چائے کے ڈھابے سے ہالی وُڈ تک۔۔ ہمہ جہت اداکار اوم پوری کی کہانی

ویب ڈیسک

ہر اداکار کا اپنا انداز ہوتا ہے۔ کوئی مزاحیہ اداکاری کے لئے شہرت رکھتا ہے، کسی کو رومانی کردار ادا کرنے کے لئے جانا جاتا ہے اور کسی کو ایکشن کے لئے پسند کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر دلیپ کمار شہنشاہ جذبات کے طور پر مشہور ہوئے، شاہ رخ خان رومانی کردار ادا کرنے کے سبب آنکھوں کا تارہ بنے اور پاریش راول کو مزاحیہ اداکاری کے لئے جانا گیا۔ ایسے میں اگر کسی اداکار نے بیک وقت الگ الگ نوعیت کے کردار کامیابی سے ادا کیے اور مقبول بھی ہوا تو ہمہ جہت اداکار اوم پوری تھے۔ اوم پوری نے دہلی کے نیشنل اسکول آف ڈرامہ سے تھیٹر کی باریکیاں سیکھیں، پونے کے فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ سے اداکاری کی تعلیم حاصل کی اور پھر ہندی فلموں کے بھول بھلیاں میں اپنے لئے راستہ کھوجنے نکلے۔

جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں، پوری دنیا ایک اداکار کے ساتھ سفر کرتی ہے جب وہ اپنا کیریئر بناتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک اداکار پینٹر یا مصنف یا موسیقار نہیں ہے کہ وہ اپنا مواد خود بنا سکے۔ ایک اداکار کا انحصار اسکرین پلے کے مصنفین اور ہدایت کاروں پر ہوتا ہے کہ وہ اس کے لیے کام تخلیق کریں اور اسے استعمال کرنے کے لیے عوام پر خود کو ثابت کرنے کے لیے اس کے پاس مواد ضرور آنا چاہیے۔ اس حوالے سے نصیر الدین شاہ اور اوم پوری بہت خوش قسمت تھے۔ انہوں نے 20 ویں صدی کے ہندی سنیما میں حقیقت پسندانہ کرداروں کی سب سے بڑی ورائٹی حاصل کی۔ وہ، کہاوت کے مطابق، صحیح وقت پر صحیح جگہ پر تھے۔

اوم پوری 1949 یا 1950 میں پیدا ہوئے تھے، جیسا کہ نصیر الدین شاہ نے اسے یادگار طور پر ’منہ میں لکڑی کے چمچ‘ کے ساتھ پیدا ہونے والا بچہ کہا۔ وہ ٹیک چند پوری اور تارا دیوی کا سب سے چھوٹا بچہ تھا

والد پہلے ریلوے اور پھر کچھ عرصہ فوج میں رہے۔ وہ آٹھ بہن بھائی تھے، گھر میں اکثر فاقوں کی نوبت رہتی۔ گھر کا کوئی بچہ بیمار ہوتا تو گھریلو ٹوٹکوں پر انحصار کیا جاتا۔ لیکن ان کے آٹھ بہن بھائیوں میں سے صرف دو ہی اوم پوری اور اس کا ایک بھائی ہی بچ پائے۔ اُن کے باقی بہن بھائی مناسب علاج معالجہ نہ ہونے کے باعث بچپن میں ہی چل بسے۔

ٹیک چند اپنا آپا کھو بیٹھے اور نتیجتاً ان کی نوکری بہت آسانی سے چلی گئی۔ اکثر اُن کی بیوی کو اُن کے غصے کا اور اُن کے چھوٹے بچوں کو اُن کی بے رغبتی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اوم کو چھوٹی عمر میں چیچک ہو گئی تھی۔ انہوں نے اپنا بچپن چھوٹے شہروں جیسے کہ ریواڑی، بھٹنڈا اور دگدو کے درمیان گھومتے ہوئے گزارا

ان دنوں ہی والد کو سیمنٹ کی چوری کے الزام میں جیل ہو گئی تو بے گھر ہونا اس خاندان کا مقدر ٹھہرا۔ ان مشکل حالات میں اُنہوں نے اور اُن کے بڑے بھائی نے گھر کی کفالت کی ذمہ داری اُٹھائی۔

بھائی کو ریلوے اسٹیشن پر قلی کا کام مل گیا، جب کہ وہ قریب ہی ریلوے کی پٹڑیوں سے کوئلہ جمع کرتا تاکہ مصیبت اور غربت کے اس دور میں اپنوں کے لیے امید کی کرن بنا رہے۔ اُن کی عمر اُس وقت صرف سات برس تھی جب انہیں ایک ڈھابے پر برتن دھونے کا کام مل گیا لیکن یہ مشکل وقت بھی کسی نہ کسی طرح گزر ہی گیا۔

اوم پوری نے چائے والے کے طور پر کام کر کے اپنے خاندان کی کفالت کی جبکہ ان کے بڑے بھائی نے قلی کا کام کیا۔ اس دوران انہوں نے اپنی ماں کو ایک لالچی پنساری کی طرف سے توہین آمیز پیشکش کرتے ہوئے دیکھا۔ ان کے ساتھ محلے کے ایک پنڈت نے بھی بدسلوکی کی۔ پورے ایک سال تک انہوں نے چھوٹو کے طور پر کام کیا، جیسا کہ وہ لڑکوں کو اب بھی ڈھابہ پر بلایا جاتا ہے۔

اوم پوری نے تعلیم حاصل کی لیکن بڑی مشکلات سے۔۔ آٹھ سال کی عمر میں، اوم پوری نے اپنی رسمی تعلیم سنور میں اپنے چچا کے گاؤں سے شروع کی، جہاں دو سال سدھورام کی پاٹھ شالہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ، انہوں نے مقامی سرکاری اسکول کی کلاس چہارم میں داخلہ لیا۔ پرنسپل پریتم سنگھ کی نظر میں اور نریش کوشل، کشن سنگھ اور سریندر جیسے دوستوں کی پیار بھری دیکھ بھال کے تحت (جنہوں نے اسے پیار اور مکھن اور دودھ فراہم کیا)۔ اوم نے اسکول میں ترقی کی، کھیلوں میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا، بوائے اسکاؤٹ بن گئے اور اسکول کے عجیب و غریب ڈراموں میں دکھائی دیے۔ ایک ناخوشگوار واقعے کی وجہ سے جب ان کے رشتہ داروں نے انہیں گھر سے باہر نکال دیا تو وہ اسکول کے برآمدے میں رہے اور پورے عزم سے اپنا اسکول ختم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ انہوں نے اس وقت تک لوگوں کو دیکھنے اور ان کی نقل کرنے کی مہارت پیدا کر لی تھی اور انہیں اکثر خاندانی اجتماعات میں پرفارمنس دینے کے لیے بلایا جاتا تھا، جس سے وہ اپنی شرم و حیا کے باوجود لطف اندوز ہوتے تھے۔ ابھی نویں کلاس میں تھے، انہوں نے فلم کے آڈیشن کے لیے ایک اخباری اشتہار کا جواب دیا۔ بدقسمتی سے وہ اس میں حصہ نہیں لے سکے کیونکہ ان کے پاس فیس ادا کرنے کے لیے پچاس روپے نہیں تھے اور نہ ہی لکھنؤ کے ٹکٹ کے لیے پیسے تھے، جہاں یہ آڈیشن منعقد ہونا تھا۔ واضح طور پر، کارکردگی کے بگ نے انہیں جلد ہی کاٹ لیا تھا، لیکن ان کے اردگرد کا ماحول کافی غیر موزوں تھا۔

ان میں قدرے بہتری آئی جب اوم پوری نے گریجویشن کے لیے خالصہ کالج، پٹیالہ میں داخلہ لیا۔ انہوں نے ٹیوشن پڑھ کر اور منشی یا وکیل کے کلرک کے طور پر اور بعد میں لیب ٹیکنیشن کے طور پر کام کر کے خود کو سہارا دیا۔

کالج کے ایک ناٹک میں اوم پوری کو اداکاری کرنے کے لئے دوستوں نے بلایا، جس کے لئے اوم پوری نے اپنے وکیل باس سے تین دن کی چھٹی طلب کی لیکن وکیل صاحب نے انہیں تین دن کی چھٹی دینے سے انکار کر دیا۔ وکیل صاحب کی یہ بات اوم پوری کو بہت ناگوار گزری اور انہوں نے وکیل صاحب سے کہہ دیا کہ ’’اپنی نوکری اپنے پاس رکھ لیں اور میرا حساب کر دیں۔‘‘ جب اوم پوری کے کالج کے دوستوں کو اس واقعہ کا پتہ چلا تو انہوں نے کالج کے پرنسپل صاحب سے اس بارے میں بات کی اور پرنسپل صاحب نے اوم پوری کو کالج میں لیب اسسٹنٹ کی ملازمت دے دی۔ اس ملازمت میں اوم پوری کو تنخواہ کے طور پر 112 روپے ماہانہ ملتے تھے۔

جس دن کالج میں ڈراما تھا، اسے دیکھنے کے لئے پنجاب کے مشہور تھیٹر اداکار ہرپال ٹِوانا بھی آئے ہوئے تھے۔ اوم پوری کی اداکاری کو دیکھنے کے بعد ہرپال ٹوانا نے اُنہیں اپنے تھیٹر گروپ سے جڑنے کی پیش کش کی۔ ہرپال ٹوانا ایک NSD گریجویٹ تھے، جس نے شمالی ہندوستان میں IPTA کے بعد کے مرحلے میں جدید تھیٹر کو جڑ پکڑنے میں مدد کی۔ یہ ہندوستانی تھیٹر میں جدیدیت کی پیدائش کا وقت بھی تھا۔ ٹوانا اوم پوری سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے اوم کو ماہانہ وظیفہ دینے پر رضامندی ظاہر کی جو فری لانسر کے طور پر کمائی سے زیادہ تھی۔

ٹوانا کے ساتھ، اوم پوری کو پیشہ ور تھیٹر میں پہلی بار کام ملا۔ اپنے استاد ابراہیم القاضی کی طرح ان سے پہلے ٹوانا نے اپنے سیٹ ڈیزائنر، لائٹ اور کاسٹیوم ڈیزائنر، اور ضرورت پڑنے پر، یہاں تک کہ اپنے ڈراموں میں جھاڑو دینے والے کے طور پر کام کرنے سے نہیں ہچکچایا۔ ٹوانا کے ساتھ ہی اوم پوری نے کسی ریسٹورنٹ میں اپنا پہلا کھانا، چنڈی گڑھ کے گریٹ پنجاب ہوٹل میں کھایا، جہاں 18 ویں صدی کے فارسی شہنشاہ نادر شاہ کی طرح انہیں بھی لگا کہ لیموں کے ٹکڑوں کے ساتھ گرم پانی کا پیالہ پینے کے لیے تھا۔ یہ پٹیالہ ہی تھا جہاں انہوں نے سنیما سے اپنی پہلی حقیقی واقفیت کیپٹل، مالوا اور پھول جیسے سنیما ہالوں میں تازہ ترین ہندی ریلیز دیکھ کر کی۔ وہ خاص طور پر بلراج ساہنی اور دلیپ کمار کے دلدادہ تھے۔

ٹوانا کی حوصلہ شکنی کے باوجود اوم پوری نے اپنے دوست جسپال کے ساتھ این ایس ڈی میں درخواست دی۔ ٹوانا خود ایک اچھے گھرانے سے آئے تھے لیکن انہوں نے محسوس کیا کہ ہندی اور پنجابی میں تھیٹر اوم کے پس منظر کے کسی فرد کے لیے اتنا منافع بخش نہیں تھا۔ اس کے بجائے انہوں نے اوم کو لوئر ڈویژن کلرک کی نوکری دلائی۔

اپنی گریجویشن کے دوسرے سال میں، اوم پوری کو سہارنپور جانا پڑا تاکہ وہ وہاں ریلوے کینٹین میں کام کر سکیں۔ ایک بار پھر، ان کے لیے ناواقف یہ اداکاری کے کیریئر کے لیے اگست کا آغاز تھا۔ اس سے تیس سال پہلے دلیپ کمار نے پونے میں آرمی کینٹین میں مینیجر کے طور پر اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا جہاں انہوں نے برطانوی اور امریکی فوجیوں کے لیے سینڈویچ اور کاک ٹیل بنانا سیکھا تھا۔ دہلی آنے سے پہلے، اوم پوری نے اپنی مریضہ اور طویل المیعاد ماں کو کھو دیا۔ وہ کچھ عرصے سے ذہنی اور جسمانی طور پر بیمار تھیں۔ ان کے بھائی کے علاوہ ان کی جوانی تک زندہ رہنے والی ان کی واحد دوسری بہن، ویدوتی، بھی دماغی بیماری کی وجہ سے جوانی میں مر گئی تھیں۔

یہ بالی ووڈ کے لیجنڈ اداکار اوم پرکاش پوری یا اوم پوری کی زندگی کی کہانی ہے، جنہوں نے اپنے راستے میں آنے والی ہر مشکل کو پاٹتے ہوئے اپنے خوابوں کو تعبیر ہی نہیں دی بلکہ ہندی سنیما کی تاریخ کے بہترین اداکاروں کی صف میں شامل ہو گئے۔

اوم پوری بالی وڈ کے ان اداکاروں‌ میں سے تھے جنہیں مشکل کردار ادا کرنے کا ماہر سمجھا جاتا تھا۔ انھوں نے زیادہ تر آرٹ فلموں میں اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ شائقینِ‌ سنیما نے انھیں‌ سنجیدہ اور مزاحیہ کرداروں‌ میں ہمیشہ پسند کیا اور ان کی اداکاری کو سراہا۔

اوم پوری نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا ”اس حقیقت سے قطع نظر کہ میرے کیا حالات تھے، میں چھ سو روپے ماہوار کمانے سے کچھ بہتر کر سکتا تھا۔“

جواں جذبوں کے حامل اداکار نے جب یہ ٹھان لی کہ انہوں نے اداکاری کرنی ہے تو دہلی کا رُخ کیا اور نیشنل سکول آف ڈراما (این ایس ڈی) میں تین سال کے کورس میں داخلہ لے لیا۔ یہ سفر مگر آسان نہیں ہونے والا تھا۔ چیچک کی وجہ سے اُن کے چہرے کے خدوحال اداکار بننے کے لیے موزوں نہیں تھے مگر وہ جانتے تھے کہ اداکاری ہی کرنی ہے تو ان کا یہ جنون ان کے لیے راستے ہموار کرتا چلا گیا۔

طالبِ علمی کے دور میں ہی انہیں نصیر الدین شاہ جیسا رفیق مل گیا تھا جو وقت کی دھوپ چھاؤں اور حالات و حوادث کے تھپیڑوں میں ہمیشہ شریک بنا رہا۔ نصیر اور اوم پوری دونوں ہی اس چاکلیٹی چہرے سے محروم تھے جسے ہیرو بننے کے لئے جزو لازم سمجھ لیا گیا تھا۔ کچھ لوگوں نے تو کہا بھی کہ دو بہت بد شکل لوگ ہیرو بننے آئے ہیں۔ نصیر اور اوم پوری نے فلمی دنیا میں کامیابی کے لئے برسوں سے روندی جا رہی راہ پر چلنا پسند نہیں کیا اور اپنی الگ راہ بنائی۔ آرٹ فلموں کی شکل میں بھارتی ناظرین کو وہ فلمیں دیکھنے کا موقع ملا جس میں ان کے خواب کی نہیں بلکہ ان کے آس پاس کی حقیقی زندگی کا عکس زیادہ تھا۔ ان فلموں میں اوم پوری کا کردار ایسا رچ بس گیا کہ ایک زمانے میں آرٹ فلم بنانے والا نصیر الدین شاہ، اوم پوری، شبانہ اعظمی اور سمیتا پاٹل میں سے کسی کو سائن کرنے کی تاک میں رہتا تھا۔

نصیرالدین شاہ کی این ایس ڈی میں ہی اُن کے قریبی دوست اوم پوری سے پہلی بار ملاقات ہوئی۔ انہوں نے اداکار کو اپنی شخصیت کے برعکس بہت زیادہ ’خام، بے چین، شرمیلا، اپنی ذات میں مقید رہنے والا اور عدم تحفظ کا شکار‘ پایا۔ نصیرالدین شاہ علیگڑھ یونیورسٹی میں اسٹیج کے ہیرو تھے اور ان کا این ایس ڈی تک کا سفر اعتماد سے بھرپور تھا۔ لیکن جب دونوں نے این ایس ڈی سے تعلیم مکمل کی تو نصیرالدین شاہ پر ادراک ہوا کہ ان تین برسوں میں اوم پوری میں کس قدر بہتری آئی تھی

یہ ورسٹائل اداکار 18 اکتوبر 1950 کو ہریانہ کے شہر انبالہ کے ایک ہندو پنجابی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کی تاریخِ پیدائش کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔ ان کی پیدائش کا سرکاری طور پر اندراج نہیں کروایا گیا تھا تو اس لیے ان کے والدین ان کی تاریخِ پیدائش کے حوالے سے پریقین نہیں تھے۔ ان کی والدہ سے ان کو صرف یہ معلوم ہو سکا کہ وہ سال 1950 میں ہندو تہوار دسہرہ کے دو روز بعد پیدا ہوئے تھے۔

ان کے ماموں نے جب ان کا داخلہ اسکول میں کروایا تو اسکول کے ریکارڈ میں اُن کی تاریخِ پیدائش 9 مارچ 1950 لکھی مگر اوم پوری نے نوجوانی میں اپنی تاریخ جاننے کے لیے سب سے پہلے تو 1950 میں دسہرہ کے تہوار کی تاریخ کے بارے میں معلوم کیا، جس کے بعد انہوں نے اپنی تاریخِ پیدائش سرکاری طور پر 18 اکتوبر کر لی۔

وہ بولی وڈ کے ان فن کاروں‌ میں‌ شامل تھے جنھیں‌ پاکستان آنے کا بھی موقع ملا اور یہاں‌ انہوں‌ نے فلموں‌ میں‌ کام کیا۔ اوم پوری نے پاکستانی فلم ‘ایکٹر ان لا’ میں فہد مصطفیٰ کے والد کا کردار ادا کیا تھا۔ آنجہانی اوم پوری نے برطانوی اور ہالی وڈ فلموں میں بھی کام کیا۔ اوم پوری کا شمار ان اداکاروں میں ہوتا ہے جو پاکستان اور بھارت کے درمیان خوش گوار تعلقات قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے رہے۔ وہ کہتے تھے کہ دونوں ممالک کو غربت کے خلاف جنگ لڑنا چاہیے۔

اوم پوری مارچ 2014 میں پنجابی کھیل ’تیری امریتا‘ پرفارم کرنے کے لیے اپنی اہلیہ نندیتا پوری (جن سے بعدازاں ان کی علیحدگی ہو گئی تھی) اور اداکارہ دیویا دتا کے ساتھ لاہور آئے تو پاکستانی صحافی علی عباس کو دیے گئے ایک تفصیلی انٹرویو میں انہوں نے اپنے بچپن کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا تھا ”میں جب چھ برس کا ہوا تو مجھے پٹیالہ کے قریب گاؤں سنیور میں اپنے ماماجی کے پاس رہنے کے لیے بھیج دیا گیا جہاں پر میں نے آٹھویں جماعت تک مقامی اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ اس دوران میرے پِتا جی اور ماما جی میں جھگڑا ہو گیا تو ماما جی نے مجھے گھر سے نکال دیا۔ لیکن میں نے والد صاحب کو انکار کر دیا کہ میَں واپس لدھیانہ نہیں جاؤں گا۔ ان دنوں والد کا تبادلہ لدھیانہ ہو چکا تھا۔“

اوم پوری اُن دنوں ہی ’پنجاب کلا منچ‘ نامی تھیٹر گروپ سے وابستہ ہو گئے جس کے کرتا دھرتا ہرپال ٹوانہ، ان کی اہلیہ نینا ٹوانہ اور کپل تھے اور یہ سب ہی نیشنل اسکول آف ڈراما سے فارغ التحصل تھے۔

اوم پوری نے انٹرویو میں کہا تھا ”مجھے تب ہی اس ادارے کے بارے میں معلوم ہوا۔ چنانچہ میں نے نیشنل اسکول آف ڈراما میں داخلہ لے لیا۔“

نیشنل اسکول آف ڈراما میں اوم پوری کے اساتذہ میں سے ایک ابراہیم القاضی بھی تھے جو ہندوستان میں تھیٹر کی دیومالائی شخصیات میں سے ایک ہیں۔

آن لائن پلیٹ فارم ’وومن داستان گوز‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق ابراہیم القاضی اپنے اداکاروں سے یہ چاہتے تھے کہ وہ کلاسیکی سنسکرت تھیٹر اور مغربی موسیقی میں تربیت حاصل کریں، وہ جدید انڈین کلاسیکی تھیٹر کے علاوہ عظیم یورپی تھیٹر میں بھی درک حاصل کریں۔‘

نیشنل اسکول آف ڈراما سے فارغ ہونے کے بعد اپنے دوست اور ساتھی اداکار نصیرالدین شاہ کے کہنے پر اوم پوری نے پونے کے فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹیٹیوٹ (ایف ٹی آئی آئی) کا رُخ کیا۔

نصیرالدین شاہ نے ’ٹائمز آف انڈیا‘ کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا ”اوم پوری کے پاس کوئی مناسب شرٹ نہیں تھی جو وہ زیبِ تن کر کے ایف ٹی آئی آئی جاتے۔ وہ ایف ٹی آئی آئی میں اپنی تعلیم سے مایوس ہو گئے تھے اور ان کے لیے ٹیوشن فیس ادا کرنا مشکل ہو گیا تھا، وہ جب مشہور ہو گئے تو ان پر ادارے کا 260 روپے اُدھار واجب الادا تھا جو انہوں نے اس لیے ادا کرنے سے انکار کر دیا کہ ادارے کا مقروض ہونے میں بھی ایک الگ ہی طرح کا ’مزاح کن‘ لطف ہے۔“

سال 1976 میں اوم پوری کو بچوں کی فلم ’چور چور چھپ جا‘ کے ذریعے اپنی فنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملا جس کے بعد اوم پوری کے لیے فلم نگری کے بند دروازے کھلتے چلے گئے۔ انہوں نے اسی برس مراٹھی فلم ’گھاشی رام کوتوال‘ کے ذریعے ڈبیو کیا جو عظیم ڈراما نگار وجے ٹندولکر کے مراٹھی ڈرامے پر مبنی تھی۔ اس فلم کے ہدایت کار کے ہری ہرن اور منی کول تھے جنہوں نے ایف ٹی آئی آئی کے 16 فارغ التحصیل طالب علموں کے ساتھ مل کر یہ فلم بنائی تھی۔ منی کول بالی ووڈ کے رجحان ساز ہدایت کار تھے اور ان کی فلمیں ’دووِدھا‘ اور ’اُس کی روٹی‘ کا شمار بالی ووڈ کی کلاسیکی فلموں میں کیا جاتا ہے۔

یہ وہ عہد تھا جب امریش پوری، نصیرالدین شاہ، شبانہ اعظمی اور سمیتا پٹیل کی طرح کے اداکار متوازی سنیما کی روایت کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے تھے۔ اوم پوری بھی جلد ہی اس فہرست میں شامل ہو گئے اور انہوں نے اس دور میں ’بھومیکا‘، ’اروند ڈیسائی کی عجیب داستاں‘ اور ’البرٹ پنٹو کو غصہ کیوں آتا ہے‘ سمیت متعدد فلموں میں کام کیا مگر ان فلموں میں ان کے کردار ثانوی نوعیت کے تھے۔

سال 1980 میں ریلیز ہونے والی فلم ’آکروش‘ نے اداکار کو نئی پہچان دی۔ یہ بے مثل ہدایت کار گووند نہلانی کی بطور ہدایت کار پہلی فلم تھی جو اس سے قبل سنیما ٹو گرافر کے طور پر اپنی منفرد پہچان بنا چکے تھے۔ اس فلم کے بعد اوم پوری نے گووند نہلانی کی کئی فلموں میں اہم کردار ادا کیے جن پر بات کرنے سے قبل یہ بتاتے چلیں کہ اس فلم کو ناصرف اس سال کی بہترین ہندی فلم کا نیشنل ایوارڈ ملا بلکہ اس فلم نے پانچ فلم فیئر ایوارڈ بھی حاصل کیے اور اوم پوری کو بہترین معاون اداکار کا پہلا فلم فیئر ایوارڈ ملا۔

اوم پوری کی اسی برس پنجابی فلم ’چن پردیسی‘ ریلیز ہوئی۔ یہ کئی حوالوں سے ایک یادگار فلم ہے کیوں کہ یہ اوم پوری ہی نہیں بلکہ امریش پوری اور کلبھوشن کھربندا کی بھی پہلی پنجابی فلم تھی۔ اس فلم کے لیے محمد رفیع نے دو گیت جب کہ ایک گیت آشا بھوسلے نے گایا تھا۔

اوم پوری پنجابی فلم کے بعد لیجنڈ ہدایت کار کیتن مہتا کی گجراتی زبان کی فلم ’بھاونی بھوائی‘ میں بھی نظر آئے۔ اس فلم میں نصیرالدین اور سمیتا پٹیل نے بھی اہم کردار ادا کیے تھے۔
سال 1982 میں اوم پوری رچرڈ ایٹن برو کی ہالی ووڈ فلم ’گاندھی‘ میں مختصر کردار میں نظر آئے۔ یہ اُن کا عالمی سنیما میں سفر کا آغاز تھا۔

سال 1983 میں اوم پوری کی کئی یادگار فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں ’جانے بھی دو یارو‘، ’آروہن‘، ’اردھ ستیہ‘ اور ’منڈی‘ شامل ہیں۔

شیام بینیگل کے ساتھ فلم ’آروہن‘ میں اوم پوری نے بنگال کے ایک غریب کسان کا کردار ادا کیا۔ اس فلم پر ان کو بہترین اداکار کے نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا۔

گووند نہلانی کی فلم ’اردھ ستیہ‘ کے لیے اوم پوری کا انتخاب غلط نہیں تھا۔ اس فلم میں ان کے ساتھ سمیتا پٹیل بڑے پردے پر نظر آئیں۔ یہ پولیس سب انسپکٹر آننت کی کہانی ہے جو جرائم کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے سرگرم ہے مگر ہر بار شکست ہی اس کا مقدر ٹھہرتی ہے۔ اداکار نے اس فلم میں حقیقت کے قریب تر اداکاری کرتے ہوئے نفسیاتی کشمکش کا شکار ایک پولیس افسر کے جذبات کو یوں بڑے پردے پر پیش کیا کہ ان کا یہ کردار ہمیشہ کے لیے اَمر ہو گیا۔ اس فلم کے لیے وہ ایک بار پھر بہترین اداکار کا نیشنل ایوارڈ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

اداکار کی اس دور کی اہم فلموں میں ’پارٹی‘، ’Genesis‘ اور ’مرچ مسالہ‘ نمایاں ہیں۔ ’پارٹی‘ کے ہدایت کار گووند نہلانی تھے تو ’Genesis‘ ان چند ہندی فلموں میں سے ایک ہے جس کی ہدایت کاری انڈیا کے عظیم بنگالی ہدایت کار مرینل سین نے دی تھی۔ اُن کی بطور ہدایت دیگر دو ہندی فلموں میں ‘اک دن اچانک‘ اور ’کھنڈر‘ شامل ہیں۔

فلم ’Genesis‘ میں اوم پوری کے ساتھ نصیرالدین شاہ اور شبانہ اعظمی نے اہم کردار دا کیے۔ اس فلم کو دیکھنے کے بعد اگر اوم پوری اور نصیرالدین شاہ کی اداکاری کا موازنہ کیا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اوم پوری اپنے دوست سے کہیں بہتر اداکار تھے اور کردار میں یوں ڈھل جاتے تھے کہ ان کو کردار سے الگ کرنا مشکل ہو جاتا تھا۔ یہ ذکر کرنا بھی ازبس ضروری ہے کہ اوم پوری اور نصیرالدین شاہ 26 فلموں میں ایک ساتھ نظر آئے۔

ہدایت کار کیتن مہتا کی ’مرچ مسالہ‘ بالی وڈ کی اتہاسک فلموں میں سے ایک ہے جس میں ابو میاں کا کردار اوم پوری نے ادا کیا تھا جو فیکٹری کے کارکنوں کو سکیورٹی فراہم کرنے کی اپنی ذمہ داری ادا کرنے پر کسی طور کمپرومائز کرنے پر تیار نہیں۔ اس فلم میں وہ اگرچہ مرکزی کردار میں نظر نہیں آئے مگر ان کی اداکاری نے اپنی چھاپ ضرور چھوڑی۔

اوم پوری بہت سی فلموں میں غیرروایتی کرداروں میں نظر آئے جیسا کہ ’آکروش‘ میں انہوں نے ایک ظلم کا شکار ہونے والے قبائلی کا کردار ادا کیا تو فلم ’ڈسکو ڈانسر‘ میں جمی کے منیجر کے روپ میں نظر آئے، ’اردھ ستیہ‘ میں پولیس انسپکٹر کا یادگار کردار ادا کیا تو ’ماچس‘ میں سکھ عسکریت پسند سناتن کے روپ میں دِکھے۔

گزشتہ ہزاریے کی آخری دہائی میں متوازی سنیما کے بہت سے اداکاروں نے کمرشل سنیما کا رُخ کیا جن میں اوم پوری بھی شامل تھے۔ انہوں نے اس بارے میں پاکستانی صحافی علی عباس کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں کہا تھا ”حقیقت یہ ہے کہ آرٹ سنیما بننا بند ہو گیا۔ اب بھی اگر کوئی آرٹ فلم بنتی ہے تو ضرور کام کرتا ہوں۔ گووند نہلانی نے میرے اور امیتابھ بچن کے ساتھ فلم ’دیو‘ بنائی۔ اس وقت بھی کمرشل سنیما کر رہا تھا۔ بعدازاں نہلانی جی کی ٹیلی فلم ’تمس‘ اور اسی طرح متوازی سنیما کی ایک اور فلم ’دھوپ‘ میں کام کیا۔ حال ہی میں پرکاش جھا کی فلم ’چکراویو‘ میں اداکاری کی۔ آئندہ بھی جب کبھی موقع ملا، آرٹ فلموں میں کام کروں گا۔“

اوم پوری نے اگرچہ ہندی، پنجابی سمیت انڈیا کی دوسری علاقائی زبانوں کی فلموں میں بھی کام کیا مگر اُن کو عالمی سطح پر اس وقت شہرت حاصل ہوئی، جب انہوں نے سال 1997 میں برطانوی فلم ’The Son of Fanatic‘ میں کام کیا جس کے بعد مزید برطانوی فلموں میں اہم کرداروں میں نظر آئے جن میں ’ایسٹ اِز ایسٹ‘ اور ’دی پیرول آفیسر‘ شامل ہیں۔

’ایسٹ اِز ایسٹ‘ ایک مزاحیہ ڈرامائی فلم تھی جس میں اوم پوری نے پہلی نسل کے پاکستانی برطانوی ظاہر جارج خان کا کردار ادا کیا تھا جو 1937 سے برطانیہ میں مقیم ہیں اور انہوں نے پاکستان میں بھی شادی کر رکھی ہے۔ برطانیہ میں ان کی دوسری بیوی ایلا خان رومن کیتھولک ہیں اور ان کے سات بچے ہیں جس میں تہذیب کے اس تصادم کو دکھایا گیا ہے، جس پر اکثر پردہ ڈال دیا ہے، جیسا کہ اس فلم میں ہوا کہ جارج کے بچوں کی پرورش چوں کہ برطانیہ میں ہوئی ہے تو وہ برطانوی طرز زندگی سے دور نہیں ہونا چاہتے۔ اس فلم کو ناصرف ناقدین نے سراہا بلکہ یہ باکس آفس پر بھی کامیاب رہی۔

اوم پوری ہالی وڈ میں بھی گہرا اثر چھوڑنے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے اگرچہ ’گاندھی‘ میں مختصر کردار ادا کیا تھا مگر بعدازاں ’سٹی آف جوائے‘، ’وولف‘ اور ’دی گھوسٹ اینڈ دی ڈارک نیس‘ میں اہم کرداروں میں نظر آئے۔

سال 2007 میں اوم پوری فلم ’چارلی ولسنز وار‘ میں نظر آئے جس میں انہوں نے سابق پاکستانی صدر ضیا الحق کا کردار ادا کیا تھا۔
آگے بڑھنے سے قبل کچھ ذکر ہدایت کار گووند نہلانی کی ٹیلی فلم ’تمس‘ کا ہو جائے جس میں اداکار نے حقیقت کے قریب تر پرفارمنس سے ’چمار نتھو‘ کے کردار کو امر کر دیا۔ اس فلم کی کہانی راولپنڈی کے بھیشم ساہنی کے ناول سے مستعار لی گئی تھی۔

کہا جاتا ہے کہ گووند نہلانی یہ فلم پنجاب (پاکستان) میں شوٹ کرنا چاہتے تھے مگر دونوں ملکوں کے سیاسی حالات کی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا۔

اوم پوری افیئرز سے تو دور رہے مگر محبت کے جذبے کو خود پر غالب آنے سے نہیں روک سکے۔ انہوں نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ ’ہر ایک کے جیون میں رومان کا خانہ موجود ہوتا ہے، ظاہر ہے کہ میری زندگی میں بھی رہا لیکن میں چوں کہ بچپن میں شرمیلا تھا تو مجھے اپنے شرمیلے پن پر قابو پانے میں 30 برس لگ گئے جس کے باعث کوئی افیئر نہیں ہوا۔ کوئی افیئر اگر ہوا بھی تو وہ خاموش محبت کی مانند تھا، لیکن اسے حسنِ اتفاق کہیے کہ میری دونوں شادیاں لَوّ میرج تھیں۔‘

اوم پوری کی پہلی شادی سیما کپور سے ہوئی جو چند ماہ ہی چل سکی۔ سیما کپور معروف بالی وڈ اداکار اور گلوکار انوکپور اور ہدایت کار رنجیت کپور کی بہن ہیں۔ سیما کے والد لاہور کے دیال سنگھ کالج سے فارغ التحصیل تھے۔

اداکار نے دوسری شادی اداکارہ نندیتا پوری سے کی جنہوں نے ان کی سوانح عمری بھی لکھی جس میں کچھ ایسے واقعات کا ذکر موجود ہے جس سے جوڑے میں کشیدگی پیدا ہوئی تاہم اداکار کی موت سے کچھ عرصہ قبل دونوں میں اختلافات اس قدر بڑھے کہ وہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔

اوم پوری نے اگرچہ اپنے فلمی کیریئر کے دوران زیادہ تر سنجیدہ کردار ہی ادا کیے مگر انہوں نے ’چاچی 420‘، ’ہیرا پھری‘، ’چور مچائے شور‘، ’مالا مال ویکلی‘ سمیت کئی کامیڈی فلموں میں بھی کام کیا اور اپنے بے ساختہ پن اور برجستگی سے فلم بینوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیری۔

اوم پوری پنجابی تھے، تو پنجابی سنیما سے دور رہنا ان کے لیے آسان نہیں تھا چنانچہ انہوں نے کچھ پنجابی آرٹ فلموں جیسا کہ ’باغی‘،‘چن پردیسی‘ اور ’لونگ دا لشکارا‘ میں کام کیا جو آج برسوں گزر جانے کے بعد بھی فلم بینوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں۔

خیال رہے کہ اوم پوری نے پاکستانی فلم ’ایکٹر ان لا‘ میں اہم کردار ادا کیا تھا جو سال 2016 میں ان کی وفات سے کچھ عرصہ قبل ہی ریلیز ہوئی تھی۔

عالمی سنیما کے اس عظیم اداکار کی موت سے قبل وہ اس وقت تنازع کا شکار ہو گئے جب کشمیر کے اُڑی سیکٹر پر ایک فوجی کیمپ پر حملے میں انڈین فوجیوں کی ہلاکت کے بعد پاکستانی اداکاروں اور گلوکاروں کے انڈیا میں کام کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

اداکار نے اس حوالے سے ایک انڈین چینل پر ہونے والے مباحثے میں ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’کس نے ان سے کہا کہ فوج میں بھرتی ہوں‘ کس نے ان سے کہا کہ بندوق اُٹھائیں؟
انہوں نے اور ایک اور سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ انڈیا اور پاکستان اسرائیل اور فلسطین بن جائیں اور صدیوں تک لڑتے رہیں۔‘

انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’یہ صرف ایک ملک کی تقسیم نہیں تھی، اس میں خاندان تقسیم ہو گئے تھے۔ ہمارے ملک میں 22 کروڑ مسلمان ہیں اور ان کی وہاں رشتے داریاں ہیں۔‘

انہوں نے اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ تک کہہ ڈالا کہ ’مودی جی کے پاس جائیے اور ان (پاکستانی فنکاروں) کا ویزا منسوخ کروا دیجیے۔ 15-20 لوگوں کو خودکش بمبار کے طور پر تیار کیجیے اور بھیج دیجیے پاکستان۔‘
اداکار کے ان بیانات کے بعد ناصرف ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرنے کے لیے بمبئی کے اندھیری پولیس اسٹیشن میں درخواست دی گئی بلکہ سوشل میڈیا پر بھی اُن کو زبردست تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

اوم پوری اپنی ان باتوں کی وجہ سے انڈیا میں ’غدارِ وطن‘ قرار پائے اور سماجی تنہائی کا شکار ہو گئے۔ کچھ ہی عرصہ بعد جب چھ جنوری 2017 کو اس لیجنڈ اداکار کی اپنے گھر پر ہارٹ اٹیک سے موت ہوئی تو ان کے مداح اس خبر پر یقین کرنے پر تیار نہیں تھے، جس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے سر پر چوٹ کا نشان تھا۔

اوم پوری اُن معدودے چند انڈین اداکاروں میں سے ایک ہیں جنہیں برطانوی فلم انڈسٹری کے لیے غیرمعمولی خدمات انجام دینے پر سال 2004 میں ‘آرڈر آف دی برٹش امپائر‘ (او بی ای) کے اعزاز سے نوازا گیا جب کہ اکادمی ایوارڈز کی 89 ویں تقریب میں عالمی سنیما کے لیے ان کی خدمات کو سراہا گیا۔

اس غلط فہمی کا ازالہ کرنا بہرحال ضروری ہے کہ اوم پوری کے ہم عصر لیجنڈ اداکار امریش پوری کا اُن سے کوئی رشتہ ہے کیوں کہ اکثر دونوں اداکاروں کو بھائی قرار دے دیا جاتا ہے جو غلط ہے۔
اوم پوری کے صاحب زادے ایشان پوری بزنس گریجویٹ ہیں مگر وہ اداکاری میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں اور اپنے والد اوم پوری کو اپنا اولین استاد مانتے ہیں۔

اوم پوری آج بھی نتھو چمار اور ایسے ہی لاتعداد کرداروں کے ذریعے وہ فلم بینوں کے دِلوں میں بستے ہیں۔ چائے کے ڈھابے سے ہالی ووڈ تک کا سفر آسان نہیں تھا مگر یہ جواں جذبوں کی کہانی ہے جس نے انبالہ کے چائے بیچنے والے اس بچے کو ’اوم پوری‘ بنا دیا، جو اپنی فلموں کے ذریعے آج بھی جیتا جاگتا، سانس لیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

اوم پوری نے اپنی فلموں میں دو چیزوں کی عکاسی کی۔ پہلی عام انسانی زندگی کے مسائل اور دوسری نظام کی خرابیوں کے خلاف عوام کا غصہ۔ چاہے وہ اردھ ستیہ کا فرض شناس پولیس افسر یا پھر مرچ مصالحہ کا چوکیدار، یہ کردار وہ تھے جن میں عام لوگ اپنا عکس دیکھتے تھے۔ متوازی سنیما کی دنیا پر طویل عرصے تک گہرے نقوش ثبت کرنے کے بعد اوم پوری نے تفریحی سنیما میں بھی کامیاب اور طویل دور گزارا۔ یہ اعزاز دنیا میں بہت کم کے حصے میں آیا ہے کہ کوئی اداکار بیک وقت متوازی سنیما اور تفریحی سنیما دونوں میں یکساں طور پر مقبول ہوا ہو۔

اوم پوری کی ہمہ جہت صلاحیتوں کو دیکھا جائے تو حیرت ہوتی ہے۔ اردھ ستیہ کے اس فرض شناس پولیس والے کو یاد کیجئے جس کے چہرے پر نظام کی خرابیوں کا غصہ ہے اور پھر چپ چپ کے کے اس گجراتی دولت مند کو یاد کیجئے جس کی ایک ایک ادا میں مزاح اور موج کا رنگ ہے۔ ڈرٹی پالیٹیکس کے رنگیلے بوڑھے سیاست داں کو یاد کیجئے۔ آن کے پولیس کمشنر کو یاد کیجئے جس میں سنجیدگی اور تحمل ہے اور پھر بلو باربر کے اس مالدار دیہاتی کو یاد کیجئے جو اپنی دولت کے سبب بڑے سوپر اسٹار سے ملنے کا متمنی ہے۔ ہر جگہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اوم پوری اسی کردار کو سب سے بہتر طریقے سے نبھا رہے ہیں۔

اوم پوری نے بھارتی سنیما کے بارے میں پہلے سے چلی آ رہی کچھ روایات اور تصورات کو توڑا۔ پہلا یہ کہ فلمی دنیا میں کامیاب اداکاری کے لئے چہرہ مہرہ اور ظاہری خوبصورتی معنی رکھتی ہے۔ دوسرا یہ کہ یا تو کوئی آرٹ فلموں میں کامیاب ہو سکتا ہے یا پھر تفریحی فلموں میں۔ تیسرا یہ کہ آرٹ فلموں کے ہیرو کا فلمی سفر چند ایک فلموں کے بعد ختم ہو جاتا ہے۔ اوم پوری نے ایک کے بعد ایک کامیاب آرٹ فلمیں دیں، اس کے بعد تفریحی فلموں میں ایک طویل باری کھیلی۔ پہلے سنجیدہ کردار ادا کئے، پھر دیگر کردار اور پھر مزاحیہ اداکار کے طور پر مقبولیت پائی۔ وہ ان باصلاحیت اداکاروں کے لئے زندہ مثال تھے جن کے پاس گوری کھال نہیں لیکن اداکاری کا ہنر ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close