سندھ سلطنت: سندھو کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط29)

شہزاد احمد حمید

شاہراہِ ریشم بائیں گھومتی قراقرم کے پہاڑوں پر بل کھاتی ”رائے کو ٹ برج“ پہنچتی ہے جبکہ میں سیدھا آگے کو رواں ہوں۔۔ سندھو کے پار ہمالیہ کی عمودی چٹانیں اس پر سایہ کئے ہیں۔ کہیں کہیں سبزہ بھی ہے۔ لینڈسلائیڈنگ آج بھی اس شاہراہ کا بڑا خطرہ ہے۔

رائے کوٹ تک کا علاقہ ’دیامیر بھاشا ڈیم‘ کا حصہ ہے۔ دیا میر بھاشاڈیم کی جھیل یہاں تک پھیلی ہوگی۔ شاہراہ ریشم نے رخ تبدیل کیا ہے۔ پل کے بائیں کنارے شنگریلا ہوٹل ہے۔ نین پوچھنے لگی؛ ’’سندھو جی! اس ویرانے میں شنگریلا ہوٹل؟“ اس سے پہلے کہ میں جواب دیتا سندھو کی آواز سنائی دی؛ ”بی بی! یہاں سے راستہ نانگا پربت کے بیس کیمپ ’فیری میڈوز‘ کو جاتا ہے۔ سیاح فیری میڈوز جانے کے لئے یہاں قیام کرتے ہیں۔ یہ خوابوں کی جگہ ہے۔ سیاح فیری میڈوز کو ’ڈریم لینڈ‘ بھی کہتے ہیں۔ اسے فیری میڈوز (پریوں کا سبزہ زار) کا نام ایک جرمن کوہ پیما نے دیا تھا۔ مقامی لوگ تو اسے ’جوٹ‘ کہتے ہیں۔ سیاحت کے فروغ کے بعد سے اس ہوٹل کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ رائے کوٹ برج سے بارہ (12) کلومیٹر لمبا پختہ راستہ ’تا تو‘ گاؤں جاتا ہے اور پھر تین چار گھنٹے کی ہائکنگ فیری میڈوز پہنچا دیتی ہے۔ فیری میڈوز کو جانے والا دشوار جیپ ایبل راستہ شاید دنیا کی مشکل ترین گزر گاہ ہے۔ ایک طرف آسمان سے باتیں کرتے پہاڑ ہیں تو دوسری طرف دل دھلا دینے والی گہرائیاں۔ اور پتلی سی یہ سڑک۔ جیپ چلانا انتہائی مہارت اور ہمت کا کام ہے۔ تقریباً اڑھائی گھنٹے کا یہ سفر دل کی دھڑکنیں تیز کر دیتا ہے۔ سانسیں رک جاتی ہیں۔

”گائیڈ سیاحوں کو فیری میڈوز کی ایسی ایسی دیو مالائی داستانیں سناتے ہیں کہ سیاح یہاں کے حسن اور ان دیکھی پریوں کے دیوانے ہو کر نانگا پربت کے حسن میں ایسے کھوتے ہیں کہ ارد گرد کا ہوش بھی نہیں رہتا ہے۔ فیری میڈوز نانگا پربت کی برفیلی چوٹی کے دامن میں گھاس کا بڑا میدان ہے، جس کے سامنے نانگا پربت کی چوٹی سفید رنگ کی چادر اوڑھے آسمان سے باتیں کرتی ہے۔ اس کا دل چاہے اور آنے والے سیاحوں پر مہربان ہو جائے تو اپنا چہرہ دکھا دے۔ مہربانی نہ کرے تو چہرہ بادلوں اور دھند کے گھونگھٹ میں چھپائے رکھے۔ کئی کئی دن۔۔ “ نانگا پربت کی برف سے پھوٹتی شفاف پانی کی رائے کوٹ ندی بھی میرے وجود میں ملتی ہے۔“

قاسم اور میں جب یہاں آئے تھے تو اس نے ہم پر خوب دریا دلی کی تھی اور دو دن تک اپنے پورے وجود کو سورج کی کرنوں کے سامنے رکھ کر ایسے ایسے نظارے دکھائے تھے جو اللہ نے اُس وقت ہماری قسمت میں ہی لکھ دئیے تھے۔ سچ ہے ’پہاڑ بھی ہر کسی سے محبت نہیں کرتے۔‘

شاہراہ ریشم سے نانگا پربت (killer mountain) کا شاندار نظارہ میری آنکھوں سے ہوتا میرے دماغ میں نقش ہو چکا ہے۔ برف سے ڈھکا یہ پہاڑ دیکھ کر لگتا ہے جیسے سارا آسمان برف میں چھپا ہے۔ چوٹی اور آس پاس کے پہاڑوں پر پھیلی دھند اور بادل جیسے اس کے حسن کی نذر اتارتے ہیں۔ سیاحوں کی آنکھیں اس منظر کو دیکھ کر چندھیا جاتی ہیں۔ لمحہ بھر کے لئے وہ مبہوت ہو جاتے ہیں اوربے ساختہ جی چاہتا ہے کہ سڑک کنارے کسی پتھر پر سر رکھ کر قدرت کی مہربانیوں کا شکر بجا لائیں۔ یہ دنیا کی نویں بلند ترین چوٹی ہے۔ کچھ کوہ پیما تو اسے ”سوتا حسن“ sleeping beauty کا نام دیتے ہیں تو مقامی اسے ”دیا میر“ یعنی ”پہاڑوں کا بادشاہ“ پکارتے ہیں۔ کوئی شک نہیں یہ چوٹی ہے بادشاہ ہی۔ گلگت سے سندھو کے بہاؤ کے ساتھ سفر کرتے نانگاپربت کی چوٹی بھی کہیں کہیں سے دکھائی دیتی ہے۔ اس ویران راستے پر یہ واحد منظر ہے جو دیکھنے والے کو ریت اور چٹیل پہاڑوں کے خوف سے آزاد کر تا ہے۔ ڈھلتا سورج وہ منظر کشی کرتا ہے کہ انسانی جسم اور سوچ عالم مدہوشی میں پہنچ جائیں۔ مبہوت مسافر، بادلوں کے بیچ سے جھانکتی نارنجی مہتابی کرنیں اور دم بہ خود آنکھیں برف کو روشن سے روشن تر ہوتے دیکھ سکتی ہیں۔ چھبیس ہزار سات سو ساٹھ فٹ(26760) بلند یہ پُروقار پہاڑ بڑی شان سے کھڑا ہے۔ نانگاپربت دنیا کے کسی بھی اور پہاڑ کی نسبت انسانوں کے لئے زیادہ بے رحم اور جان لیوا ثابت ہوا ہے۔ قدیم عقائد کے مطابق ہمالیہ اور قراقرم کی دوسری بلند چوٹیوں کی طرح اس چوٹی کی حفاظت بھی متلون مزاج ارواح کے پاس ہے۔ ان برفانی چوٹیوں پر پریاں رہتی ہیں۔ جب سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمکتا ہے تو وہاں سے اٹھتا دھواں دراصل پریوں کے کھانا پکانے کی وجہ سے ہے۔ یہ سب مناظر اور ان سے جڑی سبھی کہانیاں بہت رومانوی ہیں لیکن ان پہاڑوں پر بسیرا کئے کچھ اور بھی غیر مرئی قوتیں ہیں، جن پر مقامی لوگ شاید آج بھی یقین رکھتے ہیں۔

”تم تو جانتے ہی ہو فیری میڈوز پر گرمی کے موسم میں بھی اٹھنے والی ہوا اور ٹھنڈ جسم کی ہڈیوں میں اتر جاتی ہے۔ یہ پہاڑ اس لئے بھی انسان کے دشمن ہیں کہ ان پر چڑھنا بہت مشکل ہے۔ 20 ہزار فٹ کی بلندی پر آکسیجن کی کمی جسم، دماغ اور جذبے کو کمزور کرتی ہے۔ قوتِ مدافعت کمزور پڑتی ہے تو قوتِ ارادی بھی کمزور پڑنے لگتی ہے۔ برف، خوف اور موت کے اس عظیم ہیولے کو کچھ مہم جو ’جبل الموت‘ بھی کہتے ہیں۔“ عظیم داستان گو نانگا پربت کی کہانی سنا کر خاموش ہو گیا ہے۔

صدیوں پرانی گزر گاہ، اُس سے بھی زیادہ پرانا دریا، وہی روانی، وہی مستانی چال۔ مجال ہے اس کی چال ڈھال میں کوئی فرق آیا ہو۔ شاہراہ ریشم جگہ جگہ سے ٹوٹی ہے اور اس میں جا بجا گڑھے پڑے ہیں۔ زیرِ تعمیر داسو ڈیم سے چلاس اور داسو کے درمیان سڑک کی نئے سرے سے الائنمنٹ ہوگی اور اسے اب زیادہ اونچائی سے گزرا جائے گا بے شک اس اونچائی سے داسو ڈیم کی جھیل کا نظارہ قابلِ دید ہوگا۔ اس سڑک کی تکمیل میں کچھ وقت لگ سکتا ہںے۔ ہم سندھو کے ساتھ ساتھ سفر کرتے جیپ میں ہچکولے کھاتے چلاس کو رواں ہیں۔ مشتاق نے تو اس کو نیا نام ’ہچکولا شاہراہ‘ دیا ہے۔ ویسے ریشم جیسی کوئی بات نہیں رہی اس شاہراہ پر آج کل۔۔ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close