وفاق بلوچستان نامی ’پِن نکلا گرینیڈ‘ منہ میں دبائے بیٹھا ہے۔ اب پھٹا کہ تب پھٹا۔۔ دیکھنے والے کانوں میں انگلیاں دیے آنے والے وقت کے خوف سے آنکھیں میچے بیٹھے ہیں، بےحس نہیں، خوفزدہ ہیں۔
مسئلہ سامنے کا ہے۔ ادھر ادھر کی لاتیاں پوتیاں لگانے سے کچھ نہیں ہوگا، بات صرف بگڑے گی۔ لاپتہ افراد کا جرم (اگر کچھ ہے تو) اس کی تعزیر (اگر کوئی ہے تو) سامنے آنی چاہیے۔ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ اگر صرف شک کی بنا پر بھی اٹھایا گیا تو وہ شک کیوں اور کس بات پہ کیا گیا، یہ بات بتا دینے میں کیا حرج ہے؟
صاف اور سیدھی بات یہ ہے کہ سالہا سال سے بلوچستان سے یہ آواز اٹھ رہی ہے کہ ہمارے لوگوں کو غائب کیا جا رہا ہے۔ اس کا جواب آج تک کہیں سے نہیں آیا حالانکہ جوابی لفافہ لکھنے کے لیے باقاعدہ ایک بے حد منظم ادارہ موجود ہے، جو اس سوال کا جواب دینے کے لیے کوئی ترانہ بھی لکھنے پہ آمادہ نہیں۔
آج جب کہ میڈیا ایک سائنس بن چکا ہے، نہ تو کسی خبر کو چھپایا جا سکتا ہے اور نہ ہی جھوٹ بولا جا سکتا ہے۔ تعلقاتِ عامہ کا پہلا اصول یہ ہی سکھایا جاتا ہے کہ جس حد تک ممکن ہو سچ بولا جائے، اگر کچھ غلط ہو بھی جائے تو معذرت کرنا تعلقاتِ عامہ کا اہم ترین اصول ہے۔
اس وقت انٹرنیٹ پہ بلوچستان کے بارے میں خبریں اٹھا کر دیکھ لیجیے، ہر ملک کی ویب سائٹس پہ بلوچ مارچ کے بارے میں خبریں موجود ہیں۔ لوگوں کے ذاتی ولاگ اور بلاگ پہ بھی یہ بات ہے، ٹک ٹاک، ایکس، دیگر سوشل میڈیا، ہر جگہ یہی بات گردش کر رہی ہے۔ ہر شخص اپنا نقطہِ نظر پیش کر رہا ہے۔ وفاق کا نقطہِ نظر کہاں ہے؟
بلوچ غائب ہوئے، یہ بات بارہا سنی، غائب ہونے والوں کے نام سنے، تصویریں دیکھیں، ان کی بچوں کے چہرے پہ چھائی یتیمی دیکھی، ماؤں کے آنسو بھی دیکھے اور آفاقی انسانی جذبات کے تحت ذہن یہی کہتا رہا کہ یہ مظلوم ہیں۔
یہ لوگ بارہا زنجیر عدل ہلانے آئے، مگر شنوائی نہ ہوئی۔ اگر ان پہ ظلم نہیں ہو رہا تو یہ رو کیوں رہے ہیں؟ اگر کسی نے ان کے پیاروں کو نہیں اٹھایا تو وہ کہاں گئے؟ اور یہ جھوٹ کیوں بول رہے ہیں؟ اور اگر یہ جھوٹ نہیں بول رہے تو وہ کون سا سچ ہے، جس کو چھپانے کے لیے ان کے پیاروں کو غائب کیا جا رہا ہے؟
غائب ہونے والے اگر مجرم تھے تو عدالتوں میں کیوں نہ بلائے گئے؟ ہمارے عدالتی نظام پہ بھی سب ہی انگلی اٹھاتے ہیں، تو فرض کیجیے کہ کوئی طاقتور بھی ان غائب ہونے والوں کے داو میں تھا تو وہ عدالتوں سے بھی تو سزا سنوا سکتے تھے، سب کے سامنے بھی تو مجرم قرار دے کر سزا دے سکتے تھے؟ اس غیاب کے کیا معنی ہیں؟
کسی کے ساتھ کھڑا ہونے کے لیے اس پہ اعتماد ہونا یا درد مشترک ہونا ضروری ہے۔ آج بلوچستان سے بہت سے لوگ اپنا مقدمہ لے کر سول سوسائٹی کی عدالت میں آئے ہیں۔ پریس کانفرنس کر کے بتانا چاہ رہے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوا؟ اعتماد میں لینا چاہتے ہیں اور دردِ مشترک دکھانا چاہتے ہیں۔
اگر ان کو یہ موقع نہیں دیا گیا تو اس کا کیا مطلب ہوگا؟ کیا ان کی بات میں اتنی طاقت ہے کہ ہم ان پہ اعتماد کر لیں گے یا ان کا درد دیکھتے ہوئے ان کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے؟ اور ہمارے ان کے ساتھ کھڑے ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے، ہمارے پاس تو سوائے اخلاقی طاقت کے کوئی طاقت نہیں ہے۔
اگر یہ ریاستی جبر ہے تو اس کی کوئی نہ کوئی تاویل ہوگی اور اگر یہ بغاوت ہے تب بھی اس کی کوئی دلیل تو ہوگی۔۔ تاویل اور دلیل کے درمیان ہم سب شک و شبہے کا شکار ہوئے بیٹھے ہیں۔ ہم، جن کے پاس شاید اخلاقی جرأت بھی نہیں۔
جب یہ سطور آپ تک پہنچیں گی تو صورت حال شاید مزید بدل چکی ہو لیکن سوال وہیں رہیں گے، جہاں ہمیشہ سے تھے۔ جواب دینے والے جانے کیوں خاموش ہیں۔ خاموشی کی بھی ایک زبان ہوتی ہے۔ یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں۔ خاموشی کی زبان بہت عجیب ہوتی ہے۔ اس کے جملوں کے معنی بہت گہرے ہوتے ہیں اور اس زبان کی تشریح کرنے کے لیے جب سیاق و سباق اور تلمیحات و تشبیہات کو اٹھانا پڑتا ہے تو اتنا کچھ سامنے آجاتا ہے جو نہ ہی آئے تو بہتر ہے۔
مختصر سی بات ہے، سوال سنیے ،جواب دیجیے اور شبہات کو رفع کیجیے ورنہ بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)