بلوچستان میں تین ڈیم ٹوٹ گئے، بائیس افراد سیلابی ریلے میں بہہ گئے

ویب ڈیسک

بلوچستان کے مختلف علاقوں میں وقفے وقفے سے جاری موسلا دھار بارش کے باعث کئی اضلاع میں سیکڑوں افراد بے گھر ہو گئے جب کہ حکام امدادی کاموں میں مصروف ہیں

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران لسبیلہ، پشین، چمن، قلعہ عبداللہ، زیارت، ہرنائی، دکی، سنجاوی، لورالائی، فورٹ منرو، بارکھان، ژوب اور شیرانی کے علاقوں میں بارش ہوئی

پرونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے مطابق جمعے کی رات دیر گئے قلعہ عبداللہ میں سیلاب کے باعث 6 افراد جاں بحق ہوئے، ان اموات کے بعد صوبے میں یکم جون سے جاری بارشوں کے دوران ہونے مختلف حادثات و واقعات میں ہونے والی اموات کی کل تعداد 182 ہو گئی

لسبیلہ میں دریائے وندر میں طغیانی کے بعد پانی گھروں میں داخل ہوگیا، جس سے متعدد خاندان بے گھر ہوگئے، بعد ازاں ریسکیو ٹیموں نے متاثرہ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا

لسبیلہ کے ڈپٹی کمشنر مراد کاسی نے بتایا کہ گزشتہ چند روز سے مسلسل جاری رہنے والی بارشوں کے باعث وندر اور اوتھل میں ندیوں، نالوں اور نہروں میں طغیانی ہے، شیدید بارشوں کے باعث آر سی ڈی روڈ اور اوتھل پل بھی بہہ گئے ہیں

ڈپٹی کمشنر مراد کاسی نے کہا کہ احتیاطی اقدام کے طور پر ہم نے رہائشیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا ہے

انہوں نے لوگوں کو ان اضلاع کا سفر کرنے سے گریز کا مشورہ بھی دیا

بلوچستان کے افغانستان سے متصل ضلع قلعہ عبداللہ میں بائیس افراد سیلابی ریلے میں بہہ گئے، جن میں سے اب تک دو کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں جبکہ باقی کی تلاش جاری ہے

بارشوں کا تازہ سلسلہ جمعے کی رات شروع ہوا، جس کے باعث قلعہ عبداللہ میں طوفانی بارشیں ہوئیں، جن سے علاقے میں تین ڈیلے ایکشن ڈیم ٹوٹ گئے اور سیلابی پانی علاقے میں داخل ہوگیا

ڈپٹی کمشنر قلعہ عبداللہ منیر احمد کاکڑ کا کہنا ہے جمعے کو علاقے میں نہ صرف بے تحاشہ بارش ہوئی بلکہ بارش کے باعث پہلے سے پانی سے بھرے ہوئے دو تین ڈیم ٹوٹ گئے، جس کے باعث صورتحال خراب ہوگئی ہے

قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے پی ڈی ایم اے کے حکام کا کہنا ہے کہ قلعہ عبداللہ میں سیلابی ریلوں کے باعث مجموعی طور دو سو سے زائد افراد پھنس گئے تھے، جن میں سے پچیس بچوں سمیت ستر کے قریب افراد کو ریسکیو کر لیا گیا ہے

حکام کے مطابق سیلابی ریلے میں بہہ جانے والے افراد میں سے پندرہ ایک ٹریکٹر کی ٹرالی پر سوار تھے، جو کہ جان بچانے کی کوشش کے دوران پانی میں بہہ گئے

ڈپٹی کمشنر قلعہ عبداللہ منیر احمد کاکڑ نے فون پر بتایا کہ ٹریکٹر پائیزئی سیدان کے علاقے میں پھنس گیا تھا

انہوں نے کہا کہ وہاں جو عینی شاہدین تھے ان کے مطابق ٹریکٹر کی ٹرالی پر پندرہ افراد سوار تھے، جو کہ ٹرالی کی پانی میں الٹنے کے باعث بہہ گئے

ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ بہہ جانے والے ان افراد میں سے پانچ کو بچا لیا گیا ہے جبکہ باقی افراد کی تلاش کا سلسلہ جاری ہے

ٹریکٹر ٹرالی کے پانی میں ڈوبنے کی ایک ویڈیو بھی منظر عام پر آئی ہے، جس میں ٹریکٹر بہتے ہوئے تیز سیلابی ریلے میں پھنسا ہوا ہے اور اس کے ٹرالی میں لوگ سوار تھے

رات ہونے کے باعث ان کے پاس جو موبائل فونز تھے، انہوں نے ان کی لائٹ بھی جلائی ہوئی تھی اور قریب میں کچھ فاصلے پر ان کو بچانے کے لیے لوگ موجود ہیں لیکن وہ وڈیو میں نظر نہیں آ رہے ہیں

ان کو بچانے کی کوشش کرنے والے لوگ ان سے باتیں کرنے کے علاوہ ان کو ہدایات بھی دے رہے ہیں لیکن اس دوران پانی کے تیز بہاﺅ کے باعث ٹرالی الٹ جاتی ہے اور اس کے بعد اس میں سوار لوگ نظر نہیں آتے ہیں

ٹرالی کے الٹنے کے ساتھ ہی ان کو بچانے والے لوگوں کی چیخیں نکل جاتی ہیں اور ان میں سے ایک شخص روتا ہوا بولتا ہے کہ ٹریکٹر پر پندرہ افراد سوار تھے، جو کہ سب بہہ گئے

اس کے ساتھ ساتھ ان کے بچنے کے لیے دعاﺅں کی آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں

ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ قلعہ عبداللہ میں بے تحاشہ بارش ہوئی، جس کے باعث پہلے سے بھرے تین ڈیم ٹوٹ گئے

ڈائریکٹر جنرل پی ڈی ایم اے نصیر احمد ناصر بھی قلعہ عبداللہ پہنچ گئے، جہاں انہوں نے ریسکیو اور ریلیف کی کوششوں کا جائزہ لیا

ان کا کہنا تھا کہ سیلاب کی اطلاع ملتے ہیں پی ڈی ایم اے کے تمام وسائل کو استعمال کیا، گیا جن میں ہیوی مشنری بھی شامل تھی

انہوں نے بتایا کہ اب تک دو افراد کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں

قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے کے ڈائریکٹر فیصل نسیم پانیزئی نے بتایا سیلابی پانی کی وجہ سے متعدد دیہات زیر آب آگئے ہیں

ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم اے کی ٹیمیں اور انتظامیہ کے اہلکار لوگوں کو ریسکیو کرنے میں مصروف ہیں

ان کا کہنا تھا کہ رات گئے تک ان میں سے متعدد افراد کو ریسکیو کر لیا گیا تھا

پی ڈی ایم اے کے ڈائریکٹر ریلیف عطاءاللہ مینگل نے بتایا کہ میزئی اڈے کے قریب دو سو سے زائد افراد سیلابی ریلوں میں پھنس گئے تھے

ان کا کہنا ان میں پچیس بچوں سمیت ستر کے قریب افراد کو ریسکیو کر لیا گیا

انہوں نے بتایا کہ پھنسے ہوئے باقی افراد ایک پہاڑی پر ہیں، جن کو ریسکیو کرنے کے لیے کوششیں جاری ہیں

قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے (پی ڈی ایم اے) کے اعدادوشمار کے مطابق جون سے اگست کے دوران 182 افراد جان سے جاچکے ہیں

دوسری جانب پی ڈی ایم اے کے انچارج محمد یونس نے ہفتے کو بتایا کہ قلعہ عبداللہ اور قلعہ سیف اللہ میں بارشوں سے نقصانات ہوئے، قلعہ عبداللہ میں لیویز نے چار افراد کی موت کی تصدیق کی ہے

یونس نے قلعہ عبداللہ میں کلاؤڈ برسٹ کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ گذشتہ شب علاقے میں بادل پھٹنے سے شدید بارشیں ہوئیں، جس سے تین ڈیلے ایکشن ڈیم ٹوٹے

انہوں نے بتایا کہ ’ڈیموں کے ٹوٹنے سے چار سے پانچ علاقوں میں ستر سے اسی گھر متاثر ہوئے جبکہ قلعہ سیف اللہ میں چالیس سے زائد گھروں کو نقصان پہنچا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’قلعہ عبداللہ میں حالیہ بارشوں اور سیلاب کے باعث دو سے ڈھائی ہزار افراد متاثر ہوئے، ریسکیو کا کام شروع ہے، ڈائریکٹر جنرل پی ڈی ایم اے اور دیگر حکام علاقے میں موجود ہیں۔‘

مقامی حکام نے بتایا کہ بارشوں کے دوران سیکڑوں مویشی ہلاک ہو گئے جب کہ کئی ایکڑ زمین پر پھیلی فصلیں تباہ ہو گئیں

کوئٹہ، کراچی شاہراہ پر ٹریفک ہفتے کے روز معطل ہے جبکہ بلوچستان کا سندھ سے رابطہ منقطع ہے، سیلابی پانی کے باعث چمن اور کوئٹہ کے درمیان ٹرین سروس بھی متاثر ہوئی ہے

دوسری جانب، قلات کے کمشنر داؤد خلجی نے کہا کہ نیشنل ہائی وے پر اتھل کے علاقے لنڈا کے قریب حال ہی میں قائم کردہ متبادل روڈ بھی سیلاب میں بہہ گیا ہے

قلعہ عبداللہ کے علاقے مسلم باغ، لسبیلہ، بارکھان اور دیگر اضلاع میں بارشوں کے باعث ندی نالوں میں طغیانی آئی ہے

یونس نے بتایا کہ ضلع لسبیلہ میں ایک گاڑی بہہ جانے سے ڈرائیور کی ہلاکت کی اطلاع ہے، جس کی تصدیق کا عمل جاری ہے

محکمہ اطلاعات بلوچستان نے ہفتے کو ایک بیان میں بتایا کہ خطرناک بارشوں کی ایک اور لہر کے خدشے کے باعث پی ڈی ایم اے نے کیچ اور گوادر میں الرٹ جاری کردیا

پی ڈی ایم اے نے الرٹ میں ماہی گیروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ ممکنہ خطرناک بارشوں کے دوران سمندر میں شکار سمیت ہر قسم کی عمل و حرکت سے گریز کریں اور کیچ تربت میں ندی نالوں کی طرف جانے، شکار اور سیر و تفریح کی خاطر غیر ضروری طور پر باہر نکلنے سے گریز کریں

کمشنر قلات ڈویژن نے بیان میں کہا کہ اوتھل کے مقام پر لنڈا ندی میں سیلابی ریلے کے باعث قومی شاہراہ پر متبادل راستہ بھی بہہ گیا

قلعہ عبداللہ کے ایک مقامی شخص منصور احمد نے بتایا کہ رات کو بارش شروع ہوئی، جو بلا تعطل تین گھنٹے تک جاری رہی۔ انہوں نے بتایا کہ سیلابی ریلوں سے باغوں اور فصلوں کو نقصان پہنچا ہے جبکہ مال مویشی بھی بہہ گئے

دوسری جانب، پولیس اور ہسپتال ذرائع نے بتایا کراچی میں ہفتے کے روز ہونے والی بارش کے دوران مختلف حادثات میں 3 افراد جاں بحق ہوئے

پولیس سرجن ڈاکٹر سمیہ سید نے بتایا کہ تمام افراد بجلی کا کرنٹ لگنے سے موت کے منہ میں گئے

بسئیس سالہ نعیم عباس کو گلشن اقبال سے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر لایا گیا، اس کی موت کا سبب بجلی کا کرنٹ لگنا تھا

ایک اور متوفی جس کی شناخت پینتالیس سالہ علی محمد کے نام سے ہوئی، اسے ملیر، الفلاح کے علاقے جمعہ گوٹھ سے لایا گیا تھا

ایدھی فاؤنڈیشن کے ترجمان نے بتایا کہ علی محمد کو نوردین گارڈن کے قریب گھر میں کام کرتے ہوئے کرنٹ لگا تھا

اس کے علاوہ، بلدیہ ٹاؤن کے علاقے گلشن غازی میں کرنٹ لگنے سے تیئیس سالہ قربان سعید جاں بحق ہوگیا، نوجوان کی میت کو ڈاکٹر روتھ فاؤ سول ہسپتال کراچی منتقل کیا گیا۔ ہفتے کی صبح کراچی کے کئی علاقوں جیسے کہ شارع فیصل، ڈیفنس، صدر اور کلفٹن میں بارش ہوئی

محکمہ موسمیات نے ہفتے کو مزید بارشوں کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا کہ 16 سے 18 اگست کے دوران بلوچستان اور سندھ اور جنوبی پنجاب میں مزید شدید بارشوں کا امکان ہے

محکمے کے مطابق ہوا کا شدید کم دباؤ بحیرہ عرب میں داخل ہو چکا ہے، جو مکران ساحل کے ساتھ مغرب کی جانب بڑھ رہا ہے

محکے کا کہنا ہے کہ ان تین دنوں میں سندھ، بلوچستان، پنجاب، اسلام آباد، خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور کشمیر میں تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ بارش اور بعض مقامات پرموسلادھار بارش کا امکان ہے

محکمے نے بتایا کہ 14 سے 18 اگست کے دوران موسلادھار بارش کے باعث کراچی، ٹھٹہ، بدین، حیدرآباد، دادو، جام شورو، سکھر، لاڑکانہ، شہید بینظیرآباد اور میرپور خاص میں نشیبی علاقے زیر آب آنے کا اندیشہ ہے

اس دوران قلعہ سیف اللہ، لورالائی، بارکھان، کوہلو، موسی خیل، شیرانی، سبی، بولان، قلات، خضدار، لسبیلہ، آواران، تربت، پنجگور، پسنی، جیوانی، اورماڑہ، گوادر اور ڈیرہ غازی خان کے برساتی اور مقامی ندی نالوں میں طغیانی کا خطرہ ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close