بچپن کا صدمہ خود اعتمادی کو کیسے نقصان پہنچاتا ہے اور اسے کیسے ٹھیک کیا جا سکتا ہے؟

ویب ڈیسک

یقین اور اعتماد جیسے نرم روشنی کا ایک چراغ ہوں جو ہمارے اندر جلتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ روشنی ہمیشہ روشن رہتی ہے، جب کہ دوسروں کے لیے بچپن کے اندھیرے اس پر سایہ ڈال دیتے ہیں۔ اگر آپ نے کبھی خود سے یہ سوال کیا ہے کہ ”میں کیوں خود کو قابلِ محبت یا لائق نہیں سمجھتا؟“ ، کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آخر یہ اتنا مشکل کیوں ہے کہ آپ اپنے بارے میں اچھا محسوس کریں، چاہے آپ نے کتنی ہی کامیابیاں حاصل کی ہوں؟ یا پھر یہ کہ آپ اپنے آپ پر شک کیوں کرنے لگتے ہیں؟ تو ممکن ہے کہ اس کا جواب ماضی کی ان کہی کہانیوں میں چھپا ہو، ان لمحوں میں جب آپ کو وہ محبت، توجہ یا تحفظ نہ ملا جس کے آپ حقدار تھے۔

جی ہاں، کئی معاملات میں اس سوال کا جواب بچپن میں چھپا ہوتا ہے۔ اگر آپ نے ایک ایسا بچپن گزارا ہو جہاں آپ کو محبت، توجہ، یا تحفظ نہ ملا ہو، تو یہ آپ کے خود سے متعلق احساسات کو مجروح کر سکتا ہے۔

وہ بھولے بسرے زخم، جو بچپن کے صدموں کی صورت میں خود کی قدر کو اندر ہی اندر چاٹ جاتے ہیں، انہیں سمجھنا اور ان پر مرہم رکھنا بہت ضروری ہے۔

آئیے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ بچپن کے صدمات کس طرح آپ کے خود تصور کو متاثر کرتے ہیں، یہ ابتدائی تجربات اتنے طاقتور کیوں ہوتے ہیں، اور آپ اپنے آپ کو دوبارہ کیسے سنوار سکتے ہیں۔

یقینِ ذات یا خود کی قدر (Self-Worth) : ایک خاموش وقار کا نام

یقینِ ذات اور خود کی قدر کوئی نعرہ نہیں، نہ ہی یہ خود پسندی کی گونج ہے۔ یہ وہ نرم مگر گہرا احساس ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ ہم اپنی تمام تر خامیوں، الجھنوں اور خاموشیوں کے ساتھ، قیمتی ہیں۔ یہ وہ اطمینان ہے جو ہمیں دوسروں کی منظوری کے بغیر بھی جینے کا حوصلہ دیتا ہے۔ وہ لوگ جو اپنی قدر جانتے ہیں، انہیں ہر وقت اپنی اچھائیوں کا اعلان نہیں کرنا پڑتا۔ وہ جانتے ہیں کہ اُن کا ہونا ہی کافی ہے۔ اُنہیں مسلسل یہ ثابت کرنے یا دوسروں کی محبت اور منظوری حاصل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ وہ اپنے وجود پر اعتماد رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ وہ اچھے اور قابلِ قدر ہیں، چاہے دوسرے اُن سے ناراض ہوں یا اُنہیں ناپسند کریں۔ وہ خود کو قبول کرتے ہیں اور کمال کی توقع نہیں رکھتے، اس لیے وہ خود پر زیادہ تنقید نہیں کرتے۔

یقینِ ذات نہ تو گھمنڈ ہے، نہ مقابلہ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ خود کو دوسروں سے بہتر سمجھتے ہیں۔ یہ تو محض ایک سادہ سا شعور ہے کہ انسان ہونے کے ناطے ہم محبت، عزت، اور نرمی کے مستحق ہیں۔ یہ صرف اتنا ہے کہ آپ جانتے ہیں کہ آپ جیسے ہیں، ویسے ہی قابلِ قدر ہیں۔

یقینِ ذات یوں زندگی میں جلوہ گر ہوتا ہے:

● جب آپ تھکن محسوس کرتے ہیں اور خود کو آرام دینے کا فیصلہ کرتے ہیں، بغیر کسی احساسِ جرم کے۔۔ یہ پہچاننا کہ آپ کو خود کی دیکھ بھال (self-care) کی ضرورت ہے اور آپ اس کے حقدار ہیں، اور پھر اسے ترجیح دیتے ہیں۔
● اپنے آپ پر اعتماد محسوس کرتے ہیں اور خاموشی سے، مگر پُر اعتماد انداز میں، اپنی بات کہہ دیتے ہیں۔
● اصلی اور سچّا جینا، جب آپ اپنے سچ کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، چاہے لوگ ناراض ہوں، روٹھ جائیں یا ناپسند کریں۔
● جب آپ اپنے جذبات اور ضرورتوں کو چھپانے کے بجائے انہیں قبول کرتے ہیں۔
● خود کو قبول کرنا اور جاننا کہ آپ کی قدر ہے، جب آپ اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے بجائے اُن کے ساتھ جینا سیکھتے ہیں۔
● جب آپ دوسروں سے ملنے والی تعریف کو جھجک کے بغیر، مسکرا کر قبول کرتے ہیں۔
● جب غلطی ہو جائے تو خود سے لڑنے کے بجائے خود سے نرمی اور ہمدردی برتتے ہیں۔
● حدود مقرر کرنا، جب آپ ایسے لوگوں سے فاصلہ رکھنا سیکھ لیتے ہیں جو آپ کو کم تر محسوس کرواتے اور برا سلوک کرتے ہیں۔
● جب آپ خود سے کہتے ہیں: ”مجھے کچھ ثابت نہیں کرنا، میں ویسے ہی قیمتی ہوں، جیسے ہوں۔“ خود کو آرام کرنے دینا کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ آپ کو اپنی قدر ثابت کرنا ضروری نہیں۔

 بچپن کا صدمہ خود کی قدر کو کیسے کمزور کرتا ہے

خودی کا پہلا عکس اُس وقت بنتا ہے جب ہم ابھی بولنا بھی نہیں جانتے۔ ہمارے آنکھ کھولتے ہی جو چہرے ہمیں گھیرتے ہیں، ماں باپ، دادی، دادا یا وہ جو ہماری نگہداشت کرتے ہیں، اُن کا رویہ ہماری ذات کا پہلا آئینہ بن جاتا ہے۔ یوں آپ کے والدین یا دیکھ بھال کرنے والوں نے آپ کے ساتھ جیسا سلوک کیا، وہی آپ کے لیے خود کی قدر کا پہلا نمونہ بنا۔ اگر ان چہروں پر نرمی، قبولیت اور تسلی ہو، تو دل میں یہ بیج بویا جاتا ہے: ”میں اہم ہوں، میں چاہا گیا ہوں“۔ لیکن اگر وہ چہرے سرد ہوں، ان کی توجہ بٹی ہوئی ہو، وہ آپ کی طرف سے لاپروا ہوں یا وہ سختی اور غیر یقینی کے ساتھ پیش آئیں، تو یہ بیج اگنے سے پہلے ہی پژمردہ ہو جاتا ہے اور آپ یہ سیکھتے ہیں کہ دوسرے قابلِ بھروسا نہیں، آپ کی ضروریات اہم نہیں، اور آپ محبت اور خیال کے لائق نہیں۔

بچپن کی عمر میں، بچے اپنی تکلیف کی منطق نہیں سمجھتے۔ چھوٹے بچے یہ نہیں سمجھ پاتے کہ اُن کے ساتھ ہونے والی زیادتی یا نظراندازی اُن کی غلطی نہیں۔ جن بچوں نے بچپن میں صدمہ جھیلا ہو، وہ بڑے ہو کر یہ سمجھتے ہیں کہ شاید زیادتی یا نظراندازی اُن کی اپنی وجہ سے ہوئی، کیونکہ وہ بُرے، ضدی، محتاج، بے وقوف، بدصورت یا ناقص تھے۔ اگر ماں چیخے، باپ نظر انداز کرے، یا کوئی قریبی شخص شرمندگی یا سزا کا باعث بنے، تو بچہ یہ نہیں سوچتا کہ ”وہ غلط ہیں“ وہ یہ سوچتا ہے: ”میں غلط ہوں“۔

بچپن میں زبانی بدسلوکی بھی خود کی قدر کو تباہ کر دیتی ہے۔ جب آپ سے کھل کر یہ کہا جائے کہ آپ میں کوئی خرابی ہے، تو ان باتوں کو اندر جذب نہ کرنا اور اُنہیں سچ نہ مان لینا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ بچپن میں دوسروں کے کہے گئے زخم دینے والے جملے اکثر وہ تنقیدی آوازیں بن جاتے ہیں جو ہم بڑے ہو کر خود سے کہتے ہیں۔

اسی لئے بچپن کا صدمہ، چاہے وہ نظراندازی ہو یا طنز سے بھری زبان، انسان کے اندر وہ آوازیں پیدا کر دیتا ہے جو بڑی عمر میں بھی ساتھ رہتی ہیں: تو بیکار ہے، تو کیوں چاہے جانے کے قابل ہوگا؟ کچھ بھی کر لے، کافی نہیں ہے۔۔ اور یہ آوازیں ہم میں سے بہت سوں کی اپنی آواز بن جاتی ہیں۔

ہم بچپن میں اپنے والدین یا سرپرستوں سے غیر مشروط محبت اور خیال رکھے جانے کی امید رکھتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے جذبات کو محسوس کریں، ہمیں سنیں، ہماری حوصلہ افزائی کریں، ہماری دل لگیوں کو سنجیدگی سے لیں، ہماری بے ساختہ شخصیت کو سراہیں اور ہماری دلچسپیوں میں دلچسپی لیں۔ جب خاندان اس میں ناکام ہوتا ہے، تو یہ بہت الجھن پیدا کرتا ہے۔ انسان خود کو ہی موردِ الزام ٹھہراتا ہے۔ بچپن میں والدین کو الزام دینا خطرناک لگتا ہے کیونکہ آپ اُن پر انحصار کرتے ہیں۔ اس لیے آپ اور زیادہ کوشش کرتے ہیں کہ اُنہیں خوش کریں اور اُن کی محبت اور توجہ حاصل کریں۔

اگر والدین یا ہمارے سرپرست ہماری توقعات پوری نہ کریں، تو یہ کمی ایک خلاء کی صورت اختیار کر لیتی ہے، ایسا خلاء جو ہم عمر بھر دوسروں کی توجہ، محبت، یا منظوری سے پُر کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

جب آپ بچپن کے صدمے کے ساتھ بڑے ہوتے ہیں، تو آپ کی خود کی قدر دوسروں کے سلوک پر منحصر ہو جاتی ہے۔ اُن کا بُرا سلوک آپ کو اس بات کا ثبوت لگتا ہے کہ آپ محبت کے قابل نہیں، آپ عزت کے لائق نہیں، اور آپ میں کوئی اہم بات نہیں۔ اس طرح خودی کی قدر، جو اندر سے پھوٹنی تھی، باہر کے رویوں کی قید بن جاتی ہے۔ اگر کسی نے عزت دی، تو ہم خود کو قابلِ عزت سمجھتے ہیں۔ اگر کسی نے ٹھکرا دیا، تو ہم اندر ہی اندر ٹوٹنے لگتے ہیں۔

حقیقت مگر یہ ہے کہ بچہ اگر نظرانداز ہوا، بدسلوکی کا شکار ہوا یا بار بار شرمندگی میں ڈالا گیا، تو یہ اُس کی ناکامی نہیں تھی۔ یہ اُن بڑوں کی کوتاہی تھی جن کے پاس اختیار تھا، مگر شعور نہیں تھا۔

مزید یہ کہ اگر اُن بڑوں نے خود کو کبھی اہم نہ جانا ہو، تو وہ آپ کو بھی یہ کیسے سکھا سکتے تھے کہ آپ قیمتی ہیں؟ اگر آپ کے والدین یا دیکھ بھال کرنے والے خود کو اچھا محسوس نہیں کرتے تھے، تو وہ آپ کو بھی خود سے اچھا محسوس کرنا سکھا نہیں سکتے تھے۔ اس کے برعکس، انہوں نے شاید آپ کو آپ کی ذات اور کاموں پر شرمندگی کا احساس دلایا، کمال پسندی کی ترغیب دی، اور آپ کو قابو میں رکھنے کے لیے سخت سزائیں استعمال کیں۔

 خود کی قدر کو کیسے بڑھایا جائے؟

خود کی قدر کو فروغ دینا ایک ایسا عمل ہے جو آپ کی جانب سے عملی اقدامات کا تقاضا کرتا ہے۔ آپ یہ انتظار نہیں کر سکتے کہ جب آپ خود کو قابلِ قدر محسوس کریں گے تب ہی خود کی دیکھ بھال شروع کریں گے یا حدود مقرر کریں گے۔ اس کے برعکس، آپ کو خود کی قدر پیدا کرنے کے لیے پہلے یہ کام کرنے ہوں گے، چاہے ابتدا میں مشکل لگے یا آپ خود کو اس کے لائق محسوس نہ بھی کریں۔

1. خود کو قبول کرنا سیکھیں:
آپ کو قابلِ قدر ہونے کے لیے کامل ہونا ضروری نہیں۔ ہر انسان میں خامیاں ہوتی ہیں، سب غلطیاں کرتے ہیں، اور ہم سب جیسے ہیں، ویسے ہی قابلِ قدر ہیں۔

2. جان لیں کہ خود کی قدر کوئی ایسی چیز نہیں جو حاصل کی جاتی ہے:
آپ کو خود کو یا دوسروں کو یہ ثابت کر کے دکھانے کی ضرورت نہیں کہ آپ کی کوئی قدر ہے۔ خود کی قدر آپ کی کامیابیوں یا سماجی حیثیت کی عکاس نہیں۔ ہر انسان محبت اور عزت کے لائق ہے۔۔ اور آپ بھی!

3. خود کی دیکھ بھال کو ترجیح دیں:
خود کی دیکھ بھال صرف صحت کے لیے اہم نہیں، بلکہ یہ خود کو یہ بتانے کا ایک طریقہ ہے کہ آپ اہم ہیں۔ جب بھی آپ ورزش کرتے ہیں، اسکرین ٹائم محدود کرتے ہیں یا آرام کرتے ہیں، تو آپ خود کو ایک طاقتور پیغام دیتے ہیں: ”میں قابلِ توجہ ہوں۔ میں صحت مند اور خوش رہنے کا حقدار ہوں۔“

4. اپنی ضروریات کا اظہار کریں:
یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آپ کی بھی ضروریات ہیں اور وہ اہم ہیں۔ اپنی ضروریات کو پہچاننے، بغیر کسی شرمندگی کے اُنہیں قبول کرنے اور دوسروں سے مدد مانگنے کی مشق کریں۔

5. حدود مقرر کریں:
حدود وہ حدیں ہیں جو دوسروں کو یہ بتاتی ہیں کہ آپ کے ساتھ کیسا سلوک کیا جانا چاہیے، کیا قابلِ قبول ہے اور کیا نہیں۔ یہ آپ کو دوسروں کے زیادتی پر مبنی رویے سے بچاتی ہیں اور آپ کی خود کی قدر کی عکاسی کرتی ہیں۔ چھوٹی باتوں پر آواز اُٹھانے سے آغاز کریں، پھر آہستہ آہستہ اہم حدود قائم کریں۔

6. خود سے محبت بھری باتیں کریں:
یہ جانچیں کہ آپ خود سے کیسی باتیں کرتے ہیں، اور ارادہ کریں کہ جیسے آپ دوسروں کے ساتھ شفقت سے پیش آتے ہیں، ویسے ہی اپنے ساتھ بھی محبت بھرا سلوک کریں۔ آپ کو لگ سکتا ہے کہ آپ خود پر تنقید کے حقدار ہیں، لیکن ایسا اس لیے ہے کہ آپ دوسروں اور خود کی تنقید کے اتنے عادی ہو چکے ہیں۔

7. تعریف اور سراہنے کو قبول کریں، مگر اپنی خود کی قدر کو اُن پر منحصر نہ کریں:
جب کوئی آپ کے بارے میں اچھی بات کہے، تو یقین کریں کہ وہ سچ کہہ رہے ہیں۔ صرف اس لیے تعریف کو مسترد نہ کریں کہ آپ خود کو اُس کے لائق محسوس نہیں کرتے۔ تاہم، اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ کی خود کی قدر صرف دوسروں کی رائے پر مبنی نہ ہو۔

خود کی قدر کو دوبارہ تعمیر کرنا، خاص طور پر بچپن کے صدمے کے بعد، آسان نہیں، لیکن ممکن ہے۔ جب آپ یہ سمجھنا شروع کرتے ہیں کہ آپ کی مشکلات کی جڑ کہاں ہے، جب آپ خود کے ساتھ صبر سے پیش آتے ہیں، اور جب آپ نئے طریقوں سے سوچنا اور جینا سیکھتے ہیں، تو آپ اپنے بارے میں ایک مضبوط اور صحت مند احساسِ شناخت قائم کر سکتے ہیں۔

خود کی قدر کو دوبارہ دریافت کرنا کوئی فوری عمل نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا سفر ہے جو صبر، خود شناسی اور نرمی کا متقاضی ہے۔ بچپن کے زخم شاید ہمیشہ مکمل طور پر مٹ نہ سکیں، مگر ان کے اثرات کو سمجھ کر اور خود سے مہربانی برت کر ہم اُن پر مرہم ضرور رکھ سکتے ہیں۔ یاد رکھیے، آپ کی اصل اہمیت کسی اور کی رائے یا ماضی کے سلوک سے طے نہیں ہوتی، بلکہ اس سچ سے جنم لیتی ہے کہ آپ، جیسا کہ آپ ہیں، مکمل، قابلِ احترام اور محبت کے لائق ہیں۔ یہی شعور، یہی یقین، آپ کے اندر وہ چراغ دوبارہ روشن کر سکتا ہے جو کبھی مدھم کر دیا گیا تھا۔

نوٹ: اس فیچر کی تیاری میں سائیکالوجی ٹوڈے پر شائع شارون مارٹن کے ایک آرٹیکل سے مدد لی گئی ہے، جو ایک لائسنس یافتہ ماہرِ نفسیات ہیں اور کیلیفورنیا کے شہر سان ہوزے میں عملی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ امر گل

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close