اکتارا (اردو ادب سے منتخب افسانہ)

امراؤ طارق

اِکتارا میرے ہاتھ میں تھا۔

سامنے چٹیل میدان کے دوسرے سرے پر ریت کے ٹیلوں سے دور ناریل کے دو متوازی درخت ساکت اور محوِ حیرت کھڑے ہوئے تھے۔ سب کچھ اداس تھا۔ سارے میں مایوسی کی ایک لہر پھیلی ہوئی تھی اور اِکتارا میرے ہاتھ میں تھا۔۔

رجمنٹ آج ایک سال کے بعد جزیرے سے واپس لوٹ رہی تھی۔ جوانوں کا سامان باندھا جا چکا تھا اور لکڑی کے مضبوط تختوں کی بنی ہوئی لمبی، کئی دروازوں اور چھوٹی چھوٹی کھڑکیوں والی بیرک میں جگہ جگہ رول کیے ہوئے بستر اور سیاہ ٹرنک بے ترتیبی سے بکھرے پڑے تھے۔ سگرٹوں کے خالی پیکٹ، پرانے اخبار اور خالی ڈبے اِدھر اُدھر لڑھک رہے تھے۔ دیواروں پر جوانوں کی لگائی ہوئی فلم ایکٹروں، ایکٹرسوں کی تصویریں، کلنڈر اور انگریزی میگزین سے نکالے ہوئے مناظر کے صفحات ہوا سے اڑ رہے تھے۔ جوانوں کے بھاری بوٹوں کے نیچے بیرک کے کرم خوردہ تختے چرچرا رہے تھے جو ٹرک کا انتظار کرتے ہوئے بے مقصد اِدھر اُدھر آ جا رہے تھے۔ کچھ جزیرے کے ایک سال پرانے ملاقاتیوں اور دوستوں کو الوداع کہنے گئے تھے۔ ایک سال کی رفاقت کے بعد ہمیشہ کی جدائی نے سب ہی کو ملول کر دیا تھا۔

میری پیکنگ ہو چکی تھی۔ میں سارا منظر دیکھتے ہوئے عجیب سا محسوس کر رہا تھا۔ میرے سامنے حدِ نظر تک ریت کے چھوٹے بڑے ٹیلے پھیلے ہوئے تھے، جن کے پیچھے خلیج بنگال کی تند و تیز بھپری ہوئی لہریں ساحل سمندر پر نرم و سفید جھاگ اچھال رہی تھیں اور تیز نم ہوا بیرک کی کھڑکیوں میں سرسرا رہی تھی۔۔ لیکن ناریل کے متوازی درخت چپ چاپ محوِ حیرت کھڑے ہوئے تھے، جن کے قدموں میں چھوٹی چھوٹی بے رنگ سی جھاڑیاں اُگی ہوئی تھیں اور ہم کو چٹگاؤں لے جانے والا اسٹیمر سائیں سائیں کر رہا تھا۔ بیرک سے صرف اسٹیمر کا تکوناجھنڈا نظر آرہا تھا۔

یہ ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے، جس میں روپ چند نامی مچھلیاں ہیں۔ دریاں، ساریاں اور چٹائیاں بُننے والی حسین اور کم گو لڑکیاں ہیں۔ چیخ چیخ کر اور ہاتھ ہلا ہلا کر تیز تیز باتیں کرنے والی بوڑھی اور ادھیڑ عورتیں ہیں، مدک اور لانبی بدبودار بیڑیاں پینے والے کمزور زرد رو مرد ہیں اور ننگ دھڑنگ گلیوں میں شور مچانے اور کیچڑ میں کھیلنے والے بچے ہیں جو لکڑیوں اور چٹائیوں کے کانوں میں رہتے ہیں۔ مرد صبح سے شام تک مچھلیاں پکڑتے ہیں اور رات کو کیلے یا کٹہل کے ساتھ چاول کھانے کے بعد ہوم میڈ پائپ میں مدک بھر کر اینٹ یا پتھر کا سرہانہ بنا کر زمین پر لیٹ جاتے ہیں اور مدک کے پھونک مارتے ہوئے سو جاتے ہیں۔

ان کا اس جزیرے کے باہر کی دنیا سے صرف اتنا تعلق ہے کہ اسٹیمر پر آنے والے تاجروں کو مچھلیاں، دریاں اور ساریاں دے کر اپنی ضرورت کی چیزیں خرید لیتے ہیں۔ اس جزیرے سے باہر کوئی اور دنیا بھی ہے، اِن کو اس کا قطعی احساس نہیں ہے۔ ان کی زندگی مچھلیوں اور مدک تک محدود ہے۔ اس جزیرہ سے باہر جانا اِن کے نزدیک اپنے پُرکھوں کی روح سے بغاوت ہے۔ جوان لڑکیاں تمام دن گھروں میں لگی ہوئی کھڈیوں پر دریاں اور کپڑے بُنتی ہیں اور رات میں کھلی ہوا میں نکل کر گاتی ہیں اور بوڑھی عورتیں پتے کی بیڑیاں پیتی ہوئی لڑکیوں کو گانوں کے بول اور رقص کے انداز بتاتی رہتی ہیں۔ اُن میں سے بعض جوش میں آ کر لڑکیوں کے رقص میں شریک ہوجاتی ہیں۔

سب ہی گانے کے بول دہراتے رہتے ہیں۔

یہ سمندر جس نے ہمیں جنم دیا

دھرتی جس نے ہمیں دانے دیے

اور یہ آزاد ہوائیں، جنہوں نے ہمیں صحت اور حسن دیا

یہ سب ہمارے ہیں۔۔

اے سمندر! تو ہمیں عزیز ہے

اس لیے کہ تو نے ہمیں جنم دیا۔

اے خدا! ہمارے دلوں کو کبھی ویران نہ ہونے دینا

تو ہمارے دلوں کو بھر دے گا

ہمیں معلوم ہے۔

نوجوان لڑکیوں کے گیت، سریلی آوازوں کے دوش پر سارے جزیرے میں پھیل جاتے ہیں اور ساری فضا سحر زدہ ہو جاتی ہے۔ نغمہ جسموں میں حرارت اور دلوں میں امنگ بھر دیتا ہے۔ زندگی سے بھرپور قہقہے اس طرح سنائی دیتے ہیں، جیسے مندر میں بے شمار گھنٹیاں بج رہی ہوں۔ چاند ایک لمحے کے لیے رک جاتا ہے اور آسمان بے انتہا نیلا اور بہت دور محسوس ہونے لگتا ہے اور ناریل کے متوازی درخت ایک دوسرے پر جھک کر سرگوشیاں کرنے لگتے ہیں۔ ان کے قدموں میں اُگی ہوئی بے رنگ جھاڑیاں سیاہی مائل سبز لگنے لگتی ہیں اور ان میں جنگلی پھولوں کی بے نام مہک بس جاتی ہے۔ ستارے آنکھیں موند کر ٹھنڈی ٹھنڈی سانسیں لینے لگتے ہیں۔ تب مدک کے نشے میں جھومتے ہوئے مرد اپنے اپنے بستروں کی طرف لوٹ آتے ہیں۔

ہمارا کیمپ سمندر کے کنارے ہے اور شمال کی طرف چھالیہ کے درختوں سے گھرا ہوا لکڑیوں کے تختوں اور چٹائیوں سے بنے ہوئے مکانوں پر مشتمل خوبصورت گاؤں ہے۔ اس گاؤں کے رہنے والے ہمارے کیمپ تک دودھ اور مچھلیاں لاتے ہیں۔ جب گاؤں کے مرد صبح اپنے کاندھوں پر جال اٹھا کر سمندر کی طرف چلے جاتے ہیں تو گاؤں کی سلونی لڑکیاں سروں پر دودھ کے مٹکے لیے ہمارے کیمپ کی طرف آتی ہیں۔ ان کی نظریں ہمیشہ زمین پر گڑی ہوتی ہیں اور چہرے پر بلا کی سنجیدگی ہوتی ہے۔ وہ بہت کم بولتی ہیں اور بہت زیادہ سہمی اور سمٹی سی رہتی ہیں۔ معمر عورتیں زیادہ تر گھر کے دوسرے کاموں میں مصروف رہتی ہیں۔

اس جزیرے میں بسنے والوں میں تو ہم پرستی عام ہے۔ اِن کی رسمیں عجیب ہیں۔ یہ طوفانوں کو خدا کی ناراضگی تصور کرتے ہیں اور جانوروں اور اناج کو سمندر میں پھینک کر خدا کو بھینٹ دیتے ہیں۔ وبائی امراض کی صورت میں مچھلیاں دھاگے میں گوندھ کر گلے میں پہن لیتے ہیں۔ گیتوں کی دیوی کو رقص و سرود سے مناتے ہیں۔ پورنماشی کی رات کو شادیاں کرتے ہیں اور بہت سے چراغ روشن کر کے جھیل میں تراتے ہیں اور پھولوں کی پتیاں گہرے پانی میں دور تک پھیلا دیتے ہیں۔ موت کو پوشیدہ رکھتے ہیں۔ مرنے والے کو چپ چاپ رات کے اندھیرے میں سمندر میں بہا دیتے ہیں اور نہ روتے ہیں نہ ایک دوسرے سے مرنے والے کا ذکر کرتے ہیں۔۔ جب کئی دنوں تک کوئی نظر نہ آئے تو خود ہی اس کو مردہ تصور کر کے بھول جاتے ہیں اور کسی سے اس کے بارے میں دریافت نہیں کرتے۔ ہفتہ میں ایک مرتبہ ڈاک آتی ہے اور ایک شکستہ سی عمارت میں سرکاری ہسپتال ہے، جس میں نہ ڈاکٹر ہوتا ہے نہ دوائیں۔۔ یہاں کے لوگ علاج کے قائل ہی نہیں ہیں۔ اپنے اصولوں، روایتوں اور رسموں پر ہمیشہ سے قائم ہیں اور ان میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی یا ردوبدل کو پسند نہیں کرتے۔

مجھے یہاں آئے ہوئے تیسرا دن تھا۔ سورج غروب ہو رہا تھا۔ میں چھالیہ کے درختوں کے بیچ میں گھرے ہوئے گاؤں کی طرف نکل گیا۔ بدبودار کیچڑ اور دھنویں سے بھری ہوئی گلیوں میں ننگ دھڑنگ بچے آپس میں لڑ رہے تھے، شور مچا رہے تھے یا کھیل رہے تھے۔ مرد کاندھوں پر جال ڈالے ٹوکریوں میں مچھلیاں لیے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ عورتیں دن کا کام ختم کرکے مکانوں کے سائبان یا گلیوں کے کنارے سورج کی الوداعی کرنوں سے جسم سینک رہی تھیں۔ گاؤں کی دوسری جانب آخر میں جہاں چھالیہ کے درختوں کا سلسلہ اچانک ختم ہوگیا تھا، لکڑی کے ایک خوشنما مکان کے سائبان میں میں نے اسے پہلی بار دیکھا۔

مکان کے دروازے کی دونوں جانب گہرے سرخ پھولوں والی بیل چڑھی ہوئی تھی۔ وہ دروازے میں بیل کی بنی ہوئی محراب کے درمیان خاموش کھڑی ہوئی تھی۔ چپ چپ اداس اداس۔۔ جیسے کسی کا انتظار کر رہی ہو۔ طویل اور مسلسل انتظار نے جیسے اسے تھکا دیا ہو۔ اس نے خالی خالی نظروں سے مجھے دیکھا، اس کے چہرے پر پتھر کی مورتی جیسی بے حسی اور بے تاثیری تھی۔ وہ اپنے سپاٹ چہرے اور خالی خالی نظروں سے مجھے مسلسل دیکھے گئی، حتیٰ کہ میں گلی کے موڑ پر مڑ گیا۔

پورنماشی کی رات کو میں لیٹا ہوا گاؤں کی اسی پراسرار لڑکی کے بارے میں سوچ رہا تھا، جسے میں ہر روز ہی سرخ پھولوں والی محراب کے درمیان ڈوبتے سورج کی نرم خوشگوار دھوپ میں پتھر کی مورتی کی طرح کھڑی ہوئی دیکھا کرتا تھا کہ گاؤں سے گانے کی آوازیں آنے لگیں۔ نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی، بستر پر کروٹیں بدلنا عذاب لگ رہا تھا۔ میں گاؤں کی طرف چل دیا۔ گاؤں کے وسط میں ایک جھیل تھی جس کے گرد گاؤں کے مرد، عورتیں سب ہی جمع تھے۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر چھوٹے چھوٹے الاؤ جل رہے تھے، جن سے خوشبو کی لپٹیں اٹھ رہی تھیں۔ جھیل میں بے شمار دیے تیر رہے تھے اور پانی پر پھول کی رنگ برنگی بے شمار پنکھڑیاں تیر رہی تھیں۔ جھیل کے اردگرد ٹولیوں میں لڑکیاں رقص کر رہی تھیں۔ کچھ لڑکیاں ایک جانب بیٹھی مل جل کر گا رہی تھیں اور ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے جزیرے میں رنگ و نور کی بارش ہو رہی ہے۔

گانے والی لڑکیوں میں وہ بھی بیٹھی ہوئی تھی۔ اسی طرح چپ چپ اداس اداس، کھوئی کھوئی سی۔۔ اس نے سفید ساری پہن رکھی تھی، گلے میں سفید موتیوں کی ایک مالا پڑی ہوئی تھی اور بائیں کلائی میں ایک پتلی سی چوڑی تھی۔ کانوں میں ایک ایک سفید پھول اور جوڑے میں کلیوں کا گندھا ہوا ہار لپٹا ہوا تھا۔ مجھے ایسا لگا جیسے وہ یہ نہیں ہے، کوئی آسمانی مخلوق ہے جو چند لمحوں کے لیے برکتوں کی بارش کرنے گناہگار انسانوں میں آگئی ہے اور یہ تمام انسان اس کے وجود سے نااشنا اس کی برکتیں سمیٹ رہے ہیں۔

گاؤں والوں نے از راہِ مہمان نوازی مجھے بھی اپنے ساتھ بٹھا لیا اور بتایا کہ پورنماشی کی رات وہ اپنی کنواری لڑکیوں کے بیاہ کرتے ہیں اور جب ایسا کوئی موقعہ نہ ہو تو بھی اس رات کو وہ خوشیاں مناتے ہیں۔ بہاروں کے گیت گاتے ہیں۔ یہ رات اُن کے لیے خوشیوں اور برکتوں کی رات ہوتی ہے۔ میرے اردگرد بیٹھے ہوئے لوگوں سے مچھلی اور تمباکو کی بُو آ رہی تھی اور سامنے کنواریاں رقص کر رہی تھیں۔ کنواریاں گا رہی تھیں۔

میرے ماہی گیر

نوکا کھیتے جاؤ ،کھیتے جاؤ

دور سمندر کی اونچی لہروں میں

اپنے کاندھوں پر جال اٹھائے

جہاں لہریں آکاش سے مل جاتی ہیں۔۔

جب سورج سرخ ہوجائے گا

جب دھوپ سنہری اور خوشگوار ہوجائے گی

اپنے جال میں چاندی سی مچھلیاں اٹھائے

تم گھر لوٹو گے۔

نوکا کھیتے جاؤ۔۔۔

جھیل کے چاروں طرف رقص ہو رہا تھا۔ ٹولیاں الاؤ کے گرد رقص کر رہی تھیں۔ لڑکیاں گا رہی تھیں۔ چاندنی اور الاؤ کی روشنی میں سب کچھ خوابناک سا محسوس ہو رہا تھا۔

اس رات جب رقص ختم ہوگیا تو مجھے معلوم ہوا کہ اس لڑکی کا باپ گٹھیا کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذور ہو گیا ہے۔ دوسری صبح میں بوڑھے کو دیکھنے گیا۔ ان لوگوں نے بڑی گرم جوشی سے میرا استقبال کیا اور خوشبو دار کافی پلائی۔ میں نے بڑی مشکل سے اسے علاج پر مجبور کیا اور غالباً میری دل شکنی کے خیال سے اس نے رسماً آمادگی ظاہر کر دی۔ میں نے کیمپ کے ڈاکٹر سے اس کے لیے دوائیں حاصل کیں اور خود شام کو اپنے ہاتھوں سے اس کی مالش کرتا اور دوا پلاتا، جسے وہ مسکراتا ہوا بے دلی سے پی لیتا۔ اس طرح وہ پراسرار اور منتظر سی لڑکی میرے قریب تر ہوتی گئی۔

اس کا نام یوجیؔ تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ گاؤں کے آخر میں لکڑی کے تختوں کے مکان کے علاوہ چھالیہ کے بہت سے درخت بھی ان کی ملکیت ہیں۔ اس کا باپ قبیلہ کا سردار ہے۔ اس بیماری کے سلسلے میں اب تک انہوں نے کئی من چاول اور سینکڑوں جانور سمندر کی بھینٹ چڑھا دیے ہیں۔

میں روزانہ شام کو مالش کرنے اور بوڑھے کو دوا پلانے جاتا اور خوشبو دار تمباکو والے سگریٹ اسے دے آتا۔ وہ بہت ہی منکسر المزاج اور نرم گو تھا۔ اس نے میرے یوجیؔ سے ملنے پر بھی کبھی اعتراض نہ کیا۔ رات میں جب چاند بلند ہو کر ناریل کے درختوں میں الجھ جاتا تو ہم اُن درختوں کے قریب چلے جاتے۔ وہاں ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے، ایک دوسرے پر ریت اچھالتے۔ پھر ریت پر گھروندے بناتے اور توڑ دیتے حتّٰی کہ چاند ناریل کے درختوں سے پرے کھسک جاتا اور سردی بڑھ جاتی۔

ایک رات ہم ناریل کے متوازی درختوں کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ کوئی گیت گا رہی تھی۔ اس کے لہجے اور چہرے کے تاثرات سے محسوس ہوتا تھا کہ وہ کوئی غمگین گیت ہے، جس میں محبوب کی جدائی کا غم ہے۔ میں نے ناریل کے درختوں پر اپنا اور یوجیؔ کا نام چاقو سے لکھ دیا۔ اس نے مجھ سے پوچھا یہ کیا لکھا ہے۔ میں نے اسے بتا دیا۔ وہ اداس ہو گئی۔

’’یہاں رانو کا نام لکھ دو۔‘‘

’’رانو کون ہے؟‘‘

وہ خاموش ہو گئی۔ میں نے جس درخت پر یوجیؔ کا نام لکھا تھا، اسی پر رانو کا نام لکھ دیا۔ وہ مسکرا دی۔

’’رانو کون ہے؟‘‘ میں نے پوچھا

’’میرا منگیتر۔‘‘

میرے سینے میں کچھ ٹوٹ سا گیا۔

’’رانو کہاں رہتا ہے؟‘‘

اس نے سمندر کی طرف اشارہ کیا۔

’’میں سمجھا نہیں؟‘‘ میں نے کہا۔

’’رانو سمندر میں ڈوب گیا ہے۔ وہ بڑی بھیانک رات تھی۔ طوفان آیا تھا۔‘‘ وہ اداس ہو گئی۔

’’اسے مرے ہوئے کتنا عرصہ ہو گیا۔‘‘

’’دو سال۔‘‘

’’پھر تم نے شادی کیوں نہیں کی۔‘‘

’’میں اس کا انتظار کر رہی ہوں۔‘‘ وہ خاموش ہو گئی۔ اس کی آنکھوں کی افسردگی سارے ماحول میں پھیل گئی۔ چاند ناریل کے درختوں سے دور چلا گیا اور سردی بڑھ گئی تو ہم واپس آ گئے۔

میری یوجیؔ سے پھر کئی روز تک ملاقات نہ ہوسکی۔ وہ بھی ناریل کے درختوں کی طرف نہ آئی۔ مجھے شبہ ہوا کہ کہیں یوجیؔ ناراض نہ ہو گئی ہو۔ مجھے اس سے شادی کے بارے میں کچھ نہ کہنا چاہیے تھا۔ شاید یہ بات اسے پسند نہ آئی ہو۔ اس نے مجھے ایک دو اس طرح کے واقعات بتائے تھے، جن میں لڑکیوں کو اس سلسلہ میں جان دے دینی پڑی۔

اس شام میں یوجیؔ کے گھر گیا۔ سورج غروب ہو رہا تھا۔ یوجیؔ حسبِ معمول سرخ پھولوں والی محراب کے وسط میں کھڑی رانو کاانتظار کر رہی تھی کہ اس نے سورج غروب ہونے سے قبل گھر لوٹنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس کے چہرے پر سورج کی الوداعی کرنوں اور سرخ پھولوں نے شفق کی سرخی مل دی تھی۔ یوجیؔ کی ماں کے چاندی کے تاروں جیسے سفید بال چمک رہے تھے۔ وہ مجھے دیکھ کر مسکرا دی۔ جب میں بوڑھے سے مزاج پرسی کے بعد سائبان میں آیا تو یوجیؔ سائبان میں میرا انتظار کر رہی تھی۔ میں نے اس سے ناریل کے درختوں تک نہ آنے کا سبب پوچھا تو مسکرا دی۔

’’میں چاہتی تھی تم مجھے بلانے آؤ۔‘‘

’’میں آ گیا۔‘‘

’’ماں تم سے مل کر آج بہت خوش ہوئی ہے۔‘‘

’’ایک بات کہوں۔۔‘‘

’’نہ۔‘‘

’’تمہارے بارے میں۔‘‘

’’صرف ایک بات۔۔‘‘

’’ہاں۔‘‘

’’میرے بارے میں بہت سی باتیں کہو۔‘‘

’’اچھا سنو۔‘‘

’’سن رہی ہوں۔‘‘

’’شادی کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے۔‘‘

وہ سنجیدہ ہو گئی اور چپ چاپ اندر چلی گئی۔

اس رات جب ہم ناریل کے درختوں کے قریب ملے تو یوجیؔ بہت خوش تھی۔ اس نے اپنے قبیلے کا خاص لباس پہن رکھا تھا، جس میں وہ بے انتہا خوبصورت دکھائی دے رہی تھی۔ سر پر موتیوں کی بنی ہوئی ٹوپی اور کلائی میں تازہ پھولوں کے کڑے اسے اور بھی دلکش بنا رہے تھے۔ اس شام اس نے ریشم کے سرخ رومال میں لپٹا ہوا ننھا سا اکتارا مجھے دیا اور کہا کہ درخت سے رانو کا نام مٹا دو، کیونکہ وہ مرچکا ہے اور میں وہاں نہیں کھڑی رہ سکتی، جہاں اس نے دو سال پہلے مجھے چھوڑا تھا۔ اب سب کچھ بدل گیا ہے۔ میں نے اکتارا اس سے لے لیا۔

اس شام ہم نے ریت پر گھروندے بنائے، جنہیں یوجیؔ نے توڑنے نہیں دیا۔ وہ بے انتہا خوش تھی۔ اس نے مجھ پر ریت بھی نہیں اچھالی، گھروندے بھی نہیں توڑے۔ وہ مجھ سے شہروں کے بارے میں پوچھتی رہی، جہاں راتوں کو رنگین روشنیاں بکھر جاتی ہیں، جہاں چمکتے ہوئے لباس ہیں، خوشیاں ہیں اور سکھ ہیں۔ اس نے مجھ سے میرے گھر والوں کے بارے میں بھی پوچھا۔ اس کا خیال تھا میری ماں بہت بوڑھی اور میری جدائی میں کمزور ہو گئی ہوگی۔ اس رات اس نے چاند کے بلند ہونے کا انتظار نہیں کیا۔ میں نے یوجیؔ کو جاتے ہوئے بہت دور تک دیکھا۔ وہ دور ہوتی رہی اور میں اسے دیکھتا رہا۔ اس کی چال میں جانے کہاں سے دلہنوں کا بانکپن آ گیا تھا۔ اس کا گایا ہوا نیا گیت میرے کانوں میں گونجتا رہا۔

تم آگئے۔

میرا ماہی گیر آ گیا۔

میں تنہا نہیں ہوں۔

آج رات جب تم پھولوں کا ہار پہن کر میرے گھر آؤگے

میں تمہارے قدموں کی دھول بن جاؤں گی۔

کل کا سورج نکلنے سے پہلے تم مجھے اپنی آغوش میں چھپا لینا

یہ ہی ریت ہے۔

میں تمہاری ہوں۔

میرا ماہی گیر آگیا ہے۔

جب وہ گا رہی تھی، مجھے ایسا لگا جیسے اس گیت میں کوئی پیغام ہے۔

دوسری صبح میرے لیے اپنے ساتھ راکھ اور ریت لائی۔ یہ صبح یوجیؔ نے نہیں دیکھی۔ وہ سورج نکلنے سے قبل ہی مر چکی تھی۔ اس دن گاؤں کا کوئی ماہی گیر جال لے کر سمندر کی طرف نہیں گیا۔

لڑکیاں بھی دودھ لے کر کیمپ کی طرف نہیں آئیں۔ سارا گاؤں جیسے سکوت میں ڈوبا ہوا تھا۔ جب میں گاؤں پہنچا تو یوجیؔ کو جلانے والی چتا بجھتی جا رہی تھی۔ بوڑھی ماں نڈھال ہو چکی تھی اور باپ گٹھیا سے جکڑی ہوئی ٹانگوں کو پکڑے پتھرائی ہوئی آنکھوں سے چتا کے سرد ہوتے ہوئے شعلوں کو دیکھ رہا تھا۔ یوجیؔ کے مکان کے سامنے کیلے کے مرجھائے ہوئے پتے لٹک رہے تھے اور زمین پر رنگین برادے سے بنائے ہوئے نقش و نگار مٹتے جا رہے تھے۔ پھولوں کے بے شمار ہار مسلے اور ٹوٹے ہوئے پڑے تھے اور پھولوں کی پنکھڑیاں ہوا میں اِدھر اُدھر بکھر گئی تھیں۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی جشن ہوتے ہوتے کوئی سانحہ پیش آگیا ہو۔ گاؤں کے لوگوں نے مجھے دیکھا تو اُن کے چہرے پر تناؤ اور کشیدگی آ گئی۔ کچھ لوگوں نے مجھے دیکھ کر منہ پھیر لیا۔ لڑکیاں گھروں میں گھس گئیں۔ گاؤں کا کوئی فرد مجھ سے مخاطب نہ ہوا۔ سب لوگ چپ چاپ چتا کو دیکھتے رہے۔

یوجیؔ کو مرے ہوئے آج دوسرا دن ہے۔ آج بھی گاؤں کے لوگ جال لے کر سمندر کی طرف نہیں گئے۔ نہ لڑکیاں دودھ اور مچھلیاں لے کر کیمپ کی طرف آئیں۔ سارا گاؤں جیسے مر گیا ہو۔

رجمنٹ کے سارے جوان اب اسٹیمر پر آ چکے ہیں۔ بیرک خالی ہو چکی ہے۔ میرا سامان بھی اسٹیمر کے کیبن میں پہنچ گیا ہے۔ میں یوجیؔ کا دیا ہوا یادگار ننھا سا اکتارا لیے ہوئے عرشے پر کھڑا ہوا چھالیہ کے درختوں کے پیچھے چھپا ہوا یوجیؔ کا گاؤں اور ناریل کے دو متوازی درخت دیکھ رہا ہوں، جن میں سے ایک پر میرا اور دوسرے پر یوجیؔ کا نام اب بھی لکھا ہوا ہے۔ اسٹیمر روانہ ہونے میں اب چند منٹ باقی ہیں۔ اس کے بعد یوجیؔ کا گاؤں اور یہ محو حیرت کھڑے ناریل کے متوازی درخت کبھی نہ دیکھ سکوں گا۔ اور یہ اکتارا۔۔۔

’’بڑا خوبصورت اکتارا ہے۔‘‘ اسٹیمر کے بوڑھے ملاح نے اکتارا میرے ہاتھ سے لے کر کہا، ’’آپ نے بنایا ہے۔‘‘

’’نہیں مجھے تحفہ ملا ہے۔‘‘

’’خوب۔۔۔ کس نے دیا۔‘‘ ملاح کچھ زیادہ ہی سراغ رسی پر اتر آیا۔

’’اس گاؤں کی ایک لڑکی نے۔‘‘ میں نے سچ سچ بتلا دیا۔

وہ مجھے تقریباً کھینچتا ہوا کیبن میں لے گیا۔

’’اب بتاؤ یہ اکتارا تمہیں کب اور کس نے دیا۔‘‘ وہ قطعی سنجیدہ دکھائی دے رہا تھا۔

میں نے یوجیؔ سے اپنی ملاقات سے اس کی موت تک کا واقعہ بیان کر دیا۔ وہ رونے لگا۔

’’میرا تعلق اسی جزیرے سے ہے۔‘‘ بوڑھے ملاح نے کہا، ’’اس جزیرے کی رِیت ہے کہ جب کوئی لڑکی اپنے شوہر کا انتخاب کر لیتی ہے تو اپنے ہونے والے شوہر کو پورنماشی کی رات سے قبل کسی وقت اپنے ہاتھوں کا بنا ہوا کوئی کھلونا پیش کرتی ہے۔ پھر لڑکے کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ اُسی پورنماشی کی رات کو لڑکی کو بیاہ لائے یا پھر تحفہ قبول کرنے سے انکار کر دے۔ لیکن اگر لڑکا پورنماشی کی رات کو لڑکی کو بیاہنے نہیں پہنچتا تو اسے سارے قبیلے کا اپمان سمجھا جاتا ہے اور سزا کے طور پر سورج نکلتے ہی لڑکی کو جلادیا جاتا ہے اور گاؤں کا کوئی شخص لڑکے سے کبھی گفتگو نہیں۔۔۔‘‘

’’لڑکی کو جلا دیا جاتا ہے!؟‘‘ میں چیخا۔

’’ہاں جناب۔ جب لڑکی والدین کو اپنے شوہر کے انتخاب کی اطلاع دیتی ہے تو والدین خوشی سے اس کا فیصلہ قبول کر لیتے ہیں اور لڑکا جب تحفہ قبول کر لیتا ہے تو وہ لڑکی کو رخصت کرنے کا اعلان کر کے سارے قبیلے کو مدعو کر لیتے ہیں اور رخصتی کا جشن شروع ہوجاتا ہے۔۔ لیکن اگر لڑکا تحفہ لینے کے باوجود نہ پہنچے تو پھر لڑکی کو جل کر جان دینی پڑتی ہے۔‘‘

بوڑھا ملاح نہ معلوم اور کیا کیا بتاتا رہا۔ میں کیبن سے بھاگ کر دیوانوں کی طرح باہر نکلا۔ اسٹیمر چل رہا تھا۔ ناریل کے متوازی درخت آنکھوں سے اوجھل ہو چکے تھے۔ حدِ نظر تک پانی ہی پانی تھا۔ میرا سر چکرا گیا اور میں ریلنگ کے سہارے کھڑا ہو گیا۔ اسٹیمر کے ساتھ ساتھ اڑنے والے سفید پرندے اب جزیرے کی طرف لوٹ رہے تھے۔ یوجیؔ کے گاؤں کی طرف۔ یوجیؔ جو ایک مدت تک رانو کا انتظار کرتی رہی۔ پھر میں نے یوجیؔ کی آنکھوں میں ساری زندگی کا انتظار ایک رات کا لمحہ بنا دیا۔ اکتارا دے کر اس نے میرا انتظار شروع کردیا ہوگا۔ ایک ایک پل قدموں کی آہٹ پر کان لگائے گزارا ہوگا۔ پھر اس انتظار میں سارا گاؤں شریک ہو گیا ہوگا۔ شعلوں کی طرف بڑھتے ہوئے یوجیؔ نے کئی بار مڑ مڑ کر بڑے اعتماد سے دیکھا ہوگا۔ شعلوں نے یوجیؔ ؔکا انتظار چاٹ لیا۔ گیت جل گئے۔۔۔

ناریل کے چپ چاپ محوِ حیرت کھڑے ہوئے درخت اسی طرح ٹیلوں سے دور اب بھی کھڑے ہوں گے۔ ان پر میرا اور یوجیؔ کا نام اب بھی لکھا ہوگا۔ ریت پر ہمارے بنائے ہوئے گھروندے، جنہیں یوجیؔ نے نہ توڑا تھا، اب بھی بنے ہوں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close