پھسلتے ہوئے چہرے

ولیم سیمسن (ترجمہ: ڈاکٹر انعام الحق جاوید)

اگر یہ بات اصولی طور پر تسلیم کر لی جائے کہ محبت کرنا، محبت کیے جانے سے بہتر ہے تو اس کا مطلب ہوا کہ کامیاب ترین قسم کی محبت وہ ہے جس کی جوابی کارروائی کی کوئی توقع ہو نہ امید، یعنی یک طرفہ محبت۔۔ اور پھر بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اس سے مزید استخراج یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ ہماری محبت کے لطیف ترین جذبات صرف ایسے چہروں کے لیے ہونے چاہئیں، جن سے ہماری کبھی ملاقات ہی نہ ہو سکتی ہو یا ہم ان سے گفتگو نہ کر سکتے ہوں۔ بازار سے گزرتی ہوئی مناسب خدوخال والی لڑکی کا وہ خوبصورت چہرہ جو ایک جھلک دکھا کر بھیڑ میں گم ہو جاتا ہے یا ریلوے اسٹیشن پر کھڑی گاڑی کی کھڑکی سے جھانکنے والی لڑکی یا بس کے سفر میں برابر والی سیٹ پر بیٹھی ہوئی کسی نو خیز کلی کا عکس ذہنوں پر مرتسم ہو کر رہ جاتا ہے جس کے پارہ پارہ بدن سے بجلیاں چمک رہی ہوتی ہیں لیکن افسوس کہ اس سے کوئی بات نہیں ہو سکتی، چند منٹ میں بس اسٹاپ آ جائے گا اور وہ اُتر کر کہیں کھو جائے گی، وہ آنکھیں دوبارہ نہیں آئیں گی، وہ چہرہ بھی اور وہ بدن بھی دکھائی نہ دے گا۔۔ کبھی دکھائی نہ دے گا۔۔۔

وہ بھی یقیناً ایک ایسی ہی اچانک ملاقات تھی، جس نے ہیری کی کہانی کو جنم دیا لیکن اس فرق کے ساتھ کہ ہیری نے اس لڑکی کو یخ بستہ فضاؤں میں برف پر سکیٹنگ کرتے ہوئے دیکھا تھا اور پھسلتی ہوئی اس لڑکی کی جھلک دیکھتے ہی وہ خود بھی پھسل گیا تھا۔

یہ اوائل جنوری کی خنک دو پہر تھی، جب ہیری سیر ِتنہائی سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ ہاگا کے علاتے میں سفید قالینوں نے زمین کو پوری طرح ڈھانپ رکھا تھا اور ہر طرف نوجوانوں کے گروہ لکڑی کے لمبے جوتے پہنے مناسب ڈھلوانوں پر اسکیٹنگ میں مشغول تھے۔ سورج دن کا طویل سفر طے کرنے کے بعد اب خاصا تھک چکا تھا اور دور افق کے دامن میں شب بسری کے لیے مناسب جگہ تلاش کر رہا تھا۔ نوجوان لڑکے اور من چلی لڑکیاں اس ابدی توانائی کی آخری کرنوں سے زندگی کی خوشیاں نچوڑتے ہوئے ہنسی خوشی اپنے اپنے کھیل میں مصروف تھیں۔ ہیری بھی ان کھلی فضاؤں میں گہرے گہرے سانس لیتا ہوا آہستہ آہستہ ٹہل رہا تھا۔ گردن گھما کر سورج کی جانب آخری مرتبہ دیکھتے ہوئے ہیری نے سوچا کہ زمین پر تمام رنگ روشنی کے دم کرم سے ہیں اور پھر اسے محسوس ہوا کہ لوگ بھی انسان نہیں بلکہ چلتے پھرتے سائے ہیں جو سورج غروب ہوتے ہی اپنے اپنے سایوں کی طرح غائب ہو جائیں گے۔

نگاہیں نیچی کیے ہیری ابھی انہی خیالات میں مگن تھا کہ اچانک اسے اپنے قدموں میں ایک اجنبی سا سایہ دکھائی دیا اور پھر یہ سایہ اس کے اپنے سائے کے متوازی تیز تیز آگے کی جانب دوڑنے لگا۔ ہیری لمحے بھر کو چونکا اور اس نے مڑ کر سورج دیوتا کی جانب دیکھا جو اس کی پشت پر تھا اور اپنی زرتشتی روشنی سے ایک سائے کو آگے کی جانب دھکیل رہا تھا۔ ہیری کی نگاہیں پل بھر کو اس سائے کی مالکہ کی نظروں سے ٹکرائیں اور ابھی وہ اس لمحے سے پوری طرح حظ اندوز بھی نہ ہو پایا تھا کہ خوب صورت چہرہ اس کی نگاہوں سے پھسل مسل کر اس کے شعور کی حدوں کو چھونے لگا۔

سکیٹنگ بھی عجیب دلچسپ کھیل ہے۔ بعض اوقات تو اسکیٹر سلوموشن میں اپنی ٹانگوں کو حرکت دیتا ہے لیکن اکثر اوقات لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے ہوا ہو جاتا ہے۔ ہیری نے بھی آگے نکل جانے والے نسوانی سائے کے تعاقب میں اپنی رفتار تیز کر دی لیکن آہ بیچارہ ہیری! جسے بس کے سفر کا بھی کوئی خاص تجربہ نہ تھا، اسکیٹنگ کے پیچیدہ عمل سے کیسے واقف ہو سکتا تھا۔ اس ایک لمحے کے انمٹ نقوش، اُس کے ذہن پر ثبت ہو چکے تھے اور اب وہ دیدار کی بجائے حسرتِ دیدار کا مرقع بنا کھڑا تھا۔

جذب ہوتے ہوئے سایوں کے عکس اس کی نگاہوں میں آہستہ آہستہ دھندلانے لگے اور اس کے تپتے ہوئے جسم سے نکلنے والی ٹھنڈی آہیں خنک موسم سے ہمکنار ہونے لگیں۔

وہ کیا شے تھی جو ابھی ابھی اُس کے قریب سے گزری تھی۔ حسنِ مجّسم، تصورات کی دیوی، اس کے علاوہ اور کوئی لفظ صحیح مفہوم ادا نہیں کر سکتا۔ اس کے ہونٹ، آنکھیں، پیشانی، بال بلکہ جسم کے تمام اعضا ہی تکمیل کی آخری حدوں کو چھو رہے تھے۔ اس نے سوچا کیا اس کی نظریں آرٹ کے اس نادر نمونے کو پھر کبھی نہ چھو سکیں گی۔ کیا تمام عمر بس اسی عکس پر گزارا کرنا پڑے گا جو اس کے ذہن پر مرتسم ہو چکا ہے۔

سوچتے سوچتے اسے ایک شدید دھچکا لگا، مایوسی کے عالم میں اس نے اپنے ارد گرد کے ماحول پر ایک اچٹتی سی نگاہ ڈالی، وہ کب کی گزر چکی ہے اور وہ کب کا یہاں کھڑا ہے، اُسے کچھ یاد نہ تھا۔

خوف کے پھیلتے ہوئے سائے ہیری کی سوچوں کو منجمد کرنے لگے اور اگلے لمحے اُس نے اپنے قدموں کو متحرک محسوس کیا۔ اس نے نیم شعوری حالت میں اس برفانی علاقے کو خدا حافظ کہا اور واپسی کا سفر اختیار کیا۔ ہوٹل کے کمرے میں پہنچ کر بھی اس کے تذبذب میں کمی نہ آسکی۔ احساس شدید تھا اور جذ بہ سچا۔ کبھی وہ اپنے کمرے کی تمام روشنیاں گل کر دیتا اور کبھی اسے بقعٔہ نور بنا دیتا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کرے۔ تنگ آ کر اس نے پرانی وضع کے ایک ایسے ریسٹورنٹ میں جانے کا ارادہ کیا جو اپنی گونا گوں رنگینیوں کے باعث خاصا مشہور تھا۔

ریسٹورنٹ کے بڑے ہال میں مختلف الاقسام میزوں پر مختلف النوع جوڑے راز و نیاز میں مصروف تھے۔ اس نے بھی اپنے لیے خالی میز کا انتخاب کیا اور آرکسٹرا کی مدھم سروں سے وقت کی رفتار ماپنے لگا۔ سفید وردیوں میں ملبوس بیروں کی ایک ٹیم پورے ہال میں پھیلی ہوئی تھی۔ ان میں سے چند بیروں نے اُس کی میز کا رخ کیا تو اُسے یوں محسوس ہوا جیسے روحیں کفن پہن کر اس کی جانب بڑھ رہی ہیں۔

ساتھ والے میز پر بیٹھا ہوا بوڑھا جوڑا ایامِ جوانی کی یادداشتیں بآواز بلند دہرا رہا تھا۔ گاہے گاہے کھوکھلے قہقہوں اور کھسیانی ہنسی کی آوازیں بھی اس کی سماعت سے آ ٹکراتیں، لیکن ان سب رنگینیوں کے با وصف، وہ تنہا تھا۔ بالکل تنہا اور خالی۔۔ اپنے من کے مندر میں مگن۔۔۔

بنیادی طور پر وہ رومانوی مزاج کا حامل تو نہیں تھا لیکن آج اسے یہ کیا ہو گیا تھا۔ وہ خود بھی حیران تھا۔ شاعرانہ تخیلات اس کی سوچوں کو مہمیز لگا رہے تھے اور وہ نیلی آنکھوں ۔۔۔ دراز پلکوں والی اس لڑکی کے بارے میں مسلسل سوچے چلا جارہا تھا، جس کا دھنک رنگ عکس اس کی نگاہوں کی پتلیوں میں ابھی تک رقصاں تھا۔ ’اس لڑکی نے مجھے حسن کا ایک زندہ معیار دے کر تمام عمر کے لیے حسین لڑکیوں سے محروم کر دیا ہے۔ بلا شبہ تکمیلِ حسن کا دعوٰی اُسے ہی زیب دیتا ہے۔ دنیا کی کوئی اور لڑکی اس دعوے کی دلیل فراہم نہیں کر سکتی۔ میرے خدا! اب میں کیا کروں۔ کاش میں ہاگا کے علاقے میں نہ گیا ہوتا!!‘

پکّی عمر کا ہیری ان سب توہمات کے باوجود نا امید ہرگز نہیں تھا۔ عورت ایک ایسی منزل ہے جس کو پانے کے لیے مرد تمام عمر مسافر بنا رہتا ہے ’شاید وہ بھی کل صبح کی ٹرین سے مالم جا رہی ہو۔‘ اس کے ذہن نے مفروضے گھڑنے شروع کر دیے، ’تاہم یہ طے ہے کہ میں کل صبح مالم ضرور روانہ ہو جاؤں گا اور اب بقایا زندگی۔۔ یقیناً اس کے تصور میں گزرے گی۔‘

دو پہر کو جب گاڑی نارنگ کے پرانے سے بے رونق ریلوے اسٹیشن پر رُکی تو مسافروں میں ایک ہلچل سی مچ گئی۔ کوئی سوار ہو رہا تھا تو کوئی اپنا سامان اُتارے لیے جا رہا تھا۔ ریلوے کینٹین کے ملازم مسافروں کو ان کی مرضی کے کھانے فراہم کر کے اپنی مرضی کے دام وصول کرنے میں مشغول تھے۔ ہیری کو بھوک تو نہیں تھی تاہم لنچ کے نام پر تھوڑا بہت کھا لینے میں کچھ حرج نہ تھا۔ اس نے کھانا منگوایا اور چند لقمے حلق میں دھکیل کر واپس کر دیا۔ گارڈ نے وِسل دی اور گاڑی آہنی سڑک پر آہستہ آہستہ رینگنے لگی۔ ہرے بھرے کھیتوں کے پاس کھڑے ہوئے چند دیہاتی لڑکے ہاتھ ہلا ہلا کر مسافروں کو الوداع کہہ رہے تھے۔ انھیں دیکھنے والے مسافر بھی جواباً اپنے ہاتھوں کو ہوا میں لہرانے لگے۔ ہیری نے زانوؤں پر پڑے ہوئے اپنے ہاتھوں کو بے بسی کے عالم میں دیکھا اور سوچا ان ہاتھوں کو کیا ہو گیا ہے۔ الوداع کہنے والوں کے جواب میں یہ ہاتھ کیوں نہیں اٹھے۔ ’یقیناً اب مجھے کچھ کرنا ہی پڑے گا۔ اپنے آپ کو جگانے کے لیے اپنے جسم سے انتقام لینا ہوگا۔ آئندہ سے شراب کی مقدار میں اضافہ تیز، کام کم اور خرچ زیادہ۔ ایسے ہے تو ایسے ہی سہی اور یہ منشور اسی لمحے سے نافذ العمل ہوگا‘ اس نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔

ان سنہری اصولوں پر عمل کرنے سے عادت میں کچھ تبدیلیاں تو آئیں گی مگر یہ تبدیلیاں مثبت ہوں گی اور زندگی کا سفر خوب سے خراب کی طرف نہیں خوب سے خوب تر کی طرف ہوگا۔

ابھی وہ نئے پروگرام کی پہلی ممکن العمل آئٹم کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا کہ ڈبے میں ایک فقیر داخل ہوا اور خیرات کے عوض من کی مرادیں تقسیم کرنے لگا۔ ہیری نے اپنے پروگرام کے آخری حصے ’خرچ زیادہ‘ کے پیشِ نظر پینٹ کی داہنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور جو کچھ ہاتھ لگا، وہ فقیر کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ فقیر نے پیسے سمیٹ کر دعاؤں کی ایک طویل فہرست ہیری کے سپرد کی اور زیادہ دیر ٹھہرنا مناسب نہ سمجھا۔

ہیری اب اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا لیکن چند ہی لمحوں بعد جب گاڑی اسٹیشن پر رکی تو اس کی طبیعت پھر خراب ہونے لگی۔ وہ اسٹیشن پر اتر گیا اور شہر جا کر اپنے چند پرانے دوستوں سے ملا، جنھوں نے اسے اس حالت میں دیکھا تو مصنوعی ذرائع سے خوش کرنے کی کوشش کرنے لگے اور وہ بظاہر خوش نظر آنے لگا۔

پرانے دوستوں سے مل کر کسے خوشی نہیں ہوتی لیکن اندرونی طور پر وہ بالکل نروس ہو چکا تھا اور پوری طرح اعصابی تناؤ کا شکار۔۔

اگلی صبح اس نے لندن کے لیے بحری سفر اختیار کیا۔ اس کا خیال تھا کہ شاید ذریعہِ سفر کی تبدیلی سے مزاج میں کچھ خوشگوار تبدیلی آ جائے۔ دراصل وہ ایک ایسا بے وقوف شخص تھا جو لمحے بھر کے لیے دیکھی ہوئی عورت کے بارے میں عمر بھر کے لیے پریشان رہنا چاہتا تھا۔ وہ ایک ایسے جذبے کا اسیر ہو چکا تھا، جسے بآسانی دوسرے جذبوں سے تبدیل کیا جا سکتا تھا لیکن یہ بات کم از کم ہیری کے بس میں نہ تھی، وہ بالکل بے بس تھا۔ اس نے بحری سفر اختیار کیا حالانکہ ٹرین کے مقابلے میں بحری سفر کہیں زیادہ بور ہوتا ہے اور کچھ نہیں تو ٹرین میں بیٹھا ہوا آدمی کھڑکی سے باہر جھانک کر ہر آن متحرک اور سرسبز زندگی کا نظارہ تو کر سکتا ہے جبکہ بحری جہاز میں سوائے لہراتے ہوئے نیلے پانی کے اور کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ دُور دُور تک گہرا سمندر اور پانی کو چیرتی ہوئی واحد آواز بحری مسافر کا مقدر ہوتی ہے۔

جہاز کے روانہ ہونے میں ابھی کچھ دیر تھی۔ ہیری نے مسافروں کی لسٹ اُٹھائی اور وقت گزاری کے لیے اسے پڑھنے لگا۔ لسٹ میں درج پہلے نام نے ہی اسے چونکا دیا کیونکہ وہ ایک خاتون کا نام تھا۔ کیا یہ وہی لڑکی تو نہیں؟ ممکن ہے وہی ہو بلکہ یقیناً وہی ہے، کیونکہ اس کا ایڈریس بھی ہاگا کا ہے۔ اُس نے لسٹ دوبارہ انکوائری ٹیبل پر رکھ دی اور ایک سگریٹ سلگا کر دھوئیں کے لمبے لمبے کش لینے لگا۔ شدتِ جذبات سے اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا اور اگلے چند لمحوں میں کسی کی متوقع آمد اسے پریشان کیے جارہی تھی۔

اب بحری جہاز کی روانگی کا وقت قریب آ چکا تھا اور ساحلِ سمندر پر کھڑے مسافر جلدی جلدی جہاز پر سوار ہو رہے تھے۔ اچانک ہیری کی نگاہوں میں ایک بجلی سی چھپکی۔ وہی لڑکی، یقیناً وہی۔۔۔ جو گزشتہ کئی دنوں سے اس کے اعصاب پر سوار تھی۔۔ فرطِ جذبات سے ہیری کا دل زور زور سے دھڑ کنے لگا۔ بزدل، ڈرپوک، کم گو اور شرمیلے عاشقوں کی طرح ساتھ ہی اُسے اپنے سینے میں سرسراہٹ سی محسوس ہوئی۔ اس نے کیبن کی دیوار سے ٹیک لگا کر اپنے کپکپاتے ہوئے جسم کو سہارا دیا اور رومان پسندوں کی طرح سوچنے لگا کہ تمام لوگ اُسے دیکھ دیکھ کر ہنس رہے ہیں۔

وہ چند لمحوں کے لیے جہاز کے ڈیک پر رُکی اور ایک لطیف جھٹکے کے ساتھ سر کے بالوں کو درست کرتے ہوئے جہاز پر چڑھنے لگی۔ اکیلی لڑکی نگاہیں نیچے کیے سب سے الگ تھلگ چلی آ رہی تھی اور پھر وہ جہاز کے پنچ سیلون کی جانب مڑ گئی۔ ہیری بھی آہستہ آہستہ اس کے تعاقب میں ہو لیا۔ ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے بظاہر وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ کسی اور کو تلاش کر رہا ہے لیکن اُس کی نگاہیں بار بار اس مجسم حسن پر آ ٹکتیں۔

اس نے اس اچانک ملاقات پر اپنے آپ کو مبارک باد دی اور سوچنے لگا کہ اب کامیابی کی دولت یقیناً اس کے قدموں پر نچھاور ہونے والی ہے۔ حسین جسم کا ایک اور نظارہ چرانے کی غرض سے جب ہیری نے نظریں گھمائیں تو یہ دیکھ کر اس کی توانائی سلب ہونے لگی کہ وہ لڑکی اپنی سیٹ پر بیٹھی اُسے گھور رہی ہے۔

لڑکی کا اس طرح دیکھنا اُس کے لیے بے حد پریشان کن ثابت ہوا اور وہ خوفزدہ ہو کر پاس کی ایک سیٹ پر بیٹھ گیا۔ جہاز اپنی پوری رفتار سے منزل کی جانب رواں دواں تھا۔ زیادہ سگریٹ پی لینے کے باعث اُسے گلے میں خراش محسوس ہو رہی تھی۔ دماغ میں تھکاوٹ کے آثار بھی نمایاں تھے اور وہ اپنے فطری شرمیلے پن کو کوس رہا تھا۔ اسے اس دوسرے چانس کے مس ہو جانے کا بے حد افسوس تھا۔ کاش اس میں ہمت ہوتی اور وہ بڑھ کر اُس سے گفتگو کر سکتا۔

سمندری لہریں جہاز کو بار بار رقص پر مجبور کر رہی تھیں اور مسافر اپنی سیٹوں پر بیٹھے ہچکولے کھا رہے تھے لیکن ہیری کا دماغ مناسب بہانوں کی تلاش میں تھا۔ اخبار پڑھتے ہوئے بھی وہ کسی ایسی صورت حال کا متلاشی تھا، جس کے باعث بے وقوف بنے بغیر اس کی ایک آدھ مسکراہٹ وصول کر سکے۔ جہاں تک اس لڑکی کا تعلق تھا تو وہ بڑے سکون سے بیٹھی خط لکھنے میں مصروف تھی۔ پنچ سیلون میں بیٹھے ہوئے دوسرے مسافر بھی اپنی اپنی گفتگو میں مگن تھے اور ہیری سوچ رہا تھا کہ اسے گفتگو کا اس سے بہتر موقع پھر کبھی نہیں مل سکتا۔ ’اب یا کبھی نہیں۔۔‘

اس نے حیلے ایجاد کرنے شروع کر دیے اور اپنے آپ سے دریافت کیا،’کیا یہی وہ لڑکی ہے، جس نے مجھے بے وقوف بنا رکھا ہے۔ یہ چاہتے ہوئے بھی کہ میرے علاوہ کسی اور کے ساتھ اس کی شخصیت میچ نہیں کرتی، میں کچھ نہیں کر سکتا۔ بات کرنے کا کیا ہے، میں اس سے بات تو کر لوں لیکن اس کی ضمانت کون دے گا کہ وہ آگے سے میری بے عزتی نہیں کرے گی۔ خدانخواستہ اگر ایسی صورت حال پیدا ہوگئی تو میں ہمیشہ کے لیے اس تجربے کے حظ سے محروم ہو جاؤں گا، جو میرے رگ وپے میں سرایت کر چکا ہے۔ مکمل انکار کے بجائے خوش فہمی میں رہنا زیادہ بہتر ہے۔۔‘

ہیری نے دوبارہ اس لڑکی کو اپنی نگاہوں کا مرکز بناتے ہوئے سوچا، ’یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ انتہائی شائستگی سے پیش آئے‘ اور پھر خیالوں ہی خیالوں میں اس کے کانوں نے وہ میٹھی میٹھی گفتگو سنی، جو ایسی صورت حال میں متوقع تھی۔

ہیری ہمت کر کے اٹھا اور لڑکی کی جانب قدم بڑھانے لگا۔ ابھی اس کا چوتھا قدم فرش پر نہ پڑا تھا کہ جہاز نے ایک زبردست ہچکولا لیا۔ اس نے اپنے جسم کو بڑی مشکل سے سنبھالا۔ جہاز مسلسل طوفانی لہروں کی زد میں تھا اور ہر نیا لمحہ ایک نئے خوف کو جنم دے رہا تھا۔ ہیری نے کھڑکی میں سے باہر کھلے سمندر کی جانب دیکھا اور پھر کیپٹن کی آواز گونجی کہ جہاز ایک بہت بڑے طوفان میں پھنس چکا ہے۔ خوف کا ایک مہیب سایہ اس کے پورے جسم کا احاطہ کر چکا تھا۔ خوف۔۔ موت کا خوف۔۔۔ وہ جلدی جلدی لنچ سیلون سے نکلا اور اپنے کیبن میں آ گیا جہاں بہت زیادہ آرام تھا۔ چند لمحوں میں وہ سب کچھ فراموش کر چکا تھا اور گہری نیند اس کی آنکھوں میں ڈورے ڈال رہی تھی۔

بیری جب صبح اٹھا تو اسے ہلکی ہلکی بھوک محسوس ہو رہی تھی۔ سفر ختم ہونے میں ابھی ایک گھنٹہ باقی تھا، لہٰذا اس نے ناشتے کے لیے لنچ سیلون کا رخ کیا۔ سیلون میں داخل ہوتے ہی یہ دیکھ کر اس کا دل ڈوبنے لگا کہ وہی لڑکی دو نوجوانوں کے درمیان بیٹھی کافی سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔ ’ہیں! یہ کیا۔۔ کیا واقعی!؟ نہیں نہیں۔۔‘ اُسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ سب کیا ہے؟ جونہی وہ اس ناقابلِ تردید حقیقت سے فرار حاصل کرنے کے لیے واپس مڑا، فضا میں تین قہقہوں کی آواز گونجی۔ وہ لوگ آہستہ آہستہ کچھ گفتگو کر رہے تھے لیکن شور کے باعث مفہوم ہیری کے پلے نہیں پڑ رہا تھا۔۔ ’لیکن یہ سب فراڈ ہے۔ ایک فلرٹ ہے۔ چند ثانیے قبل تو وہ خاموش بیٹھے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی ہنسنے لگے۔۔ آخر اس ہنسی کا مطلب کیا ہے؟ سچ ہے، محبت صرف دل والوں کا حصہ نہیں، اس میں دلیری بھی چاہیے اور میں ٹھہرا طبعاً بزدل۔۔ ہوئی نا وہی بات۔۔ جو لوگ باتونی تھے وہ سرِ منزل پہنچ گئے۔۔‘

ہیری اُن دونوں نوجوانوں کو رشک کی نگاہوں سے دیکھتا ہوا باہر نکل گیا۔ اب وہ آخری تیاریاں کر رہا تھا۔ جہاز ساحل کے قریب پہنچ چکا تھا اور لنگر انداز ہونے ہی والا تھا۔ اس نے جلدی جلدی اپنا سامان وغیرہ پیک کیا اور ایک بیگ بنا کر عرشے پر آ گیا۔ زمین کو اپنے پاؤں کے نیچے محسوس کرنا کتنا خوشگوار ہو سکتا ہے، یہ تو بحری سفر کے بعد ہی پتا چلتا ہے۔ ہیری بھی انہی محسوسات کو ذہن میں سمیٹے بیرونی دروازے سے آہستہ آہستہ گزرا اور جب وہ پلیٹ فارم پر مالم کے لیے ٹکٹ خرید نے لگا تو اُسے پھر وہی لڑکی دکھائی دی۔ وہ ایک بوڑھے آدمی کا بازو تھامے آ رہی تھی۔ ہیری ان دونوں کو ایک ساتھ دیکھ کر کچھ پریشان سا ہوا، اس نے اس بوڑھے کو ہوائی جہاز میں تو کہیں نہیں دیکھا تھا، پھر یہ کہاں سے آ ٹپکا۔

دوسرے لمحے اس کی پریشانیاں سمٹنے لگیں۔ لڑکی کولھے مٹکا مٹکا کر چل رہی تھی اور اپنی آنکھوں کو ادھر ادھر گھماتے ہوئے ہر بار ہیری کی طرف ضرور دیکھتی تھی۔ اُمید کی معصوم کی کرن ہر لمحے ہیری کو اس لڑکی کے قریب کیے چلی جا رہی تھی تا آنکہ فاصلہ سمٹ کر چند قدموں تک محدود ہو گیا۔ لڑکی نے ہیری کی جانب دیکھا اور پہلی بار دونوں کی نگاہیں ایک دوسرے میں پیوست ہو گئیں۔

وہ مسکرائی اور ایک محبت بھری مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے دھیمے سروں میں بولی: ”اوہ سویڈش۔۔۔۔ معاف کیجیے۔۔۔۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے آپ کو ایک مرتبہ ہاگا میں دیکھا تھا۔ آپ سویڈش جانتے ہیں؟ میں نے مالم تک اپنی اور ڈیڈی کی ریزرویشن کرائی تھی لیکن اب ٹکٹیں کہیں کھو گئی ہیں۔۔ کیا آپ کچھ رہنمائی کر سکتے ہیں، ہم یہاں بالکل اجنبی ہیں۔“

”یقیناً یقیناً!“ ہیری بولا اور اس کا دل بَلیوں اچھلنے لگا۔ اسٹیشن پر چمکتے قمقموں کی روشنی کچھ اور تیز ہوگئی اور وہ انہیں اسٹیشن پر کھڑی ہوئی گاڑی کے آخری ڈبے میں لے گی، جہاں اُسے پتا تھا کہ تقریباً تمام سیٹیں خالی ہوتی ہیں۔ انہوں نے لندن تک ایک ساتھ سفر کیا اور راستہ بھر ان کی گفتگو ایک لمحے کے لیے بھی نہ ڑکی۔

ہیری اور وہ لڑکی آج کل گزشتہ سات سال سے میاں بیوی کی حیثیت سے اکٹھے رہ رہے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ ہیری اب بھی اپنے آپ کو ہی اس افسانے کا ہیرو سمجھتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button
Close
Close