آواز کیسی عجیب چیز ہے۔ جتنے مرضی لفظ لے آئیں آپ کسی کی آواز بتا نہیں سکتے۔
خوشبو کاپی ہو سکتی ہے، کاغذ پہ اس کا فارمولہ، اس کے نوٹس، سب کچھ لکھ کر اسے بالکل پہلے جیسا بنایا جا سکتا ہے لیکن آواز؟
آپ کے پردادا کی آواز کیسی تھی، آپ نہیں جانتے ہوں گے، تصویر شاید ہو، عادتوں کا علم ہو سکتا ہے لیکن آواز ۔۔۔ اسے کوئی کیسے کاغذ پہ اتار سکتا ہے؟
آواز ریکارڈ ہو سکتی ہے، اس کی نقل بھی کی جا سکتی ہے لیکن یہ علم وہبی ہو گا، یعنی، کوئی ایک دو بندے، اپنی آواز بدلنے کی صلاحیت اور دماغ استعمال کرتے ہوئے مخصوص آوازیں کاپی کر سکتے ہوں گے۔
آرٹیفیشل انٹیلیجنس بھی آواز ہوبہو نقل کر سکتی ہے لیکن آپ کسی آواز کو ڈیفائن کیسے کریں گے؟
جیسے احمد کی آواز پچاس درجے بھاری ہے، دس ڈگری کھردری ہے اور پانچ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے وہ بولتا ہے؟
میوزک کاغذ پہ اتارا جا سکتا ہے لیکن لتا کی آواز کیسی تھی اس کے لیے آپ کے پاس کیا ہے کہنے کے لیے؟
ایک دو لفظ؟ باریک آواز تھی، سریلی تھیں، پھر اس کے بعد مثالیں شروع ہو جائیں گی کہ کوئل جیسا گانا تھا، گلے میں بھگوان بولتا تھا وغیرہ وغیرہ۔
آواز میٹھی ہو سکتی ہے، بھاری ہو سکتی ہے، چڑچڑی، مہربان، پرجوش، اونچی، نحیف، کھردری، واضح، سرگوشی نما، دھیمی، بورنگ لہجے والی، تکلیف دہ، نفاست بھری، پرکشش، بناوٹی، مسحور کن، رس بھری، توانا، نخوت بھری، مغرور، باریک، پرسکون، کانپتی ہوئی۔۔۔
کتنی ہی قسموں کی ہو سکتی ہے آواز لیکن ان سارے لفظوں سے بھی آپ کو پتہ کیسے لگے گا کہ آپ کے پردادا کی آواز کیسی تھی؟ بلکہ، خود آپ کی آواز کیسی ہے، کیا تعریف ہے آپ کے پاس اپنی آواز کی؟
وائلن انسانی آواز کے قریب ترین سمجھا جانے والا ساز ہے، یعنی اس رینج کے قریب پہنچتا ہے جو انسانی گلے کے بس میں ہوتی ہے لیکن، بولتا وہ بھی نہیں، موسیقی دیتا ہے، جتنی جس کے بس میں ہے نکال لے۔
کیسی عجیب سی بات نہیں؟ ہم کتنا کچھ لفظوں میں بیان نہیں کر سکتے؟
پھر بھی ہمیں بولنے کا شوق ہوتا ہے، بے تحاشا زبان چلانے کا، اور اسے اچھا بھی سمجھا جاتا ہے؟
جو انسان جتنا زیادہ بولے گا، جتنے اعتماد سے بات کرے گا اتنا ہی تگڑا سمجھا جائے گا، جب کہ ہم آپ اور وہ بولنے والا بھی، خود اپنی آواز کو ڈیفائن نہیں کر سکتا۔ کوئی فارمولا نہیں سوائے بار بار خود کو سننے کے اور اندازے لگانے کے۔
اسی زبان سے متعلق ایک چیز مجھے 43 سال کی عمر میں پتہ لگی، شاید آپ میں سے بھی کئیوں کو معلوم نہ ہو۔ کھٹے، میٹھے، کڑوے، نمکین کے علاوہ ایک اور ذائقہ بھی ہوتا ہے جسے ’اُمامی‘ کہا جاتا ہے۔
ٹماٹر، اجینو موتو، سی فوڈ اور قہوے سمیت کئی عجیب سے ذائقے اُمامی کہلاتے ہیں، ایک چھٹا ذائقہ بھی دریافت کرنے میں لگے ہوئے ہیں جاپانی، سوال یہ ہے کہ جب تک مجھے پانچواں ذائقہ پتہ نہیں تھا تب تک میں کس چیز سے محروم تھا؟
یا اگر آپ آواز کو ڈیفائن نہیں کر سکتے تو اس سے آپ کی زندگی میں کیا خسارہ پیدا ہو گیا ہے؟
سیدھی سی بات ہے یہ باتیں ہماری سوچ کی سرحدوں سے باہر تھیں، اب پتہ لگ گیا، اب بھی ہم سکون میں ہیں۔
اسی طرح بہت سی چیزیں ہیں، جذبات ہیں، محسوسات ہیں، خیال ہیں، فوبیا میں بدلتے ہوئے خوف ہیں جنہیں ہم کوئی نام نہیں دے سکتے، دے سکیں تو بتا نہیں سکتے اور کہہ دیں تو سمجھا نہیں سکتے۔
لیکن یہ سب چیزیں ہم اس لیے سمجھ سکتے ہیں چونکہ یہ ہم سے متعلق ہیں۔
دوسروں کو ہم یہ سہولت کیسے دے سکتے ہیں کہ ان کی آواز، ان کے مسائل کو سمجھا جائے، ان کے محسوسات کا احترام کیا جائے، ان کی انفرادی سوچ کو عزت بخشی جائے، ان کا عقیدہ کیا ہے، وہ خود کو کیا کہلوانا چاہتے ہیں، ان کی شناخت کیا ہے؟
وہ اپنی پہچان کس حوالے سے چاہتے ہیں، وہ کیا سوچتے ہیں، کن چیزوں سے انہیں خوف آتا ہے اور پاکستان میں باہر نکلتے ہوئے انہیں کس چیز سے تکلیف ہو سکتی ہے، ان سوالوں کو کم از کم سوال کی حد تک ہی سامنے رکھا جائے؟
یا ان سب چیزوں کو ہم اُسی کیٹیگری میں کیوں نہیں ڈال سکتے کہ جہاں ہماری سمجھ کی سرحدیں ختم ہو جاتی ہیں، یا اگر ہم نہ سوچیں تو ہمیں کوئی فرق بھی نہیں پڑتا ۔۔۔۔ جیسے وہی آواز کا فارمولہ بتانا تھا یا پانچویں ذائقے کا مسئلہ تھا؟
یہاں دوسرے کون ہیں؟ آف کورس وہی سب ہیں جو موب لنچنگ (پرتشدد ہجوم میں گھرے) میں مارے جاتے ہیں، جنہیں دور سے آئی ہوئی پستول کی ایک بے نام گولی چاٹ جاتی ہے۔
جن کے لیے پاسپورٹ سے لے کر دوسرے سرکاری کاموں میں اتنے جھمیلے ہیں کہ اگر ہم آپ ان کی ٹانگ نہ بھی کھینچیں تو بھی ساری زندگی وہ انہی چیزوں سے نکلنے میں گزار دیتے ہیں۔
ہر چیز ہم سمجھ نہیں سکتے، ہماری عقل کی گنجائش محدود ہے، جو سمجھ نہیں سکتے تو اس پہ ہم کوئی فیصلہ بھی نہیں سنا سکتے، فیصلہ نہ سنائیں اور بس خاموشی اختیار کر لیں تو کیا یہ بہتر نہیں ہو گا؟
مذہب، عقیدہ، جنس کا تعین، انفرادی سوچ، بات کرنے کا طریقہ، رہن سہن کی رسمیں۔۔۔
ہم سب کی الگ الگ ہو سکتی ہیں، جب پوری دنیا میں یہ چیزیں منفرد ہو سکتی ہیں، بڑے ملکوں میں جہاں خود ہم جا کے رہنا پسند کرتے ہیں، وہاں الگ الگ ہو سکتی ہیں تو خود ہمارے یہاں کیوں نہیں ہو سکتیں؟
ایسا میں سوچتا ہوں، ایسا دو لاکھ میں سے دو ہزار سوچتے ہوں گے لیکن وہ بولتے نہیں ہیں۔
یہ بولنے کا معاملہ ہے بھی نہیں، مت بولیں، صرف سوچیں، گنجائش پیدا کریں، تب شاید ایسا ہو کہ ہمارے بچوں کو اپنے ہی جنون سے پناہ لینے کے لیے باہر ملکوں کے دھکے نہ کھانے پڑیں۔
باقی اللہ کا نام رہ جانے والا ہے!
بشکریہ انڈیپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)