
پہاڑی علاقوں کی وہ ندیاں، جو بارش کے بعد جنم لیتی ہیں اور جھرنوں کی صورت میں بہتے ہوئے نیچے کے میدانوں تک زندگی پہنچاتی ہیں، دراصل قدرت کا وہ خاموش تحفہ ہیں جن پر پورا ایک ماحولیاتی نظام قائم ہوتا ہے۔ پہاڑ کی چوٹی سے نکلنے والا شفاف پانی جب کئی کلومیٹر کا سفر طے کر کے گاؤں، کھیتوں اور چراگاہوں کو سیراب کرتا ہے تو اس کے ہر قطرے میں زمین کی سانس بندھی ہوتی ہے۔ یہی پانی کھیتوں کو زرخیز بناتا ہے، مٹی میں نمی برقرار رکھتا ہے، مویشیوں کے جسم میں پانی کی کمی پوری کرتا ہے اور گاؤں کی پوری غذائی زنجیر کو سہارا دیتا ہے۔
اس تصویر میں اپ جو جھرنا دیکھ رہے ہیں اس ایریا کو سونا کُوھر (کُوھر بلوچی زبان کے سلیمانی لہجے میں کنویں کو کہتے ہیں) تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اس پورے ایریا میں کھارا پانی تھا، سونا نامی بندے نے اج سے بہت سال پہلے یہاں ایک کنواں کھودا۔ اس میں میٹھا پانی نکلا اور پوری علاقے کے لوگ یہاں سے پانی لیتے تھے، جینے کے لیے اور اپنے ضرورت کے لیے۔ آج اسی جھرنے میں گٹر بہہ رہا ہے۔
جب ان ندیوں میں گٹر کا پانی، انسانی فضلہ یا رہائشی و کمرشل منصوبوں کا سیوریج شامل کر دیا جائے تو یہ قدرتی نظام اندر سے ٹوٹنے لگتا ہے۔ فضلے میں موجود امونیا، ای کولائی، فاسفیٹس، نائٹریٹس اور بائیولوجیکل آکسیجن ڈیمانڈ جیسے عناصر پانی کی اصل ساخت بدل دیتے ہیں۔ یہ آلودگی ندی میں آکسیجن کم کر دیتی ہے، جس سے آبی کیڑے، خوردبینی جاندار اور وہ مائیکرو آرگینزم ختم ہونے لگتے ہیں جو مٹی کی زرخیزی کے بنیادی محافظ ہوتے ہیں۔
سائنس ثابت کرتی ہے کہ آلودہ پانی کے ساتھ بہنے والی نیوٹریئنٹ پلوشن زمین کی اوپری تہہ میں نامیاتی توازن بگاڑ دیتی ہے، جس کے نتیجے میں فصلوں کی طاقت، پیداوار اور غذائی معیار متاثر ہوتا ہے۔
اور نقصان یہیں ختم نہیں ہوتا۔ جب یہ آلودگی نیچے والے دیہات تک پہنچتی ہے تو جانوروں کے جگر، گردے اور خون سب سے پہلے متاثر ہوتے ہیں۔ یہی زہریلے مادے گاؤں کے کنوؤں، کاریزوں اور زیرِ زمین پانی میں رس کر انسانوں تک پہنچتے ہیں۔ بچوں میں دست، بخار، جلدی امراض، اور بڑوں میں معدے، آنتوں اور جگر کی بیماریاں عام ہونے لگتی ہیں۔ وہ پانی جو کبھی شفا سمجھا جاتا تھا، اب بیماریوں کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
پہاڑ سے سمندر تک کا تقریباً سو کلومیٹر سفر، جو کبھی زندگی بکھیرتا تھا، آج گٹر کے ایک قطرے سے بھی زہر آلود ہو سکتا ہے۔ یہ صرف ایک ندی کا قتل نہیں، یہ ایک پوری تہذیب کی سانس روک دینے کے برابر ہے۔ پانی زمین کا خون ہوتا ہے، اور جب خون میں گندگی شامل ہو جائے تو جسم مرتا نہیں، لیکن گلنا شروع ہو جاتا ہے۔ یہی گلاؤ آہستہ آہستہ مویشیوں کی ہڈیوں، انسانوں کے جسموں اور کھیتوں کی مٹی میں اتر جاتا ہے اور وہ سرسبز وادیاں چند برسوں میں بنجر ہونے لگتی ہیں۔
قدرت نے پہاڑوں، بارشوں اور جھرنوں کا یہ نظام پاکیزگی کی شرط پر قائم کیا تھا۔ انسان جب اپنی سہولت کے نام پر ان ندیوں میں گٹر اور فضلے کا راستہ ڈال دیتا ہے تو وہ صرف پانی کو نہیں، اپنی آنے والی نسلوں کی زندگی کو آلودہ کرتا ہے۔ جب پانی مر جاتا ہے، تو وادیاں، کھیت اور گاؤں بھی مرنے لگتے ہیں اور پانی کبھی شور نہیں مچاتا، بس خاموشی سے اپنا رنگ بدل کر ہماری غفلت کا ثبوت بن جاتا ہے۔
تھدو ندی کی تفصیلات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ نظام کتنے وسیع پیمانے پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اس ندی کی لمبائی تقریباً 64 کلومیٹر ہے جبکہ اس کا کیچمنٹ ایریا 240 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہے۔ نقشہ دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ 60 سے 70 کلومیٹر کے اندر کتنے قدیم پہاڑی جھرنے، کتنے چشمے ہوں گے جو مل کر تھدو، لنگھیجی، جلندھرو اور درجنوں دوسری ندیاں بناتے ہیں۔

حالیہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اس ندی کا 25 کلومیٹر میں گٹر اور فضلہ بہہ رہا ہے جس میں بحریہ ٹاؤن کے فضلے اور پاکولا فیکٹری کے کیمیکل، دمبہ گوٹھ سے آگے ناگوری کا پورا علائقہ اس میں جتنے باڑے بھینس کالونی کا جتنہ بھی فضلہ ہے، وہ سارا ندی میں زہر بن کر بہہ رہا ہے۔ ملیر کے جتنے بھی گاؤں تھدو ندی کے آس پاس واقع ہیں، ان سب گاؤں کا سیوریج کا پورا سسٹم اس ندی میں بہہ رہا ہے۔ یہ سلسلہ یہاں تک رکنے والا نہیں۔ ملیر برج قائدآباد تک کم و بیش
25 سے 30 کلومیٹر سے زیادہ پورے ندی کو سیوریج کے گٹر اور فیکٹریوں کے کیمیکل سے قتل کیا گیا ہے۔
یہ سارا علاقہ صدیوں سے ایک مکمل ماحولیاتی اور تہذیبی اکائی کے طور پر زندہ تھا، مگر بحریہ ٹاؤن کے آنے سے یہ پورا ندیاتی نظام شدید تباہی کا شکار ہے۔ چرواہوں کے چراگاہیں، پہاڑی زندگی کے رنگ، مقامی سبزہ، پانی کے چشمے سب کچھ ایک ایسے حملے کی زد میں ہے، جس پر کوئی آواز اٹھانے والا نہیں۔ ایک وسیع اور قدیم تہذیب مٹنے کے قریب ہے۔
سو سے زیادہ گاؤں اس ندی پر قائم تھے۔ یہ گاؤں کبھی چراغوں سے روشن رہتے تھے، لوگ یہاں مویشی چراتے تھے، جھرنوں سے پانی بھرتے تھے، ندیوں سے آبشاری کرتے تھے، اور یہی پانی پی کر نسلوں تک زندہ رہے۔ آج وہی پانی زہر بن چکا ہے… اور ندی گٹر میں بدل دی گئی ہے۔
کیا مقامی لوگوں نے کوئی گناہ کیا تھا کہ انہوں نے اس خطے کو آباد رکھا؟ کہ انہوں نے ندیوں اور پہاڑوں کو زندہ رکھا؟ کہ انہوں نے نسلوں تک اس سرزمین کی حفاظت کی؟
آج وہ ریڈ انڈین سے بھی بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی زمینیں، ان کی پہچان، ان کے آباء کی قبریں، ان کے پیڑ، ان کے پہاڑ، ان کی ثقافت سب کچھ بھیڑیا (بحریہ ٹاؤن) نام کے اس ایک منصوبے کے نیچے دفن کیا جا رہا ہے۔ جو کچھ صدیوں میں بنا تھا، وہ چند برسوں میں مٹا دیا گیا ہے۔
یہ صرف زمین پر ظلم نہیں، تاریخ پر بھی ظلم ہے اور تاریخ کبھی معاف نہیں کرتی۔




