راجہ بشارت ضلع کونسل راولپنڈی کے چیئرمین اور سابق صوبائی وزیر رہے ہیں جن کا تعلق جنجوعہ راجپوتوں سے ہے، جن کا خاندان نسل در نسل سے دھمیال راولپنڈی میں مقیم ہے۔
گذشتہ ہفتے ملاقات میں وہ مجھے دھمیال میں ایک دیوار نما پہاڑی پر لے گئے، جس کا کچھ ہی حصہ بچا ہے۔ راجہ بشارت کے بقول یہ دیوار دس کلومیٹر لمبی تھی لیکن پھر لوگوں نے اسے اکھاڑ اکھاڑ کر اس کے پتھر بیچ دیے۔
اس دیوار کی خاصیت یہ ہے کہ دور سے دیکھنے سے ایسے لگتا ہے جیسے کوئی لشکر آ رہا ہو۔ ہم اپنے اجداد سے سنتے آئے ہیں کہ ”یہاں ایک برات پتھر ہو گئی تھی اور یہ اسی کی باقیات ہیں۔“
راولپنڈی کے 1893 کے گزیٹیئر میں بھی ان چٹانوں کو حیرت انگیز کہا گیا ہے جو راولپنڈی چھاؤنی کے جنوب مغرب میں واقع ہیں۔
راجہ بشارت کی سنائی گئی کہانی سے ملتی جلتی ایک کہانی راجہ رسالو سے منسوب کی جاتی ہے، جو پہلی صدی عیسوی میں پوٹھوہار کا نہ صرف حکمران گزرا ہے بلکہ اس سے منسوب دیو مالائی کہانیاں پنجاب میں زبان زدِ عام ہیں۔
کہتے ہیں کہ اس کا پایۂ تخت کھیڑی مورت میں تھا جو دھمیال سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
کھیڑی مورت کا قصبہ اسلام آباد کے نئے ایئر پورٹ کے ساتھ اس کٹی ہوئی پہاڑی کے دامن میں واقع ہے، جس کے بیچ سے اسلام آباد لاہور موٹر وے گزر رہی ہے۔
کھیڑی مورت میں ایک بہت بڑا قدیم چشمہ بھی ہے، جس کے بارے میں لوک روایات ہیں کہ اسے راجہ رسالو کے حکم پر کسی دیو نے بنایا تھا۔ اس دور میں علاقے میں پانی کم یاب تھا۔
مقامی لوگ کہتے ہیں کہ یہ چشمہ دراصل کسی دریا سے نکلنے والی زیر زمین نہر ہے جو سارا سال چلتی رہتی ہے اور یہ اندر سے اتنی چوڑی اور اونچی ہے کہ بندہ آرام سے کھڑا ہو کر چل سکتا ہے۔
برسات کے موسم میں بعض اوقات درختوں کے موٹے موٹے تنے بھی بہہ کر باہر نکل آتے ہیں۔
راجہ رسالو سے منسوب لوک داستان میں بھی پتھر ہوتے ایک لشکر کا ذکر موجود ہے۔ داستان کچھ یوں ہے کہ کبھی یہاں سات دیو قیام بستے تھے جو روز سات انسانوں کا شکار کیا کرتے تھے۔
ایک دن راجہ رسالو یہاں سے گزرا تو اس نے دیکھا کہ ایک بوڑھی عورت ڈھولک بھی بجا رہی ہے اور ساتھ رو بھی رہی ہے۔
راجہ رسالو نے اس کی وجہ پوچھی تو بوڑھی عورت روتے ہوئے بتانے لگی کہ آج ہی اس کے بیٹے کی شادی ہے اور آج ہی دیو نے اسے اپنا شکار بنانا ہے۔
راجہ رسالو نے بتایا کہ وہ اپنے بیٹے کو کہیں دور بھیج دے۔
جس پر بڑھیا نے بتایا کہ مقامی راجہ کے کارندے اس کے لڑکے کو پکڑ کر لے گئے ہیں اور رات کو دیووں کو خوراک کے لیے پیش کر دیں گے، کیونکہ اگر راجہ خود لڑکے پیش نہ کرے تو دیو پورے علاقے کو تاراج کر کے رکھ دیں گے۔
یہ سن کر راجہ رسالو مقامی راجہ مانک رائے کے پاس گیا اور کہا کہ فلاں بڑھیا کے لڑکے کی جگہ اسے دیو کو پیش کر دیا جائے۔
راجہ مانک اس بات پر رضامند ہو گیا۔ رات کو جب دیو مقررہ جگہ انسانوں کا شکار کرنے آئے تو راجہ رسالو نے یکے بعد دیگرے سات دیو قتل کر دیے۔
دیو کی بہن کو جب اپنے بھائیوں کے قتل کا علم ہوا تو وہ راجہ رسالو کا مقابلہ کرنے اپنے لشکر کے ہمراہ آئی۔ راجہ رسالو نے جب ایک ہی وار سے اس کو قتل کر دیا تو اس کے ساتھ آنے والا لشکر بھی پتھر کا بن گیا۔
یہ مشہور لوک داستان ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی ماہر سنگ تراش نے اس داستان کی نسبت سے اس پہاڑی کو تراش دیا ہو۔ ریتلا پتھر ہونے کی وجہ سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے نقش و نگار مٹ گئے۔
پنجابی ادب اور تاریخ کے معروف لکھاری اقبال قیصر اپنی کتاب ’اجڑے دراں دے درشن، پاکستان وچلے جین مندراں دی تواریخی فکشن‘ میں لکھتے ہیں کہ ٹیکسلا سے 23 میل یعنی تقریباً 37 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک شہر ’اُچا نگر‘ موجود تھا جو اپنے وقتوں میں جین مت کا ایک مقدس شہر تھا۔
ٹیکسلا سے اگر آج یہ فاصلہ ماپا جائے تو یہ دھمیال راولپنڈی یا کھیڑی مورت بنتا ہے۔ بعض لوگ قیاس کر سکتے ہیں کہ یہ مانکیالہ ہو سکتا ہے جہاں بدھ مت کا ایک قدیم سٹوپا بھی ہے، مگر مانکیالہ اور ٹیکسلا کا فاصلہ 50 کلومیٹر سے زیادہ بنتا ہے۔
اقبال قیصر کے مطابق جین مت کے قدیم نسخوں میں لکھا ہوا ہے کہ ٹیکسلا پر کبھی جین مت کے پہلے بھگوان رشبھا کے بیٹے باہو بلی کی حکومت ہوا کرتی تھی۔
مہاویر، جن کا عہد گوتم بدھ کا ہے وہ جین مت کے 24ویں بھگوان ہیں۔ پہلے بھگوان سے 24یں بھگوان کے درمیان کی مدت لاکھوں سال بیان کی جاتی ہے۔
جین مت کے انہی قدیم نسخوں میں ایک شہر ’اُچا نگر‘ کا تذکرہ ملتا ہے۔ اُچا نگر یعنی ’شہر بلند‘ سے مراد ایسا شہر جو بلندی پر واقع ہو، یا پھر ایسا شہر جو شان و شوکت کی چوٹی پر ہو۔
البیرونی نے ایک ہزار سال پہلے لکھی گئی اپنی کتاب ’الہند‘ میں بھی اس شہر کا تذکرہ کیا ہے۔ پھر یہ شہر زمین پر ہی نہیں بلکہ تاریخ کے صفحات میں بھی گم ہو گیا۔ حتیٰ کہ آج کوئی نہیں جانتا کہ اُچا نگر نام کا کوئی شہر کبھی موجود بھی تھا۔
اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ ٹیکسلا کی تہذیب سے بھی بہت پرانا شہر ہے۔ اُچا نگر کی تصدیق کے لیے ہمیں جین مت کے سادھوؤں کے نسخوں پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے، جن کے مطابق پنجاب میں کبھی جین مت اکثریتی مذہب ہوا کرتا تھا اور اس کے کئی فرقے موجود تھے۔
ان میں سے دو سب سے اہم تھے، ایک پرشان وہک کول اور دوسرا اُچا نگر کول تھا۔ پہلا فرقہ پشاور میں تھا اور دوسرا اُچا نگر میں۔
پشاور آج بھی موجود ہے لیکن اُچا نگر کہاں گیا؟ جین مت کے 84 خانقاہی سلسلے ہیں جن میں گندھارا کا سلسلہ 14ویں صدی تک موجود رہا ہے جو اچاریہ سے منسوب ہے جسے اُچانگر کول بھی کہا جاتا ہے۔
مہاویر کے مرنے کے پانچ سو سال بعد لکھے گئے جین مت کے نسخے ’کالی بسترا‘ کے مطابق آریہ شانتی سارووک نے اُچا نگر کی تعمیر نو کی بنیاد تیسری بکرمی صدی میں رکھی، گویا یہ شہر کئی بار تباہ ہوا ور کئی بار آباد ہوا۔
اس دور میں اس علاقے پر ایک مشہور بادشاہ سانمپرب کی حکومت تھی جس نے جین مت کی تبلیغ کے لیے سادھوؤں کو دوسرے ممالک میں بھیجا۔
پنجابی کی ایک کتاب ’پتراں پنجاب وچ جین دھرما‘ میں ایک کتاب ’پالیتانہ‘ کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ کبھی ایک مشہور شہر اُچا نگر بھی ہوا کرتا تھا جہاں ایک خطرناک وبا پھیل کر ٹیکسلا تک پہنچ گئی، کیونکہ دونوں شہر قریب قریب ہی واقع تھے۔
جب یہ وبا ٹیکسلا پہنچی تو اچاریہ ماندیو سوری نے لگو شانتی سوترا نامی منتر پھونکا جسے سے یہ وبا دونوں شہروں میں ختم ہو گئی۔ اس کتاب میں اُچا نگر کا ذکر سکندر مقدونی کے حوالے سے بھی آیا ہے۔
جب سکندر ٹیکسلا آیا تو وہ اُچا نگر گیا جہاں اس کی ملاقات جین مت کے ایک عالم منی کلیان سے ہوئی۔ سکندر جین مت کی تعلیمات سے تنا متاثر ہوا کہ اس نے اس عالم کو اپنے ساتھ یونان لے جانے کا فیصلہ کیا۔
سکندر تو راستے میں مر گیا لیکن منی کلیان ایتھنز یونان پہنچ گیا۔ اسے یونان میں کالناسی پکارا جاتا ہے اور جس کی سمادھی ایتھنز میں بنائی گئی تھی۔
اُچا نگر کا تذکرہ مشہور چینی سیاح فاہین نے بھی کیا ہے اور اسے ٹیکسلا کے نزدیک ایک شہر بتایا ہے۔
ایک اور کتاب ’ویود تیرتھ کلپ گرنتھ ‘ جسے کلیان ساروگ چمتکاری اچاریہ سری جنپرب سوئی نے لکھا ہے، اس میں بھی اُچا نگر کو جین مت کا ایک اہم مذہبی مقام قرار دیا گیا ہے۔
اس میں لکھا گیا ہے کہ اچاریہ جین چندرا سوری 1223ق م میں یہاں آیا اور اس کے ہاتھ پر کئی لوگوں نے جین مت کو قبول کیا۔
1610 ق م میں سوری سندر جی مہاراج نے ایک کتاب ’شیراوت آردھانا‘ لکھی، وہ اُچا نگر کا ہی رہنے والا تھا۔ جین مت کے قدیم نسخوں میں جین مت کے کئی نامی گرامی پجاری ٹیکسلا اور اُچا نگر آئے۔
راجہ عارف منہاس ایک بزرگ گزرے ہیں جنہوں نے راولپنڈی کی تاریخی کھوج کرید سے متعلق بہت کام کیا.
وہ رشید نثار کی مرتب کردہ کتاب ’وادی پوٹھوہار‘ میں چھپنے والے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ جرمن محقق ڈاکٹر ڈی ٹیرہ نے دس سال تک یہاں دریافت ہونے والے پتھر کے اوزاروں، انسانوں اور جانوروں کی مختلف باقیات پر تحقیق کی۔
وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ بابل، نینوا، مصر اور سندھ کی تہذیب سے کہیں زیادہ پرانی وادی سواں کی تہذیب ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ راولپنڈی اور اس کے گرد ونواح کے علاقے قدیم دور میں انسانوں کے مسکن رہے ہیں۔
یہاں کئی آبادیاں ہوں گی جو وقت کے ساتھ مٹ گئیں جن کا ذکر تاریخ میں موجود نہیں ہے، مگر جس واحد آبادی کا ذکر موجود ہے وہ اُچا انگر ہے، جو اب کہیں مٹی کے نیچے دفن ہے اور اس کے اوپر جدید بستیاں بس چکی ہیں۔
راولپنڈی کے گزیٹیئر میں بھی ٹیکسلا کے ساتھ روات میں مانکیالہ سٹوپا کو ہی راولپنڈی کی قدیم تاریخ کے حوالے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
لیکن اگر اُچا نگر نامی کوئی شہر ٹیکسلا کی تہذیب سے پہلے یہاں موجود تھا تو پھر راولپنڈی کی تاریخ کا یہ قدیم ترین حوالہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
بشکریہ انڈیپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)