معلوم نہیں یہ عمدہ خیال سب سے پہلے کس کے ذہن میں آیا کہ آدمی بغیر ناشتہ کیے دفتر چلا آئے۔ بس اتنا پتا چل سکا کہ دو تین دن میں ہی سب ملازمین نے بغیر ناشتے کے آنا شروع کر دیا اور یوں صبح وقت پر دفتر پہنچنے لگے۔ پہلے چند دن تو سب کا بھوک کے مارے برا حال ہوا مگر ایک دن محمود نے بالآخر ہمت کی اور ایک بسکٹ کا ڈبا خرید لایا۔ بس تکلف سے ہی باقی ساتھیوں سے پوچھنے کی دیر تھی کہ سب نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ایک ایک بسکٹ اٹھا لیا اور یوں منٹوں میں ڈبا ختم۔ ان حالات میں آئندہ بسکٹ خریدنے کی ہمت کون کرتا؟
چند دن بعد مس حامدی نے دفتر آتے ہوئے راستے میں سینڈوچ خریدا۔ کمرے میں پہنچ کر جونہی اُس نے بیگ سے سینڈوچ نکالا ، اس کی خوشبو آناً فاناً پھیل گئی اور سب کے منہ میں پانی بھر آیا۔ مس حامدی نے رسمی طور پر سب کو پوچھا مگر سب نے شکریے کے ساتھ پیشکش رد کر دی سوائے حمیدی کے، جو بولا:
”چونکہ مجھے السر کا مرض ہے، لہٰذا آپ کی اجازت سے صرف ایک لقمہ لوں گا۔ اُمید ہے آپ برا نہیں منائیں گی!“
یہ کہا اور مس حامدی کا آدھا سینڈوچ تو ڑ لیا اور یہ ثابت کرنے کے لیے کہ یہ صرف ایک لقمہ ہے، سارے کا سارا ایک ہی بار منہ میں ڈال لیا۔
یوں مِس حامدی نے اپنا سینڈوچ بلکہ اپنا باقی ماندہ سینڈوچ اسی نیم خاموش ماحول میں غصے اور جھجک سے ملے جلے انداز میں زہر مار کیا۔
کمرے کے سکوت کو بالآخر حمیدی کی بھاری بھر کم آواز نے توڑا، ”کیوں نہ ہم سب کل سے سینڈوچ کھانا شروع کر دیں؟“
محمدی بولا، ”تجویز تو اچھی ہے!“
احمدی نے کہا، ”ہاں کیوں نہیں۔“
حمیدی ایک بار پھر گویا ہوا، ”تو پھر طے ہو گیا کہ۔۔۔۔۔“
محمود نے بھی با دلِ نخواستہ موافقت کا اظہار کر ہی دیا۔
اگلے دن سب نے اپنے اپنے پیسے دیے اور چپراسی کو بلا کر سینڈوچ منگوانے لگے: ”دیکھو! پانچ سینڈوچ“
”جی وہ منیجر صاحب کا حکم ہے کہ کسی کے ذاتی کام کے لیے دفتر سے باہر نہ جاؤں۔۔۔“
”اچھا چلو رہنے دو، جاؤ۔“
”مجھے سب معلوم ہے اسے کیا تکلیف ہے۔ کوئی بات نہیں ہم خود ہی خرید لایا کریں گے۔“
”منیجر کیا کہے گا؟“
حمیدی بولا، ”اُس کی فکر نہ کرو، اُسے میں خود دیکھ لوں گا۔“
اور حمیدی خود ہی منیجر کے پاس چلا گیا: ”سر! آپ سینڈوچ کھانا پسند فرمائیں گے؟ میں باقی ساتھیوں کے لیے لینے جا رہا تھا، سوچا آپ سے بھی پوچھ لوں۔“
منیجر نے سر اوپر اٹھائے بغیر ہی کہا، ”چکن!“ اور ابھی حمیدی مڑا بھی نہ تھا کہ آواز آئی: ”کنگ سائز!“
اُس دن کے بعد گویا یہ کام بھی حمیدی کی ڈیوٹی میں شامل ہو گیا۔ وہ ہر روز ساتھیوں سے پیسے جمع کرتا، سینڈوچ خرید کر لاتا اور سب میں تقسیم کرتا۔ لیکن منیجر کے سینڈوچ کے پیسے اُن سب کو مل کر ہی ادا کرنا پڑتے۔
کئی بار ایسا ہوا کہ منیجر نے حمیدی کو کسی کام سے بلوایا تو اُسے محض یہ کہہ کر ٹرخا دیا گیا، ’سر وہ تو سینڈوچ لینے گیا ہوا ہے!‘
رفتہ رفتہ یہ خورونوش بھی دفتر کے کام کا حصہ شمار ہونے لگا۔ اسی قسم کا ایک اور معمول اخبار اور میگزین تھے۔ شروع شروع میں احمدی ہر ہفتے کے دن اپنے لیے ’کیہان اسپورٹس‘ اور مس حامدی کے لیے ’زنِ روز‘ خرید لیتا تھا۔ ایک دن منیجر نے اُن دونوں کو دفتری اوقات کے دوران رسالہ پڑھتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ ”یہ دونوں رسالے فی الفور میرے کمرے میں بھجوا دیجیے۔ یہ دفتر ہے، کوئی لائبریری نہیں!“
اُس کے بعد تو ہر سنیچر کو دونوں رسالے علی الصبح منیجر صاحب کی میز پر پہنچ جاتے اور ساڑھے گیارہ بجے سے پہلے کسی کو انہیں وہاں سے اُٹھانے کی جرات نہ ہوتی۔ اُس وقت تک ’زن روز‘ میں شائع شدہ تمام انعامی معمے حل ہو چکے ہوتے اور ’کیہان اسپورٹس‘ کی حالت بھی خاصی بگڑ چکی ہوتی۔ منیجر بھی مس حامدی کی طرح انعامی معموں کا دیوانہ اور احمدی کی طرح فٹ بال کا شیدائی تھا۔
معاف کیجیے گا، ہم اپنے موضوع سے بہت دور نکل گئے۔ بات تو ناشتہ نہ کرنے اور سینڈوچ خریدنے سے شروع ہوئی تھی۔ اس معمول کو شروع ہوئے ابھی ایک یا دو ہفتے ہی ہوئے ہوں گے کہ محمدی کے ذہن میں ایک اور تجویز در آئی: ’یہ ہم اتنے مہنگے سینڈوچ کیوں خریدیں اور وہ بھی باسی ڈبل روٹی اور نجانے کب کے پڑے بیف یا چکن کے بنے ہوئے، جنہیں کھا کر فوڈ پوائزننگ ہونے کا خطرہ لگا رہتا ہے۔ ہم یہ سینڈوچ خود بھی تو تیار کر سکتے ہیں۔‘
اسی وقت ایک خصوصی میٹنگ میں یہ تجویز بالاتفاق منظور کر لی گئی۔
اگلی صبح جب حمیدی دفتر آیا تو اُس کے پاس تین سو گرام بیف، تین سو گرام سلاد، ڈبل روٹی کے چند سلائس اور دو ایک ٹماٹروں کے علاوہ ایک عدد تیز چھری اور ایک نمک دانی بھی تھی۔ البتہ میجر صاحب کا کنگ سائز چکن سینڈوچ، اس سارے انتظام کے باوجود، اپنی جگہ قائم و دائم تھا!
مس حامدی نے دو بار صابن سے ہاتھ دھو چکنے کے بعد سینڈوچ تیار کرنے شروع کیے۔ نتیجہ حسب توقع ہی رہا۔ تازہ ڈبل روٹی اور نرم و لذیذ بیف کا لطف ہی کچھ اور تھا۔ علاوہ ازیں ایک سینڈوچ بچ بھی گیا، جسے سب نے بڑے اصرار سے مس حامدی کو پیش کیا۔
”واللہ قطعاً گنجائش نہیں!“
بعض نے رائے دی کہ اسے چپراسی کو دے دیا جائے، مگر حمیدی بولا، ”چھوڑیں جی! اِسے سر پر چڑھانے سے کیا فائدہ؟ لاؤ ایک لقمہ میں لے لیتا ہوں۔“ اور ساتھ ہی چھری سے آدھا سینڈوچ کاٹ لیا۔ بقیہ نصف احمدی نے ختم کر ڈالا۔
اگرچہ اب دفتر کی روٹین یہی بن گئی تھی مگر پھر بھی یکسانیت سے بچنے کی خاطر کبھی کبھی وہ مینو میں تھوڑی سی تبدیلی بھی کر لیتے۔ مثلاً ہفتے میں ایک دن انڈے خرید لیے جاتے اور دفتر کے کچن میں ہی اُنہیں تیار کروا لیا جاتا۔ بعض دفعہ مس حامدی اپنے گھر سے رات کے بچے ہوئے شامی کباب لے آتی۔
ایک دن تو انتہا ہی ہو گئی۔ اُنہوں نے ایک سالم مرغ روسٹ خرید لیا۔ اس موقع پر بھی مس حامدی کی خدمات حاصل کی گئیں، جس نے بڑے سلیقے سے مرغ کے برابر حصے کیے اور سب میں تقسیم کر دیے۔ اسی طرح ایک روز جگر* کھانے کا پروگرام بن گیا، مگر شو مئی قسمت کہ جس وقت جگر فروش اپنی ٹرے اٹھائے دفتر کی عمارت میں داخل ہو رہا تھا تو اُس کی مڈ بھیڑ میجر سے ہو گئی ۔ ناچار جگر والا پروگرام ملتوی کر کے وہ سب اپنے اُسی پرانے سینڈوچ پر لوٹ آئے۔
شکم کی آگ ٹھنڈی ہوئی تو کام کی طرف بھی توجہ دی گئی۔ بے شک خوردونوش کے ان معمولات کی بدولت غیر حاضریوں اور دیر سے آنے کی شرح میں خاصی کمی واقع ہوئی تھی مگر پھر بھی کچھ لوگوں کو دفتر پہنچتے پہنچتے دیر ہو ہی جاتی، جس کا جرمانہ اُنہیں ہر ماہ ادا کرنا پڑتا۔
کچھ ہی دن بعد سب نے دیکھا کہ مس حامدی نے صبح آتے ہی اپنے پرس سے ٹوتھ برش اور پیسٹ نکالی اور واش روم کی راہ لی۔ واپس آئی تو بولی، ”میں نے دیکھا کہ دیر ہو رہی ہے تو سوچا کہ آفس جا کر دانت صاف کر لوں گی۔ آخر اس میں حرج ہی کیا ہے؟“
یقیناً کوئی حرج نہیں تھا بلکہ یہ تو اُن سب کے حق میں بہتر ہی ہوا کہ اُنہیں مس حامدی کو دانت صاف کرتے ہوئے بھی دیکھنے کا موقع ملا اور یوں اُس کا ایک اور خوبصورت انداز اُن کے ذہنوں پر نقش ہو گیا۔
اگلی صبح سب نے واش روم سے وز وز کی عجیب سی آواز سنی۔ تھوڑی دیر بعد محمودی چہرے پر فتح مندی کے تاثرات لیے زیرِ لب مسکراتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔ اُس کے ہاتھ میں برقی ریزر تھا۔ دوسرے ہاتھ سے وہ اپنی تازہ شیو چیک کرتے ہوئے بولا، ”ہاہا اسے کہتے ہیں پندرہ منٹ کی بچت!“
محمودی کی دیکھا دیکھی محمدی بھی دوسرے دن آیا تو اُس کے پاس شیونگ برش، کریم اور بلیڈ پر مشتمل پوری شیونگ کٹ موجود تھی لیکن اُس دن شاید محمدی کا ستارہ ہی گردش میں تھا۔ میجر کو اسہال کی تکلیف تھی، لہٰذا محمدی کی شیونگ کٹ بیکار ہی رہی۔
چند دن بعد، جب میجر کو کچھ افاقہ ہوا تو ایک بار پھر واش روم سے آواز آنا شروع ہوئی جو محمودی کے ریزر کی آواز سے ذرا زیادہ بلند تھی۔ مس حامدی اپنے چھوٹے سے دستی ہیر ڈرائر سے بال سیٹ کرنے میں مصروف تھی۔
کچھ عرصہ بعد!
اگر ٹائپ رائٹر پر کام نہ بھی ہو رہا ہوتا تو ’ٹک کٹک‘ کی آواز مسلسل سنائی دیتی رہتی۔ سبھی لوگ باری باری مس حامدی کے نیل کٹر سے ناخن کاٹنے میں مصروف رہتے۔
ایک دن جب احمدی، مس حامدی کا دستی آئینہ سامنے رکھے اپنی چھوٹی قینچی سے مونچھیں کترنے میں مصروف تھا تو اچانک دروازہ کھلا اور منیجر کمرے میں داخل ہوا۔
اُس دن تو احمدی نے اداکاری کی حد ہی کر دی۔ اتنی صفائی سے قینچی دراز میں رکھی کہ آواز تک نہ آئی اور ساتھ ہی رومال اُٹھا کر منہ پر رکھ لیا۔
منیجر بولا، ”تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے احمدی؟“
”بس یہ ڈرا ہونٹ پر چھوٹی سی پھنسی نکل آئی تھی۔“
”اوہ! اچھا۔۔۔“
ابھی منیجر کمرے میں موجود ہی تھا کہ سب زیرِ لب مسکرا دیے۔۔۔ اسی بدحواسی میں احمدی کی نصف مونچھ نا تراشیدہ رہ گئی تھی۔
اگر چہ ایسی سب مصروفیات اب دفتری معمول کا با قاعدہ حصہ معلوم ہونے لگی تھیں اور کسی بھی اسٹاف ممبر کے لیے ان میں اچنبھے کی کوئی بات نہ تھی، مگر حمیدی کا صبح سب سے پہلے دفتر آنا سب کی سمجھ سے باہر تھا۔ حاضری رجسٹر پر سب سے پہلے دستخط اُس کے ہوتے مگر وہ خود ایک گھنٹہ بعد آتا۔ سارے اسٹاف کی سخت کوشش کے باوجود نہ تو کوئی اور اس سے پہلے دفتر آ سکا اور نہ ہی اُس کے جلدی پہنچنے کا راز معلوم کر سکا۔
بالآخر خود حمیدی نے، جو اس دن بڑے اچھے موڈ میں تھا، یہ راز سب پر آشکار کیا: ”یوں ہے کہ میں جونہی بیدار ہوتا ہوں، بس لباس تبدیل کر کے دفتر چلا آتا ہوں اور منہ ہاتھ دھونے سے لے کر دانت صاف کرنے اور شیو کرنے تک دیگر سب کام یہیں انجام دیتا ہوں۔ اس طرح مجھے آدھا گھنٹہ مزید سونے کا موقع مل جاتا ہے۔“
اور حمیدی نے واقعی سب دوستوں کا ریکارڈ توڑ دیا۔ دفتر آ کر انجام دینے والے کاموں میں صرف ایک کام رہ گیا تھا، سو وہ بھی اُس نے اوور ٹائم والے دن انجام دے ڈالا۔ اگرچہ اس کام کی ادائیگی میں اُسے چوکیدار کی بھی تھوڑی بہت خدمت کرنا پڑی لیکن در حقیقت یہ ان دونوں کے آئندہ باہمی تعاون کی ابتدا تھی، جس کا آغاز اسی ماہ سے ہو گیا۔ منیجر کی طرف سے دونوں کی جواب طلبی اور جرمانے کی صورت میں!