ہنری کسنجر کے سو برس، جن کا فائدہ صرف انہیں اور امریکا کو ہی ہوا

منصور جعفر

ہنری کسنجر ایک سو سال جیے اور جی کر چلے گئے۔ ان کی کامیاب زندگی کو انہی کے تصورِ کامیابی سے دیکھا جائے تو برطانیہ بہادر میں جو الفاظ شاہ برطانیہ کے لیے اصطلاحاً استعمال ہوتے ہیں، انہی الفاظ کو تھوڑی تبدیلی کے ساتھ ہنری کسنجر کے لیے استعمال کرنے کو دل چاہتا ہے کہ ’The Kissinger is dead, long live the Kissinger‘

ہنری کسنجر نے پچھلے ساٹھ ستر برس امریکا کو سیکیورٹی اور سفارت کاری کی راہ سجھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ اس میں اس قدر کامیاب رہے کہ جب تک امریکا باقی ہے وہاں کسنجر کی سوچ، فکر اور عملیت پسندی امریکی فیصلہ سازی اور اقدامات میں جھلکتی رہے گی۔ وہ اعلیٰ حکومتی عہدوں پر تو صرف دو صدور کے ساتھ رہے اور وہ بھی ری پبلکن صدور کے ساتھ مگر اثر انداز ہر دور اور صدر پر ہوتے رہے۔

سچی بات یہ ہے کہ ہنری کسنجر جس سوچ اور فکر کے ساتھ وابستہ تھے وہی سوچ اور فکر امریکی رگوں میں خون کی طرح دوڑتی ہے جبکہ امریکی پالیسی سازوں اور فیصلہ سازوں کے ذہنوں میں راسخ نہیں بلکہ کندہ ہو چکی ہے۔ یہ سوچ امریکی اور امریکی فیصلہ سازوں کے خمیر کے عین مطابق ہے۔

ایک مثال سے وضاحت کے بعد آگے چلیں گے۔ ہنری کسنجر کے امریکا کے وزیر خارجہ بننے کے محض دو ہفتے بعد اکتوبر 1973ء میں عرب اسرائیل جنگ شروع ہونے کے ساتھ ہی جہاز اور اسلحہ اسرائیل کی مدد کے لیے روانہ کرکے عرب اسرائیل جنگ کا اختتام اسرائیل کے حق میں کروایا تھا۔ عین اسی طرح اِس سال سات اکتوبر کو شروع ہونے والی حماس اسرائیل جنگ کے آغاز پر ہی امریکی بحری بیڑے اسرائیل کی مدد کے لیے روانہ کر دیے گئے۔ گویا وہی سوچ اس وقت بھی امریکا میں رو بعمل دیکھی جاسکتی ہے۔

ہنری کسنجر کی پیدائش (مئی 1923ء) کے ایک سو سال بعد اور ان کے انتقال کے محض ایک دن بعد یہ سطور لکھنے سے پہلے اس ماحول پر ایک نظر ڈالنی ضروری ہے جس میں کسنجر نے آنکھ کھولی تھی۔ وہ ماحول نازی دور کے جرمنی کا تھا۔ ایک سو سال پہلے جرمنی میں پیدا ہونے کا مطلب تھا کہ وہ جلد ہی بے گھر ہوئے اور نقل مکانی کرنا پڑی۔ وہ کیسا ماحول تھا اسے تھوڑے لفظوں اور جلدی سمجھنے کے لیے آج کے غزہ اور فلسطین کو دیکھا جاسکتا ہے۔ اس وقت کے نازی، جرمنی میں تھے اور آج کے نازی نیتن یاہو کی قیادت میں اور امریکی سرپرستی میں فلسطین میں تباہی پھیلا رہے ہیں۔

سو سال پہلے پیدا ہونے والے کسنجر کو پندرہ سال کی عمر میں اپنے خاندان کے ساتھ نقل مکانی کرنا تھی کہ یہودی مذہب پر یقین رکھنے والوں پر نازیوں نے جرمنی کی زمین تنگ کر رکھی تھی۔ یورپ کا کوئی دروازہ یہودیوں کے لیے اب کھلا تھا نہ کسی یورپی کا دل۔ اسی لیے 1917ء کے اعلان بالفور کے ذریعے یورپ یہودیوں کو اگلا دروازہ دکھانا طے کر چکا تھا۔ یہودی تاریخ اور کے ساتھ رہنے کے تجربے کے بعد اس وقت کی بڑی طاقت برطانیہ نے اپنی عافیت اسی میں سمجھی تھی۔ اس کے علاوہ بھی ایک وجہ تھی کہ جنگ عظیم اول کے بعد یورپ کی سیاسی اور معاشی حقیقتیں تبدیل ہونے جارہی تھیں۔

ہننری کسنجر کے خاندان نے حالات کے نوشتے کو پڑھ لیا اور جرمنی کے نازیوں سے بچ کر بھاگ نکلنے میں ہی عافیت سمجھی۔ بے شک جرمنی کے آس پاس پھیلے یورپ میں اس یہودی خاندان کو جذب ہونے کی کوئی صورت نظر نہ آئی، نہ ہی کوئی جازبیت دیکھی۔

اعلان بالفور سے اسرائیل ابھی کاشت نہیں ہو پایا تھا۔ ویسے بھی جس فلسطینی سرزمین پر 1948ء میں اسرائیلی آبادی محض 6 فیصد تھی 1938ء میں وہاں کی آبادی کیا ہوگی۔ اس لیے نازیوں سے بچنے کے بعد تحفظ کی تلاش ہنری کسنجر کے خاندان کو امریکا کی طرف لے گئی۔ امریکا مستقبل کی عالمی طاقت بھی بن رہا تھا اور نازیوں کی دسترس سے بھی دور تھا۔ یوں امریکا جائے پناہ ٹھہرا۔ یہاں پہنچنے کے بعد ہائینز کسنجر کا نام ہنری کسنجر ہو گیا۔

لیکن واقعہ یہ ہے کہ جرمنی کے نازیوں سے بھاگ کر بھی بہت سے دوسروں کی طرح نازیوں کے خوف سے بھاگنا آسان نہ ہوا۔ ہنری کسنجر کی شخصیت میں جہاں ایک طرف خوف کا راج رہا وہیں راج، اقتدار اور طاقت ان کی ضرورت اور مجبوری رہا کہ طاقت کی موجودگی میں خوف کا احساس بھی کم ہو سکتا تھا۔ ہنری کسنجر کی شخصیت کا جائزہ لینے والوں کو اس ناطے ان کی شخصیت میں دو اور شخصیات کے اثرات کھبے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایک جدید جرمنی کے پہلے چانسلر بسمارک اور دوسرے ہٹلر۔ ہٹلر کا خوف اثرات چھوڑ گیا جبکہ بسمارک کا جدید جرمنی کی طرف سفر بھا گیا۔

گویا بسمارک سے ’انسپائریشن‘ سبب تھی اور ہٹلر کے بارے میں منفی رد عمل بالآخر اسی کی شخصی خصوصیات کو اپنانے کا خاموشی سے باعث بنتا رہا۔ عام طور پر انسانی معاشروں میں یہ نفسیاتی مسئلہ ملتا ہے کہ جس شخص سے اس کے جبر کی وجہ سے نفرت ہوتی ہے یا بغاوت کی جاتی ہے آہستہ آہستہ اسی کی ڈگر پر چلنا شروع کر دیا جاتا ہے۔ افراد سے بڑھ کر یہ جذبہ مغلوبیت اقوام اور معاشروں میں بھی پایا جاتا ہے۔ برصغیر میں گوروں سے آزادی کے بعد یہاں کی حکمران اشرافیہ حتیٰ کہ عام لوگوں میں انہی عادات کا در آنا، اسرائیلیوں کا ہٹلر اور نازیوں سے شدید نفرت کرنے کے باوجود فلسطینیوں کے ساتھ نازیوں کی طرح ظلم وجبر روا رکھنا اسی انسانی نفسیات کا ایک اظہار ہے۔ غزہ میں جو کچھ جاری ہے اسے بھی تو ’ہولو کاسٹ‘ کانام دیا جا سکتا ہے۔

بہرحال بات ہنری کسنجر کی ہو رہی ہے، ہنری کسنجر کے ایک سو سال کی بات۔ ہنری کسنجر کی جرمنی سے امریکا تک نقل مکانی مکمل نوجوانی میں ہوئی۔ نوجوانی کی نفرت بھی طوفانی ہوتی ہے۔ اسی لیے اپنی تعلیم مکمل کرنے سے پہلے ہی ہنری کسنجر نے امریکی فوج کے ساتھ جرمنی کا سفر کیا، گویا جنگ عظیم دوم کے دوران ہٹلر کی سرزمین پر انتقام لینے کی صورت بن گئی۔ بلاشبہ نوجوانی میں بے گھر ہونے اور نقل مکانی پر مجبور کیے جانے کے رد عمل کو کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ یہ رد عمل ہٹلر کے خلاف لڑمر جانے کے لیے امریکی فوج میں شمولیت کا باعث بن گیا۔

جرمنی سے واپسی ہوئی تو اس کے بعد ہنری کسنجر نے اپنی تعلیم مکمل کرنے پر توجہ کی۔ خارجہ امور کی سمجھ اور شعور کے لیے اس بارے میں مضامین کا انتخاب کیا گیا، مگر جرمنی کے نازیوں کا دیا ہوا درد اور خوف ابھی باقی تھا اس لیے عملی زندگی میں قدم رکھا تو امریکی سلامتی کے ادارے کے ساتھ وابستگی کا بھی موقع مل گیا۔

1950ء اور 1960ء کی دہائی میں خارجہ پالیسی سے متعلق حاصل کی گئی تعلیم کو ہنری کسنجر نے سیکیورٹی کی کٹھالی میں ڈال دیا تاکہ کندن بن جائے۔ کچھ عرصہ امریکی ادارے نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ساتھ گزرے۔ امریکی قومی سلامتی کا عملی طور پر امریکا کی بیرونی سلامتی سے گہرا تعلق ہے اس لیے خارجہ امور کی تعلیم بھی کام آتی رہی بلکہ نکھرتی رہی۔

عمومی تاثر ہے کہ ہنری کسنجر نے ویت نام کی جنگ سے امریکا کو نکالنے میں ہی کردار ادا کیا ہے۔ لیکن امریکی سیکیورٹی کے ادارے سے منسلک ہونے کے ناطے یہ کیوں کر ممکن ہے کہ وہ اس معاملے سے الگ تھلگ رہے۔ جب 1954ء/ 1955ء میں ویت نام کی جنگ شروع ہوئی تو ہنری کسنجر عملی زندگی میں آگئے تھے۔ ایک عملیت پسند شخصیت ہونے کی وجہ سے بھی وہ فارغ نہیں بیٹھے رہ سکتے تھے۔

اسی وجہ سے جب ابھی ویت نام کی جنگ جاری تھی تو صدر رچرڈ نکسن نے 1969ء میں ہنری کسنجر کو قومی سلامتی کے امور کے لیے اپنا مشیر مقرر کیا۔ وہ قومی سلامتی کے مشیر کے طور پر دنیا کے مختلف ملکوں کے دورے بھی کرنے لگے تھے۔ اس لیے ایک عملیت پسند شخص ہوتے ہوئے جہاں انہوں نے امریکی ویت نام جنگ کے لیے کردار ادا کیا وہیں اپنے ملک کو اس دلدل سے نکالنے میں بھی فعال کردار ادا کیا۔ بعد ازاں اپنی انہی خدمات کی وجہ سے وہ وزیر خارجہ مقرر کیے گئے۔ وہ بیک وقت دونوں عہدوں پر کئی سال فائز رہے۔ حتیٰ کہ صدر جیرلڈ فورڈ کے دور صدارت میں بھی۔

پاکستان کے توسط سے امریکا نے چین کے ساتھ تعلقات کو اپنی ضرورت اور مفاد میں دیکھا تو ہنری کسنجر ہی پاکستان کی مدد سے اس خفیہ سفارت کاری کے لیے بروئے کار رہے۔ جس طرح انہوں نے چین کے ساتھ امریکی تعلقات قائم کرنے میں کردار ادا کیا۔ یہ ایک طرح سے سر کے بل چل کر چین جانے والی بات تھی۔

وہ اسلام آباد سے مری میں علیل ہونے کی جھوٹی خبروں کے کور میں چین پہنچے تھے۔ یہ ایک سفارتی مشن مگر مکمل ڈرامائی تشکیل کے ساتھ تھا۔ جس طرح اس ڈرامائی تشکیل کی سفارت کاری میں ہنری کسنجر نے اپنا کردار نبھایا وہ ان کی عملیت پسندی کی بہترین مثال کہی جاسکتی ہے۔ تاہم اس مشن کے سفارتی اہداف بڑے دوررس تھے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ وہ غیر معمولی ہیں۔

صدر نکس واٹر گیٹ اسکینڈل کے باعث گھر جانے پر مجبور ہوئے تو صدر جیرالڈ فورڈ صدر بنے۔ صدر فورڈ نے بھی ہنری کسنجر کو کافی دنوں تک دونوں عہدوں پر ہی موجود رکھا۔ البتہ کچھ عرصے بعد انہیں صرف وزارت خارجہ کا قلمدان دے دیا گیا۔ ہنری کسنجر نے اپنے 100 سال میں ثابت کیا ہے کہ وہ ایک غیر معمولی شخصیت تھے۔ تاہم ان کے غیرمعمولی ہونے کا فائدہ انہیں اور امریکا کو ہی ہو سکا۔ اس کے نتیجے میں عالمی سطح پر امن، استحکام اور انصاف کا بول بالا نہ ہوسکا۔ بڑی وجہ یہی رہی کہ امن و سلامتی، استحکام و انصاف کی تعریف وہ کی جاتی رہی جو امریکا اور اس کے ساتھیوں و اتحادیوں کے مفاد میں رہی۔ عملیت پسندی بھی امریکی مفاد کے تابع رہی۔ امریکا اور اس کے ساتھی ملکوں کے مفاد کو ممکن بنالینے کے لیے استدلال کی اپنی ٹکسال سے اصول، قانون، تشریح و تعبیر اور اصطلاحات گھڑی جاتی رہیں۔

تاہم یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ محض ہنری کسنجر کی سوچ اور عملیت پسندی کے سبب ہی چلتا رہا۔ یقیناً اس میں امریکا کے خمیر اور ضمیر کے مسئلے بھی موجود رہے۔ اپنے مفاد اور دوسروں سے عناد کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے چیزوں کو ایک خاص انداز سے دیکھنے اور ثابت کرنے کی مہم جاری رکھی گئی۔

اس میں دو رائے نہیں کہ ہنری کسنجر ایک انتھک شخصیت رہے۔ اسی سبب ممکن ہوا کہ 90 سال کی عمر میں مصنوعی ذہانت کے موضوع پر بھی کتاب لکھ دی۔ ہنری کسنجر قسمت کے بھی دھنی تھے۔ ایک ابھرتی ہوئی نئی عالمی طاقت میں نقل مکانی کر کے جانے اور تعلیم پانے نے ان کے لیے عزت و شہرت کی ساری منزلیں آسان تر بنا دیں۔ وہ ساٹھ ستر سال تک مسلسل امریکا میں ایک اہم شخصیت اور معتبر حوالہ رہے۔

انہوں نے جس سے جس لہجے میں بات کرنا چاہی کرتے رہے۔ بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو ہی نہیں تمام بھارتیوں کو ناقابل بیان گالی دی۔ پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ’خوفناک انجام کی دھمکی دی‘ اور پھر دھمکی کے الفاظ پورے بھی ہوگئے۔ ہنری کسنجر نے اسرائیل کے لیے امریکی پالیسی کی جو داغ بیل ڈال دی وہی اکتوبر 1973ء سے اب تک جاری و ساری ہے۔

رجیم کی تبدیلی کی جو صورت بھٹو مرحوم کے زمانے میں سامنے آئی۔ اسی کی مثالیں بعد ازاں بھی سامنے آتی رہیں۔ اب غزہ کے بارے میں بھی وہی آوازیں سننے کو مل رہی ہیں کہ غزہ پر اب حماس حکمران نہیں رہے گی۔ ان زور دار قسم کی امریکی روایات کو بنانے، چلانے اور آگے بڑھانے میں ہنری کسنجر کا کردار کلیدی ہے۔

وہ سفارتی و خارجی محاذ پر امریکا کو فکر وعمل کا ایک خاص نظام دے کرگئے ہیں جو امریکی خوف کے ازالے اور مفادات کے تحفظ کے لیے مختص ہے۔ شٹل ڈپلومیسی، بیک چینل اور بیک ڈور ڈپلومیسی میں بھی ہنری کسنجر ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ ان کے غیر معمولی کردار نے ہر امریکی مشیر برائے قومی سلامتی اور وزیر خارجہ کو عملاً دنیا بھر کے لیے امریکی وائسرائے کا مقام دلوا دیا ہے۔

بشکریہ: ڈان نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close