بلقیس بانو کیس: مجرموں کی رہائی پر مودی کو شدید تنقید کا سامنا

ویب ڈیسک

بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کو ’ریپ کرنے والوں کی طرف داری کرنے‘ پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جو ان کی مرکزی حکومت کی جانب سے مسلم خاتون بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے کئی افراد کو قتل کرنے والے گیارہ سزا یافتہ مجرموں کی قبل از وقت رہائی کی منظوری دیے جانے کے بعد شروع ہوئی

گجرات کی ریاستی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی دستاویزات کے مطابق وزیر اعظم مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت نے پیر کو 2002ع کے گجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو اور ان کے خاندان کے چودہ افراد پر حملہ کرنے والے بلوائیوں میں شامل گیارہ مجرموں کو رہا کرنے کی منظوری دی ہے

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے رہا کیے گئے مجرموں کے ساتھ ہیرو جیسا سلوک برتنے کو شرمناک قرار دیا جا رہا ہے

اچھے چال چلن کی بنیاد پر رہا ہونے والے ریپ ملزمان کی گواہوں کو دھمکیاں

بلقیس بانو ریپ کیس میں سزا پانے والوں کی جانب سے گواہوں کو دھمکیاں دینے کا انکشاف ہوا ہے۔
این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق کیس میں سزا پانے والے 11 میں سے چار افراد کے خلاف مختلف تھانوں میں اس وقت مقدمات بھی درج ہوئے جب وہ ضمانت پر تھے

یہ صورت حال گجرات حکومت کے اس دعوے کی نفی کرتی ہے کہ ’انہیں اچھے چال چلن کی بنیاد پر رہا گیا اور ان کی جانب سے اس دوران کوئی غلط کام کرنے کے کوئی شواہد نہیں ملے۔‘

ٹی وی کی جانب سے ایف آئی آرز کی کاپیوں کی دستیابی کا دعوٰی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ 2017 سے 2021 کے دوران کم سے کم چار گواہوں نے درج کرائی تھیں

ایک ایف آئی آر چھ جولائی 2020 کو درج کرائی گئی جو کیس میں سزا پانے والے رادھیشیم اور مٹشبھائے بھٹ کے خلاف تھی۔
یہ ایف آئی آر گواہان سیبرابن پٹیل اور پنٹو بھائی کی جانب سے رادھیکپور پولیس سٹیشن میں درج کرائی گئی تھی جس میں 354، 504، 506 ٹو اور 114 کی دفعات لگائی گئیں

ایف آئی آر میں لکھا گیا ہے کہ ’تین افراد جن میں سزایافتہ دو افراد اور رادھیشیم نے سیبرابن، ان کی بیٹی ارفع اور پنٹو بھائے کو دھمکیاں دی تھیں۔
اس ایف آئی آر کی بنیاد پر درج کیس ابھی تک لمکھیدا کی عدالت میں چل رہا ہے

اسی طرح یکم جنوری 2021 کو ایک اور گواہ عبدالرازق عبدالماجد نے دہود پولیس کو سالیش چمن لالا کے خلاف شکایت کی تھی کہ پیرول پر رہائی کے بعد اس کی جانب سے انہیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں

شکایت میں ایم ایل اے سیلش بھائی بھابھور اور سابق وزیر مملکت اور ایم پی جسونت سنگھ بھابھور پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے اس ’زبردست کام‘ پر سالیش چمن کو سراہا تھا

اسی طرح شکایت کے ساتھ سلیش بھٹ کی ایک ایسی تصویر بھی لگائی گئی تھی جس میں بی جے پی کے دو رہنما سٹیج پر موجود تھے

اس شکایت کی بنیاد پر ایف آئی آر درج نہیں ہو سکی تھی

رہائی کے فیصلے پر اپوزیشن اور انسانی حقوق کے کارکنان کی تنقید

اپوزیشن جماعت کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے مرکزی حکومت کے اس فیصلے کے لیے نریندر مودی پر تنقید کی ہے۔ مودی حکومت نے برسوں پہلے بچیوں کی فلاح کے لیے ایک فلیگ شپ اسکیم شروع کی تھی

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم اپنی تقاریر میں خواتین کے احترام کی بات تو کرتے ہیں لیکن عملی طور پر ایسا نہیں کرتے

راہل گاندھی نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ’وہ لال قلعے پر اپنی تقریر میں خواتین کے احترام کی بات کرتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ ریپ کرنے والوں کے ساتھ ہیں۔ وزیراعظم کے وعدوں اور نیت میں فرق واضح ہے۔ انہوں نے خواتین کو دھوکہ دیا ہے۔‘

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن کویتا کرشنن نے کہا کہ نریندر مودی اور ان کے وزرا 2002 سے 2022 تک مسلم خواتین کا ریپ کرنے والوں اور قاتلوں کو انعام دے رہے ہیں

پس منظر

یاد رہے کہ بلقیس بانو کیس میں ریپ اور قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا کاٹنے والے گیارہ مجرموں کو ملک کے یوم آزادی یعنی 15 اگست کو رہا کر دیا گیا تھا۔ اس سے کچھ دیر قبل وزیر اعظم مودی لال قلعہ کی فصیل سے کی گئی اپنی سالانہ تقریر میں خواتین کو بااختیار بنانے کی بات کر رہے تھے

بلقیس بانو کے اہل خانہ سمیت بہت سے افراد ان مجرموں کے ہیروز کی طرح استقبال کرنے اور انہیں مٹھائی پیش کرنے اور ہار پہنائے جانے پر صدمے میں ہیں

اس فیصلے نے ملک میں بڑے پیمانے پر غم و غصے کی لہر دوڑا دی جہاں چھ ہزار سے زیادہ سماجی کارکنوں، تاریخ دانوں اور شہریوں نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا، جس میں اس فیصلے کو ’انصاف کی سنگین خلاف ورزی‘ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ سے اس رہائی کے حکم کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا

بھارت کی مغربی ریاست گجرات، جہاں مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے پیر کو سپریم کورٹ کو دستاویزات پیش کرتے ہوئے بتایا کہ وزیر اعظم مودی کے معاون امت شا کی سربراہی میں مرکزی وزارت داخلہ نے مجرموں کی فاسٹ ٹریک رہائی کی منظوری دے دی ہے

یہ بیان حلفی قیدیوں کو دی گئی معافی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کے جواب میں عدالت میں داخل کیا گیا ہے

ریاستی حکومت نے کہا کہ اس نے ان افراد کی جلد رہائی کا فیصلہ کیا ہے کیوں کہ ’انہوں نے 14 سال اور اس سے زیادہ عمر کی قید مکمل کر لی تھی اور ان کا جیل میں رویہ ’اچھا‘ پایا گیا تھا

ریاستی حکومت کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’مرکزی حکومت نے اس حوالے سے اپنی منظوری سے آگاہ کر دیا ہے۔‘

دستاویزات میں کہا گیا ہے بھارت کی داخلی تفتیشی ادارے سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) نے گذشتہ سال ہی قیدیوں کی رہائی کی مخالفت کی تھی

سی بی آئی کے ساتھ ساتھ، پولیس، سول جج اور سیشن کورٹ نے بھی اس رہائی کی مخالفت کی تھی۔ ایجنسیوں نے کہا کہ یہ افراد گھناؤنے، سنگین اور بدترین جرائم میں ملوث پائے گئے تھے

ایک خصوصی عدالت کے جج نے کہا تھا کہ یہ نفرت پر مبنی جرم کی بدترین شکل ہے۔ اس معاملے میں چھوٹے بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا

بھارتی نشریاتی ادارے این ڈی ٹی وی کے مطابق ریاستی حکومت کی طرف سے مجرموں کو رہا کرنے کی درخواست کو مرکزی وزارت داخلہ نے دو ہفتوں کے اندر منظور کر لیا تھا

وکلا کے مطابق سپریم کورٹ نے، جو 29 نومبر کو سزا کی معافی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کرے گی، اس رہائی میں کلیدی کردار ادا کیا

عدالت عظمیٰ نے پہلے ہی حکام کو 1992 کی معافی کی پالیسی کے تحت قیدیوں کی نرمی کی درخواست پر غور کرنے کی ہدایت کی تھی

تین مارچ 2002 کو جب بلقیس بانو کی عمر 21 سال تھی اور وہ پانچ ماہ کی حاملہ تھیں انہیں گجرات کے ضلع داہود میں گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا اور ان کے خاندان کے 14 افراد بشمول ان کی تین سالہ بیٹی کو بےدردی سے قتل کر دیا گیا

مجرموں کی رہائی کے بعد بلقیس بانو نے کہا کہ اس فیصلے سے عدلیہ اور انصاف پر ان کا اعتماد متزلزل ہو گیا ہے

انہوں نے کہا: ’جب میں نے سنا کہ جن مجرموں نے میرے خاندان اور میری زندگی کو تباہ کیا تھا وہ آزاد ہو گئے ہیں تو میرے پاس اسے بیان کرنے کے لیے الفاظ ہی ختم ہو گئے۔ میں ابھی تک احساس سے محروم ہوں۔‘

ان کا کہنا تھا ’کسی بھی خاتون کے لیے اس طرح انصاف کیسے ختم ہو سکتا ہے؟ میں نے اپنے وطن کی اعلیٰ ترین عدالتوں پر بھروسہ کیا۔ مجھے یہاں کے نظام پر بھروسہ تھا اور میں آہستہ آہستہ اس صدمے کے ساتھ جینا سیکھ رہی تھی لیکن ان مجرموں کی رہائی نے مجھ سے میرا سکون چھین لیا ہے اور انصاف پر میرا یقین ٹوٹ گیا ہے۔‘

مودی حکومت کے دیگر ناقدین نے سوشل میڈیا پر کہا ہے کہ یہ فیصلہ سیاست، مذہبی امتیاز اور عورت سے نفرت سے جڑا ہوا ہے

بہت سے لوگوں نے حکومت پر کلیدی تحقیقاتی ایجنسی اور دیگر اہلکاروں کے خلاف جانے کا الزام لگایا جنہوں نے مجرموں کی رہائی کی مخالفت کی تھی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close