باقی دنیا کا تو پتہ نہیں لیکن پاکستانی مرد حضرات بہت گپ باز ہیں۔ آپ نے چوک چوراہوں میں بیٹھے بابوں سے ان کی جوانی کے قصے سن رکھے ہوں گے، کیسے کوئی حسینہ ان کے پیچھے پڑ گئی تھی، اس نے بہت کوشش کی لیکن ہیرو صاحب اپنا دامن صاف بچا لے گئے۔ ہوائی چھوڑنے میں شوبز شخصیات گلی محلے کے بابوں سے بھی چار ہاتھ آگے ہیں۔
اب طلعت حسین صاحب کو ہی لے لیجیے، ان کے حوالے سے یوٹیوب اور مختلف ویب سائٹس بھری پڑی ہیں کہ ریکھا ان سے شادی کے لیے بے چین تھیں، بس وہ ہی سائیڈ مار گئے۔
اگر آپ ان دنوں سوشل میڈیا پہ موجود وائرل الفاظ میں یہ ہوائی جاننا چاہیں تو کچھ یوں تھی کہ ’ممبئی میں قیام کے دوران مشہور انڈین اداکارہ ریکھا میرے پاس خود چل کر آئیں اور میری اداکاری کی تعریف کی جبکہ وہ یہ بات جانتی تھیں کہ میں شادی شدہ ہوں، پھر بھی انہوں نے بہت ہی تمیز سے میرا پیچھا کیا، لیکن جب میں نے ان کی طرف سے کچھ زیادہ التفات نوٹس کیا، تو آہستہ آہستہ پیچھا چھڑانے ہی میں عافیت سمجھی۔‘
ریکھا اور طلعت حسین نے ساون کمار کی فلم ’سوتن کی بیٹی‘ میں ایک ساتھ کام کیا۔ یہ فلم 1989 میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں طلعت حسین ایڈوکیٹ مہرا کا کردار نبھاتے ہیں۔
اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ ریکھا ان کے پاس چل کر گئیں اور اداکاری کی تعریف کی ہو۔ انڈین اداکار یا شوبز سے وابستہ دیگر شخصیات دوسرے فنکاروں کو داد دینے میں ہمیشہ سخاوت کا مظاہرہ کرتی ہیں، اس لیے یہ معمول کی بات ہے۔ اس کے بعد اگر انہوں نے کچھ ایسا فرمایا تو وہ گپ بازی ہے یا ڈیمینشیا کے اوائل کا شاخسانہ ہو گا۔
ذرا سے التفات کو کچھ اور سمجھنا اور خیالات کی دنیا میں سپنوں کے محل تعمیر کرنا، آپ اسے اداکار کی معصومیت بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ اسی طرح ہے جیسے کوئی گاؤں سے نیا نیا شہر آئے اور کسی کلاس فیلو لڑکی کے نوٹس مانگ لینے پر بچوں کے نام تک سوچ لے۔
ایسا ہی ایک قصہ استاد سلامت علی خان اور لتا کے حوالے سے اچھالا جاتا ہے۔ استاد سلامت علی خان کے بقول ’ممبئی میں ہمارا معمول ہوتا کہ ہم اکثر لتا بائی کے مہمان بنتے۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ ہم نے لتا منگیشکر کے ہاں قیام کر رکھا تھا۔ لتا بائی نے اپنی تمام تر مصروفیات کینسل کر دی تھیں۔ درجنوں پروڈیوسر اور میوزک ڈائریکٹر اپنی فلموں کے گانوں کے لیے ڈیٹس لینے ان کے گھر آتے لیکن وہ کسی سے مل نہیں رہی تھیں۔‘
اس افسانے کی اگلی کڑی کے مطابق اس سے فلموں کا بزنس ٹھپ ہو گیا، انڈر ورلڈ نے دھمکیاں دینا شروع کر دیںا، پھر استاد سلامت اور نزاکت علی خان واپس آ گئے۔
دونوں کی شادی نہ ہو سکنے کی سب سے دلدوز وجہ یہ بیان کی گئی کہ اس سے انڈیا پاکستان کی جنگ چھڑ سکتی تھی۔ آپ استاد سلامت کے حوالے سے یہ بات ملاحظہ فرمائیں: ’انہیں ہندو سماج میں ایک دیوی مانا جاتا ہے، ہندوستان سمیت پوری دنیا میں ہندو لتا منگیشکر کو اوتار سمجھتے ہیں، اس لیے لتا سے میری شادی ہونا آسان معاملہ نہیں تھا۔ اس وقت مجھے یوں لگا کہ اگر میں نے لتا سے شادی کر لی تو کم از کم یہ ہو سکتا ہے کہ مجھے اور لتا کو ختم کر دیا جائے اور زیادہ سے زیادہ یہ بھی ممکن تھا کہ پاکستان اور انڈیا میں جنگ ہو جاتی، ایسا ممکن تھا کیونکہ دونوں کے مابین مسائل بھی ہیں اور یہ لڑنے کے بہانے بھی ڈھونڈتے رہتے ہیں۔‘ استاد سلامت کی معصومیت کا جواب نہیں۔
طلعت صاحب نے لندن اکیڈمی آف میوزک اینڈ ڈرامیٹک آرٹ سے تھیٹر آرٹس میں ٹریننگ حاصل کی اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ نجی محفلوں میں گھنٹوں ادب، فلسفے اور آرٹ پر گفتگو کر سکتے تھے۔ لب و لہجہ نستعلیق اور مطالعہ وسیع تھا۔
دوسری طرف استاد سلامت علی خاں عام زبان میں ’چٹے اَن پڑھ‘ تھے۔ معمول کی زندگی میں دونوں مختلف طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ استاد سلامت علی خان جیسا کلاسیکی گوّیا کون ہو گا لیکن زندگی نے انہیں موقع نہیں دیا کہ وہ جدید شہری زندگی کا تمدن سیکھ سکیں۔ مگر حیرت انگیز طور پر دونوں کی گفتگو کا موضوع اور معصومیت ایک جیسی ہے۔
ایسے مسائل پاکستان کی شوبز انڈسٹری سے جڑے افراد کے ساتھ عام ہیں۔ شاید یہ وہی گپ بازی کلچر ہے جو گلی محلوں میں عام ملتا ہے۔ سر عام ٹی وی پر نہ کہہ سکے تو نجی محفلوں میں اڑا دی۔
کیا یہ ناآسودہ خواہشات کو تھپکی دینے کا بندوبست ہے؟ آپ کی زندگی محبت اور حسن و جمال سے محروم رہ گئی، اس کی کسک پچھلی عمر میں تنگ کرتی ہے تو آپ خود کی طفل تسلی کے لیے کہانیاں گھڑ لیتے ہیں؟ آپ باتوں سے اپنے زخم مندمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟
ابھی پچھلے ہفتے لاہور میں ریڈیو اور ٹی وی کی ایک نامور شخصیت سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے چپکے سے بتایا کہ جب میری شادی ہوئی تو میڈم نور جہاں بھی تشریف فرما تھیں۔ انہوں نے کہا: ’تم پہ تو میں نظر رکھ کر بیٹھی تھی، خیر اب تو یہ ہو گیا، جا تجھے اپنی بہن کی خاطر بخش دیا۔‘ میڈم نے کسی کو بخش دیا؟ مطلب کچھ بھی!
لیکن یہ پاکستان ہے، یہاں کچھ بھی چلتا ہے۔ ریکھا جی طلعت حسین سے شادی کرنا چاہتی تھیں، بیچاری نہ کر سکیں۔ لتا اپنی حسرتیں دل میں لیے اس دنیا سے گزر گئیں، اگر استاد سلامت ان سے شادی کر لیتے تو پاکستان انڈیا میں ایسی جنگ چھڑتی کہ لوگ کوروں اور پانڈووں والی مہا بھارت بھول جاتے۔ ہت تیری کی!
بشکریہ انڈیپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)