آئی ڈی اے: ’ڈجیٹل ڈبل شاہ‘ ایپ، جس کے ذریعے سینکڑوں پاکستانی اپنی ساری جمع پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھے

ویب ڈیسک

گذشتہ جمعے کی شام وسطی پنجاب کے چند شہروں سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد کی نظریں ایک واٹس ایپ گروپ پر ٹکی ہوئی تھیں، جہاں طویل وائس نوٹس کے ذریعے انہیں ’سب اچھا‘ کی رپورٹ دی جا رہی تھی

یہ گروپ ’آئی ڈی اے‘ نامی ایپ استعمال کرنے والے صارفین پر مبنی تھا اور یہ وائس نوٹس اس گروپ کو چلانے والے سینیئر مینیجرز کی جانب سے ’ایپ میں تکنیکی خرابی‘ کے سبب بھیجے جا رہے تھے

ان کی آوازوں میں اطمینان تھا اور وہ تفصیل سے صورتحال سمجھا رہے تھے۔ اس ایپ میں کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے والے صارفین کے پاس ان پر اعتبار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا

اس صورتحال کی مثال ڈوبتے ٹائٹینک پر وائلن بجانے والوں جیسی تھی، کیونکہ صارفین کے سرمائے کا ٹائیٹنک ڈوبنے والا تھا اور اگلے چند گھنٹوں میں آئی ڈے اے نامی ایپ پاکستانیوں کی کروڑوں کی جمع پونجی سمیٹ کر غائب ہونے والی تھی

مارچ کے مہینے کے اواخر تک سیالکوٹ میں ایک کمپنی میں کام کرنے والے چند نوجوان اس ایپ کو اپنے کریئرز میں ایک گیم چینجر کے طور پر دیکھ رہے تھے

ان میں سے ایک خاتون علیشبہ نے پاکستان کی بگڑتی معاشی صورتحال اور مہنگائی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ”اس وقت سب یہی چاہتے ہیں کہ جہاں سے اضافی آمدن آ رہی ہے، وہ کسی بھی طرح آ جائے کیونکہ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ پاکستان کے کس طرح کے حالات ہیں“

علیشبہ اس ایپ کے ذریعے تین مرتبہ رقم نکلوا بھی چکی تھیں، لیکن حالیہ دنوں میں ایپ میں ایک منافع بخش اسکیم لانچ ہونے پر انہوں نے سب کچھ داؤ پر لگا دیا اور اب ان کے مطابق ”جتنے لگائے تھے اس سے زیادہ نکل گئے۔“

علیشبہ کے اپنے لگ بھگ چھ لاکھ جبکہ ان کے پورے خاندان کے پندرہ لاکھ روپے آئی ڈے اے فراڈ نگل چکا ہے

خیال رہے کہ اب تک وسطی پنجاب کے جن شہروں میں ایپ کے متاثرین سامنے آئے ہیں ان میں فیصل آباد، جہلم، گجرات، سیالکوٹ، منڈی بہاؤالدین، گوجرانوالہ، نارووال، وزیر آباد، حافظ آباد اور شیخوپورہ کے اضلاع بھی شامل ہیں۔ ان شہروں کے سینکڑوں باسیوں کی صورتحال علیشبہ جیسی ہے

اب اس ایپ کے واٹس ایپ گروپ میں موجود اس کے سینیئرز مینجرز سے سب کے فون مسلسل بند آ رہے ہیں

ریجنل ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم رب نواز کے مطابق کچھ لوگوں نے ‘آئی ڈی اے’ ایپ کے خلاف فراڈ اور دھوکہ دہی کرنے کے الزامات پر مشتمل درخواستیں تو دائر کی ہیں۔ لیکن جب تک ضابطے کی کارروائی نہیں کی جاتی اس وقت تک انکوائری کا آغاز نہیں ہو سکتا

اس لیے اس فراڈ میں ایپ صارفین کو ہونے والے نقصان کا درست تخمینہ فی الحال نہیں لگایا جا سکتا تاہم متاثرین سے بات کرنے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ رقم کروڑوں روپے ہو سکتی ہے

آئی ڈی اے ایپ کے ذریعے لوگوں کو ’منافع‘ کیسے ملتا تھا؟

یہ تمام افراد گذشتہ کئی ماہ سے ایک ایسی موبائل ایپلیکیشن میں پیسے لگا رہے تھے، جسے کرپٹو کرنسی انٹیلیجنٹ ڈیٹا اینالٹکس کارپوریشن (آئی ڈی اے) کہا جاتا تھا

کرپٹوکرنسی اور ٹریڈنگ سے منسلک کئی ایپس اور ویب سائٹس ایسی ہیں، جن کا استعمال پاکستان میں ممنوع ہونے کے باوجود بھی کیا جا رہا لیکن اس ایپ میں ایسی کیا خاص بات تھی کہ اس نے سینکڑوں افراد کی دن دیہاڑے جیب کاٹ لی

اس ایپ کے پیچیدہ طریقہ کار کے بارے میں جان کر مصنف چارلس کیلب کاٹن کا یہ قول یاد آتا ہے کہ ”کچھ فراڈ اتنے بہترین انداز میں کیے جاتے ہیں کہ ان کی وجہ سے دھوکا نہ کھانا بھی حماقت ہوتی ہے“

علیشبہ کی طرح ان کے دفتر میں کام کرنے والے سمیر کو بھی اس ایپ کی جانب راغب کرنے والے ان کے کولیگ ہی تھے۔ خود سمیر کو بھی کل چھ لاکھ کا نقصان اٹھانا پڑا

اس ایپ کو ڈاؤنلوڈ کرنے کے لیے چند ماہ پہلے تک ایک لنک دیا جاتا تھا، جہاں سے اس کی اے پی کے کی فائل ڈاؤنلوڈ کی جاتی تھی، تاہم مارچ کے مہینے میں یہ ایپ گوگل پلے اسٹور پر بھی دستیاب تھی

ڈاونلوڈ کرنے کے بعد اس ایپ کا ایک پیچیدہ شناخت اور تصدیق کرنے کا عمل تھا، جس میں شناختی کارڈ کے فرنٹ اور بیک یہاں تک کہ ہاتھ میں شناختی کارڈ پکڑ کر تصویر بنوا کر بھجوانی ہوتی تھی

سمیر بتاتے ہیں ”کچھ منٹ کی ویریفیکیشن کے بعد آپ کا اکاؤنٹ بن جاتا تھا اور پھر آپ کو شروعات میں لیول وی ون دیا جاتا تھا“

یعنی یہ ایک گیم کی طرح تھا جس میں ہر گزرتے لیول کے ساتھ منافع کی شرح بڑھتی چلی جاتی تھی

سمیر اس کی تفصیل بتاتے ہوئے کہتے ہیں ”شروعات میں اگر آپ 130 ڈالر جمع کرواتے تھے تو ایپ کی طرف سے آپ کو 15 ڈالر کا انعام ملتا تھا۔ یہ رقم آپ بائنانس کے ذریعے آئی ڈے اے میں منتقل کرتے تھے“

بائنانس دراصل کرپٹو سمیت دیگر کرنسیوں کی ٹریڈنگ کی ایک ایپ ہے، جس کی دنیا بھر میں خاصی شہرت ہے

سمیر بتاتے ہیں ”اس کے بعد آپ کو روزانہ تیس کلک کرنے ہوتے تھے، ایک کلک کا مطلب 0.2 سے 0.3 ڈالر ہوتا تھا، یوں آپ کے ایک دن میں چار سے پانچ ڈالر بنتے تھے۔۔ ایک کلک کرنے کے بعد چار منٹ تک آپ کے ایسٹس زیرو ہو جاتے تھے، اس کی توجیہ یہ پیش کی جاتی تھی کہ یہ رقم دراصل آگے انویسٹ کی جاتی ہے، اس لیے جب یہ واپس آتی ہے تو اس پر لگنے والا منافع آپ کو ملتا ہے“

اس ایپ پر انویسٹمنٹ کے سات معیار مقرر کیے گئے۔ سب سے کم 121 ڈالر تھا یعنی اگر 121 ڈالر سے اپنا سرمایہ کاری اکاؤنٹ کھلوائیں تو چھ ڈالرز روزانہ مل سکتے ہیں ، یوں رقم صرف 20 روز میں ڈبل ہو جائے گی۔

سرمایہ کاری کی زیادہ سے زیادہ حد کوئی مقرر نہیں کی گئی تھی ، یعنی جتنی زیادہ سرمایہ کاری کریں گے اتنا ہی زیادہ منافع کمائیں گے۔ بیشتر لوگوں نے آغاز تو کم سرمایے سے کیا لیکن پھر زیادہ منافع آتا دیکھ کر سرمایہ کاری بڑھا دی اور اپنے اکاؤنٹس کو اپ گریڈ کرلیا۔

ایپ استعمال کرنے کا طریقہ بھی آسان رکھا گیا تھا۔ ایپ کو آن کر کے ایک دن میں ہر چار منٹ کے وقفے کے بعد ایک بار کلک کرنا ہوتا۔ دو گھنٹوں میں مجموعی طور پر 30 کلک کرنے ہوتے تھے۔ ہر کلک کے بعد ڈالرز اکاؤنٹ میں منتقل ہونے کا گرین سگنل ملتا تھا۔ چوں کہ ڈالرز ملنے کی شرح سرمایہ کاری کے تناسب سے ہوتی تھی اس لیے ممبران کی یہ خواہش ہوتی کہ وہ زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ ڈالرز ان کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوں

اس ایپ میں کچھ دلچسپ شرائط بھی تھیں، جن میں سے کچھ شرائط اس کی زبردست مارکیٹنگ کی وجہ بنیں

سمیر بتاتے ہیں ”وی ون لیول میں وہ آپ کو نوے دن دیتے تھے، ان نوے دنوں میں اگر آپ تین سو ڈالر سے زیادہ سرمایہ کاری نہیں کرتے اور اپنے ساتھ دو مزید افراد کو اس ایپ سے متعارف نہیں کرواتے تو آپ اگلے لیول تک نہیں جا سکتے تھے۔ ایسا کبھی کسی کے ساتھ ہوا نہیں تو اس لیے ہمیں معلوم نہیں کہ یہ سچ بھی تھا یا نہیں۔ خیر اگر آپ ایسا کرتے تو آپ کے منافع کی شرح بڑھ جاتی“

ایپ میں ممبران کی تعداد بڑھانے کے لیے جو اسکیم متعارف کروائی گئی اس کے مطابق ہر نئے ممبر کو تین سے پانچ نئے سرمایہ کار شامل کرنا ہوتے تھے جن کو اپنی انویسٹمنٹ کا منافع تو ملتا ہی تھا۔ لیکن اس نئے سرمایہ کار کے منافع سے ہٹ کر اس انویسٹر کو بھی اضافی حصہ ملتا تھا جس نے اسے ممبر بنایا ہو

ہر ممبر کی طرف سے مزید تین سے پانچ نئے ممبر بنانے کی اسکیم بظاہر کامیاب رہی اور روزانہ سینکڑوں نئے ممبرز بننے لگے۔ ایپ کے ممبران کی تعداد جتنی زیادہ بڑھتی گئی اتنا ہی زیادہ سرمایہ پاکستان سے باہر منتقل ہوتا گیا

ڈجیٹل ڈبل شاہ

اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا کسی فراڈ میں رقم گنوا دینا یقیناً حیران کن ہے، لیکن ایسا ظاہر ہے پہلی مرتبہ نہیں ہوا

گوجرانوالہ میں آج سے کئی برس قبل ’ڈبل شاہ‘ کا فراڈ مشہور ہوا تھا، جو لوگوں کے پیسے ڈبل کرنے کا وعدہ کرنے کے کچھ عرصے بعد ساری رقم لے اڑا تھا۔ پنجاب کے اکثر شہروں میں جائے نماز میں پیسے اور سونا رکھ کر ڈبل کرنے کا دعویٰ کرنے والے گروہ بھی خاصے مشہور رہے ہیں

حالیہ فراڈ کے متاثرہ افراد سے جب پوچھا گیا کہ کیا انہیں کبھی یہ شک بھی نہیں ہوا کہ یہ فراڈ ہو سکتا ہے، تو سمیر کا کہنا تھا کہ ابتدا میں تو بالکل بھی شک نہیں ہوا

سمیر اس کی توجیہہ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں ”شروع میں منافع کم تھا اور رقم نکل بھی رہی تھی اور ایک واٹس ایپ گروپ پر جاننے والے افراد کو رقم موصول بھی ہو رہی تھی تو شروع میں محسوس نہیں ہوا۔ جب انہوں نے اپریل کے آغاز میں ہی یہ آفر لانچ کی کہ آپ جتنی رقم جمع کروائیں اتنا ہی آپ کو کمپنی کی طرف سے انعام ملے گا، تو پھر جب ہم نے رقم لگائی اور نکلوانے کا وقت طویل ہونے لگا اور احساس ہوا کہ یہ تو ڈبل شاہ والی گیم ہے“

علیشبہ اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہتی ہیں ”سب نے ہمیں یہی کہا کہ ہم دو سال سے استعمال کر رہے ہیں، اس لیے اس میں کچھ برا نہیں آپ لوگ بھی استعمال کریں اور پھر ہم نے رقم نکلوائی بھی، ایسا نہیں کہ نہیں نکلوائی۔ تو انہوں نے ہمیں رقم دے کر شروع میں ہم سے ہمارا اعتماد خرید لیا“

علیشبہ اور سمیر سمیت لگ بھگ تمام متاثرہ افراد میں ایک قدر مشترک تھی، وہ یہ کہ یہ سب تعلیم یافتہ نوجوان ہیں تاہم ان سب میں ایک دلچسپ بات یہ بھی نظر آئی کہ ان سب کو اس ایپ میں رقم جمع کروانے کا طریقہ کار زبانی یاد تھا

یعنی اس ایپ میں جو نوے روز کے اندر مزید دو افراد کو اس ایپ پر لانے کی شرط تھی، وہ اس کی مارکیٹنگ اسٹریٹیجی بھی ثابت ہوئی

فراڈ کی مارکیٹنگ کے طریقے

سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے عمار جعفری نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عوام کو فراڈ کا نشانہ بنانے والے گروہوں کے بارے میں دلچسپ باتیں بتائیں

انہوں نے کہا ’عام طور پر اس قسم کے فراڈ کے لیے کسی پراکسی سرور پر یا بیرونِ ملک ایپ بنائی جاتی ہے اور اس کی مارکیٹنگ ایک پورا نیٹ ورک کرتا ہے۔

’لوگ ایک دوسرے کو بتاتے ہیں کہ ’میرے بھی پیسے دگنے ہو گئے، مجھے تو گھنٹے بعد ہی مل گئے۔‘ آپ یہ بھی نوٹ کریں کہ اس طرح کے فراڈ عام طور پر ایک خاص علاقے میں ہوتے ہیں۔ جیسے آج سے سال ڈیڑھ پہلے جو ایمازون فراڈ ہوا تھا جو جنوبی پنجاب کے علاقے میں بوا تھا۔‘

عمار جعفری اس طرح کی فراڈ اسکیموں کی مارکیٹنگ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’یہ لوگ اتنے شاطر ہوتے ہیں کہ اس کی ان ڈائریکٹ ماریکٹنگ کرتے ہیں، کسی کا انٹرویو چھاپ دیں گے کہ اس کو پیسے مل گئے، پھر ایک دوسرے کی تعریف کرتے ہیں منصوبہ بندی کے تحت۔‘

یہ مثال ہمیں آئی ڈے اے فراڈ میں بھی نظر آتی ہے۔ آئی ڈی اے یوٹیوب چینل اور سوشل میڈیا پر ایک ایسی ویڈیو موجود ہے جس میں پاکستانی نوجوان آئی ڈی اے ایپ کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ’اس نے ان کی زندگی کیسے بدلی۔‘

عمار جعفری کہتے ہیں کہ عام طور پر کچھ لوگوں کو پلانٹ بھی کیا جاتا ہے جو لوگوں کو اس فراڈ میں پھنسانے کی کوشش کرتے ہیں۔

سمیر اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’بالکل ایسا ہو سکتا ہے کیونکہ اس واٹس گروپ میں 900 لوگ تھے جن میں سے اکثر کو ہم نہیں جانتے تھے۔‘

فراڈ کی سب سے بڑی پہچان کیا ہے؟

عمار جعفری فراڈز سے بچنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’فراڈ کی سب سے بڑی پہچان یہی ہوتی ہے کہ اس کو عقل نہیں مانتی، ڈبل شاہ کی مثال لے لیں، دنیا کا کوئی ایسا کاروبار نہیں جو چیزوں کو دوگنا کر دے۔‘

وہ کہتے ہیں ’اسی طرح آج کل موبائل فونز پر فارورڈ میسجز کے اندر لنک ہوتے ہیں، وہ صرف آپ کی معلومات حاصل کرنے کے لیے ہوتے ہیں، انھیں بالکل فارورڈ یا ان پر کلک نہیں کرنا چاہیے۔‘

انھوں نے کہا کہ ایف آئی اے کو اس حوالے سے تحقیقات کرنی چاہیے کہ اس ایپ کی آئی پی ایڈرسنگ وغیرہ کیا تھی، اس کے بیک اینڈ پر کون تھا اور اس پر بین الاقوامی مدد بھی حاصل کرنی چاہیے اور ایسے افراد کو پکڑنا چاہیے

تاہم عمار جعفری کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایف آئی اے کے پاس تو جب شکایت جاتی ہے تو وہ کارروائی کرتا ہے، اس کے پاس اسی چیز کا اختیار ہے۔

یہی مطالبہ متاثرہ افراد کا بھی ہے، جن میں سے ایک عاطف اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں ’ان کے پاکستان میں موجود سہولت کاروں کو تو ضرور پکڑنا چاہیے۔‘

’ہمیں پتا تو چلے کہ ہمارے پیسے کون لے اڑا۔ اس مسئلے میں کوئی ایک مجرم نہیں بلکہ ہم سب ہی مجرم ہیں لیکن جنھیں غیر قانونی فائدہ ہوا ہے انھیں پکڑنا چاہیے۔‘

وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’اب لوگوں کو وڈی لک اور جاوا آئی نامی ایپس کی طرف راغب کیا جا رہا ہے۔‘

علیشبہ ایسی ایپس پر فوری طور پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتی ہیں کیونکہ ’ہمارے تو جتنے پیسے لگے وہ لگے لیکن کئی ایسے افراد بھی ہیں جنھوں نے ساری جمع پونجی اس میں لگا دی۔‘

سمیر کہتے ہیں کہ ’جیسے بندہ کسی کے مرنے کے بعد کہتا ہے کہ اونوں واپس لے آؤ یار، ویسے ہی ہم بھی یہی کہے رہے ہیں کہ کسی طرح ہمارے پیسے واپس لے آؤ۔‘

اس تحریر میں جن متاثرہ افراد سے بات کی گئی ہے، ان کے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔

’منافع آتا دیکھ کر کئی صارفین نے رقوم نہیں نکلوائیں‘

آئی ڈی اے کے متاثرین سے ملاقات کرکے ایک اہم بات یہ سامنے آئی کہ سرمایہ کاری کرنے والوں کو ایپ انتظامیہ کی طرف سے منافع بھی ان کے اکاؤنٹ میں باقاعدگی سے منتقل ہوتا رہا۔ ان کے پاس رقم حاصل کرنے کا اختیار بھی تھا لیکن بہت کم لوگوں نے اپنا منافع اکاؤنٹ سے نکلوایا۔

لوگوں کی بڑی تعداد منافع کو وہیں ایپ میں ری انویسٹ کردیتی تھی تاکہ ان کی رقم مسلسل بڑھتی رہے ، اگر کسی نے ایک ہزار ڈالر سے اپنا اکاؤنٹ شروع کیا تو چند ہی ماہ بعد اس کے اکاؤنٹ میں پانچ چھ ہزار ڈالر موجود تھے۔ لیکن ہر بار منافع کی وہیں سرمایہ کاری کردی جاتی تھی اور اکاؤنٹ میں رقم بڑھتی رہی۔

گوجرانوالہ کی وحدت کالونی کے رہائشی محمد کاشف کا کہنا ہے کہ وہ ابھی تک سمجھ نہیں پائے کہ ایپ انتظامیہ نے فراڈ کیوں کیا؟

ان کا کہنا ہے کہ جب لوگ سرمایہ کاری کررہے تھے تو ایپ انتظامیہ کو انڈے کھانے چاہیے تھے۔ انہوں نے راتوں رات مرغی ہی ذبح کر ڈالی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ موبائل فون سامنے رکھے ہوئے ہیں کہ جب بھی ایپ آن ہو اور کیش نکالنے کی آپشن کھلے تو وہ فوراً اپنا کیش نکلوا لیں۔

انہوں نے بتایا کہ” میں نے سرمایہ کاری 121 ڈالرز سے شروع کی تھی جس میں دو دفعہ اضافہ کیا گیا ، ان کی ذاتی رقم ڈھائی ہزار ڈالرز ہے جب کہ منافع چھ ہزار ڈالرز الگ سے ہے ، سب کچھ ایپ کے اکاؤنٹ میں تھا میں نے تو ایک ڈالرز بھی نہیں نکلوایا۔”

ایک اسٹور کے مالک قاضی طلال نے بتایا کہ انہوں نے پانچ ہزار ڈالرز کی سرمایہ کاری کی تھی اور ان کے اسٹور کا سارا عملہ ایپ ممبر تھا جوکہ ڈیوٹی سے فارغ ہوکر اکٹھے بیٹھ کر کلک کرتا۔

انہوں نے کہا کہ ایپ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو زیادہ منافع کا لالچ مار گیا، ممبرز رقم نکلوانے کے بجائے ری انویسٹ کرتے رہے تاکہ منافع کی شرح بڑھتی رہے اور وہ جلد سے جلد امیر ہو جائیں۔

قاضی طلال کہتے ہیں کہ "کچھ لوگوں نے اپنے پلاٹ ، کچھ نے دکانیں اور کچھ نے ماؤں، بہنوں یا بیویوں کے زیورات بیچ ڈالے کہ جب کچھ ماہ بعد بھاری منافع ہوگا تو زیور پھر سے بنوا لیں گے اور ساتھ میں سرمایہ کاری بھی چلتی رہے گی۔”

ان کا کہنا تھا کہ آئی ڈی اے ایپ نے لوگوں کو سہانا خواب دکھایا تھا جوکہ پورا نہ ہوسکا اور سہانا سپنا ٹوٹ گیا

تاثیر مغل وی لاگر ہیں جنہوں نے تین ماہ پہلے ڈیڑھ لاکھ روپے سے سرمایہ کاری کی تھی ، ان کا کہنا ہے کہ ایپ بند ہونے سے ایک روز قبل ہی یہ اپنی اصل رقم نکلوا چکے تھے تاہم منافع کی رقم جو کہ چار لاکھ روپے سے زیادہ تھی وہ ان کے اکاؤنٹ میں موجود تھی

متاثرہ افراد کا کہنا ہے کہ چھ اپریل کو ایپ نے اچانک ہی ڈبل اسکیم کا اعلان کردیا اور یہ کہا کہ سات اپریل سے 12 اپریل تک جتنے ڈالرز بھجواؤ گے وہ فوری ڈبل ہو جائیں گے۔

کیش ڈبل اسکیم شروع ہوتے ہی ہر شخص زیادہ سے زیادہ ڈالرز بھجوانے لگا ، کچھ لوگوں نے اپنی بیگمات کے زیورات فروخت کرکے رقم بھجوا دی کہ جب ڈالرز ڈبل ہو جائیں گے تو پھر سے زیورات خرید لیں گے۔

سات اپریل کی رات ایپ ایڈمن نے کیش ودڈرا کی آپشن بند کردی جب کہ نو اپریل کی صبح ایپ ہی بند کردی گئی ، تادم تحریر ایپ بند ہوئے تین روز ہوچکے ہیں اور ایپ دوبارہ آن نہیں ہوئی ہے۔

متاثرہ افراد کے وکلا سے رابطے

محمد ساجد بٹ ایڈووکیٹ سائبر کرائم قوانین کے ماہر ہیں جن کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ بیسیوں متاثرہ افراد نے رابطہ کیا ہے ۔ متاثرین میں خواتین بھی شامل ہیں جوکہ اپنا مدعا بیان کرتے ہوئے زارو قطار روتی ہیں

ساجد بٹ ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ چوں کہ مقامی سطح کا فراڈ نہیں بلکہ اس میں کسی دوسرے ملک کے لوگ ملوث ہوئے ہیں اس لیے حکومتی سطح پر اس بارے میں نوٹس لیا جانا اور کارروائی کرنے کا تحریری حکم جاری کرنا ضروری ہے۔

ماہر قانون شہروز شبیر چوہان ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ الیکٹرونک کرائم ایکٹ 2016 کے تحت ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ کارروائی کرنے کا مجاز فورم ہے اور اگر وہ کارروائی نہیں کرتا تو اس سلسلے میں متاثرہ افراد کو عدالت سے رجوع کرنا چاہیے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اگرچہ ایپ بیرون ملک سے کنٹرول ہو رہی تھی لیکن جرم پاکستان میں ہورہا تھا اور مدعی فریق بھی پاکستان میں موجود ہیں تو اس کی ایف آئی آر پاکستان میں ہونی چاہیے اور قانون کے مطابق اس میں کوئی رکاوٹ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ چوں کہ اطلاعات کے مطابق پورے ملک میں متاثرین موجود ہیں جن کے ساتھ الیکٹرونک جرم کیا گیا اور ہر جگہ الگ الگ ایف آئی آر درج نہیں ہوسکتی اس لیے بہتر ہے کہ اسلام آباد کے ایف آئی اے سائبر کرائم تھانے میں اس کی ایک ہی مشترکہ ایف آئی آر درج کی جائے اور تمام متاثرہ افراد کو اس میں بطور فریق شامل کیا جائے۔

تاج کمپنی اور ڈبل شاہ کے بعد تاریخ کا سب سے بڑا فراڈ ؟

پنجاب میں سرمایہ کاری کے نام پر لوگوں کے ساتھ فراڈ کے متعدد واقعات پیش آ چکے ہیں جن میں تاج قرآن کمپنی اور ڈبل شاہ کیس نمایاں ہیں۔

پنجاب میں تاج قرآن کمپنی اسکینڈل نے شہریوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا جب 23 ہزار سے زیادہ لوگوں سے سرمایہ کاری کے نام پر بھاری رقوم اکٹھی کی گئیں اور ان کے ساتھ فراڈ کیا گیا۔ بعد ازاں کئی برسوں بعد متاثرین کو ان کی اصل رقوم لوٹائی گئیں، کئی متاثرہ افراد رقم واپسی کی آس لیے اس دنیا سے ہی چلے گئے۔

وزیر آباد کے علاقے میں ایک سکول ٹیچر سید سبط الحسن المعروف ڈبل شاہ نے لوگوں کو رقم ڈبل کرنے کا لالچ دے کر لوٹا جسے اپریل 2007 میں نیب نے گرفتار کرلیا۔اس کے پلازوں ، پیٹرول پمپس، کمرشل پلاٹوں اور کوٹھیوں کو اپنے قبضے میں لے کر نیلام کیا اور ہزاروں متاثرین کو اربوں روپے واپس لوٹائے گئے۔

ایف آئی اے کے ایک آفیسر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایپ فراڈ کے جرم میں الیکٹرونک کرائم ایکٹ 2016 کی دفعات 13 اور 14 کے تحت مقدمہ درج کیا جاسکتا ہے جس کی سزا پانچ سال تک قید و جرمانہ ہوسکتی ہے ، اس کے علاوہ مقدمہ میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 420 ، 468 ، 471 اور 109 عائد کی جاسکتی ہیں جوکہ دھوکہ دہی و فراڈ سے متعلق ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ یہ بات مصدقہ ہے کہ اس ایپ کو بیرون ملک سے چلایا جارہا تھا اور پاکستان سے باہر بھی لوگوں نے اس ایپ میں سرمایہ کاری کررکھی تھی۔

اُن کے بقول متاثرہ افراد کا کہنا ہے کہ انہوں نے بیرون ممالک مقیم اپنے رشتہ داروں کو بھی اس ایپ کے بارے میں بتایا تھا جنہوں نے ڈالرز ڈبل کرنے کے چکر میں ایپ کا استعمال شروع کردیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ہماری اطلاعات کے مطابق اس نوعیت کی لگ بھگ تین چار مزید ایپ چلائی جارہی ہیں جوکہ لوگوں کو سرمایہ کاری کی طرف راغب کرتی ہیں ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close