پاکستانی نژاد حمزہ یوسف اسکاٹ لینڈ کے پہلے مسلمان سربراہ منتخب

ویب ڈیسک

حمزہ یوسف ایک سخت پارٹی مقابلے کے بعد نکولا اسٹرجن کی جگہ اسکاٹ لینڈ کے پہلے مسلمان رہنما منتخب ہو گئے ہیں۔ حمزہ یوسف ایک تجربہ کار وزیر ہیں، جنہیں آزادی حاصل کرنے کی اپنی کوشش کے لیے اسکاٹش نیشنل پارٹی کو متحد کرنے کی مشکل کا سامنا ہے

اسکاٹ لینڈ کی نیم خودمختار حکومت میں ’فرسٹ منسٹر‘ (اسکاٹ لینڈ کی حکومت کا سربراہ ہوتا ہے) بننے کی دوڑ میں فاتح کا اعلان ہوتے ہی حمزہ یوسف مغربی یورپ میں کسی ملک کی قیادت کرنے والے پہلے مسلمان بن جائیں گے

حمزہ یوسف کا ایس ایم پی لیڈر شپ کے انتخاب میں کیٹ فوربز اور ایش ریگن سے مقابلہ تھا۔ ایش ریگن کے پہلے راؤنڈ سے باہر ہونے کے بعد حمزہ یوسف نے دوسرے راؤنڈ میں 52 فیصد ووٹ حاصل کیے جبکہ فوربز کو 48 فیصد ووٹ ملے

ان کے حامیوں نے ان کی تعریف ایک منجھے ہوئے کمیونیکیٹر کے طور پر کی ہے جو SNP کو ایسے میں متحد کر سکتے ہیں جب کہ پارٹی کی مرکزی پالیسی یعنی ؛آزادسکاٹ لینڈ؛ کے لیے حمایت کا حصول جمود کا شکار ہے

برطانیہ کی حکومت کی جانب سے نئے ریفرنڈم کی مخالفت، اور سپریم کورٹ کےفیصلے کے باوجود، یوسف نے پیر کو اپنی جیت کی تقریر میں آزادی فراہم کرنے کا عزم ظاہر کیا

انہوں نے ایس این پی کا سربراہ منتخب ہونے کے بعد کہا کہ اگر وہ منگل کو اسکاٹ لینڈ کی پارلیمنٹ میں ووٹنگ کے دوران فرسٹ منسٹر منتخب ہوتے ہیں تو یہ ان کے لیے ’سب سے بڑا اعزاز‘ ہوگا

اسکاٹ لینڈ کے اپوزیشن رہنماؤں نے حمزہ یوسف کو مبارکباد دی ہے لیکن متنبہ کیا کہ وہ ان کا احتساب کریں گے

لیبرپارٹی کےسربراہ سر کئیر سٹارمر اور سکاٹش لیبرپارٹی کے سربراہ انس سرور نے بھی حمزہ یوسف کو ایس این پی کا سربراہ منتخب ہونے پر مبارکباد دی ہے۔ جبکہ میئر لندن صادق خان نے حمزہ یوسف کے فرسٹ منسٹر بننے پر نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سینتیس سالہ حمزہ یوسف گلاسگو میں پیدا ہوئے تھے اور ان کے دادا، دادی 1962 میں پاکستان سے اسکاٹ لینڈ منتقل ہوئے تھے

حمزہ یوسف اس سے قبل جب 2011ع میں پہلی بار اسکاٹ لینڈ کی پارلیمان کے رکن بنے تھے تو انہوں نے انگریزی اور اردو زبانوں میں حلف اٹھایا تھا

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حمزہ یوسف کو قیادت کی خاطر ایک سفاکانہ مہم کے بعد پارٹی کو متحد کرنے کی بھی کوشش کرنی ہوگی، جس کے باعث آزادی اور سماجی مسائل کے بارے میں امیدواروں کے نقطہ نظر پر اختلافات سامنے آئے ہیں

نتائج کے بعد یوسف نے ایڈنبرا میں خطاب کرتے ہوئے کہا، ”ہم وہ نسل ہوں گے، جو اسکاٹ لینڈ کو آزادی دے گی“

ان کا کہنا تھا ”ہمیں جہاں اختلافات ختم کرنے کی ضرورت ہے، وہیں ہمیں ایسا کرنا چاہیے اور جلد از جلد ایسا کرنا چاہیے کیونکہ ہمیں ایک کام کرنا ہے اور ایک پارٹی کی حیثیت سے جب ہم متحد ہوتے ہیں تو ہم سب سے مضبوط ہوتے ہیں اور جو چیز متحد کرتی ہے، وہ ہماری قوم کو آزادی دلانے کا ہمارا مشترکہ مقصد ہے“

ایک ایسے موقع پر جب ان کی اہلیہ اور والدہ نے خوشی سے بہتے ہوئے آنسو پونچھے، انہوں نے اپنے دادا دادی کو خراج عقیدت پیش کیا اور اس وقت کو یاد کیا، جب 1960 کی دہائی میں ان کے دادا پاکستان سے اسکاٹ لینڈ آئے تھے اور اس وقت وہ بہ مشکل انگریزی بول پاتے تھے

انہوں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ ان کا پوتا ایک دن اس ملک کا لیڈر بن جائے گا، جسے انہوں نے اپنا وطن بنایا

یوسف نے کہا، ’’ہم سب کو اس حقیقت پر فخر کرنا چاہیے کہ آج ہم نے ایک واضح پیغام بھیجا ہے، کہ آپ کی جلد کا رنگ یا درحقیقت آپ کا عقیدہ اس ملک کی قیادت میں رکاوٹ نہیں ہے، جسے ہم سب گھر کہتے ہیں‘‘

یوسف کا کہنا ہے کہ گلاسگو میں نسل پرستانہ زیادتیوں کا سامنا کرنے کے بعد، خاص طور پر امریکہ میں 9/11 کے حملوں کے بعد وہ مضبوط ہوگئے ہیں

انہوں نے سیاست میں اپنے وقت کو یاد کرتے ہوئے کہا ’’میں نے یقینی طور پر مشکل وقت گزارا ہے۔۔ میں نے سوچا ہے، کیا میں اس سے زیادہ برداشت کر سکتا ہوں کیونکہ میرے ساتھ آن لائن بھی بدسلوکی کی گئی اور بدقسمتی سے، کبھی کبھی آمنے سامنے بھی“

یوسف کے پاکستانی نژاد والد نے اکاؤنٹنٹ کے طور پر گلاسگو میں ایک کامیاب کیریئر بنایا۔ ایس این پی کے نئے رہنما کی والدہ کینیا میں ایک جنوبی ایشیائی خاندان میں پیدا ہوئیں

گلاسگو میں پیدا ہونے والے سینتیس سالہ اس مسلم رہنما نے گلاسگو یونیورسٹی سے سیاست میں ڈگری حاصل کی ہے۔

گریجویشن کرنے کے بعد انہوں نے پہلے اسکاٹش پارلیمنٹ (ایم ایس پی) کے ایک رکن کے معاون کے طور پر کام کیا اور پھر 2011 میں خود ایم ایس پی منتخب ہوئے

حمزہ یوسف کے والد مظفر یوسف کا تعلق پاکستان کے شہر میاں چنوں سے ہے اور وہ 1960 میں اسکاٹ لینڈ منتقل ہوئے، جبکہ ان کی والدہ کینیا میں ایک جنوبی ایشیائی نژاد خاندان میں پیدا ہوئیں

حمزہ یوسف نے 2010 میں سابق ایس این پی کارکن گیل لیتھگو سے شادی کی، لیکن سات سال بعد ان کی طلاق ہو گئی

2021 میں انہوں نے اور ان کی دوسری بیوی نادیہ النکلہ نے ایک نرسری کے خلاف نسلی امتیاز کی قانونی شکایت کی، جب ان کی بیٹی کو وہاں داخلہ دینے سے انکار کیا گیا

شکایت کو ایجوکیشن انسپکٹرز نے برقرار رکھا لیکن جوڑے نے اس داخلے کے خیال کو ترک کر دیا، تاہم نرسری نے الزامات کی تردید کی ہے

حمزہ یوسف کو پہلی بار 2012ع میں جونیئر وزیر مقرر کیا گیا تھا، اس وقت وہ اسکاٹ لینڈ کی حکومت میں تعینات ہونے والے سب سے کم عمر شخص تھے

انہوں نے 2018 میں سیکریٹری برائے انصاف کی حیثیت سے کابینہ میں شمولیت اختیار کی اور مئی 2021 میں وزیر صحت بنے

وزیر صحت کی حیثیت سے یوسف کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور آڈٹ اسکاٹ لینڈ نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو غیر معمولی چیلنجز کا سامنا ہے

ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے یوسف حمزہ نے کہا کہ آزاد اسکاٹ لینڈ کو بادشاہت کو ختم کرنے پر غور کرنا چاہیے

انہوں نے نیشنل اخبار کو ایک انٹرویو میں کہا ”آئیے پہلے پانچ برسوں میں اس بات پر غور کریں کہ آیا ہمیں بادشاہت سے نکل کر ایک منتخب سربراہ والی مملکت بننا چاہیے یا نہیں“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close