صوبہ خیبر پختونخوا میں سوشل میڈیا خاص طور پر واٹس ایپ پر گذشتہ چند دنوں سے ایک پوسٹ گردش کر رہی ہے جس میں رنگ برنگی ٹافیوں کی چند تصاویر ہیں اور ان کے ساتھ یہ لکھا ہوا ہے کہ یہ گولیاں خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر میں عام دکانوں میں دستیاب ہیں، جن سے نوجوان نسل تباہ ہو رہی ہے
ٹافیوں کی تصاویر واٹس ایپ گروپس میں بھی شیئر کی جا رہی ہیں اور اس کے ساتھ آڈیو پیغام میں ایک شخص یہ کہتا ہوا سنا جا سکتا ہے کہ خیبر پختونخوا کی پولیس نے عوام کو خبردار کیا ہے کہ دکانوں پر موجود یہ گولیاں گلی محلے کی دکانوں پر دستیاب ہیں اور بچوں کو ان سے دور رکھیں کیونکہ ان میں آئس نامی نشے کا مواد شامل ہے جس سے بچوں کو نشے کی لت لگ سکتی ہے
وائرل ہونے والی اس پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مطلوبہ ٹافیوں کا اثر کچھ مہینوں بعد انسان میں ظاہر ہوتا ہے جو استعمال کرنے والے شخص کے اہل خانہ کو شروع میں پتہ نہیں چلتا، جبکہ بعد میں عادی شخص کی آنکھیں سرخ اور چہرہ زرد ہوجاتا ہے اور اس کا استعمال عمومی طور پر 19 سے 29 سال کے درمیان کے نوجوان کرتے ہیں
جس شخص نے یہ پوسٹ کی ہے اب انھوں نے اس کو اپنی ٹائم لائن سے ہٹا دیا ہے لیکن یہی پوسٹ اب فیس بک سمیت واٹس ایپ گروپس میں تواتر کے ساتھ شیئر کی جا رہی ہے
دوسری جانب اس وائرل پوسٹ کو پیر کو ضلع بنوں کے ڈپٹی کمشنر کے ویریفائڈ فیس بک پیج سے بھی شیئر کیا گیا ہے جس میں عوام سے اس قسم کی نشہ آور گولیوں سے دور رہنے کا بتایا گیا ہے
ضلعی اتنطامیہ نے لکھا ہے: ’آئس ٹافی ہیروئن سے بھی ہزار گنا زیادہ خطرناک اور تباہ کن نشہ ہے. شرپسند لوگ اس کو آئس ٹافی کی صورت میں مارکیٹ میں لے آئے ہیں اور اس نشے کو استعمال کرنے والا شخص پہلے دن سے ہی اس کا عادی ہوجاتا ہے۔ یہ آئس بیسڈ ٹافیاں دیگر اضلاع میں بلیک میں فروخت ہو رہی ہیں اور اگر ضلع بنوں میں کسی دکاندار کے پاس پائی گئی تو ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔‘
اسی پوسٹ کی حقیقت جاننے کے لیے کہ کیا واقعی ایسی کوئی ٹافی گلی محلے کی دکانوں پر فروخت ہورہی ہے، جب پولیس کے متعلقہ حکام سے بات کی گئی تو ضلع خیبر پولیس کے سربراہ وسیم ریاض نے بتایا کہ یہ ایک جعلی خبر ہے جو سوشل میڈیا پر چل رہی ہے
وسیم ریاض کا کہنا ہے کہ ہم نے تصدیق کی ہے اور اس قسم کا کوئی کیپسول دکانوں پر دستیاب نہیں ہے۔ اصل میں تصویر میں دکھائی گئی یہ نشہ آور گولیاں ہیں جو اسلام آباد اور لاہور سمیت پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں دستیاب ہیں جس کو ’ایکسٹیسی‘ گولیاں بھی کہتے ہیں
سماجی رابطوں کے ویب سائٹ پر وائرل پوسٹ میں ضلع خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل کا ذکر کیا جارہا ہے۔
لنڈی کوتل پولیس سٹیشن کے سربراہ شریف ملا گوری بتایا کہ ہم نے کل سے لنڈی کوتل کے بازاروں میں دکانوں کو چیک کیا ہے اور کسی بھی دکان سے ہم کو اس قسم کی کوئی گولی نہیں ملی
انہوں نے کہا کہ یہ ایک جعلی خبر ثابت ہوئی ہے۔ ہماری ٹیم نے اس پر کام کیا ہے اور بازاروں میں اس قسم کی گولیاں بھی چیک کی ہیں، لیکن کسی دکاندار سے ایسا کوئی کیپسول برآمد نہیں ہوا ہے
جب ڈپٹی کمشنر کے ترجمان نور اسلام سے رابطہ کر کے پوچھا گیا کہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کیوں یہ پوسٹ کی گئی ہے تو انھوں نے بتایا کہ ایسا کوئی واقعہ بنوں میں پیش نہیں آیا ہے لیکن سوشل میڈیا پر یہ پوسٹ وائرل ہے تو ہم نے عوام کی آگاہی کے لیے اپنے پیج سے بھی شیئر کر دی۔‘
‘ایکسٹیسی’ کیا ہے؟
’ایکسٹیسی‘ انگریزی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ’بے حد خوشی‘ یا دوسرے الفاظ میں اسے بے خودی کہا جا سکتا ہے
ایکسٹیسی کی گولی نشہ آور ہے جس میں آئس کے نشے میں استعمال ہونے والا مواد ’Methylenedioxyamphtemine (MDMA) یا میتھایل انیڈو آکسیم فیٹامین‘ کی ایک خاص مقدار ستعمال ہوتی ہے
عرف عام میں ان گولیوں کو ’پارٹی یا ڈانس پلز‘ یعنی پارٹی یا ڈانس کی گولیاں کہا جاتا ہے جو ایسی محفلوں میں نشے کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں جنہیں کھانے والا شخص کچھ وقت کے لیے بے خود ہوجاتا ہے اور اس شخص کو آس پاس کی چیزیں عجیب سی دکھنی شروع ہوجاتی ہیں
امریکی ادارہ برائے ڈرگ ابیوز کے مطابق یہ کیپسول ابتدا میں نائٹ کلبوں اور ڈانس پارٹیوں میں استعمال کیا جاتا تھا لیکن اب اس کا استعمال بہت عام ہوگیا ہے
اسی ادارے کے مطابق ایکسٹیسی پلز کو یا تو کیپسول کی طرح کھایا جاتا ہے یا پھر اس کو کسی محلول میں شامل کر کے پی لیا جاتا ہے، جس سے انسان کا دماغ متاثر ہوتا ہے
امریکی ادارے کے مطابق اس کیپسول کے کھانے سے انسانی انرجی حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے جس سے انسانی جسم پر برے اثرات مرتب ہوتے ہے
اسی طرح کی ایک اور رپورٹ کے مطابق اس کیسپول میں ایک خاص قسم کا مواد شامل کیے جانے کی وجہ سے انسانی دل کی دھڑکن تیز اور فشار خون بلند ہوجاتا ہے جو دل اور بلڈ پریشر کے مریضوں کے لیے انتہائی خطرناک ہے
رپورٹ کے مطابق ان کیپسولز کے کھانے کے بعد اس کا اثر تین سے چھ گھنٹے تک ہوتا ہے۔
ان گولیوں کو ٹافیوں کی شکل کی طرح بنایا گیا ہے اور ان گولیوں کے اوپر انگریزی کے حروف تہجی یا زیادہ تر x لکھا ہوا ہوتا ہے جبکہ بعض پر کوے کے پنجوں کا نشان، سپیس شٹل کا نشان یا تتلی کا نشان ہوتا ہے
برطانیہ، امریکہ سمیت مختلف ممالک میں ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں کہ یہی نشہ آور گولیاں بطور ٹافیاں بچوں کو فروخت کی گئی ہیں
امریکی اخبار یو ایس اے ٹوڈے کی 2018ع کی ایک رپورٹ کے مطابق اٹلانٹا پولیس نے بھاری مقدار میں یہ نشہ آور گولیاں پکڑیں تھیں جو بچوں کی ٹافیوں کی طرح لگتی تھیں
اسی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پولیس نے عوام کو خبردار کیا ہے کہ اس قسم کی گولیاں بچے ٹافی سمجھ کر کھا سکتے ہیں
دوسری جانب برطانوی اخبار بیوری ٹائمز کی رواں سال مارچ کے مہینے کی ایک خبر کے مطابق برطانیہ کے شہر مانچسٹر کے بیوری ٹائون میں پولیس نے ایسے ڈیلروں کو پکڑا تھا جو نشہ آور گولیاں بطور ٹافیاں بچوں کو فروخت کر رہے تھے
پاکستان اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) کی 2017-18 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق اے این ایف نے ایئر پورٹ، بندرگاہوں سمیت ملک میں چوبیس کلو گرام سے زیادہ کی ایکسٹیسی گولیاں پکڑیں، جبکہ یہ تعداد 2016-17 میں 600 گولیاں تھیں جن کا وزن تقریباً 325 گرام بنتا تھا
ایکسٹیسی کے علاوہ بھی مختلف اقسام کی نشہ آور گولیاں بطور ’پارٹی پلز‘ استعمال کی جاتی ہے اور ہر ایک گولی کا وزن 96 گرام سے لے کر 360 گرام تک ہوتا ہے
برطانیہ میں ایکسٹیسی گولیوں سے نوجوان کی موت
جبکہ برطانوی اخبار دی انڈپینڈنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق اتوار کو لندن میں نائٹ آوٹس کے دوران ایکسٹیسی گولیاں کھانے سے ایک اکیس سالہ نوجوان کی موت واقع ہوئی، جبکہ مزید بیس افراد کو ان گولیوں کے کھانے کہ وجہ سےہسپتال میں داخل کیا گیا
خبر میں لکھا گیا ہے کہ 23 جولائی کو بھی لندن کے ایک نائٹ کلب میں جب نوجوان کرونا کی وجہ سے بند نائٹ کلب کھلنے کی خوشی منا رہے تھے تو ایکسٹیسی گولیاں کھانے سے بیس افراد کو ہسپتال میں داخل کروایا گیا.