آج برسوں بعد مجھے اپنی جو ابتدائی ترین یاد ہے، وہ ہے لگاتار منہ بسورے رکھنا یا بے وجہ ریں ریں کرتے رہنا۔ مجھے یاد پڑتا ھے، ماں اور ابا جتنے بھی اور جیسے بھی جتن کرتے میں جلدی بہلنے پر نہیں آیا کرتا تھا۔ میری کہانی ایسے ایک دن کی یاداشت پر شروع ہوتی ہے کہ جب ابا مجھے منانے کے اپنے تئیں سبھی جتن کر کے تھک ہار کر اپنی خواب گاہ میں چلے گئے، تب ماں نے مجھے باورچی خانے لے جا کر ناشتہ میز پر بٹھا دیا۔ وہ فریج کے اوپر سے کرسمس کے تحائف لپیٹنے والا ایک کاغذ اتار لائیں۔ ماں مسکراتے ہوے بولیں ”اکڑ دکڑ بھمبے بھو۔“ ماں نے کاغذ کی چھپی ہوئی سمت کو نیچے رخ پھیلاتے ہوے میز پر بچھایا، پھر اس کی تہہ لگانے لگ گئیں۔ وہ تہہ لگاتی گئیں اور ساتھ ساتھ ان تہوں کو بھی خاص طریقے پر موڑتی جاتیں۔ وہ کاغذ چھوٹے سے چھوٹا ہوتا چلا گیا۔۔۔ اتنا چھوٹا کہ وہ ان کی ہتھیلیوں میں غائب ہو گیا۔ پھر وہ بند ہتھیلیوں میں کاغذ کو اپنے منہ کے پاس لے گئیں اور اس میں آنکھیں بند کر کے سانس پھونکنے لگ گئیں۔۔۔ بلکل ویسے ہی جیسے ایک غبارے کو منہ لگا کر ہوا بھری جاتی ہے۔ پھر وہ بولیں ”لو میرے بچے! یہ ہے لاو ہو۔“
انہوں نے دونوں ہتھیلیوں کو کھول کر میز پر کچھ رکھ دیا۔ میں کیا دیکھتا ہوں کہ میری دو ہتھیلیوں کے برابر ایک شیر کھڑا تھا۔ اس شیر کا رنگ ایسے تھا جیسے سفید زمین پر چاکلیٹی کینڈی رنگ کی دھاریاں پینٹ کر دی گئی ہوں۔ میں نے پُرتجسس ہوتے ہوئے اپنی ماں کے بنائے گئے جانور کو چھوا۔ اس نے دم دائیں بائیں ہلائی۔۔۔ اور جب میں نے احتیاط سے اسے اٹھایا تو وہ میری سیدھے تنے ہوے ننھے منے ہاتھوں پر تھوڑا اچھلا۔ ”عرارا را را۔“ پتہ نہیں اس میں کہاں سے بلی اور کاغذ کی کھڑکھڑاہٹ سے ملی جلی آواز نکلی۔ ”عرارا رارا۔“
میں ہنس پڑا۔ میں حیران و ششدر تھا۔ میں اسے اپنی شہادت کی انگلی سے چھیڑتا تو وہ آواز نکالتا اور ہلتا بھی تھا۔ ماں بولی، ”زی جیاو زی زہی۔ اسے ’اوری گامی‘ کہتے ہیں۔“
مجھے اس وقت بلکل علم نہ تھا۔ ماں مجھ پر مہربان ہو گئی تھیں۔ وہ اپنی سانس اس میں پھونکتی تو وہ حرکت کرتا۔۔۔ اور یہ ہی ماں کا جادو تھا۔
اچھا میرے والد نے میری ماں کو شادی کے ایک اشتہار پر تصویر دیکھ کر بیاہ لیا تھا۔ میں جب ہائی اسکول میں طالب علم تھا، تب ماں سے شادی کا احوال پوچھا تھا۔۔۔ان دنوں میں ماں سے بات چیت بند کر چکا تھا اور ابا مجھے ان سے بات کرنے پر راضی کرتے رہتے تھے۔ حیی!!! ”تو یہ 1973 کے موسم بہار کے دن تھے۔“ ابا مجھے بتا رہے تھے۔۔۔ وہ شادی والے اشتہارات سے بھرے میگزین کی ورق گردانی کر رہے تھے۔ وہ ہر صفحے پر چند سیکنڈ نظر دوڑاتے اور اگلے ورق پر چلے جاتے۔ تب وہ اس صفحہ پر جا پہنچے جہاں میری ماں کی تصویر تھی۔ ”وہ سائڈ پوز میں کرسی پر بیٹھی کیمرہ کی طرف دیکھ رہی تھی۔ انہوں نے گہرے سبز رنگ کا لمبا روایتی چینی جبہ پہنا ہوا تھا۔۔۔ اور بہت ہی ماہرانہ انداز میں اپنے بال کندھوں کے اوپر سے گزار کر، سامنے چھاتیوں پر گرائے ہوئے تھے۔ وہ آنکھوں میں بلکل کسی بچے کا سا تاثر لئے مجھے دیکھ رہی تھی۔۔ اور اس کے بعد میں نے شادی اشتہارات میگزین کے اگلے صفحات دیکھنے کو زحمت قرار دیا۔۔ میگزین میں مہیا کی گئی معلومات کے مطابق وہ اٹھارہ سال کی تھی۔۔۔ ڈانسر تھی۔۔۔ فر فر انگریزی بولتی تھی، کیونکہ وہ ہانگ کانگ سے تھی۔ بعد ازاں ان میں سے ایک بات بھی درست ثابت نہ ہوئی۔“
ابا نے بات جاری رکھی، ”میں نے رشتہ کمپنی کی وساطت سے تمہاری ماں کو خط لکھے اور اس کے بھی جوابات آتے رہے۔ رشتہ کمپنی والے خط لکھنے میں اس کے مددگار رہے۔ آخر کار میں نے جہاز کا ٹکٹ کٹوایا اور ہانگ کانگ جا پہنچا۔ میں تھوڑا حیران ہوا کہ اسے ہیلو اور گڈ بائی کے علاوہ ہرگز انگریزی نہیں آتی تھی۔۔۔ خطوط کے جوابات تو کمپنی والے لکھتے رہے تھے۔“
قارئین! اب سوچیے! ہائی اسکول کا ایک طالب علم۔۔۔ جس کا تکبر تیز شراب جیسا ہو۔۔۔ وہ سوچ سکتا تھا۔۔۔ کس قسم کی عورتیں اپنے آپ کو رشتہ اشتہار کے میگزین میں پیش کرتی ہوں گی؟ جو چاہتی ہوں کہ انہیں خرید لیا جائے؟
اب سنئیے ہوا کیا۔ ابا نے رشتہ کمپنی سے اپنے پیسے واپس مانگنے کی بجائے ایک ہوٹل کی ویٹرس کو کچھ رقم دی کہ وہ ان دونوں کے درمیان مترجم کے فرائض سر انجام دے۔ ابا نے بتایا کہ میں جب بھی بات کرتا تو وہ امید، نا امیدی کے ملے جلے جذبات سے مغلوب مجھے دیکھتی رہتی۔۔۔ اور جب وہ لڑکی، جو میں نے بولا ہوتا، ترجمہ کر کے سنا دیتی، تو وہ سن کر ہلکا ہلکا تبسم ریز ہو جاتی۔
ابا واپس کنکٹی کٹ پہنچے اور اس کے امریکہ آنے کے کاغذات بنوانے میں مصروف ہو گئے۔ پھر ایک سال بعد میں پیدا ہو گیا۔۔۔اور چینی کلینڈر کے مطابق وہ شیر کا سال تھا۔
میرے اصرار پر ماں نے کاغذ سے ہی میرے لئے ایک بکری، ایک ہرن اور ایک دریائی بھینس بھی بنا دیا۔ وہ سب جانور میرے کمرے میں بھاگتے پھرتے اور ’لاو ہو‘ غراتا ہوا ان کے تعاقب میں رہتا۔ وہ جب ان میں سے کسی ایک کو دبوچ لیتا تو تب تک اسے دبائے رکھتا جب تک اس کی پوری ہوا نکل نہ جاتی۔۔۔ اور وہ صرف تہہ شدہ کاغذ ہی رہ جاتا۔ میں اس میں دوبارہ پھونکیں مارمار کر ہوا بھر دیتا تاکہ وہ جانور پھر سے بھاگ سکے۔
بسا اوقات وہ کاغذی جانور مصیبت میں گھر جاتے۔ مثلاً، ایک روز دریائی بھینس نے سویاساس کے پیالے میں چھلانگ دے ماری (وہ شاید حقیقی آبی بھینس کی مانند پانی میں ٹانگیں اوپر اٹھا کر دائیں بائیں لڑکھنا (پلسیٹے) مارنا چاہتی تھی۔ میں نے ترنت اسے پیالے سے باہر نکالا تاہم سویاساس اس کی خالی ٹانگوں میں اوپر تک چڑھ چکی تھی۔ ساس سے نرم پڑ چکا کاغذ اس کے جسم کو سہارا نہ دے سکا اور وہ میز پر ڈھے گئی۔ میں نے اسے سورج کی تپش میں خشک کیا لیکن اس کی ٹانگیں چر مرا گئیں اور چال میں لنگڑاہٹ در ائی۔ آخر کار ماں نے اسے باریک پلاسٹک سے مکمل ڈھانپ دیا تاکہ وہ آئندہ پانی میں ادھم مچانے کا شوق پورا کر لے۔
’لاو ہو‘ اور میں جب صحن میں کھیلتے تو وہ چھلانگیں مار مار کر چڑیوں کو پکڑنے کی کوشش کرتا۔۔۔ لیکن ایک روز ایک گھبرائے ہوئے پرندے نے، پکڑے جانے کے خوف میں ’لاو ہو‘ کو ٹکر مار کر اس کا کان کھدیڑ ڈالا۔ پھر جب میں اور ماں مل کر اس کے کان کو ٹیپ سے جوڑ رہے تھے، وہ باقاعدہ نخرے سے درد کا اظہار کرتا رہا اور بعد ازاں پرندوں سے بچنے لگ گیا۔
تب ایک روز میں نے شارک مچھلیوں پر ایک ڈاکومنٹری فلم دیکھ لی تو ماں سے ایک شارک مچھلی بنانے کی فرمائش کر دی۔۔۔ ماں نے ایک شارک میرے لئے بنا دی، لیکن وہ میز پر پڑی تڑپتی رہتی۔ میں نے سنک میں پانی بھر کر اسے اس میں چھوڑ دیا۔ وہ خوشی خوشی تیرتی رہی، پھر کچھ دیر بعد ہی بھیگ کر بھاری ہوئی، پھر زیر آب چلی گئی۔ میں نے اس کی مدد کی۔ وہ مر چکی تھی اور مچھلی کی جگہ گیلے کاغذی ملیدے کا پیڑہ رہ گیا تھا۔ ’لاو ہو‘ اپنے اگلے پنجوں پر منہ ٹکا کر سنک کے کنارے پر بیٹھ گیا۔ وہ ناراضی میں غرا رہا تھا۔۔۔تب مجھے کاغذی مچھلی کو پانی میں ڈال کر مار دینے کے جرم کا احساس ہوا۔ ماں دوبارہ سے میرے لئے ٹن کاغذ سے ایک شارک مچھلی بنا دی۔ بعد ازاں وہ شارک گولڈ فش ٹینک میں خوش و خرم رہتی رہی۔ ’لاو ہو‘ اور میں شیشے کے بنے اس ٹینک کے گرد آمنے سامنے بیٹھ جاتے اور شارک کو گولڈ فش کا تعاقب کرتے دیکھتے رہتے۔ اس دوران لاو ہو دوسری جانب اپنا چہرہ شیشے سے ٹکا دیتا اور اس کی آنکھیں محدبی اثر کے تحت بڑی بڑی ہو جاتیں اور سنجیدگی و متانت سے مجھے تکتی رہتیں۔۔۔ جیسے بلکل میری ماں مجھے دیکھا کرتی تھی۔
جب میں دس برس کا ہوا تو ہم قصبے کی دوسری جانب ایک اور گھر میں منتقل ہو گئے۔ ہمسایوں سے دو عورتیں ہمیں خیر سگالی کے تحت خوش آمدید کہنے آئیں۔ میرے والد صاحب نے انہیں مشروبات پیش کیے اور معذرت کرتے ہوئے قریبی یوٹیلیٹی اسٹور کی طرف بھاگے گئے، جہاں انہیں ہم سے پہلے مالک مکان کے واجبات کی ادائیگی بے باق کرنا تھی۔ ابا جاتے جاتے ان خواتین سے عرض کر گئے ”آرام سے تشریف رکھئے۔ اگر میری بیوی آپ سے بات نہ کرے تو اسے خود پسند نہ سمجھئے گا۔ اسے انگریزی زبان میں بات چیت کرنا نہیں آتا۔“
میں ڈرائنگ روم میں بیٹھا پڑھائی کر رہا تھا۔ ماں کچن میں مصروف ہو گئی اور وہ خواتین بلند آواز میں محو گفتگو رہیں۔
”آدمی تو ہمیں معقول لگتا ہے۔ یہ بھلا اس نے ایسا کیوں کیا؟ مخلوط جنس پیدا کرنا کوئی اچھا آئیڈیا نہیں۔ لڑکا تو نامکمل سا دکھتا ہے۔ باریک چندھی آنکھیں۔۔۔ سفید لٹھے جیسا دھلا چہرہ۔۔ ھممم!!! چھوٹی سی بلا نما کوئی مخلوق جیسا“
”تمہارا کیا خیال ہے یہ لڑکا انگریزی بول سکتا ہے؟“
عورتیں تھوڑی دیر خاموش رہیں پھر ڈرائنگ روم آ گئیں، ”ہیلو! کیا نام ہے تمہارا؟“
میں نے ترنت جواب دیا، ”جیک۔“
”یہ نام چینی تو نہیں لگتا!!!“
اسی اثنا میں ماں بھی ڈرائنگ روم میں آ گئی۔
تینوں عورتیں مل کر میرے گرد گھیرا ڈال کر مسکراتی رہیں اور سر ہلاتی رہیں۔ تب ہی ڈیڈ بھی واپس آ گئے۔
ہمسایوں سے ایک لڑکا مارک فلم ’اسٹار وارز‘ کے سارے کرداروں کے کھلونے اٹھائے۔۔۔ایک روز۔۔۔ میرے ہاں آ دھمکا۔ اس نے ’اوبی وان کروبی‘ کی تلوار روشن کی اور اسے لہراتے ہوے کمزور سی آواز میں بولا، ”طاقت استعمال کرو!“ مجھے نہیں لگ رہا تھا کہ وہ اصلی ’اوبی وان کروبی‘ جیسا تھا۔ میں نے اسے بار بار ایک ہی حرکت کرتے دیکھا۔ میں نے اس سے پوچھا، ”تم کچھ اور بھی کر سکتے ہو؟“ مارک میرے استفسار پر کچھ بھنا سا گیا اور بولا، ”غور سے ہر حرکت کا مشاہدہ کرو۔“ میں نے اس کھلونے کی تمام حرکات کا بغور مشاہدہ کیا لیکن مجھے اسے پسند کرنے کا کوئی جواز نہ ملا۔
مارک میرے روئیے سے مایوس ہو کر بولا، ”اوکے! مجھے اپنے کھلونے دکھاؤ۔“
میرے پاس تو کوئی کھلونے نہ تھے سوائے کاغذی چڑیا گھر کے۔۔ میں ’لاو ہو‘ کو نکال باہر لے آیا۔ پر! اب وہ پہلے جیسا لاو ہو نہ تھا۔ میرے اور ماں کے اس پر کی گئی مرمت کے سالہاسال پرانے نشانات نمایاں تھے۔ وہ پرانا ہو چکا تھا۔ میں نے اسے کافی کی میز پر رکھ دیا۔ مجھے ہال وے میں، اپنے پیچھے دیگر کاغذی جانوروں کے چلنے کی آوازیں سنائی دیں، جو میری خواب گاہ سے باہر ہمیں جھانک رہے تھے۔
”زیاو لاو ہو“ پھر میں فوراً انگریزی میں بولا، ”یہ شیر ہے“۔ بہت محتاط ہو کر، لاو ہو کھڑا ہو گیا اور مارک کے ہاتھوں کو سونگھنے لگ گیا۔
مارک نے پیکنگ پیپر سے بنے شیر کو بغور دیکھا، ”یہ ہرگز حقیقی شیر دکھائی نہیں پڑتا۔ کیا تمہاری ماں کوڑے دان سے کاغذ چن کر تمہیں کھلونے بنا کر دیتی ھے؟“
میں نے ’لاو ہو‘ کو کبھی بھی کوڑے کاغذ کا بنا شیر نہ سمجھا تھا۔ مارک نے ’اوبی وان کروبی‘ کے سر کو جھٹکا دیا اور وہ روشن تلوار لہراتا ہوا بولا، ”طاقت استعمال کرو!“
’لاو ہو‘ پلٹا، جھپٹا اور اس پلاسٹک کے کھلونے کو میز سے نیچے پٹخ دیا۔ ’اوبی وان کروبی‘ فرش سے جا ٹکرایا اور اس کا سر تن سے جدا ہو گیا۔ ”ہرا را را را۔“ لاو ہو ہنسا۔ میں بھی اس کی ہنسی میں شامل ہو گیا۔
مارک نے کس کے ایک مکا مجھے جڑ دیا۔ ”یہ بہت مہنگا تھا!!! اب تو یہ دکانوں پر ملتا بھی نہیں۔ یہ تو اس سے بھی زیادہ قیمتی تھا، جتنی تم نے اپنی امی کی قیمت دی ہوگی۔“
میں لڑکھڑایا اور فرش پر گر گیا۔ ’لاو ہو‘ اپنی پوری زندگی میں پہلی بار دھاڑا اور اس نے مارک پر چھلانگ لگا دی۔ مارک تکلیف میں نہیں بلکہ خوف اور حیرت میں چیخ اٹھا۔ ’لاو ہو‘ بہرحال تھا تو کاغذی شیر ہی ناں! مارک نے لاو ہو کو درمیان سے دو ٹکڑے کر کے، اپنی مٹھیوں میں خوب کچل مسل کے، دو گولیاں بنا کے میرے منہ پر دے مارا۔ ”یہ سنبھالو اپنا سستا چینی کوڑا۔“
مارک چلا گیا۔ میں کافی دیر تک ’لاو ہو‘ کو اس کی اصلی شکل میں لانے کی کوشش کرتا رہا۔ اسی اثنا میں دیگر جانور بھی وہاں آ گئے اور مجھے اس کٹے پھٹے شیر سے الجھتے دیکھتے رہے جو کبھی ’لاو ہو‘ ہوا کرتا تھا۔
میرا مارک سے جھگڑا وہیں اس روز ہی ختم نہ ہوا تھا۔ مارک اسکول کا مشہور لڑکا تھا۔ آج برسوں بعد، اس واقعہ کے بعد اسکول میں گزرے اگلے دو ہفتوں کا ذکر تو کیا سوچنا بھی نہیں چاہتا۔ خیر! جب میں دو ہفتوں بعد اسکول سے گھر آیا تو ماں نے فورا پوچھا ”کیا ہوا بیٹے؟“ میں نے کہا، ”کچھ نہیں“ اور باتھ روم میں گھس گیا۔ میں نے شیشے میں اپنا عکس دیکھا۔۔۔ میں ہرگز ماں جیسا نہ دکھتا تھا۔ ڈنر کی میز پر میں نے ابا سے پوچھا ”کیا میرا چہرہ chink ہے؟“ ابا نے چاپ اسٹکس نیچے رکھ دیں۔۔۔ آنکھیں بند کر لیں۔۔۔ میرے اسکول میں ہوے واقعے کو بنا مجھ سے جانے سب سمجھ چکے تھے۔۔۔ انہوں نے اپنی ناک کا بانسہ کھجایا اور بولے، ”نہیں! بلکل نہیں!“ ماں نے کچھ بھی نہ سمجھتے ہوے ابا کی طرف دیکھا پھر مجھ سے چینی زبان میں مخاطب ہوئیں، ”یہ chink کیا ہوتا ہے؟“ میں بولا، ”انگریزی۔۔۔ انگریزی میں بات کرو۔“ انہوں نے کوشش کی, ”کیا ہوا؟“ میں نے چاپ اسٹکس اور چینی خوراک کا پیالہ پرے سرکا کر دور کر دیا، سبز مرچوں میں بھنے ہوے گوشت کے ایک ٹکڑے کو مسلتے ہوے کہا، ”ہمیں امریکی غذا کھانی چاھئیے۔“ ابا نے جواز پیش کرنے کی کوشش کی۔ ”ان گنت خاندان چینی کھانے پکاتے ہیں۔“ میں نے کہا ”ھم وہ خاندان نہیں۔۔۔ اور ان خاندانوں کی مائیں بھی وہ نہیں جو یہاں سے تعلق نہیں رکھتیں۔“ ابا کچھ دیر ایک طرف منہ کئے کچھ سوچتے رہے پھر انھوں نے ماں کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئےکہا۔ ”میں تمھیں کھانوں کی ایک کتاب لا دوں گا۔“ ماں میری طرف مڑی اور بولی۔ ”باو ہو چی؟“ میں بولا۔ ”انگریزی ۔۔۔ انگریزی میں بات کرو!“ ماں نے آگے بڑھ کر میرے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر میری طبعیت جانچنے کی کوشش کی۔ ”فاشاو لا؟“ میں نے ان کا ہاتھ جھٹک کر چلاتے ہوے کہا۔ ”انگریزی میں بات کرو!“
ابا بولے، ”ایسا ایک دن ہونا تھا۔ اس سے انگریزی میں بات کرو۔ مجھے کچھ اور کی توقع نہ تھی۔“
ماں کے دونوں ہاتھ نیچے گر گئے۔ وہ کرسی پر بیٹھ گئیں۔ انھوں نے ابا کو دیکھا۔۔۔ پھر مجھے دیکھا۔ انھوں نے کچھ بولنا چاہا لیکن وہ کچھ بھی بول نہ سکیں۔
ابا بولے۔ ”تمھیں انگریزی بولنی ہوگی۔ میں تمام عمر تم سے نرم رہا۔ جیک کو یہاں کی معاشرت میں گھلنا ملنا ہے۔۔۔اس کی خاطر۔“ ماں نے اس کی طرف دیکھا اور بولی۔ ”جب مجھے ’آئی لو یو‘ کہا جائے تو میں ہونٹوں پر کچھ محسوس کرتی ہوں اور جب میں ’عئی ai‘ سنتی ہوں۔۔۔“ انھوں نے دل پر انگلی رکھی۔۔۔ ”مجھے یہاں کچھ محسوس ہوتا ہے۔“
ابا نے اثبات میں سر ہلایا۔”اب تم امریکہ میں رہتی ہو۔“
ماں کے کرسی پر بیٹھے بیٹھے کمر کچھ اس طرز پر جھک گئی جیسے آبی بھینس "لاو ہو” کے قبضے میں جھک جایا کرتی تھی۔۔۔ اور اس سے زندگی کی ساری ہوا نکل جایا کرتی تھی۔
”مجھے کچھ حقیقی کھلونے چاھئیں۔“
ابا نے اسٹار وارز کے کھلونوں کا ایک مکمل سیٹ لا کر دے دیا۔
اوبی وان کروبی میں نے مارک کو دے دیا۔ کاغذی چڑیا گھر کے تمام جانور میں نے جوتوں کے ایک ڈبے میں بند کر کے اپنے بیڈ کے نیچے رکھ دئیے۔ اگلی صبح میں نے دیکھا تمام جانور ڈبے سے نکل کر میرے بیڈ روم میں اپنی اپنی پسندیدہ جگہوں پر براجمان ہو چکے تھے۔ میں نے دوبارہ سے تمام جانور پکڑ کر جوتا ڈبے میں بند کرکے اسے ٹیپ سے سیل کر دیا۔ لیکن انھوں نے وہ ادھم مچایا کہ رہے نام خدا کا۔ سو! تنگ آ کر (جو کہ میں پہلے سے ہی تھا) انھیں اپنے کمرے سے دور ایک پڑچھتی پر پھینک دیا۔
اگر ماں مجھ سے انگریزی میں گفتگو کی کوشش کرتی تو میں خاموش رہتا۔ اس نے انگریزی میں بات چیت کے بہتیرے جتن کئے۔۔۔ میں ان کی مدد بھی کرتا۔۔۔ اس کی انگریزی کچھ بہتر بھی ہو گئی لیکن ٹوٹے پھوٹے جملے اور گھٹیا تلفظ مزید میرا دل متلا دیتا۔ پھر ایک وقت آیا میری موجودگی میں ماں نے کلیتاً چپ اختیار کر لی۔۔۔ یا یوں سمجھیےانھیں چپ لگ گئی۔
ایک روز ابا بولے۔ ”تمھیں اپنی ماں سے یہ رویہ نہیں اپنانا چاہیے۔“ وہ مجھ سے نظریں نہیں ملا رہے تھے۔ کہیں دور دل کی گہرائیوں میں؛ شاید کوئی پچھتاوا تھا کہ کیوں وہ چین کی ایک دہقانی لڑکی کو اٹھا کر اتنا دور دراز کنکٹی کٹ کے اس علاقہ میں لے آئے تھے۔
ماں نے امریکی طرز پر کھانا پکانا سیکھ لیا۔ میں ویڈیو گیمز کھیلتا اور فرنچ زبان سیکھتا۔ اکثر دیکھتا وہ کچن میں گفٹ پیکنگ پیپر کی صاف پشت کو دیکھتی رہتی۔۔۔ پھر اکثر راتوں میں ایک نیا کھلونا میرے قریب رکھ جاتی۔ اگلے دن، میں غصے میں اس کھلونے کو اتنی دیر دبا کر نچوڑتا جب تک اس میں سے ساری ہوا خارج نہ ہو جاتی۔۔۔ پھر میں اسے پڑچھتی پر ڈبے میں ڈال آتا۔
جب میں ہائی اسکول میں تھا تو ماں نے کاغذی جانور بنانے بھی بند کر دئیے۔ آخر کار ماں اچھی انگریزی بولنے کے قابل بھی ہو گئی۔ تب تک میں عمر کے حصے میں جا لگا تھا کہ جب ماں کی باتوں میں میرے لئے کوئی دلچسپی نہ رہی۔
اکثر جب میں گھر آتا تو میں اسے منحنی سے جسم کے ساتھ لگاتار کاموں میں مصروف دیکھتا۔ وہ اپنی خوش طبعی کے لئے چینی زبان میں گانے گاتی۔ میں حیران ہوتا، میں اسی عورت کے بطن سے پیدا ہوا تھا۔ ہمارے درمیان باہمی دلچسپی کے لئے کچھ بھی مشترک نہ تھا لہذا گھر آتے ہی میں اپنے بیڈ روم میں گھس جاتا اور امریکی طرز پر اپنی خوشیوں میں غرق ہو جاتا۔
اسپتال میں ماں کے بستر کے ایک طرف ابا کھڑے تھے اور دوسری طرف میں کھڑا تھا۔ وہ ابھی چالیس سال کی بھی نہ ہوئی تھی لیکن بہت بوڑھی نظر آتی تھی۔ برسوں وہ ڈاکٹر کے پاس جانے سے انکار کرتی رہی۔ وہ اپنے اندر اٹھتے درد کو کوئی بڑا مسٔلہ نہ سمجھتی تھی۔ پھر ایک روز جب ایمبولینس انھیں لینے آئی تو کینسر ان کے جسم میں اس طرح پھیل چکا تھا کہ اب سرجری بھی نہ ہو سکتی تھی۔
میرا دماغ اسپتال میں تو تھا نہیں۔ میرے کیمپس میں کمپنیوں کی طرف سے بھرتی کا سیزن جاری تھا۔ میں لگاتار اپنی درخواستوں اور ممکنہ انٹرویوز کے متعلق سوچ رہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ انٹرویو کرنے والے سے کیسے۔۔۔ کس انداز میں جھوٹ بولنا ہے کہ وہ مجھے ملازمت دے دیں۔ یہ مناسب وقت نہیں تھا کہ میں ماں کی بیماری یا موت کے بارے سوچتا۔۔ اور ویسے بھی ایسا سوچ کر میں نے کون سا بدل جانا تھا۔ وہ ہوش میں تھی۔ ابا نے جھک کر ان کا بایاں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں داب لیا۔ اب کتنا بوڑھا لگ رہا تھا۔۔۔ میں نے کبھی توجہ ہی نہ کی تھی۔۔۔اور ویسے بھی جتنا میں ماں کو جانتا تھا اتنا ہی ابا کو۔ میں حیران ہوا کہ مجھے ان کے متعلق کچھ بھی علم نہ تھا۔
وہ مسکراتے ہوئے میری طرف مڑیں۔ ”میں جانتی ہوں تمھیں واپس اسکول پہنچنا ہے۔“ ان کی آواز بہت کمزور تھی۔۔۔ اور ان کی آواز کو ان کے بدن سے منسلک مشینوں کے بھنبھناہٹ میں سننا اور بھی مشکل تھا۔ ”جاؤ اسکول پہنچو۔ میرے لئے تو بلکل بھی پریشان نہ ہونا۔ میرا مسٔلہ کوئی بڑا مسٔلہ نہیں ہے۔ ہاں! اسکول میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرنا۔“ میں جھک کر ان کے ہاتھ کی طرف گیا۔۔۔ اور اسی کارن میں وہاں موجود تھا۔ میری ذمہ داری ختم۔ میں تو پہلے ہی اپنی واپسی کی فلائٹ اور کیلیفورنیا کی روشن فضا کے متعلق سوچ رہا تھا۔
اس نے سرگوشی میں والد صاحب سے کوئی بات کی۔ انھوں نے سر ہلایا اور باہر چل پڑے۔ ”جیک! اگر انھیں کھانسی کا دورہ پڑے اور یہ کوئی بات نہ کر سکیں تو پریشان نہ ہونا۔“
”دیکھو اگر میں زندہ نہ رہی تو میری خاطر اپنی صحت خراب نہ کر لینا۔ اپنی زندگی پر توجہ لگانا۔ پڑچھتی پر پڑے ڈبے کو ہمیشہ اپنے پاس رکھنا اور ’چنگ منگ‘ کے روز اسے نکالا کرنا اور مجھے سوچنا۔ میں ہمیشہ تمھارے ساتھ ہوں گی۔“
‘چنگ منگ‘ چینیوں کا سالانہ تہوار جس روز وہ اپنے مُردوں کو یاد کرتے ہیں۔ بچپن میں۔۔۔میں دیکھا کرتا تھا ماں دور چین میں مر چکے اپنے والدین کو خط لکھ کر اپنے امریکہ میں گزر چکے پچھلے سال کے سارے احوال لکھ کر بھیجا کرتی تھی۔ روانہ کرنے سے پہلے وہ خط مجھے با آواز بلند پڑہ کر سناتی۔۔۔ اگر میں کچھ بولتا تو وہ بھی ساتھ شامل کر دیتی۔ پھر وہ خط کو کاغذی بگلے کے روپ میں تہہ کر کے مغرب کے رخ سپرد ہوا کر دیتی۔ پھر ہم دیکھا کرتے تھے کہ بگلہ اپنے نازک سے پروں کے سہارے جانب مغرب بحیرہ الکاہل، چین پھر اس میں ماں کے والدین کی قبروں تک پہنچنے کے لئے پرواز کر جاتا۔ ماں کے ساتھ مل کر آخری خط میں نے بہت برس قبل لکھ کر روانہ کیا تھا۔ میں بولا۔ ”ماں، مجھے چینی کیلنڈر کا کچھ علم نہیں۔ آپ بس آرام کریں۔“
”ڈبہ پاس رکھنا۔ بس سال میں ایک بار کھولنا۔۔“ وہ پھر کھانسنے لگ گئی۔
”اوکے ماں! اوکے۔“ میں نے بھدے پن اور بے دلی سے ماں کا بازو تھپتھپایا۔
”ہائی زئی، ماما عئی نی۔“ دوبارہ کھانسی۔۔۔
میری نگاہوں کے سامنے ایک منظر چمک کر گزر گیا۔۔۔ جب ماں مجھے اپنے دل پر انگلی رکھ کر عئی ai کہا کرتی تھی۔ ”ماں سب ٹھیک ہے، بس بولنا بند۔“
ابا واپس آ گئے۔ میں نے انھیں بتایا، ”میں کسی صورت اپنی فلایٹ مس نہیں کرنا چاہتا۔ مجھے جلدی ائیر پورٹ پہنچنا ہے۔“
میرا جہاز کہیں صحرائے نواڈا کے اوپر ہوگا، جب ماں مر گئی۔۔
ماں کی موت کے بعد ابا تیزی سے بوڑھے ہوتے چلے گئے۔ گھر بہت بڑا تھا، اس لئے بیچنا ضروری ہو گیا۔ میں اور میری دوست سوسن ابا کا سامان پیک کرنے اور صفائی کے لئے ان کے پاس پہنچ گئے۔ سوسن کو پڑچھتی پر پڑا جوتوں کا ڈبہ مل گیا۔ کاغذی چڑیا گھر برسہا برس سے پڑچھتی کی سیلن زدہ فضا میں رہنے کے سبب خستہ ہو چکا تھا اور سب جانوروں کے رنگ بھی گھس پٹ چکے تھے۔ سوسن بولی۔ ”میں نے ایسے اوری گامی origami بنے آج تک نہیں دیکھے۔ تمھاری ماں کوئی بہت بڑی فنکارہ تھیں۔“
وہ کاغذی جانور اب حرکت نہ کر رہے تھے۔۔۔ شاید ان میں زندگی بھر دینے والا جادو بھی ماں کے ساتھ ہی مر گیا تھا۔۔۔ یا محض میری خام خیالی تھی کہ وہ جانور حرکت کیا کرتے تھے۔ ویسے بھی بچوں کی یاداشت پر اعتبار تو بھی نہیں کیا جا سکتا ناں!!!
ماں کے انتقال کے دو سال بعد ماہِ اپریل کا پہلا ہفتہ تھا۔ سوسن اپنے نہ ختم ہونے والے دوروں میں سے ایک دورے پر تھی اور میں گھر میں تنہا، ٹی وی کے اسٹیشن بدل بدل کر وقت گزاری کے عذاب سے گزر رہا تھا۔ میں شارک مچھلیوں پر ایک ڈاکومنٹری فلم پر رک گیا۔ میری نگاہوں کے سامنے ماں کے ہاتھ یاد آ گئے کہ کس مشاقی سے وہ ٹن کے کاغذ کو تہہ در تہہ موڑتی جاتی تھی اور میں اور ’لاو ہو‘ توجہ سے دیکھ رہے تھے۔ تب ہی ایک سر سراہٹ سی!!! میں نے اٹھ کر دیکھا بک شیلف کے پاس فرش پر پیکنگ پیپر کا تڑا مڑا گولا سا اور پرانی ٹیپ کا ٹکڑا پڑا تھا۔ میں اٹھا اور اسے کوڑا سمجھ کر اچک لیا۔ کاغذ کے گولے نے پھول کر اپنے آپ کو کھول لیا۔ یہ تو ’لاو ہو‘ تھا!!! شاید ماں نے ایک نیا بنا دیا ہوگا۔ ’لاو ہو‘ جس کو میں مدت سے بھول چکا تھا۔ ’عرارا رارا۔۔‘
میری یاداشت کے مطابق یہ تو چھوٹا سا تھا یا پھر اب میرے ہاتھ بڑے ہو چکے تھے۔ سوسن نے سبھی کاغذی جانوروں کو براے آرائش یہاں وہاں سجا دیا ہوا تھا۔ ’لاو ہو‘ کو اس نے بلکل بیکار سمجھتے ہوے کسی تاریک کونے میں رکھ دیا ہوگا۔ میں فرش پر بیٹھ گیا۔ اپنی انگلی سے اسے چھوا۔ ”میرے یار اتنے برس بیت گئے؟ تو کیسا ہے؟“ لاو ہو نے آواز نکالی۔ اچھلا اور میری گود میں اپنے آپ کو پُھلانے لگ گیا۔ میری گود میں پھول کر چار گوشہ ڈبہ بنا پھر بلکل ایک صفحے کی شکل اختیار کر گیا۔ اس کی سفید سمت میری ماں کی بھدی لکھائی سے اٹی پڑی تھی۔ بھلے میں نے چینی زبان نہ سیکھی تھی پھر بھی کاغذ کے بلکل آغاز میں لفظ ’بیٹا‘ پڑھ لیا۔ اس کا مطلب تھا وہ میرے نام ایک خط تھا۔ میں جلدی سے اٹھا۔ انٹرنیٹ پر تصدیق کی آج واقعی ’چنگ منگ‘ (چینیوں کا تہوار) تھا۔
میں تھامے قصبے کے مضافات میں چلا گیا جہاں سیاحوں کی بسیں آ کر خالی ہوتی تھیں۔ میں ہر چینی کے پاس جاتا اور پوچھتا، ”کیا آپ چینی زبان پڑھ سکتے ہیں؟“ مجھے بے یقینی تھی کہ وہ میرے سوال کو سمجھ سکتے تھے۔ ایک جوان خاتون نے میری مدد کرنے کی ہامی بھر لی۔ ہم دونوں ایک بنچ پر بیٹھ گئے۔ اس نے با آواز بلند خط پڑھنا شروع کر دیا۔ وہ زبان جو میں برسوں قبل ہی بھول چکا تھا۔۔۔ میرے اردگرد چھانے لگ گئی۔ میرے کانوں کے رستے، میری جلد کے رستے، میرے اندر ہر عضو میں سے ہوتی ہوئی میری ہڈیوں تک اتر رہی تھی۔ حتیٰ کہ اس نے میرے دل کو مضبوطی سے جکڑ لیا۔
‘بیٹے!!!
مدت بیت گئی ہم نے آپس میں بات نہیں کی۔ میں جب بھی تمھیں چھونے کی کوشش کرتی ہوں تم بہت غصے میں آ جاتے ہو۔۔۔ میں ڈر جاتی ہوں۔۔۔ اور یہ جو میرے جسم میں درد ہے، شاید کوئی خطرناک بیماری ہے۔ اس لئے میں نے خط لکھ کر تم سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ تمھیں جو جانور پسند ہے، اسی پر خط لکھنے کا سوچا۔ جس روز میں نے سانس لینا بند کر دیا تو یہ جانور بھی اپنی حرکت سے عاری ہو جائیں گے۔ لیکن۔۔۔ اگر میں تمھیں اپنے دل سے لکھوں گی تو میری ذات کو بہت تھوڑا سا حصہ اس جانور میں زندہ رہ جائے گا۔ اور پھر جب ’چنگ منگ‘ والے دن تم مجھے یاد کرو گے تو۔۔۔ جب گزر چکے لوگوں کی روحوں کو اپنے خاندانوں کے زندہ لوگوں سے ملنے کی اجازت ہوتی ہے، تو جو میں تھوڑا سا اپنا آپ پیچھے چھوڑ جاؤں گی، وہ زندہ ہو جائے گا۔ تمام کاغذی جانور جو میں نے بنائے، وہ زندہ ہو جائیں گے۔۔۔ تب شاید تمھیں یہ خط مل جائے۔ چونکہ مجھے ہر بات دل سے لکھنی ہے تو میں چینی زبان میں ہی لکھوں گی۔ میں نے تمھیں کبھی اپنی داستانِ زیست نہیں سنائی کیوں کہ تم ابھی بہت چھوٹے ہو۔ تم میری کہانی کو سمجھ ہی تب سکو گے، جب تم بڑے ہو چکے ہوگے۔ مگر افسوس یہ موقع آ ہی نہیں سکا۔۔۔
میں صوبہ ’ھی بی‘ کے گاوں ’سی گولو‘ میں 1957 میں پیدا ہوئی تھی۔ تمھارے نانا نانی بے حد غریب دہقانی پس منظر سے تھے اور ان کے کوئی زیادہ رشتہ دار بھی نہ تھے۔ میری پیدائش سے چند سال بعد ہی قحطِ عظیم نے چین کو آ گھیرا۔۔۔ جس میں تیس لاکھ سے زائد لوگ لقمہِ اجل بن گئے۔ میری پہلی یاداشت یہی ہے کہ میں نے ماں کو مٹی سے پیٹ بھرتے دیکھا تاکہ آٹے کی آخری مٹھی بھی میرے لئے بچ جائے۔ اس کے بعد حالات بہتر ہو گئے۔ ’سی گولو‘ گاؤں اپنے کاغذی فن۔۔۔ جسے ’زہی زائی‘ کہتے تھے۔۔۔اس دنیا میں اپنا ثانی نہ رکھتا تھا۔ میری ماں نے مجھے سکھایا کہ کس طرح کاغذی جانور بناتے اور انھیں زندگی عطا کرتے ہیں۔ یہ ہمارے گاؤں کی زندگی میں ایک عملی جادو تھا۔ ہم کاغذی پرندے ٹڈیوں کو بھگانے کے لئے اور کاغذی شیر چوہوں کو بھگانے کے لئے بنایا کرتے تھے۔ میں اور میری سہیلیاں مل کر نئے سال کے جشن پر سرخ ڈریگن بنا کر اڑایا کرتی تھیں اور ہماری خوشی کا ٹھکانہ نہ ہوتا جب ان کے پروں کے ساتھ بندھے پٹاخے پھوٹتے، جن کا مطلب ہوتا تھا بیٹے سال کی تمام بری یادوں کو بھگا دینا۔۔ اگر تم اس وقت وہاں ہوتے تو بہت محظوظ ہوتے۔ پھر 1966 میں کلچرل انقلاب برپا ہو گیا۔ ہمسایہ ہمسائے کا شاکی ہو گیا۔ بھائی بھائی کے خلاف مخبر بن گیا۔ کسی کو یاد آ گیا میرا ماموں 1946 میں ہانگ کانگ جا بسا تھا اور وہاں وہ بڑا تاجر بن گیا تھا۔ رشتہ دار کا ہانگ کانگ میں ہونے کا مطلب تھا آپ ریاست کے دشمن ہیں۔ تمھاری نانی یہ گالی برداشت نہ کر سکی اور کنوئیں میں کود کر مر گئی۔ تمھارے نانا کو چند بندوق بردار نوجوان گھسیٹتے ہوئے جنگل میں لے گئے اور وہ پھر کبھی لوٹ کر نہ آیا۔ میں اب دس سال کی یتیم بچی تھی۔ اب میرا ہانگ کانگ میں ماموں کے سوا دنیا میں کوئی رشتہ دار نہ تھا۔ ایک رات میں خاموشی سے کھسک کر جانب جنوب جانے والی مال گاڑی میں سوار ہو گئی۔ چند روز بعد صوبہ گانگ ذو میں کچھ مردوں نے مجھے ایک کھیت سے خوراک چوری کرتے پکڑ لیا۔ جب انھیں آگاہی ھوئی کہ میں ہانگ کانگ جانا چاھتی تھی تو خوب ہنسے۔ ’تمھاری قسمت اچھی ہے جو تم ہمیں مل گئی ہو۔ ہم ہانگ کانگ میں لڑکیاں اسمگل کرتے ہیں۔‘ انھوں نے چند اور لڑکیوں سمیت ایک ٹرک میں چھپایا اور ہمیں ہانگ کانگ اسمگل کر دیا۔ ہمیں ایک تہہ خانہ لے جایا گیا اور حکم دیا گیا کہ سیدھی کھڑی رہنا اور صحت مند دکھائی دینا تاکہ تم گاہکوں کو پسند آ سکو۔
امیر خاندان وہاں آتے اور متبنی بنانے کے جھانسے میں لڑکیاں خرید کر لے جاتے۔ مجھے بھی ’چن‘ خاندان نے اپنے دو چھوٹے لڑکوں کی دیکھ ریکھ کے لئے خرید لیا۔ مجھے صبح اٹھ کر ناشتہ بنانا پڑتا۔ دونوں بچوں کو کھلانا بھی میرے ذمے تھا۔ گھر کی ترکاری، پھل، گوشت اور مچھلی وغیرہ روزانہ کی بنیاد پر خرید کرنا بھی میرے ذمے تھا۔ پھر مجھے گھر بھر کے تمام کپڑے دھونے ہوتے تھے اور فرش صفائی بھی۔۔ بچوں کی دیکھ بھال تو بڑا عذاب تھا۔ رات گئے کچن کی ایک الماری میں مجھے سونے کے لئے بند کر دیا جاتا تھا۔ اگر مجھ سے کوئی کوتاہی یا دیکھ ریکھ میں کمی رہ جاتی یا کبھی کوئی غلطی سرزد ہو جاتی تو مار پڑتی تھی۔ اگر انگریزی بولنے کی کوشش میں پکڑی جاتی تو بھی مار پڑتی تھی۔ مسٹر چن پوچھا کرتے تھے۔ ’تم انگریزی کیوں سیکھنا چاھتی ھو؟ کیا تم پولیس کے پاس جانا چاہتی ہو؟ ہم پولیس کو بتا دیں گے تم چین سے بھاگ کر آئی ہوئی ہو۔ پھر وہ شوق سے تاعمر جیل میں رکھنا پسند کریں گے۔‘
چھ سال اسے طرح گزر گئے۔ ایک روز وہ بوڑھی عورت جس سے میں صبح سویرے مچھلی خریدنے جایا کرتی تھی ۔۔۔ مجھے ایک طرف لے گئی۔ ’میں تم جیسی لڑکیوں کو جانتی ہوں۔ تم سولہ برس کی ہو گئی ہو۔ اب کسی روز تمھارا مالک نشے میں ہوگا۔ تمھیں دیکھے گا۔ کھینچ کر لے جاے گا اور وہ سب کرے گا جو اسے پسند ہوگا۔۔۔ت مھیں ناپسند ھوگا لیکن تم کر کچھ نہیں سکو گی۔ پھر مالک کی بیوی کو پتہ چلے گا۔ بس تو تب تم پر اس جہنم کے دروازے کھل جائیں گے جن کا ابھی تم تصور بھی نہیں کر سکتی ہو۔ تم اس سب سے نکلو۔ میں کسی ایسے کو جانتی ہوں جو تمھاری مدد کرے گا۔‘ اس نے مجھے امریکی خاوندوں کے متعلق بتایا۔ اگر اچھا کھانا پکانا، گھر صاف رکھنا اور ان کی خدمت کرنا آتا ہو تو وہ ایشیائی عورتوں کو عزت کی زندگی دیتے ہیں۔ یہ وجہ تھی کہ میں شادی کے اشتہارات والے میگزین میں کیوں آئی اور تمام جھوٹوں کے ساتھ تمھارے والد سے ملی۔ یہ کوئی رومانوی داستان نہیں بلکہ میری داستانِ زیست ہے۔ کنکٹی کٹ کے مضافات میں میں بہت تنہا رہتی تھی۔ تمھارے والد میرے لئے انتہائی مہربان اور شریف انسان ثابت ہوئے۔۔۔ اور میں ان کی بے حد شکر گزار اور احسان مند بھی ہوں۔۔۔ لیکن مجھے کسی نے نہ سمجھا اور میں کچھ بھی نہ سمجھ سکی۔۔
پھر تمھاری پیدائش ہو گئی۔ میری مسرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے تمھارے چہرے میں تمھارے نانا، نانی اور اپنے نقوش کی جھلک دیکھی۔ میں تو اپنا سارا خاندان، ’سی گولو‘ اور ہر وہ چیز کھو چکی تھی، جس سے مجھے محبت تھی۔ پھر تمھارا چہرہ!!! بھئی ہر رشتہ اور میری یاد حقیقت کا روپ اختیار کر گئی۔ اب مجھ سے بات کرنے کے لئے کوئی تھا۔ میں تمھیں اپنی زبان سکھانا چاہتی تھی اور میں نے سوچا ہم دونوں مل کر میری ہر گمشدہ چیز کی تھوڑی تھوڑی تکمیل کرتے چلے جائیں گے۔۔
جب تم نے پہلی بار مجھ سے چینی زبان میں بات کی تو اس میں میری ماں اور باپ والا تلفظ تھا۔۔۔ میں گھنٹوں خوشی کے مارے چلاتی رہی۔ میں نے جب پہلی بار تمھارے لئے ’زہی زائی‘ بنایا تھا تو تم ہنسے تھے۔ مجھے لگا میرے لئے دنیا کی تکمیل ہو گئی ہے۔ تم چھوٹے سے بڑے ہو گئے۔ تم اپنے ابا کا ہاتھ بٹا سکتے تھے اور میں تم دونوں سے بات کر سکتی تھی۔ اب میں واقعی پر سکون تھی۔ آخر کار مجھے اچھی زندگی میسر آ گئی تھی۔ میری خواہش ہوتی تھی کہ کاش میرے والدین اب میرے ساتھ ہوتے۔ میں ان کے لئے کھانے پکاتی۔ انھیں اچھی زندگی دیتی۔ لیکن اب یہ ممکن ہی نہ تھا۔ تمھیں علم ہے کہ چینی سوچ دنیا کی اداس ترین سوچ ہے؟ بچے کو بڑے ہو کر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔۔۔ والدین کی خدمت کرنا کتنی ضروری بات ہے لیکن تب تک وہ جا چکے ہوتے ہیں۔
میں جانتی ہوں تمہیں چینی آنکھیں پسند نہیں، جو کہ میری آنکھیں ہیں۔ مجھے پتہ ہے تمہیں چینی بال پسند نہیں، جو کہ میرے ہیں۔۔ لیکن کیا تم سمجھ سکتے ہو تمہارے وجود نے مجھے کیسی خوشی اور سرشاری عطا کی۔۔۔ اور تم کیسے اندازہ کر سکتے ہو، کیونکہ تم نے جو مجھ سے بات ہی کرنا بند کر دی۔ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ میں ویسے ہی ہر چیز کھونے لگ گئی ہوں جیسے میں کلچرل انقلاب میں سب کچھ کھو بیٹھی تھی۔ میرے بچے! کیوں تم مجھ سے بات نہیں کرتے؟ میرا درد بڑھ رہا ہے، مزید لکھنا محال ہو رہا ہے۔“
اس نوجوان خاتون نے میرا خط مجھے تھما دیا۔ مجھ میں ہمت نہ تھی اس کے چہرے کو دیکھنے کی۔ اس کی طرف دیکھے بنا میں نے گزارش کی کہ ماں کے نام کے نیچے ‘عئیai‘ کے لفظ کی نشاندہی کر دے۔ میں نے کئی بار اپنی انگلی کی نوک سے عئی ai عئی ai بڑا بڑا کر کے سارے خط پر لکھا۔ نوجوان عورت خاموشی سے اٹھی اور کچھ دیر میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر وہاں سے چلی گئی۔۔۔مجھے میری ماں کے ساتھ اکیلا چھوڑ کر۔۔۔
میں نے کاغذ کی سلوٹوں کو احتیاط سے واپس موڑتے، تہہ لگاتے اسے دوبارہ سے ’لاو ہو‘ میں تبدیل کر دیا۔ جب میں اسے اپنے مڑے ہوے بازوں پر بٹھائے گھر کی طرف رواں تھا تب وہ تھوڑا غرّایا۔
(کن لیو (پیدائش 1976) ایک چینی نژاد امریکی سائنس فکشن اور فینٹسی مصنف اور چینی سے انگریزی میں سائنس فکشن اور ادبی کہانیوں کا مترجم ہے۔)