔ شہروں میں، جہاں آبادی بڑھی، وہاں پیشہ وروں اور تاجروں کے لیے وقت قیمتی ہو گیا تو اُسے کھانے پر صَرف کرنے کے بجائے پیسہ کمانے پر لگا دیا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ فاسٹ فوڈ کا زمانہ آیا، جسے لوگ پیٹ بھرنے کے لیے استعمال کرتے تھے، ذائقے اور لذّت کے لیے نہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایسے ہوٹل قائم ہوئے، جہاں لوگ صرف کھانا کھانے جاتے ہیں اور پھر اپنے پیشہ وارانہ کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
فاسٹ فوڈ نے ایشیا اور افریقہ کے مُلکوں کے کلچر اور عادتوں کو بھی بدل ڈالا ہے۔ اگرچہ برِصغیر میں اب بھی روایتی کھانوں کا چلن ہے مگر نئے امریکی کھانے آہستہ آہستہ ان کی جگہ لے رہے ہیں۔ اس لیے سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے روایتی کھانوں اور اُن میں استعمال ہونے والے مسالوں جبکہ شربت اور لسّی کی جگہ کوکا کولا اور پپسی ہمارے کلچر کو بدل دیں گے اور کیا ہم اپنے روایتی کھانوں کی لذّت سے محروم ہو جائیں گے؟ کیا مستقبل میں کھانا محض پیٹ بھرنے کے لیے ہو گا اور کیا ہم اس کی غذایت اور ذائقے سے لطف اندوز نہیں ہو پائیں گے؟
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)