
لیاری، کراچی کی سب سے قدیم اور پہلی محنت کش آبادی۔ بلوچ اکثریت کے ساتھ یہاں کچھی کمیونٹی دوسری بڑی آبادی ہے ـ مہاجر، میمن، پنجابی اور پشتون بھی لیاری کی سماجی تشکیل کا لازمی حصہ ہیں۔ یہ خطہ تاریخی طور پر شہر کی گنجان آباد، محنت کش اور سیاسی طور پر باشعور بستی کے طور پر جانا جاتا ہے۔
قیامِ پاکستان سے پہلے اور بعد میں لیاری ہمیشہ مزاحمت، مزدور سیاست اور ترقی پسند تحریکوں کا مرکز رہا۔ بلوچ قوم پرستی سے لے کر کمیونسٹ تنظیموں تک اور ضیا آمریت کے خلاف عوامی جدوجہد سے لے کر زبان و ثقافت کی تحریکوں تک، لیاری کراچی کی سیاسی تاریخ میں ایک منفرد اور تابناک کردار رکھتا ہے۔
یہاں سے بلوچی زبان کی ترویج ہوئی، یہیں سے فٹ بال، باکسنگ، گدھا گاڑی ریس اور سائیکل ریس نے شہر کی شناخت کو تشکیل دیا۔
سماجی ناانصافی، شدید غربت، بدترین شہری انفراسٹرکچر، ریاستی عدم توجہی اور امتیازی سلوک کے نتیجے میں یہاں جرائم کی بھی ایک تاریخ رہی ہے۔ سندھ کی حکمران اشرافیہ نے شہر کی معیشت پر قبضہ کرنے یا اسے برقرار رکھنے کے لئے اسی محنت کش آبادی کے جرائم پیشہ گروہوں کو اپنی آشیرباد دی ۔ نتیجتاً لیاری میں سیاسی اور سماجی سطح پر پیچیدہ تضادات جنم لیتے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ لیاری کو ہمیشہ پاکستان بالخصوص کراچی کے متعصب اور طبقاتی میڈیا نے ”جرائم کے مرکز“ کے طور پر پیش کیا۔ اس بیانیے نے لیاری کے ادبی، ثقافتی اور سیاسی کردار کو کاملاً حاشیے پر دھکیل دیا۔
”لیاری گینگ وار“ : سب سے بڑی جعل سازی
نئی صدی کی پہلی دہائی میں بلوچستان کے بلوچ قوم پرستوں اور پاکستانی ریاست کے درمیان کشیدگی بڑھی تو کراچی میں دو مسلح گروہوں کی آپسی چپقلش کو اچانک ”لیاری گینگ وار“ کا نام دیا گیا۔ یہ نام سب سے پہلے طاقت ور حلقوں کے ترجمان اخبار ’روزنامہ امت‘ میں شائع ہوا ـ اس کے بعد پورا طبقاتی میڈیا ”لیاری گینگ وار“ کی گردان کرنے لگا ـ لیاری کو گینگ وار شناخت دینے میں/ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز/ ـ حالانکہ یہ لڑائی حکمران طبقات، پولیس، سیاسی جماعتوں، خفیہ اداروں، ٹھیکے دار مافیاز اور سرمایہ دار مفادات کے درمیان جاری طاقت کی جنگ تھی مگر میڈیا نے اسے لیاری کے نام سے نتھی کرکے پورے محنت کش علاقے کو مجرم بنا کر کٹہرے میں کھڑا کر دیا۔ میڈیا پروپیگنڈے کے زیرِ اثر یا اپنے پیوستہ مفادات کے تحفظ کی خاطر سیاسی اشرافیہ نے بھی اس بیانیے کو اپنا لیا ۔
لیاری کے ترقی پسند ادبی و سیاسی حلقے، موسیقی، فلم، فٹ بال، باکسنگ، کمیونٹی مراکز، مزاحمتی سیاست سب کو بیانیے سے غائب کر دیا گیا۔ یوں لیاری کو ”انسانوں کی بستی“ نہیں بلکہ ”وحشیوں کا جنگل“ بنا کر پیش کیا گیا۔ یہ لیاری کی تاریخ کی بدترین جعل سازی ثابت ہوئی۔
رحمان بلوچ اور چوہدری اسلم
عبدالرحمان بلوچ، جسے پولیس اور میڈیا نے ”رحمان ڈکیت“ کا لیبل دیا، چوہدری اسلم (ریاستی تشدد و ماورائے عدالت ہلاکتوں کا بدنام کردار) دونوں دراصل ریاستی طاقتوں اور سیاسی اشرافیہ کے باہمی تضادات کے خون آشام چہرے تھے۔ ان کی لڑائی کو ”لیاری گینگ وار“ اور ”لیاری ٹاسک فورس“ کے درمیان جنگ قرار دیا گیا ـ اس جنگ میں لیاری بنا ”لنکا“ جہاں رحمان ڈکیت نامی راون کا راج تھا جب کہ چوہدری اسلم ایودھیا سے آئے رام بنے، جن کا مشن لیاری کو نجات دلانا تھا ـ اس جھوٹی کہانی کو اس شدت سے پھیلایا گیا کہ سچ کا پتلا لیاری ندی میں ڈوب گیا ـ
لیاری کے محنت کش شہر کی معیشت پر قبضے کی حریصانہ جنگ کا ایندھن بنتے رہے ـ ہجرتیں ہوئیں، جوان لاشے گرے، فٹ بال کے میدان ویران اور باکسنگ کلبوں پر آسیبوں کا سایہ پڑ گیا ـ لیاری کا محنت کش شہر میں اچھوت بن کر رہ گیا ـ
ہندی فلم ”دھرندر“ کا لیاری
ہندی فلم ”دھرندر“ کے ٹریلر سے لگتا ہے فلم کا پسِ منظر لیاری ہے ـ مگر کون سا لیاری؟ ـ فٹ بال کی سرزمین ، نہیں ـ باکسنگ کا مرکز ، نہیں ـ موسیقی ، ادب اور بلوچ لوک ورثہ کا گھر ، نہیں ـ سیاسی شعور اور مزاحمت کا گہوارہ ، نہیں۔۔!
ٹریلر میں لیاری کو دہشت گردی کا میدان بنا کر دکھایا گیا ہے۔ لیاری کی یہ پیش کش تشویش ناک ہے ۔ پاکستانی میڈیا نے جتنی محدود اور تعصب زدہ تصویر بنائی تھی، اب بالی ووڈ اسے بین الاقوامی سطح پر ”ویژول پروپیگنڈا“ کی شکل دینے جا رہا ہے۔ ”دھرندر“ کے ذریعے دنیا پہلی بار لیاری کی مسخ شناخت کو وسیع پیمانے پر ویژول کی صورت دیکھے گی۔
لیاری کے فن کار شکیل مراد نے ایک پاکستانی ہدایت کار کی فلم ”دلدل“ پر تبصرہ کرتے کہا تھا ”آخر ان پاکستانیوں کو لیاری میں ہم کیوں نظر نہیں آتے، یہ ہر وقت رحمان ڈکیت اور ارشد پپو جیسوں کو ہی کیوں لیاری سمجھ لیتے ہیں؟“ ـ
شکیل مراد لیاری کے معروف فن کاروں میں سے ایک ہیں ـ بلوچی زبان میں بننے والی پہلی بلاک بسٹر ویڈیو فلم ”دبئی کسّی نبی“ (1995) سے ان کا نام چمکا ـ دانش بلوچ کی ہدایت میں بننے والی اس فلم میں وقار بلوچ نے لیاری کے ایک ایسے نوجوان کا کردار ادا کیا جو لیاری کی پس ماندگی اور حکمرانوں کی بے حسی سے تنگ آکر غیر قانونی طریقے سے دبئی جاتا ہے اور سمندر کی بے رحم موجوں سے ٹکرا کر جان کی بازی ہار جاتا ہے ـ سنجیدہ مزاح پر مبنی اس فلم کو بلوچ سماج میں وہی درجہ حاصل ہے جو بھارت میں ”شعلے“ اور پنجاب میں ”مولا جٹ“ کو ہے ـ فلم کا ایک گانا خاصا مقبول ہوا ـ
اے بزگیں لیاری
ترا کسّے نوں نہ چاری
(اے بدبخت لیاری ـ تجھے اب کوئی دیکھتا بھی نہیں۔)
شکیل مراد جیسے حاشیوں میں پلتے فن کاروں کی لیکن سنتا کون ہے ـ
”دبئی کسّی نبی“ کا لیاری ”دھرندر“ سے مختلف یا زیادہ واضح طور پر متضاد ہے ـ ”دھرندر“ کا لیاری وہ نہیں جہاں پروفیسر صبا دشتیاری ریفرنس لائبریری کھڑی کرتا ہے ـ بلوچ کلاسیک فن کو دنیا میں متعارف کروانے والا فیض محمد بلوچ پیدا کرتا ہے ـ بابائے بلوچستان غوث بخش بزنجو کی سیاسی تربیت کرتا ہے ـ یہ وہ لیاری نہیں جو کراچی کو رحیم بخش آزاد جیسے ترقی پسند دانشور دیتا ہے ـ محمد حسین جیسے عالمی باکسر تیار کرتا ہے ـ
”دھرندر“ اس جعلی لیاری کو پیش کرتا ہے جو پاکستان کے طاقتور طبقات کی لڑائیوں کی پیداوار ہے ـ جسے متعصب اور طبقاتی میڈیا نے ”گینگ وار“ بنا کر شہر پر مسلط کیا ـ ٹریلر سے ایک ایسے لیاری کا تصور ابھرتا ہے جہاں دہشت اور وحشت کا راج ہے ـ
حرف آخر
ہندی سینما دراصل پاکستان کے حکمران طبقات اور کراچی کے متعصب میڈیا کے بنائے ہوئے جعلی بیانیے کو ”گلوبلائز“ کرنے جا رہا ہے۔ اب لیاری پاکستان اور بھارت کے حکمران طبقات کی لڑائیوں کی بھینٹ چڑھنے والا ہے ـ یہ نہ صرف لیاری کے محنت کشوں بلکہ دنیا بھر میں پھیلے پورے بلوچ سماج کی شناخت کے ساتھ سنگین ناانصافی ہے۔
بیانیے کی یہ جنگ جو پاکستانی حکمران طبقات اور متعصب و بورژوا میڈیا نے لیاری کے خلاف چھیڑ رکھی ہے اب عالمی سطح پر لڑی جانے والی ہے ـ فی الحال اس جنگ میں لیاری کو شکست کا سامنا ہے ـ لیاری کے محنت کشوں کو لیکن ہار نہیں ماننی چاہیے ـ لڑائی ہارے ہیں، جنگ جاری ہے ـ




