مبین انصاری ایک ہمہ جہت اور محنت کش آرٹسٹ ہے جو کہ بیک وقت ایک پیشہ ور فوٹو جرنلسٹ، پرنٹ میکر، مصور، گٹارسٹ، فوٹو گرافر، وڈیو پروڈیوسر، مجسمہ ساز ، دو شاندار کتابوں کا مصنف اور بہت کچھ ہوتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر مشہور، معروف اور اپنے کام میں قابل ترین مانا جاتا ہے۔ مبین انصاری کا شمار پاکستان کے ٹاپ پانچ فوٹوگرافروں میں کیا جاتا ہے۔
فوٹو گرافی کائناتِ رنگ و بو کی وہ واحد زبان ہے جسے دنیا میں بسنے والے تمام جیو سمجھتے، مانتے اور سراہتے ہیں اسی لئے انصاری نے اپنے اندرونی تاثرات، معاملات و حاصلات کے اظہار کے لئے موجودہ دور کے اس طاقتور ذریعے کا انتخاب کیا، کیونکہ وہ اپنی "کلکس” کے ذریعہ لوگوں تک وہ سب پہنچانے کا ہنر جانتا ہے، جو "وہ چاہتا ہے دنیا تک پہنچے.” اپنی مرضی کا مفہوم تصویر میں لانے کے لئے مبین کو پتہ ہوتا ہے کہ کہاں کھڑا ہوکر، کس زاویے سے وقت کو قید کیا جائے جس سے وہ مطلوبہ کہانی مل سکے، جس کے احساسات کی تشریح کے لئے اس نے خود کو ارپن کیا ہوا ہے.
مبین اپنے کرداروں کو اس طرح کیپچر نہیں کرتا، جیسے وہ دکھائی دیتے ہیں بلکہ ان کی تصاویر اس طرح کھینچتا ہے جیسے کہ وہ اصل میں ہوتی ہیں، اپنی تمام کہانیوں اور جزیات کے ساتھ محسوس کرتے ہوئے، تاکہ دیکھنے والوں تک ان کرداروں کی روح نکل کر سامنے آجائے۔ اس کے پاس الفاظ سے زیادہ آنکھوں کی گرفت طاقتور ہوتی ہے، کیونکہ اس جیسے ہنرمندوں کے لئے گفتگو کا موثر ترین اور مزیدار طریقہ فوٹوگرافی ہے.
میں ہمیشہ سے اس بین الاقوامی سطح کے فوٹو گرافر، کثیرالخوبی انسان، سادہ روح اور شائستہ فنکار کا مداح رہا ہوں، جس کا ماننا ہے کہ "زندگی ایک کیمرہ کی طرح ہے، لیکن توجہ صرف اس بات پر مرکوز کریں کہ "اہم کیا ہے”۔ اچھے وقتوں کو اپنی گرفت میں لے لیں، منفیات سے بہتریات کو جنم دیں، لیکن اگر مطلوبہ نتائج سامنے نہیں آئیں تو باقی کلکس پھر بھی آپ ہی کے اپنے ہاتھ میں ہیں.”
مبین انصاری کی شاہکار تصاویر کی نمائشیں امریکہ، اٹلی، چین، ہندوستان، عراق اور دیگر کئی ممالک میں ہوتی رہتی ہیں۔ اس نے دوہا میں حیہ التہانی کے ساتھ "خوبصورت پاکستان اور حیرت انگیز قطر” کے عنوان سے باہمی فوٹوگرافی کی نمائش میں بھی حصہ لیا تھا، جہاں انصاری نے پاکستان کی رونق، خوبصورتی اور مثبت پہلوؤں کو اپنی تصاویر میں پیش کیا تھا جسے بین الاقوامی طور پر میڈیا، فورمز اور شائقین نے بہت سراہا تھا۔ مبین انصاری کو بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کے ساتھ بیشمار بین الاقوامی تنظیموں، اداروں اور میڈیا گروپس کے لئے کام کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے.
مبین سے مری جان پہچان اس کے کام کے حوالے سے کافی پہلے سے تھی، کیوں کہ اس جیسا معروف و شاندار آرٹسٹ میری کھوجی نظروں سے کیسے عنقا رہ سکتا تھا کہ میں اس کے لاکھوں پرستاروں میں سے ایک ہوں اور یہ بات بھی میرے لئے باعثِ افتخار تھی کہ وہ میرے جیسے چھوٹے آدمی کو میرے کام کے حوالے سے جانتا تھا۔ فون پر تو بات چیت رہتی تھی مگر کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے سننے کی قوت سے محرومی کے سبب موبائل پر بات وہ اپنے کسی ساتھی سے کرا دیتا ہے، جو سن کر اسے مدعا بتا دیتا ہے اور مبین کا جواب بات کرنے والے تک پہنچا دیتا ہے۔ لیکن اگر بات آمنے سامنے ہو تو مبین سامنے والے کے ہونٹوں کی جنبش سے بات کا مفہوم نکال کر جواب دیا کرتا ہے.
اس سے میری پہلی ملاقات دسمبر 2017ع میں ہوئی تھی، جب اس نے مجھے موبائل پر ایس ایم ایس کیا تھا کہ "آصف بھائی آج میں سکھر میں ہوں اور کل اپنی ٹیم کے ساتھ مہین جو دڑو آرہا ہوں جہاں آپ کے مہمان ہوں گے”۔ اگلے دن مہیں جو دڑو پر میں ان کے ساتھ تھا جہاں مبین نے اس قدیم شہر کو مختلف زاویوں میں اپنے کام کے حوالے سے عکس بند کرتے ہوئے مجھے بتایا تھا کہ "اس عظیم شہری آبادی سے مجھے روحانی لگاؤ رہا ہے، بلکہ یہ میرا خواب تھا کہ کبھی اس مہذب دھرتی پر جانا نصیب ہو، کیوں کہ میں قبل از تاریخ کے اس میٹروپولیٹن شہر کے بارے میں اسکول سے یونیورسٹی تک پڑھتا، سنتا اور باتیں کرتا رہا ہوں۔ آج یہاں ہونا میرے لئے ایک میٹھے خیال اور حسین خواب کی مانند ہے”
اس وقت سندھ کے بارے میں بات کرتے ہوئے مبین نے کہا تھا کہ "آصف بھائی سندھ کی دھرتی شاندار تاریخ، زرخیز تہذیب اور آثارِ قدیمہ کی دولت سے مالا مال ہے۔ یہاں وہ سب کچھ ہے جو کیمرے کے اپرچر اور حقیقی فوٹوگرافروں کے وژن کی توجہ کھینچنے کے لئے کافی ہوتا ہے”
مبین انصاری 29 نومبر 1986ع کو راولپنڈی کے ویسٹ رج والے علاقے میں پیدا ہوئے اور پروان چڑھے۔ مغربی رج راولپنڈی میں 1880ع کی ایک قدیم رہائشی اسکیم ہے جب برطانوی فوج نے اس علاقے میں آ کر یہاں اپنی چھاؤنی قائم کی تھی۔ مبین کے والد سلمان انصاری آئی ٹی انجینئر ہیں، جن کے تین بیٹے ہیں جن میں سے مبین سب سے چھوٹا ہے۔ اس کے دادا، دادی اور والد بہترین فوٹوگرافر تھے اور ان کے محبت اور شوق نے مبین کو اس فنِ عظیم میں اپنا مستقبل بنانے کی ترغیب دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ دورانِ تعلیم اس کے والد کے ایک ڈیجیٹل کیمرا کے اپنے اسکول میں استعمال سے فوٹو گرافی کے شوق نے اس کے اندر جوش و جذبہ کو بھڑکایا تھا۔ 1998ع کے دوران جب اس کا کنبہ پاک چین سرحد پر خنجراب درہ گھومنے گیا تو مبین نے اپنے والد کو وہاں کے دیدہ زیب و خوبصورت مناظر، پہاڑوں اور گھر والوں کی تصاویر کھینچتے دیکھا اور بعد ازاں کیمرہ میں قید کئے ہوئے فطرت کے عظیم شاہکار پرنٹ کے بعد دیکھے تو مبین نے من ہی من طے کرلیا کہ اس نے آگے چل کر یہی کام کرنا ہے۔
جینیاتی طور پر فوٹوگرافی کا نرم و گرم گوشہ مبین انصاری کے خون میں شامل تھا، جس نے وقت گزرنے کے ساتھ اس کے ذوق و شوق کو بہت متاثر کیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بچپن سے ہی اپنے گردونواح میں موجود انسان و فطرت کے تمام کرداروں سے متعلق اس کی مشاہداتی حس تیز ہوا کرتی تھی، جو بعد ازاں اس کے لئے فوٹوگرافی کے شوق میں بہت کارآمد ثابت ہوئی.
مبین انصاری نے پانچویں کلاس سے دسویں جماعت کی تعلیم ہیڈ اسٹارٹ اسکول راولپنڈی سے حاصل کی تھی، جبکہ 2011ع میں اس نے نیشنل کالج آف آرٹ (این سی اے) سے فائن آرٹس میں چار سالہ گریجویشن کی جہاں اس کا اہم موضوعی سبجیکٹ مصوری تھی، جبکہ مجسمہ سازی اور پرنٹ میکنگ بھی اس کے خاص مضامین تھے۔ این سی اے فنونِ لطیفہ سے متعلق پاکستان کا سب سے قدیم ادارہ ہے جس کا نعرہ یہ ہے کہ "اپنے کام میں برتری تلاش کرو تاکہ دنیا تمہاری قدردان ہو” سنہ 2016ع میں اس اس کالج کو پاکستان کا سب سے بڑا آرٹ اسکول قرار دیا گیا۔
این سی اے کا بنیادی نام "میو اسکول آف انڈسٹریل آرٹس” تھا جو 1875ع میں برطانوی دور میں ہندوستانی آزادی پسند لالہ لاجپت رائے کی کوششوں سے (28 جنوری 1865ع سے 17 نومبر 1928ع) قائم ہوا تھا۔ جان لاک ووڈ کپلنگ (رد یارد کپلنگ کا والد) اسکول کا پہلا پرنسپل مقرر ہوا تھا۔ 1958ع میں میو اسکول آف انڈسٹریل آرٹ کا نام بدل کر "نیشنل کالج آف آرٹس” رکھا گیا۔ 1985ع میں اس کالج کو ڈگری دینے والے ادارے کی حیثیت سے منظوری دی گئی جبکہ 2011ع میں اس کالج کو یونیورسٹی کا چارٹر ملا تھا۔ معروف ہندوستانی سوشلسٹ انقلابی بھگت سنگھ اور سکھدیو تھاپر نے بھی اس ادارے سے تعلیم حاصل کی تھی.
مبین انصاری کی زندگی جہدِ مسلسل کی ایک لمبی داستان ہے جس میں اس نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے کونے کونے میں جاکر کائنات کی بیشمار حسناکیوں کو اپنی تصویروں میں یکجا کیا ہے جنہیں وقت کے ساتھ وہ کتابوں کی دنیا میں متعارف کرانے کی خواہش بھی رکھتا ہے جس کی ابتدا اس نے دھڑکن سے کی ہے۔ "دھڑکن، ہارٹ بیٹ آف اے نیشن” مبین کے نکالے ہوئے خوبصورت انسانی پورٹریٹس کا پہلا تصویری مجموعہ یا کتاب ہے جو 2014ع میں شائع ہوئی تھی، جس میں مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والی پاکستان کی 98 تاریخ ساز شخصیات کی تصاویر بمعہ ایک چھوٹے پروفائیل موجود ہیں، جن میں عبدالستار ایدھی، بانو قدسیہ، ڈاکٹر ادیب رضوی، شیما کرمانی وغیرہ شامل ہیں۔ اس کتاب میں دیئے گئے ملک کے ان مایہ ناز بیٹوں میں سے عبدالستار ایدھی اور ثمر من ﷲ (فلم میکر ، دستاویزی فلم بنانے والا) نے مبین انصاری کو بہت متاثر کیا۔
مبین انصاری کی دوسری کتاب "پرچم میں سفید”
"پرچم میں سفید” کے عنوان سے انصاری کی دوسری کتاب دراصل پاکستان میں موجود اقلیتوں کے سماجی، نفسیاتی اور ذاتی معاملات پر مشتمل تصاویری کہانیاں ہیں، جسے ایک آئینہ کہہ لیں تو بیجا نہ ہوگا، جس میں اقلیتوں کے حقوق، مسائل، سماجیات اور زندگیوں سے متعلق پاکستان میں صورتحال پر کیمرہ کی آنکھ سے بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب میں اقلیتوں کی دکھدائک تصاویر کو ایسے سنسنی خیز انداز میں پیش کیا گیا ہے جیسے وہ لوگ "انسانوں کی اس دنیا سے متعلق ہی نہ ہوں”۔ مبین انصاری اپنی اس کتاب میں اقلیتوں کی تاریخ کو بھی بھرپور انداز میں اجاگر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کتاب کی کراچی میں رونمائی کی تقریب کے دوران قریبن تمام عقائد و مسالک سے متعلق سامعین جیسا کہ سکھوں، ہندوؤں، عیسائیوں، بہائیوں، پارسیوں، کالاشیوں، ادیبوں، صحافیوں اور محققوں وغیرہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی تھی.