کمانچر بلوچ: ہر تصویر ایک کہانی ہے۔

مقبول داد

فوٹو گرافی صرف پیشہ نہیں، ایک آرٹ ہے ۔ یہ آرٹ فنِ مصوری سے شروع ہوا اور وقت کے ساتھ ساتھ کیمرے کی شکل اختیار کر گیا۔ کیمرے سے پہلے دنیا میں کیا ہوا تھا، یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ آج ہم بات کریں گے موجودہ دور میں ڈیجیٹل کیمروں کی مدد سے دنیا کا منظر بدلنے والے لوگوں کی۔۔

خوش قسمتی سے اس فہرست میں کمانچر بلوچ کا نام بھی شامل ہے۔ کمانچر ایک پروفیشنل فوٹو گرافر کی طرح اپنی ذات کا اسیر نہیں ہے۔ وہ کیمرے کی آنکھ سے دنیا کو دیکھتا ہے۔ اسے ہر منظر میں ثبات کی تلاش ہوتی ہے، وہ ہر وقت تلا ہوتا ہے کہ کچھ بھی اچھوتا نظر آئے اور وہ تصویر بنا لے اور اس منظر کو تاریخ کا حصہ بنا دے۔

موجودہ دور میں فوٹو گرافی کی بھی کئی شاخیں ہیں۔ کئی فوٹوگرافرز وائلڈ لائف فوٹوگرافی کرتے ہیں تو کئی اسٹریٹ لائف۔۔ اسی طرح کئی تاریخی مقامات کی تصویر کشی میں مہارت رکھتے ہیں جبکہ کچھ لوگ کھنڈرات کی۔ میرے مطابق کمانچر ریئل لائف فوٹو گرافر ہیں۔ کمانچر، بلوچستان کی طرزِ حیات اور قدرتی خوبصورتی کو تصویروں کی مدد سے لوگوں تک پہنچا رہے ہیں۔

کمانچر کی تصویروں میں جادو ہے، دیکھنے والے کی آنکھ اس پر رک جاتی ہے۔ کمانچر کہتے ہیں کہ تصویر اتارنے کے لئے کسی خاص مقام کی ضرورت نہیں ہوتی، ہر قدم پر ہزاروں تصویریں ہاتھ باندھے کھڑی ہوتی ہیں، اب یہ فوٹوگرافر کا کمال ہے کہ وہ ان لمحات کو کیمرے میں کیسے سمیٹتا ہے۔ انسان سڑک سے گزرتے ہوئے بھی اچھی تصویریں بنا سکتا ہے۔

فوٹو گرافی میں کمانچر کا موضوع ہمیشہ سے بلوچستان اور بلوچوں کا طرزِ حیات ہے۔ بلوچستان کی محرومیوں اور بلوچوں کے درد سمیت اس خطے میں موجود دلکش قدرتی مناظر کی کمانچر نے بہت خوب عکس بندی کی ہے۔ کمانچر کی تصویروں میں ہمیں گوادر کا طلوعِ آفتاب، جیوانی میں غروبِ آفتاب، گنز کی چاندنی رات، کنڈ ملیر میں سمندری طغیانی، پلیری کی معصومیت، دشت کی مٹی، پانوان کی شامیں، پشکان کے پہاڑ، تربت کا جذبہ، مند کی محرومیاں، پنجگور کی کھجور، بلیدہ کی جدوجہد، اورماڑہ کی بیگانگی، پسنی کی تنہائی، کُلدان میں مٹی کے حسین ٹیلے، خضدار کی بارش، نوشکی کی قربانیاں، آواران میں چھائی خاموشی اور کوئٹہ کی سردی نظر آتی ہے۔

میل ملاپ کے حوالے سے فوٹوگرافر دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک مجلسی اور دوسرے تنہا۔۔ مجلسی بہت، تنہا کم کم۔۔ مجلسی پر لازم ہوتا ہے کہ روز محفل لگائے، کتر کتر باتوں کے ڈھیر لگائے۔ کمانچر مجلسی نہیں، میری طرح تنہا ہے۔ تنہا بھی دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو محفل سے گھبراتے ہیں، کتراتے ہیں، اکیلے میں خود کو سالم محسوس کرتے ہیں۔ محفل میں ادھورے۔ دوسرے وہ جو نہ گھبراتے ہیں نہ کتراتے ہیں نہ ادھورے محسوس کرتے ہیں بلکہ اپنی اپنی مرضی سے الگ رہنا پسند کرتے ہیں۔ کمانچر گھبرانے اور کترانے والوں میں سے نہیں ہے۔ وہ محفل لگاتا نہیں ہے، لگ جائے تو ٹھیک ہے۔ پڑی لگ جائے۔ وہ بھیڑ کے اندر بھی تنہا رہتا ہے۔ قہقہے نہیں لگاتا، مسکرانے پر اکتفا کرتا ہے۔ محفل میں بیٹھے لوگوں کی مسکراہٹوں کے پیچھے درد کو صرف کمانچر سمجھ سکتا ہے، اور بہت سے مواقع پر کمانچر ظاہر سے دور، باطن میں چھپی درد اور تلخیوں کو اپنے کیمرے کی مدد سے تصویروں کی شکل میں زبان دینے کی کوشش کرتا ہے۔

کمانچر کا ہنر ایک جاذبِ توجہ کردار ہے۔ کمانچر کی تصویریں دیکھ کر ہر کسی کے دل کی گہرائیوں میں چھپے ہوئے بالشتیے سر نکالتے ہیں۔ لوگ بھونچکے رہ جاتے ہیں۔ دبے ہوئے غصے تمسخر کی شکل میں متبسم ہو جاتے ہیں۔ انتقام کے جذبات ترس میں بدل جاتے ہیں۔ ایک ذہنی ڈاکٹر کی طرح کبڑوں کو سیدھا کر دیتے ہیں۔ گونگوں کو زبان بخشتے ہیں۔ کمانچر شدھ راگ میں ببر جت سر لگانے کا ہنر جانتا ہے۔ وہ طوفان کو باندھ سکتا ہے۔ دریا کا رخ موڑ سکتا ہے۔ مہایوگی کا گیان دھیان توڑ سکتا ہے۔ ماتا ہری کو سکھا سکتا ہے۔ ٹارزن کو انگلی پر بٹھا سکتا ہے۔

کمانچر ترقی نہیں چاہتا، بس اپنے کام میں ٹھہراؤ اور قیام چاہتا ہے۔ کمانچر کی خواہش ہے کہ اس کی تصاویر اور وڈیوز دنیا کے کونے کونے تک پہنچیں اور لوگوں تک سکون پہنچانے کا ذریعہ بنیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close