”یہ ٹائم مشین ہے“ دنیا کی سب سے طاقتور عظیم خلائی آنکھ جیمزویب دوربین روانہ

ویب ڈیسک

پیرس – کئی دہائیوں کی محنت اور اربوں ڈالر سے تعمیر کردہ تاریخ کی طاقت ور ترین خلائی دوربین ’’جیمز ویب‘‘ کو طویل انتظار کے بعد آخرکار خلا کے حوالے کردیا گیا

تکنیکی رکاوٹوں کی وجہ سے دوربین کو خلا میں بھیجنے میں کئی بار تاخیر ہوئی۔ یہ دوربین ایک ایسے خلائی مقام کی جانب بھیجی گئی ہے جس کا زمین سے فاصلہ 15 لاکھ کلومیٹر ہے

اسے انسانی تاریخ کی سب سے پیچیدہ، جدید اور حساس ترین خلائی دوربین کا اعزاز حاصل ہے جو ٹیکنالوجی کا ایک شاہکار بھی ہے

خبر ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق فرنچ گیانا میں یورپین اسپیس ایجنسی کے بیس سے صبح 7:30 بجے (پاکستانی وقت کے مطابق شام 5 بجے) زمین سے چھوڑا گیا ہے، جو آریانا 5 راکٹ سے لیس ہے

کرسمس کے روز تاریخی اسپیس ٹیلیسکوپ کا فرانس میں افتتاح ناسا ای ایس اے کے اشتراک کے ساتھ براہ راست نشر کیا گیا

اس موقع پر ناسا اور یورپی خلائی ایجنسی سمیت دیگر اداروں کے ماہرین مضطرب رہے کیونکہ معمولی غلطی بھی دس ارب ڈالر کی خطیر رقم سے تیار اس خلائی دوربین کا پورا مشن ناکارہ بناسکتی تھی

جیمز ویب دوربین اپنی پیش رو ’’ہبل خلائی دوربین‘‘ سے کئی گنا زائد طاقتور اور مؤثر ہے کیونکہ اس میں حساس ترین آئینے لگائے گئے ہیں۔ اس دوربین کا مرکزی آئینہ 18 آئینوں کو آپس میں جوڑ کر بنایا گیا ہے، جس کی مجموعی چوڑائی تقریباً 6.5 میٹر ہے۔ یہی دوربین کے دل و دماغ ہیں جو ہماری بصارت کو وسعت دیں گے

جیمز ویب دوربین پر کام کرنے والے ایک اور انجینئر کے مطابق 144 میکینزم ایسے ہیں، جو یکجا ہوکر کام کریں گے تو یہ مشکل مرحلہ کامیاب ہوگا

ماہرین نے جیمزویب کھلنے کا پورا عمل ایک کاغذی کھیل (اوریگامی) سے تعبیر کیا ہے جس میں معمولی بد احتیاطی اسے تباہ کرسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس پورے نظام کو سادہ اور آسان بنایا گیا ہے تاکہ ناکامی کے خطرات کو کم کیا جاسکے

ناسا کے مطابق اس منصوبے میں حساس نوعیت کی سیکڑوں پیچیدگیاں ہیں جو شاید ہی کسی خلائی دوربین نے اس سے پہلے دیکھی ہوں گی۔ اسی لیے پورے مشن اور کمانڈ سسٹم کو نازک قرار دیا گیا تھا

دوسری جانب پورے مشن کے پلان بی اور متبادل منصوبے بھی بنائے گئے تھے۔ مجموعی طور پر سیکڑوں طریقوں سے یہ مشن ناکام ہوسکتا تھا

جیمزویب خلائی دوربین بیضوی مدار میں سورج کے گرد چکر لگائے گی جبکہ زمین سے اس کا اوسط فاصلہ تقریباً 15 لاکھ کلومیٹر رہے گا۔ خلاء کے انتہائی تاریک ماحول میں زیریں سرخ (انفراریڈ) شعاعوں کے ذریعے یہ کائنات کے ان دور دراز مقامات کو بھی دیکھ سکے گی جو اس سے پہلے کسی دوربین نے نہیں دیکھے

یہ مقامات ہم سے تقریباً 13 ارب 70 کروڑ سال دور ہیں، یعنی ان سے آنے والی روشنی بھی اتنی ہی قدیم ہے یعنی خود کائنات

سائنسدانوں کا خیال ہے کہ کائنات کے اوّلین ستارے بھی آج سے 13 ارب 70 کروڑ پہلے وجود میں آئے ہوں گے لیکن اب تک کسی بھی دوربین سے انہیں دیکھا نہیں جا سکا۔ جیمس ویب خلائی دوربین ایسے ستاروں کو بھی دیکھ سکے گی

دوسری جانب اس سے خلا کی وسعتوں میں دوردراز زمین نما سیاروں کی کھوج میں بھی آسانی ہوگی

خلاصہ یہ کہ جیمز ویب ہمیں کائنات کا اولین نظارہ کراسکے گی اور ہم جان سکیں گے کہ اس وقت ستاروں، سیاروں اور کہکشاؤں کی صورت کیا تھی

اکیس فٹ کا دوربینی آئینہ دور دراز کائنات کی روشنی کو جمع کرسکے گا اور ہمیں قدیم کائنات کا نظارہ کرائے گا۔ خلا کا ماحول زمین آلودگی اور بادلوں وغیرہ سے پاک ہوتا ہے اور اسی لیے یہ دوربین ہمیں کائنات کا ان دیکھا نظارہ کراسکے گی

واضح رہے کہ انسانی تاریخ میں کسی دوربین میں لگائے گئے یہ سب سے بڑے آئینے بھی ہیں۔ 14 ممالک کے سائنسداں، انجینیئر اور سافٹ ویئر ڈیزائنر نے اس منصوبے پر 2004ء میں کام شروع کیا تھا لیکن بار بار یہ منصوبہ تکنیکی خامیوں، ٹیکنالوجی کی کمی اور وبا کی وجہ سے تعطل کا شکار رہا

رپورٹ کے مطابق اس کا سفر منصوبے کے مطابق جاری رہا تو 14 ہزار پونڈ کا آلہ فضا میں داخل ہونے کے بعد 26 منٹ میں ریلیز ہوگا اور اگلے 13 روز سے زائد کے دوران بتدریج ایک ٹینس کورٹ کے برابر بن جائے گا

راکٹ کے اوپری حصے پر نصب کیمرے سے موصول ہونے والی براہ راست وڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ویب اچھے انداز زمین سے فضا کی طرف بڑھ رہی ہے اور بعد ازاں فلائٹ کنٹرولرز نے اس کی تصدیق کی کہ ویب کی پاور سپلائی فعال تھی

فضا میں دو سے زائد ہفتوں کے سفر کے بعد ویب ٹیلیسکوپ زمین سے دس لاکھ میل دور سورج کے گرد اپنی منزل پر پہنچے گی، جو چاند سے چار گنا زیادہ دور ہے اور سیارہ اور ٹیلیسکوپ سورج کے سرکل میں گھومتے ہوئے ویب ٹیلیسکوپ خود کو زمین کے ساتھ سیدھی رہے گی

ویب ٹیلیسکوپ 30 سالہ پرانی ہوبل اسپیس ٹیلیسکوپ کےمقابلے میں زمین سے 340 میل دور ہے اور ہر 90 منٹ میں اندر اور باہر سے سیارے کا عکس پاس کر رہی ہے

ناسا کی 1960 کی دہائی میں نگرانی کرنے والی شخصیت سے موسوم ویب زیادہ حساس ہے ہوبل کے مقابلے میں اور اس سے سائنس دانوں کی دنیا اور ہمارے سیارے کے بارے میں خیالات میں تجدید بھی متوقع ہے

ویب ٹیلیسکوپ اسپیکٹرم شعاعوں میں دنیا کو دیکھےگی جو گیس کے بادل اور دھوئیں سے مل جاتی ہے جہاں اسٹارز بن جاتے ہیں، جبکہ ہوبل ٹیلیسکوپ بنیادی طور پر آپٹیکل اور الٹراوئیلیٹ ویولینتھ پر آپریٹ کرتا تھا

ٹیلیسکوپ ناسا کی سربراہی میں یورپین اور کینیڈا کی اسپیس ایجنسیوں کے ساتھ ایک عالمی اشتراک ہے، نارتھ روپ گرومین کارپوریشن اولین کنٹریکٹر تھا، ایریان اسپیس نے گاڑی لانچ کی تھی جو یورپی تعاون کا حصہ ہے

جیمز ویب کو خلا میں روانہ کرنے کے موقعے پر ناسا کے سائنسی مشنز کے سربراہ تھامس زربوکن کا کہنا تھا کہ ’آج کا دن کتنا زبردست ہے۔ یہ حقیقی کرسمس ہے۔‘

ای ایس اے کے سربراہ کے بقول انہیں یہ کہنے میں بہت خوشی ہو رہی ہے کہ ہم نے بالکل ٹھیک ٹھیک خلائی راکٹ کو مدار میں بھیج دیا اور یہ کہ آریان فائیو کی کارکردگی انتہائی شاندار تھی

دوربین نئی شواہد زمین پر بھیجے گی جن کی مدد سے سائنس دانوں کو کائنات کے وجود اور نظام شمسی سے باہر زمین کی طرح کے سیاروں کو مزید سمجھنے میں مدد ملے گی

دوربین کا نام ناسا کے ڈائریکٹر کے نام پر ویب رکھا گیا ہے۔ یہ روائتی ہبل دوربین کے انداز میں کام کرے گی۔ تاہم انسانوں کو دکھائے گی کہ تقریباً 14 ارب سال پہلے اپنی پیدائش کے قریب تر وقت پر کائنات کیسی تھی

سوشل میڈیا پر بات کرتے ہوئے ویب منصوبے کے شریک بانی جان ماتھر نے دوربین کی اس حساسیت کے بارے میں بتایا جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی

ان کے بقول: ’جے ڈبلیو ایس ٹی چاند جتنی دوری سے شہد کی بڑی مکھی کے جسم کی حرارت کو دیکھ سکتی ہے۔‘ یہ تمام طاقت اربوں سال پہلے بالکل ابتدائی کہکشاؤں اور ستاروں کی تشکیل کے وقت خارج ہونے والی روشنی کو دیکھنے کے لیے ضروری ہے۔

امریکی صدر جوبائیڈن نے دوربین کو خلا میں بھیجنے پر ناسا اور ویب ٹیم کو مبارک باد دی۔ انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا کہ یہ ٹیلی سکوپ’ اس کی طاقت کی شاندار مثال ہے کہ جب ہم بڑا خواب دیکھتے ہیں تو ہم کیا کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔‘

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق پہلے دوربین کا دیوقامت شیشہ اور سورج کی تمازت سے محفوظ رکھنے کے لیے بنائی سن شیلڈ کھلیں گی۔ انہیں تہہ لگائی گئی تھی تاکہ وہ راکٹ کے اگلے حصے میں سما سکیں، دوسری صورت میں دوربین توقع کے مطابق 13.7  ارب سال پہلے موجود وقت اور کائنات کی تخلیق کا سبب بننے والے بگ بینگ کے محض 10 کروڑ سال کے اندر نہیں جھانک سکے گی

ناسا کے ایڈمنسٹریٹر بل نیلسن نے دوربین کو ٹائم مشین قرار دیا ہے جو ’ہماری کائنات اور اس میں موجودہ ہماری مقام کے بارے میں بہتر فہم فراہم کرے گی یعنی ہم کون اور کیا ہیں۔ یہ ہمیشہ جاری رہنے والی تحقیق ہے۔‘

راکٹ کے فضا میں بلند ہونے کے بعد نیلسن نے فلوریڈا کے کینیڈی سپیس سینٹر سے کہا کہ ’ہم وہ ناقابل یقین باتیں دریافت کرنے جا رہے ہیں جن کا ہم نے کبھی تصور نہیں کیا۔‘

تاہم انہوں نے احتیاط سے کام لیتے ہوئے کہا کہ اب بھی لاتعداد ایسی چیزیں ہیں جنھیں عمدہ طریقے سے کام کرنا پڑے گا۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم جانتے ہیں کہ بڑے انعام کے لیے بڑا خطرہ مول لینا پڑتا ہے

ویب 8.8 ارب ڈالر کی لاگت سے بنائی گئی، جس میں آپریشنل اخراجات سے یہ 9.66 ارب ڈالر کی قیمت تک چلی جاتی ہے، یہ لاگت اس سےبہت زیادہ ہے جو 2011 میں ناسا کا منصوبہ تھا

واضح رہے کہ جیمز ویب ناسا کے دوسرے ایڈمنسٹریٹر تھے۔ انہوں نے ناسا کے قمری مشین میں نہ صرف اہم کردار ادا کیا بلکہ اس کے لیے بنیادی خدمات بھی انجام دیں۔ جیمزویب کی حکمتِ عملی ایک عرصے تک ناسا کی ترقی کی ضامن رہی اور 27 مارچ 1992ء میں وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close