بہت عرصے کے بعد نواز شریف پارلیمنٹ میں بولے۔ وہ بولے کم اور اپنے دل کا غم دو اشعار سُنا کر بیان کیا فرمایا کہ عدلیہ نے ہمیں اتنے دُکھ دیے ہیں کہ یہ شعر سُن لیں:
ناز و انداز سے کہتے کہ جینا ہوگا،
زہر بھی دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پینا ہوگا
جب میں پیتا ہوں تو کہتے ہیں کہ مرتا بھی نہیں،
اور جب میں مرتا ہوں تو کہتے ہیں کہ جینا ہوگا
26ویں آئینی ترمیم پاس ہو رہی تھی۔ عدلیہ کے یا تو پر کاٹے جا رہے تھے یا اُسے آئین کے دائرے میں لایا جا رہا تھا لیکن یہ حکومت اور اُس کے اتحادیوں کی جیت کا دن تھا۔
مہینوں کی تگ و دو کے بعد، مذاکرات کے ذریعے یا دھمکیوں کے راستے یا ’کچھ دو، کچھ لو‘ کی پالیسی اختیار کر کے یا دو، چار ارکان کو خرید کر یا غائب کر کے حکومت نے اپنے اعداد پورے کر لیے تھے۔ حکومت کے لیے خوشی کا دن تھا۔ ایسے میں حکومت کے روحانی باپ اپنے ماضی کے زخم کیوں کُرید رہے تھے۔
شعر وزن میں ہیں یا نہیں، حسبِ حال ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ تو ادبی نقاد اور سیاسی مبصرین کر سکتے ہیں۔ عام دیکھنے والوں کو تو پرانی اُردو فلموں کے وہ سین یاد آ گئے، جب ایک گھر میں بارات پہنچتی ہے، ڈولی اٹھنے والی ہوتی ہے اور دلہن کا ناکام عاشق ایک اُداس دُھن میں گانا گانے لگتا ہے۔
تین بار مُلک کے وزیر اعظم سے ناکام عاشق کا سفر نواز شریف نے عوام کی آنکھوں کے سامنے طے کیا ہے۔
اسٹیبلیشمنٹ نے بنایا پھر نکالا، پھر عوام نے بنایا مشرف نے نکالا پھر عوام نے بنایا عدلیہ نے نکالا، تو ظاہر ہے عدلیہ کو زہر دینے اور پھر جینے مرنے کے طعنے بنتے ہیں لیکن جس مُلک میں وہ چاہتے ہیں کہ عوام اُن کے غم کو سمجھیں، اُسی مُلک میں اُن کے چھوٹے بھائی وزیراعظم ہیں، اُن کے سمدھی نائب وزیر اعظم ہیں، اُن کی بیٹی مُلک کے سب سے بڑے صوبے کی طاقتور وزیراعلیٰ ہیں پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ دلدار نہیں۔
اُن کا غم اُس بزرگ کا غم لگتا ہے جو چار شادیوں اور چودہ بچوں کے بعد پوتے پوتیوں سے شکوہ کرتے پائے جاتے ہیں کہ مُجھے سچا پیار نہیں ملا۔
پرانے بادشاہوں کو ہٹانے کے دو ہی طریقے تھے یا تختہِ دار یا قید خانہ، یا کبھی کبھی رحم دل بادشاہ اپنے سے پہلے والے بادشاہ کو مقدس مقامات کی زیارت کے لیے بھیج دیا کرتے تھے۔ پاکستان بادشاہت نہیں۔
پاکستان کے موجودہ حکمران نواز شریف کو اپنا اصلی باپ بھی مانتے ہیں، سیاسی بھی، روحانی بھی۔ اپنی جلاوطنی کے دنوں میں نواز شریف مقدس مقامات میں خوب عبادات کر چُکے ہیں۔ جب چاہیں پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر عوام کے ساتھ اپنا وژن، اپنے غم بھی بیان کر سکتے ہیں۔ جب دل کرے کسی منصوبے کے افتتاح کے لیے فیتہ کاٹنے یا اپنی بیٹی کا راج دیکھنے کے لیے بھی پہنچ سکتے ہیں۔
اب کیا ہی اچھا ہو کہ وہ اُس مُلک کے دورے پر نکلیں، جس نے اُنھیں تین بار وزیراعظم مُنتخب کیا، قید بھی کیا، دل بھی توڑا جلاوطن بھی کیا لیکن بالآخر اُن کو روحانی حکمران مان لیا۔ چونکہ اُن کے پاس فی الحال کوئی سرکاری عہدہ نہیں تو وہ جس سے چاہیں مل سکتے ہیں۔
ان کا غم تو ہم سُنتے آئے ہیں، وہ اور کچھ نہیں تو اپنی رعایا کا غم سُننے ہی نکل پڑیں، کبھی کسی بلوچ خاندان کے احتجاجی کیمپ میں جا کر بیٹھ جائیں، کبھی جا کر ماہ رنگ بلوچ کو تسلّی دیں کہ ریاست نے میرے ساتھ بھی ظلم کیا تھا، میں نے اپنے لیے انصاف کی جنگ لڑی، اب میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں۔ کبھی منظور پشتین کو مشورہ دیں کہ ہاں کبھی کبھی عسکری اداروں کے خلاف سخت زبان بولنی پڑتی ہے لیکن میں آپ کو بتاتا ہوں کے اُن کے ساتھ آنکھ مچولی میں دو قدم آگے کیسے رہا جاتا ہے۔
لیکن ہم سب جاتنے ہیں کہ وہ ایسا نہیں کریں گے۔ عدلیہ کے ساتھ بھی جنگ کا ایک ہی مقصد تھا کہ جج اُن کے بھائی اور بچوں کے ساتھ نہ کر سکیں جو اُن کے ساتھ کیا۔ نواز شریف شاید پاکستان کی تاریخ کے سب سے خوش قسمت سیاستدان ہیں لیکن وہ یہ خوش قسمتی عوام کے ساتھ بانٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ عوام کے ساتھ وہ صرف اپنا غم بانٹنا چاہتے ہیں اور اُداس دُھنوں میں اپنے مرنے اور جینے کا گیت گانا چاہتے ہیں۔
بشکریہ بی بی سی اردو۔