اختتامیہ
پاکستان میں میری رہائی سے کوئی بھی خوش نہیں تھا۔ 11 اپریل کو جنرل پاشا واشنگٹن آئے اور پاکستان کے تحفظات بارے لیون پنیٹا اور ایڈمرل مائیک مولن کو آگاہ کیا لیکن اس ملاقات میں جو پیش رفت ہوئی وہ تین ہفتوں بعد اس وقت غائب ہوگئی، جب امریکی فورسز نے ایبٹ آباد میں واقع کمپاؤنڈ پر حملہ کر کے اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا۔ پاکستانی حکام نے توقع سے سخت ردعمل دیا اور اسے پاکستان کی قومی سلامتی کی خلاف ورزی قرار دیا، تاہم جب دھواں ختم ہوا تو پھر اس کی ذمہ داری ان پر تھی کہ بتائیں کہ کیسے دنیا کا خطرناک ترین دہشت گرد چھ سال سے ان کے ملک کی ممتاز ملٹری اکیڈمی سے ایک میل کے فاصلے پر رہ رہا تھا۔ تاہم انہوں نے ذمہ داری کا احساس کرنے کے بجائے جارحانہ رویہ اختیار کیا اور سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر نے کہا کہ مستقبل میں ایسا واقعہ ہوا، تو اس کے خوفناک نتائج ہوں گے۔ اس واقعہ کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات تاریخ کی نچلی ترین سطح پر آگئے۔ یہ تعلقات 1979 میں اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے پر حملے کے بعد بھی کشیدہ ہوئے تھے۔ میں ابھی تک یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ میں نے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھانے میں حصہ لیا تھا۔ مجھے لاہور میں دو افراد کو گولی مارنے کا کوئی افسوس نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ زندگی کے لیے خطرے کی صورت حال کا مناسب جواب تھا۔
اگر پاکستان ایک ایسے امریکی کو سزا دیتا جو سفارتی پاسپورٹ اور استثناء کا حامل تھا، تو پاکستان سفارتی قوانین کی خلاف ورزی کرتا۔ امریکی سفیر کیمرون منٹر نے بعد میں ایران میں امریکی سفارت کاروں کو یرغمال بنائے جانے کے بحران کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی طلبا کے گروپ نے امریکی سفارت خانے پر حملہ کر کے ساٹھ امریکی سفارتی اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا اور انہیں چار سو چوالیس دنوں تک یرغمال بنائے رکھا۔ کیا ہم اس قابل نہیں تھے کہ ہم ریمنڈ ڈیوس کو باہر نکال سکتے ۔ اگر وہ ریمنڈ ڈیوس کو سزا سنا دیتے، تو اس سے تعلقات میں خرابی تو آنی تھی۔ لیکن پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی اس نہج تک نہیں پہنچی. اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے دونوں ملکوں میں اعلیٰ سطح پر میٹنگز ہو رہی تھیں۔ آصف علی زرداری اپنی پانچ سال کی صدارت کی مدت پوری کرنا چاہتے تھے، جبکہ امریکی صدر اوبامہ 2012ع کے لیے دوبارہ صدر منتخب ہونا چاہتے تھے، جنرل کیانی اور لیون پیٹا کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ تھا۔ جبکہ واقعے سے ناواقف سیاست دان اور فوی راہنما پانی میں بطخ کی طرح تھے۔
میری رہائی کے عوض متاثرہ خاندان کو خون بہا کی جو رقم ادا کی گئی تھی، وہ رہائی کے تقریباً ایک سال بعد کہیں زیادہ خونی ثابت ہوئی۔ فیضان حیدر کی اہلیہ زہرا کا انتہائی غریب خاندان اس حد تک متمول ہو گیا تھا کہ وہ فیروز والا کی کچی بستی سے جوہر ٹاؤن کی خوشحال آبادی میں منتقل ہوگیا۔ دولت کی ریل پیل سے غیر مانوس اس ناخواندہ خاندان کی جوہر ٹاؤن کے خوشحال طبقے میں حیثیت اچھوتوں کی سی تھی۔ زہرہ کا مکینک باپ شہزاد بٹ اپنا زیادہ وقت اپنے گھر کی چھت پر ہوائی فائرنگ کر کے گزارتا تھا۔ اس خاندان کی زندگی میں نیا ڈرامائی موڑ 30 اپریل 2012ع کو آیا، جب رقم کے تنازع پر شہزاد بٹ نے اپنی بیٹی زہرہ اور بیوی نبیلہ بی بی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اس قتل کی وجہ زہرہ کا دوسری شادی کرنے کا منصوبہ تھا۔ ان متاثرہ خاندانوں کے سابق وکیل اسد منظور بٹ نے اس پر تبصرہ کیا کہ یہ لوگ مالی حیثیت اور ذات کے لحاظ سے کم حیثیت رکھتے تھے۔انہیں کوئی اندازہ نہیں تھا کہ پیسے کیسے خرچ کئے جائیں۔
اس حادثے نے میری زندگی پر بھی کئی اثرات مرتب کیے۔ امریکہ پہنچتے ہی مجھے ڈپارٹمنٹ آف جسٹس کی تحقیقات کا سامنا کرنا پڑا۔ میرا خیال تھا کہ میں نے کچھ غلط نہیں کیا، لیکن جان کیری نے پاکستان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس معاملے کی آزادانہ تحقیقات کرائے گا۔ چنانچہ میرے پاس کوئی چوائس نہیں تھی۔ بریف کیس کے ساتھ دو افراد میرے سامنے بیٹھے اور مجھے پوری کہانی A سے Z تک سنانے کو کہا۔ میں ایک منٹ میں اس مقام پر پہنچ گیا جہاں 27 جنوری کو پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوا تھا۔ یہ میرے لیے ایک دھچکا تھا۔ وہ میری بات سمجھ رہے تھے لیکن تحقیقات اس طرح کر رہے تھے جیسے پاکستانی پولیس کر رہی تھی۔ میں سمجھ گیا کہ وہ بھی اپنی نوکری ہی کر رہے ہیں۔ کچھ گھنٹوں کی تفتیش کے بعد میں نے ان سے کہا کہ ’’بس بہت ہو گیا۔ آپ مجھ پر چارج لگائیں اور جائیں۔ میں اب کچھ نہیں بتاؤں گا۔“ انہوں نے ایک لمحے کے لیے سوچا۔ اپنے پن اور کتابیں بند کیں اور کہا: ”شکریہ مسٹر ڈیوس۔“ اور یہ کہتے ہوئے باہر چلے گئے۔
اس حادثے نے میرے کیرئیر پر جو اثرات مرتب کیے، وہ میرے لیے نقصان دہ تھے۔ میں سکیورٹی کلیرنس حاصل نہیں کر سکا اور مجھے کسی بھی اوورسیز سکیورٹی کنٹریکٹ کے لیے ناموزوں قرار دے دیا گیا۔کتنا مشکل ہے کہ آپ نے جس ملازمت کی ٹریننگ حاصل کی ہو، وہ آپ کو نہ کرنے دی جائے۔ ایک گولی نے میرا سب کچھ ختم کر دیا اور پھر اس کے بعد میں کبھی بھی پرانا آزمودہ سپاہی نہیں بن سکا۔ ایک دن میں نے ربیکا کے سامنے بازو پھیلاتے ہوئے نہایت افسردہ لہجے میں کہا: ”میں اب کیا کر سکتا ہوں؟ میں تو صرف یہ جانتا ہوں کہ گن کیسے چلائی جاتی ہے؟‘‘ لیکن اسی لمحے میں نے محسوس کیا کہ میں ایک خوش قسمت آدمی ہوں۔میرے بہت سے سابق ساتھی بہت خوش قسمت نہیں تھے۔
میں نے اپنے پہلے معاہدے کی نوکری سے قبل اپنے بہت سے دوستوں کو تربیت دی۔ ان میں سے ایک دوست تربیت کے چھ ماہ بعد ہی عراق میں مارا گیا، جب گرین زون میں ایک خودکش حملہ آور نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا لیا۔اس کے ساتھ تین اور لوگ بھی مارے گئے۔ یہ واقعہ 2004 ع میں ہوا تھا۔ یہ سال عراق کی جنگ کا سب سے خطرناک سال تھا۔ میں دراصل اس سال عراق جانے کے لیے ہی منتخب کیا گیا تھا، لیکن آخری لمحے میں مجھے حامد کرزئی کی حفاظت کے لیے افغانستان جانے کو کہہ دیا گیا۔ میری زندگی میں فوج کی ملازمت اور پرائیویٹ کنٹریکٹر کی حیثیت سے بہت سے مشکل لمحات آئے لیکن پاکستان میں گزارے گئے یہ 49 دن میری زندگی کے مشکل ترین دن تھے۔ لاہور میں ہونے والا واقعہ میری زندگی کا ’ٹرننگ پوائٹ‘ تھا۔ میں اپنی زندگی میں لفظ ’حادثے‘ کے بہت قریب ہوگیا، کیونکہ یہ لفظ میری زندگی کے ساتھ جڑ گیا تھا۔ آپ وکی پیڈیا پر جائیں اور مجھے دیکھیں تو آپ مجھے تلاش نہیں کرسکیں گے لیکن اگر آپ ریمنڈ ڈیوس حادثہ لکھیں تو تلاش کرلیں گے۔ میری بی شناخت 27 جنوری 2011ع کے واقعے کی وجہ سے بنی۔
لاہور کے واقعے کے بعد میں نے اور ربیکا نے طلاق پر اتفاق کیا۔ یہ علیحدگی ابھی تک میری پریشانی اور اداسی کی وجہ ہے۔ میں نے بیرون ملک کام کرتے ہوئے جو کچھ کمایا تھا، وہ اس نے بلوں کی ادائیگی پرخرچ کر دیا۔ اس نے ہمارے تعلقات کو بھی خراب کر دیا۔ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا کہ جنگ کے بارے میں کچھ خوبصورت نہیں۔ گھر میں صرف یہ خوبصورتی ہے کہ آپ بچے کو بھاگتے ہوئے دیکھیں۔ آپ ان کے ساتھ کھیلیں اور آپ انہیں مذاق کرتا ہوا دیکھیں۔ یہ خوبصورتی ہے۔ میں نے بیرون ملک کام کرتے ہوئے جو کچھ کیا، یہ خوبصورتی نہیں ہے۔ میں تو صرف اپنی نوکری کر رہا تھا۔
خونی خوں بہا
ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے لیے مرنے والوں کے لواحقین کو خون بہا کے طور پر دی جانے والی دیت کی رقم پاکستان کی تاریخ کی سب سے زیادہ رقم تھی، لیکن 24 کروڑ کی یہ رقم خاندان کے 18 افراد کے لے خونی بن کر ان کی تباہی اور بربادی کا باعث بن گئی ۔ یہ داستان دوسروں کے لیے بھی عبرت کی ایک مثال ہے۔ فیضان حیدر کی اہلیہ زہرہ کا خاندان جوہر ٹاؤن کی خوشحال آبادی میں منتقل ہوگیا ۔ فیضان کا مکینک باپ شہزاد بٹ اپنا زیادہ وقت نے گھر کی چھت پر ہوائی فائرنگ کرکے گزارتا تھا۔ اس خاندان کی زندگی میں نیا ڈرامائی موڑ اس وقت آیا جب شہزاد بٹ نے دوسری شادی کر لی۔ فیضان کی بہن نے ایک لالچی شخص سے شادی کر لی ۔ فیضان کی بیوی اور شیر خوار بیٹے کوکل پانچ کروڑ ملے تھے، زہرہ دوسری شادی کرنا چاہتی تھی لیکن باپ لڑکے کو پسند نہیں کرتا تھا۔ ماں بیٹی کی طرف دار تھی۔ فیضان کے والد کو غصہ آیا اور اس نے اپنی بیوی اور دونوں بیٹیوں قتل کر دیا۔ یہ خود اس وقت جیل میں ہے اور پیسہ، گھر اور گاڑی دوسری بیوی کے قبضے میں چلی گئی۔ اس کی دوسری بیوی کسی دوسرے آدمی کے چکر میں پڑی اور وہ یہ سارا مال لے کر غائب ہو گیا۔ فیضان کے دوسرے بھائی بھی دولت گنوا کر کوڑی کوڑی کے محتاج ہو گئے۔ ادھر فہیم کے لواحقین بھی رقم کے لیے لڑتے رہے۔ یہ آدھا خاندان بھی قتل ہو گیا۔ کروڑوں کی رقم میں سے کچھ وکیل کھا گئے، کچھ پولیس کھا گئی اور کچھ رشتہ داروں نے ہڑپ کر لیا۔ یہ خاندان اس وقت کسمپرسی کی زندگی گزار رہا ہے۔ فہیم کی بیوی شمائلہ نے زہریلی گولیاں کھا کر خودکشی کر لی اور بعد میں پیسوں کے لیے اس کا خاندان بھی لڑتا رہا۔ اس خاندان کے کچھ افراد بھی جیل میں ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے لیے ملنے والے کروڑوں روپے کے منحوس اثرات ابھی تک ہیں اور پیسے لینے والا کوئی بھی فرد اس کے اثرات سے پیچھا نہیں چھڑا سکا۔ یہ رقم ان کا خون چوستے ہوئے نجانے کس چیز کا حساب مانگ رہی ہے!؟
نوٹ: ریمنڈ ڈیوس کو پاکستان آنے والا ایسا امریکی جاسوس قرار دیا جاتا ہے جس نے لاہور میں دو افراد کو دن دیہاڑے گولیاں مار کر قتل کیا اور پھر گرفتار ہوا۔ اس پر قتل کا مقدمہ چلا اور قریب تھا کہ اسے سزائے موت سنا دی جاتی لیکن حالات نے ڈرامائی موڑ لے لیا۔ اچانک مقتول کے ورثا دیت پر راضی ہو گئے۔ کروڑوں روپے دیت کی رقم کس نے ادا کی، اس پر متضاد رائے ہے کیونکہ کوئی بھی اس رقم کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہ ہوا۔ بہرحال یہ شخص جسے کبھی سفارتی عملہ کا حصہ قرار دینے کی کوشش کی گئی تو کبھی اسے بلیک واٹر کے قاتل کورڈ کا حصہ قرار دیا گیا، باآسانی پاکستان سے امریکہ پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ وہاں اس نے اس ساری صورت حال پر ’’کنٹریکٹر‘‘ کے نام سے یہ کتاب لکھی جس کا اردو ترجمہ آن لائن سنگت میگ میں قسط وار پیش کیا گیا.
ریمنڈ ڈیوس کی یہ کتاب آپ نے پڑھی۔ بظاہر تو یہ کتاب پاکستانیوں کے سفاک قاتل کی رہائی کے لیے سیاسی و عسکری قیادت کے باہم تعاون کی شرمناک داستان ہے، پاکستانی نقطہ نظر سے آپ اس پر سو فیصد یقین نہ بھی کریں لیکن پھر بھی حکومتی اور عسکری سطح پر گٹھ جوڑ کے حالات و واقعات کی سمجھ ضرور آتی ہے۔ اس کتاب نے ایک طرف جہاں پاکستانی حکمرانوں کا چہرہ بے نقاب کیا، وہیں اسے رہا کروانے والے چہروں سے نقاب اتار دیا۔ اس کتاب میں کتنا سچ او کتنا جھوٹ لکھا گیا؟ یہ ایک الگ موضوع ہے، لیکن یہ پاکستان کے نقطہ نظر کے حوالے سے بڑی اہم ہے، کیونکہ پاکستان کے عوام کے سامنے سچ ہی آنا چاہے۔ عوام یہ جاننے میں حق بجانب ہیں کہ اس سب کا ذمہ دار کون تھا، اگر یہ سب کچھ کرنا ٹھیک تھا تو پھر آخر ایسا کیوں ہے کہ اس وقت کی سیاسی اور عسکری قیادت اس کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالتے رہے ہیں. المیہ یہ ہے کہ آج اس واقعہ کو ایک عرصہ گزر جانے کے باوجود بدنامی کا یہ طوق کوئی بھی اپنے گلے میں پہننے کے لیے تیار نہیں۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ادارہ یا قاری کا اس کتاب کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے.
(ختم شد)