ریاست کا المیہ

مقبول داد

ماہ رنگ۔ ماہ بلوچی میں چاند کو کہتے ہیں۔ اس طرح ماہ رنگ کا مطلب چاند جیسی۔ آج موضوع چاند ہے۔ چاند روشنی اور امید کو کہتے ہیں۔ کوفہ (اسلام آباد) کے لوگوں نے چاند کے ساتھ کیا کیا، وہ سب ہم نے دیکھا۔

اس ظلم اور بربریت کے بارے میں لکھنے کے لیے میرے پاس رقت آمیز اور ہیبت خیز الفاظ نہیں ہیں۔ میں اسلام آباد پولیس کو کافر اور یہودی بھی نہیں کہہ سکتا، کیونکہ میں نے کافر اور یہودیوں کو ان سے اچھا پایا ہے۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے سامنے جھوٹ اور حکم امتناعی کا صاف مطلب یہی ہے کہ اسلام آباد پولیس والے کسی اور کی چوکھٹ پر سجدہ کرتے ہیں۔ اور اس کسی اور کو حرف عام میں نامعلوم افراد کے نام سے جانا جاتا ہے۔

تربت بلوچستان سے ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں آج سے 28 دن پہلے شروع ہونے والا یہ تاریخی مارچ جس کو مارچ اگینسٹ بلوچ جینو سائیڈ یعنی بلوچ نسل کشی کے خلاف مارچ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ مارچ بلوچستان سے ہوتے ہوئے ڈیرہ غازی خان، تونسہ شریف اور ڈیرہ اسماعیل خان سے اسلام آباد (آباد سے پہلے اسلام کا نام مٹا دینا چاہیے، کیونکہ اسلام کا مطلب امن اور بھائی چارہ ہے) کے دروازے پر پہنچا۔ اگر ماہ رنگ بلوچ اور اس کا لشکر آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت کے توریتی اصول پر ہی انتقام لینے کا فیصلہ کرتے تو راستے میں آنے والے ہر شخص کو مسخ کر کے پھینک دیتے۔ مگر ایسا نہیں ہوا، یہ سارے لوگ پر امن طریقے سے اپنی منزل تک پہنچے۔

اسلام آباد پہنچنے کے بعد ماہ رنگ بلوچ اور اس کے ساتھیوں پر جس طرح کے ظلم ڈھائے گئے، اس کی مثال انسان تو کیا جانوروں کی تاریخ میں بھی نہیں ملتی۔ یہ سارے واقعات سوشل میڈیا میں قلمبند ہیں اور دنیا کے کونے کونے تک پہنچ چکے ہیں۔ یہ وڈیوز اور معصوم بچوں اور عورتوں کی بے بسی اور چیخ و پکار دیکھ کر اگر آپ افسردہ اور اشک بار نہیں ہوئے ہیں تو آپ اشرف المخلوقات نہیں ہیں، آپ کے اندر انسانیت مر چکی ہے اور آپ بس گوشت کا لوتھڑے ہو۔

اسلام آباد کا رویہ دیکھنے کے بعد ملک کے ہر کونے میں ہونے والے مظاہروں کو دیکھ کر یقیناً نامعلوم افراد کے دماغوں پر پھپھوندی سی جمنے لگی ہے۔ وہ طاقت کے نشے میں دھت اس بات سے ناواقف ہیں کہ ایک سچ ہزار جھوٹ پر حاوی ہوتا ہے۔ یہ سچ ماہ رنگ بلوچ ہے۔ یہ سچ پاکستان میں بلوچوں کی کسمپرسی ہے۔ یہ وہ سچ ہے جو زندان میں زندہ ہے اور تخت پر بھی۔ کٹہرے میں بھی وجود تلاشتا ہے اور تختے پر بھی۔ یاد رکھیں کہ ڈوبتا وہی ہے جو تیراک ہے۔ جسے تیرنا نہ آتا ہو وہ پانی میں گھستا ہی نہیں ہے۔ اب یہ پانی سر کے اوپر سے گزرنے والا ہے اور پھر وقت ہمیں بتائے گا کہ کسے تیرنا آتا ہے اور کسے نہیں۔

اسٹیبلشمنٹ اگر اب اپنے عینک کا نمبر نہیں بدلے گا پھر کب بدلے گا۔ بلوچ، اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے جدید نسل کشی کے طریقے کو سمجھ چکے ہیں۔ وہ کسی بھی تاریخی، سماجی یا قانونی طریقے سے بلوچوں سے چھت اور پاؤں تلے کی زمین چھین رہے ہیں، معاشی سکت مفلوج کر رہے ہیں۔ بلوچوں کے اندر کے سکون کو اغوا کر رہے ہیں۔ ماورائے عدالت قتل اور لاپتہ کر رہے ہیں۔ گھر سے باہر نکلیں تو خود کو ایسے دیدہ و نادیدہ محاصرے میں محسوس کرتے ہیں کہ زمین اور فضا بھی دشمن لگے۔ بلوچ نسل کی عزتِ نفس کو زبانی و عملاً مسلسل کچلتے رہو، کسمسانے کی جرات کرے تو جیل میں بھر دو، چیختے ہوئے سڑک پر آئے تو ٹھنڈا کرنے کے لیے سر کا نشانہ لو۔ بالکل ہی آپے سے باہر ہو کے رسیاں تڑانے لگے اور عالمِ غیض میں حملہ کر دے تو نسل ہی مٹا دو۔ مگر شاید اب یہ آسان نہیں ہے۔ یہ نفرتیں اور دوریاں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ اب فاصلے مٹانے کے لئے تمہیں میلوں دور تک پیدل چل کر آنا پڑے گا۔

بلوچستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں تاحال مظاہرے جاری ہیں۔ بازار اور مین شاہراہیں بند ہیں۔ آج لاہور میں بھی مظاہرے ہوئے ہیں۔ سندھ کے کافی شہروں میں اور بالخصوص کراچی میں بلوچ اکثریتی علاقوں میں ریاست کے خلاف عوام کا جم غفیر امنڈ آیا۔ ان مظاہروں میں استعمال ہونے والے فلک شگاف نعرے قابل توجہ ہیں۔

(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close