کوئی تو بتائے کہ دودو بھیل کے ساتھ کیا ہوا۔جس کے پیتل رنگت والے جسم پر اینگرو کی وردی تھی،جس کے پیر ننگے اور ہونٹ سگریٹ کے دھونیں سے سیاہ پڑ چکے تھے۔جس کے پیروں میں پرانی جوتی اور ہاتھ میں ڈنڈا ہوا کرتا تھا۔جو خالی پیٹ اینگرو کے اساسوں کا چوکیدار تھا،جو آدھا سگریٹ پیتا اور آدھا سگریٹ بچا کر جیب میں رکھ لیتا،جو آدھی روٹی گڑ سے کھاتا اور مصری فقیر کا پورا گیت گاتا،
وہ دودو جو آپ بھی لوک گیت جیسا تھا
کوئی تو بتائے کہ اس دودو بھیل کیا کیا ہوا؟
جس کی قبر سوکھ رہی ہے اور ماں کے نین گیلے ہیں
جس کی قبر سو دھول اُڑ رہی ہے اور جس کی پتنی کی مانگ سونی ہو رہی ہے
جس قبر پر کوئی کتبہ نہیں اور جس کی پتنی کے گلے سے منگل سوتر اتر چکا
دودو بھیل کی پتنی کے گلے سے منگل سوتر بھوک نے نہیں اتارا پر دودو بھیل کی پتنی کے گلے سے منگل سوتراس نظام نے اتارا جس نظام میں طاقت ور کسی غریب کو قتل کر دیتا ہے اور غریب جلد سوکھ جانے والی قبر بن جاتا ہے اور امیر بہت سے پیسوں میں سے کچھ پیسے وکیلوں کو دیتا ہے کچھ مقتول کے وارثوں کو اور وہ آزاد ہے
دودو بھیل کے ساتھ تو یہ بھی نہیں ہوا
طاقت ور مجرم نے وکیل کو تو بہت پیسے دیے ہیں پر اس مقتول کو نہیں دیے جس مقتول کا نام نہیں معلوم اس ماں نے کیوں دودو رکھا جس کے مقابل ایک دو نہیں پر سیکڑوں چنیسر ہیں
پر یہاں تو بس ہم اس نظام کا ہی نام لکھتے ہیں جو نظام غریبوں کو مقتول اور امیروں کو قاتل بھی قرار نہیں دیتا
دودو بھیل اینگرو کے بدمعاشوں کے ہاتھوں قتل ہو گیا
تھر میں ایک چیخ گونجی
کارونجھر کی آنکھیں نم ہوئیں
مور اداس ہوئے
مورنیاں روئیں
تھر کے مندروں کے اداس دئیے بُجھ گئے
پنڈتوں نے اپنے سُریلے بھجن آدھے میں چھوڑ دیے
پر سندھ کے شعور پر جو بھی نہیں رینگی
وہ سندھ کا شعور جو چیختا ہے،چلاتا ہے،مظاہرے کرتا ہے،دھرنے دیتا ہے۔
اور جب اس کا بلکل بس نہ چلے تو شہر کے پریس کلبوں کے دروں پر احتجاجاً موم بتیاں جلاتا ہے
وہ سندھ کا شعور دودو بھیل کے قتل پر بلکل خاموش رہا
میں یہاں قومی مجرموں کی بات نہیں کررہا
میں یہاں نصیر سومرو اور اس راجڑ کی بات نہیں کر رہا جو بہت بڑے دانشور ہیں اور بہت سستے میں بک گئے اینگرو کی دلالی کے لیے
میں یہاں ان قومی چورو بازاروں کی بات نہیں کر رہا
پر میں تو یہاں ان دانشوروں کی بات کر رہا ہوں گوڑانو ڈیم کے نام پر بہت زیا دہ اینگرو کو بلیک میل کیا کرتے تھے،جو کراچی سے لیکر تھر کی واری تک اک صدا بنے ہوئے تھے،جو دن کی روشنی میں کراچی اور حیدر آباد سے نکلتے تھے اور رات کی تاریکی میں گاڑیوں کی ہیڈ لائیٹس کی روشنی میں گوڑانو ڈیم کنارے ایک شاندار احتجاجی مظاہرا کر کے انقلابی گیت گا کر صبح اخبارات میں اپنی تصاویر دیکھا کرتے تھے کہ دوست صحافیوں اور رپورٹروں نے دوستی نبھائی کہ نہیں
میں ان دانشوروں کی بات کر رہا ہوں
وہ کہاں گم ہو گئے جو شاہ لطیف کو لہک لہک کر پڑھتے ہیں
وہ کہاں گم ہو گئے جو چھوٹے سے چھوٹے مسائل پر بھی روڈوں پر ہو تے ہیں
وہ کہاں گم ہو گئے جو بلاول بھٹو کو سندھ کا نجات دہندہ سمجھتے ہیں
وہ دانشور کہاں گم ہو گئے جو تھر کو سندھ کا نصیب سمجھتے ہیں
وہ دانشور کہاں گم ہو گئے جو بہت اچھے سے سندھ کیس پیش کرتے ہیں
وہ کہاں گئے جو بہت اچھی اردو لکھتے ہیں اور اس اردو ر خوش ہو تے ہیں
وہ کہاں گئے جو بلاول ہاؤس کا چکر لگا کر جمیل سومرو کی خشامد کرتے ہیں
وہ کہاں گئے جن کو کسی نہ کسی قسم کا لالچ ہے
وہ دونشور کہاں گم ہو گئے جن میں سے بہت سوں کو وائیس چانسلری،بہت سوں کو نگران سیٹ اپ میں فٹ ہونا اور بہت سوں کو سینٹر اور بہت سوں کوکسی نہ کسی ادارے میں کھپ جانے کا آسرہ ہے
وہ دودو بھیل کے ناحق قتل پر نہ تو اینگرو کا گریبان پکڑ رہے ہیں اور نہ ہی اس بلاول بھٹو زرداری کا جس نے سندھ کے آنسو جیسے صحرہ میں اینگرو کو مسلط کیا ہوا ہے اور اینگرو کا جو دل کرتا ہے وہ اپنی من مانی کرتا پھر رہا ہے،کہاں ہے نصیر سومرو جو چوری کی کتابیں اپنے نام شائع کرتا ہے اور اینگرو سے بھا ری پکیچ لے کر جھوٹی دانشوری کا دعوہ کرتا پھر رہا ہے،
نصیر سومرو ایک طرف سے سندھ کیس پیش کرتا ہے
تو دوسرے طرف سے اینگرو کی وکالت اور دلال بنا ہوا ہے
اور اینگرو ہے جو تھری ماؤں کے دودو جیسے دودو بھیل معض اس لیے قتل کر دیتا ہے کہ اس پر چوری کا شک تھا اور وہ قتل کر دیا گیا
یہ کیسا قانون ہے؟
کہ اک ماں کا جوان بیٹا چوری کے الزام میں قتل کر دیا جائے اور سندھ کی سیا ست کو کچھ خبر نہ ہو
سندھ کی دانش کو کچھ خبر نہ ہو اور سندھ ایسے ہی بغلیں جھانکتا رہے جیسا پہلے جھانکتا رہا ہے!
واقعی سندھ کے صحرا میں کیا بیت گئی وہ باقی سندھ کیوں جانے؟
اک ماں اپنے ہاتھوں میں تھر کا پودہ لیے انصاف کی بھیک مانگ رہی ہے اس میں باقی سندھ کا کیا ہے؟
کاش سندھ کی کمینی دانش اس ماں کے آنسو دیکھ پا تی
جو آنسو ویسے تھری چولے اور ان آستینوں میں جذب ہو جا تے ہیں
پر جب ماں کے آنسو صحرا کے دامن میں گرتے ہیں تو تھر کا صحرا ان آسنو ؤں کو اپنے سینے میں جذب نہیں کرتااور وہ صحرا رو رو کر اس ماں کے آنسو پونچھ کر اپنے صحرائی دامن میں لکھ لکھ دیتا ہے کہ
”جنوبی بارشوں کی طرح آنسوؤں میں
بھیگے
کس نے سوچا تھا کہ مجھے
تھری ماں کے
ایک اور خوبصورت بیٹے کے لیے
رونا پڑے گا؟!!!“