’’قابلِ قدر ہم وطنو!
آزادی کے حصول کے بعد ہمارے ملک کو سب سے پہلے تعمیر نَو اور معاشی و سیاسی مضبوطی کی شدید ضرورت ہوگی۔ آئیے ہم سب اپنے ملک کی تعمیر نَو اور ترقی میں پورے خلوص سے حصّہ لیں۔ ہم اپنی قوم کو یقین دلاتے ہیں کہ جارحیت کے خاتمے کے بعد ایک ایسا ’’افغان شمول‘‘ نظام قائم ہوگا جس میں تمام طبقات اور اکائیوں کو اپنی اہلیت اور استعداد کے مطابق حصّہ ملے گا۔ کسی کا جائز حق تلف نہیں ہوگا۔ اِن شاء ﷲ۔‘‘
یہ پیغام اور عزم ہے۔ امارات اسلامیہ افغانستان کے امیر المومنین ساٹھ سالہ شیخ الحدیث مولوی ہیبت ﷲ اخوندزادہ کا۔ خبریں یہ ہیں کہ تین کروڑ نوے لاکھ آبادی پر مشتمل چار سو اکیس اضلاع میں سے ایک تہائی سے زیادہ پر ’’طالبان‘‘ باقاعدہ حکومت کر رہے ہیں۔ مغربی ذرائع ’اماٰرت اسلامیہ‘ کہنے سے گریز کرتے ہیں۔ دوحہ مذاکرات کو بھی پاکستان سمیت اسلامی ممالک ”طالبان امریکہ مذاکرات“ کہتے ہیں، امارت اسلامیہ اور امریکہ بات چیت نہیں کہتے۔
یہ تو پوری دنیا میں’خدشہ‘ ظاہر کیا جارہا ہے کہ امریکی فوج کا مکمل انخلا ہوتے ہی افغانستان پر طالبان کا راج قائم ہوجائے گا۔ یہی امارت اسلامیہ کا ترجمان ماہنامہ ’شریعت‘ کہتا ہے، اس میں تو ان تیاریوں کی تفصیلات بھی دی جارہی ہیں کہ استعمار سے آزادی کے بعد امارتِ اسلامیہ کی ترجیحات کیا ہوں گی۔ ان کے موجودہ سربراہ کا کہنا ہے: ’’افغانستان سے بیرونی قوتوں کے انخلا کے بعد اماراتِ اسلامیہ چاہتی ہے کہ ایک خالص اسلامی نظام کے سائے تلے ملک کی تعمیر نَو اور ترقی کے فوری اقدامات کیے جائیں۔ ملک کے اعلیٰ مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے عالمی سرمایہ کاری کے لئے ماحول سازگار کیا جائے تاکہ ہماری معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہوجائے۔ شہر اور دیہات آباد ہوں۔ ہم وطن شہریوں کو روزگار کے مواقع میسر آئیں۔‘‘
امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی بھی یہ متفقہ پیش گوئی ہے کہ ’’امریکی فوج کے جاتے ہی چھ ماہ کے اندر افغان حکومت زمیں بوس ہوجائے گی۔‘‘ ہمارے خیال میں تو چھ ماہ بھی نہیں لگیں گے، کیونکہ افغان نیشنل آرمی کے فوجی بڑی تعداد میں منحرف ہو رہے ہیں۔ بڑی تعداد میں یہ فوجی تاجکستان میں سرحد پار کر کے پناہ لے رہے ہیں۔ امریکہ بھی اس کی حوصلہ افزائی کررہا ہے۔ بہت سے افغان جو امریکی فوج اور انتظامیہ کی مدد کر رہے تھے، ان سب کو تاجکستان میں پناہ دلوائی جارہی ہے۔ وہاں سے وہ امریکہ پہنچتے رہیں گے۔ اماراتِ اسلامیہ کی اپنی اطلاع یہ ہے کہ ہر ماہ ایک ہزار سے پندرہ سو لوگ دشمن کی صفوں سے نکل کر اماٰراتِ اسلامیہ میں شامل ہو رہے ہیں۔ وہ موجودہ افغان فوج کو قابل فخر قرار نہیں دیتے۔امارتِ اسلامیہ کا ایک کمیشن برائے دعوت و ارشاد سارے ملک میں بطور خاص اسی سلسلے میں زبانی اور عملی طور پر کوششیں کر رہا ہے۔ اماراتِ اسلامیہ دوحہ معاہدے پر عمل درآمد سے بڑی حد تک مطمئن ہے۔ صرف قیدیوں کی رہائی معاہدے کے مطابق نہ ہونے پر احتجاج ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس صورتِ حال کو ہم پاکستان والے کس انداز سے محسوس کر رہے ہیں؟ وزارتِ خارجہ کے بیانات تو آرہے ہیں۔ لیکن اسے ’امارتِ اسلامیہ‘ امریکی استعمار کے زیر اثر محسوس کرتی ہے۔ ایک مسلمان برادر ملک کے محسوسات قرار نہیں دیتی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وقت جوں جوں قریب آرہا ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ کو کھل کر اس منظر نامے پر بحث کرنا چاہئے۔ پاکستان کے قومی مفادات پر یہ تبدیلیاں کیسے اثر انداز ہوں گی۔ پارلیمنٹ کو ہی آئندہ کے لئے امریکی پالیسی اور افغان پالیسی طے کرنی چاہئے۔ اسی طرح ہماری 224 یونیورسٹیوں میں جہاں تیس لاکھ سے زیادہ نوجوان پڑھ رہے ہیں، وہ بھی اپنے ہمسائے میں ہونیوالے ان عالمی اور علاقائی تغیرات پر غور کریں ۔
ہمیں دیکھنا چاہئے کہ اماراتِ اسلامیہ (طالبان) کیا سوچ رہی ہے۔ موجودہ افغان حکومت افغان فوج، امریکی اسکولوں اور اسپتالوں کے بارے میں ان کا کیا کہنا ہے کیونکہ یہ تو طے ہے کہ افغانستان میں آئندہ طالبان کی فکر ہی غالب رہے گی۔ ہمیں امریکی تھنک ٹینکوں یا ذرائع ابلاغ پر انحصار نہیں کرنا چاہئے۔ افغان پالیسی اتفاق رائے سے مرتب کرنی ہوگی۔ کسی ایک ادارے کی اس پر اجارہ داری نہیں ہونی چاہئے۔ ذرا سوچئے، افغان بھائی جو چالیس سال سے جنگ کا ایندھن بنے ہوئے ہیں۔ اس وقت ان کی کرنسی افغانی بہت مستحکم ہے۔ ایک افغانی 0.013 ڈالر کے برابر ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر بھی آٹھ ارب ڈالر سے زیادہ ہیں۔ امریکہ یہاں مجموعی طور پر دو ٹریلین ڈالر سے زیادہ خرچ کر چکا ہے۔ صرف جنگی اخراجات 933 ارب ڈالر ہیں۔ 11 ستمبر آخری تاریخ ہے۔ صرف 65دن بعد یہ علاقہ مکمل آزادی میں سانس لے رہا ہوگا۔ امریکی ذرائع کے مطابق ان بیس سالوں میں 241000 انسان مارے گئے۔ 71344سویلین، 2400 امریکی، 78314 افغان فوجی اور پولیس اہل کار۔اور 84191امریکہ کے مخالف جو اماراتِ اسلامیہ کے نزدیک شہدائے افغانستان ہیں. جن کے لئے ملک میں جگہ جگہ الگ شہدا قبرستان ہیں۔ بیس ہزار امریکی فوجی زخمی ہوئے ہیں، جن میں بڑی تعداد معذور ہوگئی ہے۔ یہ تو امریکی قوم، دانشور، تجزیہ کار سر جوڑ کر بیٹھیں اور سوچیں کہ یہ جو بیس سال، دو ٹریلین ڈالر اور اتنے انسان ضائع ہوئے ہیں۔ اس کا کیا فائدہ ہوا؟ دنیا اس عرصے میں کس کرب میں مبتلا رہی۔ اس یلغار کے نتیجے میں ہونے والی دہشت گردی سے اس خطّے میں جو انسانی جانیں گئیں، ان سارے جنگی جرائم سے امریکہ کیسے بری الذّمہ ہوسکتا ہے؟ 72سالہ اشرف غنی، 60سالہ عبدﷲ عبدﷲ اور 63 سالہ کرزئی یہ تو سب امریکہ میں پناہ گزیں ہوں گے۔ مستقبل کی قیادت ملا محمد عمر کے صاحبزادے تیس سالہ ملا محمد یعقوب کے ہاتھوں میں جاتی دکھائی دے رہی ہے.
اماراتِ اسلامیہ آئندہ نظام حکومت کے بارے میں بالکل واضح ہے۔ انتخابات اور جمہوریت کو وہ افغان قوم کی تمنّا نہیں قرار دیتی۔ وہ قطعیت سے کہتے ہیں کہ افغان قوم کی آرزو اسلامی نظام ہے، جو ساری افغان اکائیوں سے مل کر قائم کیا جائے گا۔ خواتین کی تعلیم اور حقوق کے بارے میں اسی روشنی میں طے کیا جائے گا۔ وہ پاکستان، ایران، چین، بھارت کسی کو بھی افغان معاملات میں دخل کی اجازت نہیں دیتے۔ پاکستان کی پالیسیوں کے لئے اماراتِ اسلامیہ کا تاثر کیا ہے، اس کے ترجمان ذبیح ﷲ مجاہد کے افغان ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو کا یہ آخری جملہ ملاحظہ کریں۔ ’’اگر ہمارے فیصلے پاکستان کے ہاتھ میں ہوتے تو امریکہ کب کا اپنے مشن میں کامیاب ہوچکا ہوتا۔ اور ہمیں سرنڈر کرکے کب سے ہاتھ پیر باندھ کر کسی کے حوالے کر دیا گیا ہوتا!‘‘ فاعتبروا یا اولی الابصار.
(بشکریہ تجزیہ)