سپریم کورٹ آف پاکستان نے سندھ میں زمینوں بالخصوص کراچی ڈویژن کی زمینوں کے ارزاں نرخ پر غیر قانونی الاٹمنٹ کا از خود نوٹس لیتے ہوۓ 28 نومبر 2011ء سے سرکاری زمینوں کی الاٹمنٹ پر پابندی عائد کر دی، جس سے یہاں کے لوگوں نے سکھ کا سانس لیا لیکن حکومت کے ارادے کچھ اور تھے ، لہٰذا اپنوں کو نوازنے اور کراچی کے مقامی لوگوں کی زمینوں کو، جو ان کے روزگار کا واحد وسیلہ ہیں ، ہتھیانے کے لیے ایک اور قانونی راستہ نکالا ۔ 19 دسمبر 2013ء کو سندھ اسمبلی سے ایکٹ منظور کروا کر ملیر اور لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹیز کے سال 2002ء میں منسوخ کردہ ایکٹ بحال کئے گئے۔ اس طرح ان کے 2002 ء سے 2013 ء تک جو غیر قانونی حیثیت والے کام تھے انہیں قانونی تحفظ دیا گیا ۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ کراچی کے دیہات سے منتخب نمائندے اس غیر قانونی عمل کا حصہ بنے، جو نجی محفلوں میں ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (MDA) اور لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی (LDA) کو ختم کرنے اور ان کی غیر قانونی سرگرمیوں کے بارے میں مگر مچھ کے آنسو بہاتے رہے ہیں۔
بحال کردہ قانون کے سیکشن 2 اور سیکشن 8 میں ترمیم کر کے ان ترقیاتی اداروں کو دوسروں کے زمینوں کی نیلامی ، سرکاری زمین اپنے اور مختلف علاقوں میں بکھری زمینوں کے حصوں کے عوض ایک ہی جگہ کنسالیڈیٹ کر کے ایک ٹکڑے یا قطعۂ زمین کی صورت میں دینے کے اختیارات سونپے گئے ۔ اس ترمیم شدہ ایکٹ کا اصل مقصد یہ ہے کہ جہاں ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی کوئی اسکیم ہو، اس اسکیم سے ایک پلاٹ ، دوسرے پلاٹ سے ملانا ہے جو صرف اعلان کردہ ہاؤسنگ اسکیم میں کارآمد ہے.
ریونیو ڈپارٹمنٹ نے ایک نوٹیفکیشن نمبر 26 PS/SMBR/BOR/KAR/430 dated 2013 December جاری کر کے ضلع ملیر کے 43 دیھ ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے حوالے کر دیئے اور ملیر کی زمینیں بلڈرز خاص طور پر بحریہ ٹاؤن کو سونپنے کی بنیاد رکھ دی۔ ان دیہوں کے نام ذیل میں دیے جاتے ہیں:
1. لوہارکو لنگھ
2.مٹھاں گھر
3.کاٹھوڑ
4.گھگھر
5. دھابیجی
6.کھدیجی
7.اللہ پھہائی
8.شاہی چھب
9.ڈانڈو
10.ناراتھر
11.کونکر
12.درسانو چھنو
13.ٹوڑ
14. مہیو
15. بازار
16. شاہ مرید
17. لنگھیجی
18. بولہاڑی
19. چوہڑ
20.امیلانو
21.آبدار
22.کرمتانی لٹھ
23.بھاڈ
24.بائل
25. مانڈڑو
26. موئیدان
27. گڈاپ
28. کھار
29.سوندھی
30. کھرکھرو
31.تراڑی
32.جھونجھار
33.ملھ
34.لُسر
35.شورینگ
36.حدر واہ
37. مہیر جبل
38.کنڈ
39. جھنگ کَنڈ
40. شور کنڈ
41. وان کنڈ
42. سنہڑو
43. کوٹیرڑو
یہ عمل مکمل طور پر غیر قانونی تھا، جس کے لئے اشتہارات دے کر اعتراض طلبی کی رسم پوری کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی گئی ۔ ان دیہوں میں لوگوں کی قبولی سروے زمینیں ، سرکاری لیز والی زمینیں ، پہاڑ ، ندیاں ، نالے، پانی کے بہاؤ والی گزر گاہیں ، چراہ گاھیں ، چشمے و تالاب ، گوٹھ ، قبرستان ، اسکول ، وائلڈ لائیف سپورٹ ایریا اور آثار قدیمہ کے ان گنت مقامات بھی ہیں ۔ ان کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے ۔ ان دیہوں میں کچھ وائیلڈ لائیف (جنگلی حیات) کی حدود میں آجاتی ہیں اور کچھ دیہیں وائیلڈ لائف سپورٹ ایریا میں شامل ہیں ۔ ان تمام باتوں کو نظرانداز کیا گیا، کیوں کہ حکومت کا اصل مقصد یہ تھا کہ یہ پہاڑی علاقے دراصل بحریہ ٹاؤن کو دینے تھے ۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کی پابندی کے باعث یہ ممکن نہ تھا اس لیے غیر قانونی طریقے سے ایک ایکٹ کے ذریعے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو اختیارات دیئے گئے.
کراچی میں 92 دیہیں ہیں ۔ انہیں کے ڈی اے (K.D.A)، ایم ڈی اے (M.D.A) اور ایل ڈی اے (L.D.A میں تقسیم کیا گیا ہے ، جس کے نتیجے میں 13 مارچ 2014ء کو ملیر ترقیاتی ادارے کی جانب سے اخبارات میں اشتہار دے کر اعتراضات منگواۓ گئے کہ بحریہ ٹاؤن بلڈرز کمپنی کی مختلف اتھارٹیز نے ڈپٹی کمشنر ملیر کے ذریعے درخواست دی ہے کہ ان کی طرف سے ملیر کے مختلف دیہوں میں خرید کردہ زمین کی پھیلی اراضی ٹکڑوں کے بدلے میں ملیر ترقیاتی ادارے کی جانب سے ماسٹر پلان کے فیز-ون پر مشتمل علاقوں میں سپر ہائی وے ناگوری سوسائٹی کے مقابل سپر ہائی وے پر 1330 ایکڑ زمین کنسالیڈیٹ کر کے الاٹ کی جائے ۔ ملیر ترقیاتی ادارے نے یہ درخواست منظور کر لی ۔اس طرح مختلف تاریخوں میں اشتہارات کے ذریعے مختلف زمین کے ٹکڑے، جو گابو پٹ ،موئیدان ، کنڈ ، وان کنڈ ، گڈاپ اور دور دراز دیہوں میں تھے، انہیں کنسالیڈیشن کے ذریعے سپر ہائی وے پر شفٹ کیا گیا ، جو سلسلہ آج(2015 تک) تک جاری ہے۔ ذرائع کے مطابق اب تک (جون 2015) تک سات ہزار ایکڑ زمینوں کی الاٹمنٹ بحریہ ٹاؤن کے سپرد کی گئی ہے ، لیکن بحریہ ٹاؤن کو د یہہ لنگھیجی ، دیہہ بولہاڑی اور دیہہ کاٹھوڑ میں ابھی زمین الاٹ نہیں کی گئی ہے ۔ لیکن وہ اپنا کام تیزی سے کر رہا ہے ۔ پہاڑوں پر کریش پلانٹ اور مکسچر پلانٹ لگا کر پہاڑوں کو ختم کر کے یہاں سے نکلے پتھروں کو کریش کرنے میں مشغول ہے ۔ ان مکسچر، کریش اور گیٹرو پلانٹس کی وجہ سے جو مٹی اور دھول اڑ رہی ہے، چاروں طرف ایک کلومیٹر کے فاصلے پر جوگوٹھ ہیں، ان کا جینا جنجال ہو گیا ہے ۔
یاد رہے کہ ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی طرف سے پہلی بار 13 مارچ 2014 ء کو اشتہار دے کر اعتراضات طلب کئے گئے کہ بحریہ ٹاؤن بلڈرز کمپنی کی مختلف اتھارٹیز جنہوں نے مختلف دور دراز دیہوں میں زمین حاصل کی ہے انہیں کنسالیڈیشن کے ذریعے سپر ہائی وے پر شفٹ کیا جائے، لیکن بحریہ ٹاؤن نے اس عمل سے چھ ماہ قبل ہی پروجیکٹ کے لیے بکنگ شروع کی تھی، جس کے لیے مختلف اخبارات میں اشتہارات اور پورے ملک میں سائن بورڈز نصب کئے گئے تھے۔زمین حاصل نہ ہوتے ہوئے بھی بحریہ ٹاؤن کی طرف سے لوگوں سے اربوں روپے حاصل کئے گئے ، جس سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ ملک ریاض جو بحریہ ٹاؤن کے مالک ہیں ،کو پتہ تھا کہ حکومت سندھ کس طرح وہ زمین الاٹ کرے گی ، جو انہوں نے مانگی ہے ۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں کراچی بدامنی کیس کی سماعت چلنے کے باعث گزشتہ تین برسوں سے کراچی کا ر یونیو ریکارڈ مکمل طور پر سیل (seal) ہے۔ سپریم کورٹ کا حکم ہے کہ جب تک کراچی بدامنی کیس کا فیصلہ نہیں آ جاتا اور کراچی کی زمینیں مکمل طور پر کمپیوٹرائزڈ نہیں کی جاتیں، تب تک زمینوں کی الاٹمنٹ مکمل طور پر بند رہے گی ۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے باوجو مختلف بلڈرز ، بالخصوص بحریہ ٹاؤن کو زمینوں کی الاٹمنٹ کا سلسلہ جاری ہے ۔ بندش سے لے کر تاحال یہ سلسلہ ایک دن کے لیے بھی نہیں روکا گیا۔ ریونیو افسران نے سپریم کورٹ کے احکام کی کوئی بھی تعمیل نہیں کی ہے ۔ پرانی تاریخوں میں الاٹمنٹ اور کھاتہ جات میں تبدیلی کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے ۔ یہ پابندی صرف مقامی لوگوں کے لیے ہے، ان کی زمینوں کے کھاتے نہیں رکھے جا رہے، اور لیز کی معیاد ختم ہونے پر جب وہ لیز میں اضافے کے لیے درخواستیں جمع کراتے ہیں تو انہیں یہ جواب ملتا ہے کہ سپریم کورٹ کی پابندی کے باعث یہ سلسلہ بند ہے اور لیز والی زمینیں کینسل کی گئی ہیں. سپریم کورٹ کا یہ حکم جیسے صرف مقامی لوگوں کے لیے ہے.
جاری ہے